Laaltain

حادثہ (تحریر: گاؤ ژِنگ جیان، ترجمہ: نجم الدین احمد)

3 اگست، 2020
Picture of نجم‌الدین احمد

نجم‌الدین احمد

Gao Xinjian by Carlo Chiavacci

۲۰۰۰ء کے نوبیل انعام سے چینی زبان کے معروف ناول نگار، افسانہ نویس، ڈراما نگار، مضمون نگار، نقاد، ماہرِ لسانیات، مترجم اور شاعر گاؤژِنگ جیان کو نوازا گیا۔ لیکن اُن کی اصل وجۂِ شہرت ڈراما ہے—- ایک ایکٹ کا مختصر اور مہمل ڈراما—- جس کے اپنے آبائی وطن چین میں بانی گردانے جاتے ہیں۔ اُن کے نثری کام کو چین میں کم ہی اہمیت دی گئی جب کہ یورپ اور مغرب میں بے حد عزّت ملی ہے۔ جس کی بیّن وجہ اُن کی تخلیقات کا ریاست مخالف ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ۱۹۸۷ء میں اُنہیں چین چھوڑ کر فرانس کے شہر بیگنولیٹ(Bagnolet) میں، جو پیرس کا ملحقہ شہر ہے، سکونت اختیار کرنا پڑی۔ ایک سال بعد اُنہوں نے فرانس میں سیاسی پناہ لی اور بالآخر اُنہیں ۱۹۹۸ء میں فرانس کی شہریت دی گئی۔

گاؤژِنگ جیان کے لیے نوبیل انعام کا اعلان کرتے ہُوئے نوبیل اکادمی نے مؤقف اختیار کیا: “آفاقی سطح پر معقولیت بھرے کارناموں، تلخ بصیرت اور ارفع لسانی صلاحیتوں کے نام جنہوں نے چینی ناول اور ڈرامے کے لیے نئی شاہراہیں کھولیں۔”

جب اُس وقت کے چینی وزیرِ اعظم زُہو رونگی (Zhu Rongii) سے ہانگ کانگ کے اخبار “ایسٹ ڈیلی” کے رپورٹر نے پُوچھا: گاؤ ژِنگ جیان کے نوبیل انعام جیتنے پر آپ کے کیا تأثرات ہیں؟ تو اُنہوں نے مبارک باد دیتے ہُوئے کہا: میں بہت خُوش ہوں کہ چینی زبان میں لکھے ہُوئے ادب میں نوبیل انعام جیتنے کی اہلیت ہے۔ چینی کرداروں کی ہزار ہا سالوں کی تاریخ ہے اور چینی زبان میں لامحدود سحرانگیزی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی چینی تخلیقات نوبیل انعام جیتیں گی۔ اگرچہ یہ قابلِ افسوس بات ہے کہ اِس مرتبہ چینی کے بجائے ایک فرانسیسی شہری نے یہ انعام جیتا ہے۔ لیکن میں پھر بھی جیتنے والے فرنچ ڈیپارٹمنٹ آف کلچر دونوں کو مبارک باد دینا چاہوں گا۔

گاؤ ژِنگ جیان ۰۴- جنوری ۱۹۴۰ء کو صوبہ جیانگ ژِی (Jiangxi) کے شہر گان زہو(Ganzhou) میں دُوسری جنگِ عظیم کے دوران پیدا ہُوئے۔ گاؤ اُن کا خاندانی نام ہے۔ اُن کا دُدھیالی قصبہ تائی زہو(Taizhou) صوبہ جیانگ سُو (Jiansu) اور ننھیالی جڑیں زہے جیانگ (Zhejiang) میں ہیں۔ اُن کے خاندان نے جنگِ عظیم دوم کی تباہ کاریوں کے بعد ۱۹۵۰ء میں نان جِنگ (Nanjing) میں آکر بودوباش اختیار کی۔ گاؤ کے والد بینک آف چائنا میں کلرک تھے اور اُن کی والدہ عیسائی نوجوانوں کی تنظیم(Young Men’s Christian Association) کی رُکن تھیں۔ اُن کی والدہ دُوسری چینی جاپانی جنگ (Sino-Japanese War) کے دوران میں جاپان مخالف تھیٹر میں بطور اداکارہ بھی کام کرتی رہی تھیں۔چھوٹی عمر میں اپنی والدہ کے زیرِ اثر اُنہوں نے مصوّری، لِکھتوں اور تھیٹر سے خُوب استفادہ کیا۔ ۱۹۵۲ء میں مڈل سکول میں داخل ہُوئے اور مڈل سکول کی متعلّمی کے دوران میں اُنہوں نے بے شمار ترجمہ شدہ مغربی ادب کا مطالعہ کیا، خاکہ نگاری، واٹر اور آئل پینٹنگ اور مٹّی کی مجسمہ سازی یُون زونگ یِنگ (Yun Zongying) سے سیکھی۔ ۱۹۵۷ء میں گریجویشن کرنے کے بعد اپنی ماں کی ہدایت کے مطابق سینٹرل اکیڈمی آف فائن آرٹس کے بجائے بیجنگ فارن سٹڈیز یُونیورسٹی(BFSU) میں داخلہ لیا اگرچہ اُنھیں فنون لطیفہ میں زیادہ باصلاحیت سمجھا جاتا تھا۔ ۱۹۶۲ء میں بی ایف ایس یُو کے شعبہ فرانسیسی سے ڈگری لینے کے بعد چائینیز انٹرنیشنل بُک سٹور پر کام کیا لیکن ۱۹۷۰ء میں “دیہی علاقے سے رجوع کی مہم” کے دوران میں اُنہیں صوبہ اَین ہُوئی (Anhui) کے دیہی علاقے میں جا کر کچھ عرصے کے لیے ایک کسان کی حیثیت سے کاشت کاری کرنا پڑی—- ثقافتی انقلاب کے تحت ‘تعلیم’ کی ایک شکل—- اِس دوران میں گاؤ ژِنگ جیان نے بے شمار ڈرامے، کہانیاں، نظمیں اور تنقیدی مضامین لکھے جو ماحول کے عدم توافق ادب ہونے کی وجہ سے بالآخر خطرناک نتائج کے ڈر سے جلا دیے۔ اپنی ڈراما نگار، افسانہ نویس اورمضمون نگار کی عالمی شہرت کے پیشِ نظر اگرچہ بعد میں اُنھوں نے اپنی نظموں کا کوئی مجموعہ شائع نہیں کروایا تاہم ایک مختصر نظم کا وجود باقی رہا جس کا اُسلوب اور طرز اُن کی باقی تحریروں کے مانند جدید ہے۔

کچھ وقت کے لیے گاؤ ژِنگ جیان نے اَین ہُوئی صوبہ کے ضلع نِنگو(Ningguo) کے مڈل سکول میں چینی زبان کے معلّم کے طور پر بھی کام کیا۔ ۱۹۷۵ء میں اُنھیں واپس بیجنگ جانے کی اجازت ملی جہاں وہ جریدے ‘چائنا ری سٹرکشن’ کے لیے فرانسیسی ترجمہ نگاری کے گروپ کے لیڈر بن گئے۔ ۱۹۷۷ء میں گاؤ نے چائینیز ایسوسی ایشن آف رائٹرز کی کمیٹی برائے فارن ریلیشن شپ کے لیے کام کیا۔ مئی ۱۹۷۹ء میں با جان (Ba Jan) سمیت دیگر چینی ادیبوں کی ایک جماعت کے ہم رَاہ پیرس کا دورہ کیا۔ بعد میں اُنہوں نے اٹلی کا بھی دورہ کیا۔ ۱۹۸۰ء میں وہ بیجنگ پیپلز آرٹ تھیٹر کے سکرین رائٹر اور پلے رائٹ بن گئے۔ اُن کے سیاسی ڈرامے ‘مہاجرین’ (Fugitives) کے نتیجے میں اُن کی تمام تخلیقات اور ڈراموں پر چین میں پابندی عاید کر دی گئی اور “دُوسرا کنارہ” (The Other Shore) کے بعد اُن کا کوئی ڈراما چین میں سٹیج نہیں ہُوا۔ ہراس زدگی سے بچنے کے لیے گاؤ ژِنگ جیان دس ماہ کی سیاحت کے لیے سِچؤان صوبے کے جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف نکل گئے جہاں وہ دریائے یانگزی (Yangzi or Yangtze) کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہُوئے اُس کے منبع تک گئے۔ اُن کا یہ سفر ناول Soul Mountain کا سبب بنا ،جس پر اُنھیں نوبیل انعام برائے ادب، 2000ء ملا۔

گاؤ ژِنگ جیان کی نُمایاں کتب میں افسانوں کا مجموعہ: Buying a Fishing Rod for My Grand Father، دو ناول: Soul Mountain اور One Man’s Bible، ناولچوں کا مجموعہ: Such Pigeon Called Red Lips (or Beak) ، ڈراموں کے مجموعے: The Bus Stop and Other Plays اور The Other Shore and Other Plays کے علاوہ غیر افسانوی نثر میں Discussion of the Art of Modern Fiction اور In Search Of Modern Form of Dramatic Representation شامل ہیں۔

اپنے نوبیل خطبے “ادب کا مقدمہ” (The Case for Literature) میں اُنھوں نے ادب کا مقدمہ کچھ اِن دلائل کے ساتھ لڑا: ۔۔ادیب ایک عام شخص ہوتا ہے، شاید وہ زیادہ حساس ہوتا ہے اور جو لوگ زیادہ حساس ہوتے ہیں وہ زیادہ کم زور ہوتے ہیں۔ ادیب لوگوں کے ترجمان یا مجسم راست بازی کے رُکن کی حیثیت سے بات نہیں کرتا۔ اُس کی آواز ناتواں ضرور ہوتی ہے لیکن درست طور پر یہی آواز زیادہ معتبر ہوتی ہے۔۔۔صرف ادب ہی فرد کی آواز بن سکتا ہے اور ہمیشہ بنتا آیا ہے۔… کیوں کہ ادب بنیادی طور پر فرد کے احساسات سے اخذ کیا جاتا ہے اور فرد کے احساسات کا نتیجہ ہوتا ہے… اگر آئیڈیالوجی طاقت کے ساتھ الحاق کر کے ایک حقیقی قوّت میں بدل جائے تو ادب اور فرد دونوں تباہ و برباد ہو جائیں گے… اگر ادیب شعور کی آزادی کی فتح چاہتا ہے تو اُس کا انتخاب خاموشی یا فرار ہے۔ تاہم ادیب زبان پر انحصار کرتا ہے اور اگر وہ طویل عرصے تک بولتا نہیں تو یہ خُودکُشی کے مترادف ہے… یہ کہا جا سکتا ہے کہ خُودکلامی ادب کے نقطۂِ آغاز ہے اور ابلاغ کے لیے زبان کا استعمال دُوسرا قدم ہے۔ جب کوئی شخص اپنے احساسات اور خیالات کو زبان دیتا ہے تو اُس کی وہ تحریریں ادب بن جاتی ہیں۔ باایں ہمہ، اُن کی افادیت کاگُمان بھی نہیں ہوتا یا یہ کہ کسی روز یہ شائع بھی ہو سکتی ہیں لیکن پھر بھی لکھنے کی تحریک رہتی ہے کیوں کہ لکھنے کے عمل کی مسرت میں تلافی اور تسکین ہے۔ میں اپنے لکھنے کے تجربے کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ ادب فطری طور پر آدمی کی اپنی اقدار کی توثیق ہوتا ہے اور اِس کا جواز لکھنے کے دوران میں ملتا ہے، بنیادی طور پر ادیب کی اپنی ذات کی تکمیل کی ضرورت سے ادب جنم لیتا ہے۔ اِس کا معاشرے پر اثر کام کے مکمل ہونے کے بعد ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ اثر ادیب کی خواہشات کے مطابق ہو… لِکھتیں اِس لیے بھی طلسمی ہیں کہ جُدا افراد میں ابلاغ کا باعث بنتی ہیں خواہ اُن کا تعلّق مختلف اقوام اور زمانوں سے ہو۔… ادب قومی سرحدوں سے ماورا ہو کر—- تراجم کے راستے یہ زبانوں، خاص سماجی رسوم ورواج اور جغرافیائی حدود کے قائم کیے ہُوئے بین الانسانی مراسم اور تاریخ سے بالاتر ہو کر—- انسانی فطرت کی آفاقیت کے گہرے بھید کھولتا ہے۔ مزید، آج کا ادیب اپنی قوم سے ہٹ کر متنوع کثیرالقومی ثقافتوں کو بھی اپنے اندر جذب کرتا ہے۔۔۔ ادب انسانی وجود کے معمے کا آفاقی مشاہدہ ہے اور اِس کام میں کوئی چیز شجرِ ممنوعہ نہیں… اِس کا میرٹ جانچنے کا اپنا معیار، اپنا جمالیاتی ذوق ہے۔… انسانی جذبات پر مبنی جمالیات کبھی پُرانی نہیں ہوتیں خواہ فن و ادب میں کتنی ہی پائیدار تبدیلیاں رُونما ہو چکی ہوں۔… درحقیقت ادیب اور قاری کے مابین رُوحانی ابلاغ کا رشتہ ہوتا ہے جس کے لیے آپسی ملاقات یا سماجی رابطے کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ رابطہ تحریر کے راستے ہوتا ہے۔ ادب انسانی سرگرمی کے ناگزیر حیثیت رکھتا ہے جس میں ادیب اور قاری بہ رضا و رغبت مشغول رہتے ہیں۔ اِس نوع کے ادب کو، جس نے اپنا خلقی کردار بحال رکھا ہے، سرد ادب کہا جا سکتا ہے۔ اِس کا وجود صرف اِس لیے ہے کہ انسانیت مادی خواہشات کی تکمیل کے بجائے رُوحانی تسکین ڈھونڈتی ہے۔… ادیب خُدا کا کردار نہیں ادا کر سکتا، پس اُسے اپنی اَنا کے غبارے کو اِتنا پُھلانے کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو خُدا سمجھنے لگے۔… ادیب کوئی پیغمبر بھی نہیں ہے۔ ادب کی قدر اِس میں ہے کہ جو شاذ و نادر علم میں ہے، جو بہت تھوڑا علم میں ہے یا جو علم میں ہے لیکن دراصل انسانی دُنیا کی معروف سچائی نہیں ہے، کو دریافت اور نُمایاں کرنے میں ہے۔ گویا سچائی ہی ادب کی ناقابلِ تاخت و تاراج اور بُنیادی خُوبی ہے۔ نئی صدی آچکی ہے۔ لگتا ہے کہ ادب میں انقلاب یا انقلابی ادب، اور آئیڈیالوجی بھی، اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں۔ یوٹوپیا کا وہم، جو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے نظروں سے اوجھل ہے، اب ختم ہو چکا ہے۔… تاہم انسانی وجود کا چیستان بہت کم بدلا ہے اور یہ ادب کا دائمی موضوع رہے گا۔… ادب محض حقیقت کی نقل نہیں بناتا بَل کہ یہ حقیقت کی اندرونی تہوں میں گھس کر غلط اوہام کو رفع کرتا ہے،پستی میں والے عام واقعات کو بلندی سے دیکھتاہے اور وسیع تناظر میں اکملیت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ بِلاشبہ، ادب تخیل پر بھی انحصار کرتا ہے لیکن اِس ذہنی سفر کا کام صرف اور صرف کاٹھ کباڑ پیش کرنا نہیں ہوتا۔… فکشن یا ڈراما ختم ہُوا ہے نہ ہو گا اِس لیے کسی کو ادب یا فن کی کسی صنف کی موت کا غیرسنجیدہ اعلان کرنے کی ضرورت نہیں۔ انسانی تہذیب کے آغاز سے ہی، زندگی کی طرح، جنم لینے والی زبان تحیّرات سے بھری پڑی ہے اور اِس اظہار کی صلاحیت لامحدود ہے۔ لکھاری کا کام ہے کہ وہ زبان کی ودیعتی طاقت کو دریافت کرے اور فروغ دے۔… ادب مرا ہے نہ ادیبوں کی موت ہُوئی ہے۔ کتابوں کی الماری میں ہر ادیب کی اپنی جگہ ہے اور وہ تب تک زندہ ہے جب تک اُس کا قاری موجود ہے۔ ادیب کو اِس سے زیادہ تشفی نہیں دی جا سکتی کہ وہ انسانوں کے ادب کے وسیع خزانے میں ایک کتاب چھوڑ جائے جسے رہتی دُنیا تک پڑھا جائے۔ ادب صرف اُس وقت زندگی پاتا ہے اور باعثِ دِلچسپی بنتا ہے جس لمحے لکھاری لکھ رہا ہوتا ہے اور قاری اُس کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہے۔ … جب ادب نان نفقہ نہیں یا جب کوئی لکھنے میں منہمک ہو تو وہ بُھول جاتا ہے کہ وہ کیوں اور کس کے لیے لکھ رہا ہے تو یہ فعل ضرورت اور اضطراری عمل سے ادب تخلیق کرتا ہے۔ یہی ادب کا غیرافادی اور بنیادی پہلو ہے۔… ادب تاریخ کے خلا بھی پُر کرتا ہے۔ انسان صرف تاریخ ہی نہیں رکھتا بَل کہ ادب کی میراث بھی موجود ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حادثہ

ہَوا کا ایک بگولہ چِن ہُؤا بُک شاپ کے باہر سڑک پر ہونے والے کام سے دُھول اُٹھا کر قوس میں نفت کے گِرد گُھماتا اور پھر اُسے ہر طرف پھیلا دیتا ہے۔ یہ گرد کے طوفان کا موسم نہیں ہے—- ابھی تو محض موسم کے گرم ہونے کا آغاز ہُوا ہے۔ کچھ سائیکل سوار تو اب بھی خاکستری رنگ کے سُوتی لمبے کوٹ پہنے ہُوئے ہیں۔ شاہراہِ ڈیشینگ پر ریڈیو مرمت کرنے والی دُکان پر ریڈیو کی ٹُوں کی ٹھیک چوتھی آواز کے بعدیہ واقعہ سہ پہر پانچ بجے ہوتا ہے۔ یہ ایسا وقت نہیں ہے جب سب ہی اپنے کام ختم کر لیتے ہیں اور سڑک پر ٹریفک کا اژدھام ہوتا ہے۔ تاہم، کچھ لوگ لازماً اپنا کام جلد نپٹا لیتے ہیں۔ لازماً یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ قطعاً کوئی کام نہیں کرتے۔ پس مصروف اور کاہل لوگ سائیکلوں اور پیدل افراد کے کبھی ختم نہ ہونے والے ہجوم کی صُورت میں آجا رہے ہیں۔ دِن کے اِس حِصّے میں ہمیشہ اِسی طرح ہوتا ہے۔ بسوں پر تمام نشستیں پُر ہیں اور کچھ مسافر کھڑکیوں میں سے باہر تکتے ہُوئے سُلاخیں تھامے کھڑے ہیں۔

ایک آدمی ایک ایسی بائیسیکل چلاتا ہُوا آڑے رُخ سڑک پار کر رہا ہے جس کے سامنے والے حِصّے پر بچّے کو بِٹھانے کے لیے سُرخ اور نیلے رنگ کے چھاتے والا ایک فالتو پہیہ نصب کیا گیا ہے۔ اُس کی متضاد سمت سے سواریوں والی ایک دو منزلہ بس آرہی ہے جس کی رفتار تیز ہے لیکن بے حد تیز نہیں ہے۔ وہ اُس چھوٹی پیلگوں سبز کار سے سست چل رہی ہے جو بائیسیکل کو پار کرنے والی ہے لیکن دونوں گاڑیاں ہی شہر کی حدود کے اندر کے لیے مقرر حد رفتار کو پارکیے ہُوئے نہیں ہیں۔ جب ایک جانب سے پیلگوں سبز کار اُسے پار کرتی ہے تو بائیسیکل سوار شخص اپنی کمر کو کمان بنا کر زور زور سے پیڈل مارتا ہے۔ دُوسری جانب اب بھی بس اُس کی سمت بڑھ رہی ہے۔ آدمی ہچکچاتا ہے لیکن وہ بریک نہیں لگاتا اور بچّہ کی ٹوکری والی بائیسیکل اب بھی سڑک پار کرنا جاری رکھتی ہے۔ بس قرنا پُھونکتی ہے لیکن اپنی رفتار کم نہیں کرتی۔ اُس وقت تک جب وہ شخص سڑک کے وسطی سفید لکیر پار کرتا ہے تو ہَوا کے بگولے کی اُڑائی ہُوئی دُھول بیٹھ چکی ہوتی ہے، پس اُس کی نظر بھی دُھندلی نہیں ہوتی۔

وہ پلکیں جھپکائے بغیر اُوپر دیکھتا ہے۔ وہ کوئی نوجوان نہیں ہے بَل کہ چالیس کے لگ بھگ ہے اور اُس کا ہَیٹ تھوڑا سا پیچھے کی طرف جھک کر اُس کا گنجا ماتھا نمایاں کر رہا ہوتا ہے۔ بچّے والی ٹوکری میں چھاتے کے نیچے تین—- یا چار—- سال کا ایک گلابی گالوں والا بچّہ بیٹھا ہے۔ آدمی نے یقینا بس کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ اور اُس کے تُرم کو سُن لیا ہو گا جو اَب مسلسل بج رہا ہے۔ وہ ایک بار پھر ٹھٹکتا ہے اور لگتا ہے جیسے ہَولے سے بریک لگائی ہو لیکن پھر وہ اپنے وَتر رُخ والے راستے پر بے ڈھب انداز میں رَواں رہتا ہے۔ جُوں جُوں بس قریب سے قریب تر آتی ہے، اُس کاقرنا زیادہ بلند آواز میں بجتا چلا جاتا ہے اور پھر بریک کی کانوں کے پردے پھاڑنے والی آواز آتی ہے۔ بائیسیکل اب آگے کی سمت بڑھ رہی ہے۔ بس تھمنے کی کوشش تو کر رہی ہے لیکن اُس کی خُونی حرکت اُوپر ڈھینے والی دِیوار کے مانند جاری رہتی ہے۔ عین اُسی لمحے جب بس اور بائیسیکل آپس میں ٹکرانے والی ہوتی ہیں، اُسی سمت والے کنارے کے راستے سے ایک عورت چیخنے چِلّانے لگتی ہے۔ پیدل اور سائیکل سوار ٹھیر کر دیکھنے لگتے ہیں مگر کوئی بھی حرکت کرنے کے قابل دِکھائی نہیں دیتا۔ بائیسیکل کا اگلا پہیہ بس کے عین سامنے آچکا ہوتا ہے اور آدمی زور زور سے پیڈل مار رہا ہوتا ہے—- شاید وہ کامیاب ہو ہی جائے۔ ٹھیک اُسی وقت، وہ سُرخ اور نیلے چھاتے کو پکڑنے کے لیے آگے جھکتا ہے، ٹوکری اُڑ کر اپنے واحد پہیے پر اُچھلتی ہُوئی دُور جا گِرتی ہے۔ جب آدمی اپنے بازو اُوپر اُچھال رہا ہوتا ہے تو اُس کی ٹانگیں لپیٹ میں آجاتی ہیں اور وہ اُلٹ کر بائیسیکل کے پیچھے کی طرف گِرتا ہے۔ نرسنگے اور بریک کے شوروغل اور عورت کی چیخ و پُکار میں، اِس سے قبل کے تماشائی آہ بھی بھر پاتے، وہ آدمی بس کے پہیوں کے نیچے آکر کچلا جاتا ہے۔ وہ بائیسیکل، جسے وہ شخص چلا رہا تھا، مُڑ تُڑی حالت میں دس فٹ دُور جا کر گِرتی ہے۔

سڑک کے دونوں طرف پیدل چلنے والے سکتے میں آجاتے ہیں اور سائیکل سوار اپنی بائسیکلوں سے اُتر پڑتے ہیں۔ یکایک سکوت طاری ہو جاتا ہے، صرف ریڈیو مرمت کرنے والی دُکان سے گِیت کی آواز آرہی ہوتی ہے۔

شاید تمہیں یاد ہو
دُھندلکے میں،شکستہ پُل تلے
ہمارا وہ ملن—-

غالباً یہ موسیقی گلوکار ڈَینگ لی جُن ہانگ کانگ کے بعد کی ہے۔ بس کے اگلے پہیے لہو کے ایک تالاب میں تھم چکے ہیں، اور بس کے عقبی حِصّے تلے پڑے اُس شخص کےجسم سے لہو بہہ رہا ہے۔ سب سے پہلے بس کا ڈرائیور اُس جسم کے پاس جاتا ہے۔ پھر سڑک کے دونوں اطراف سے لوگ بھاگتے ہُوئے آتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ گند میں اُلٹی پڑی ہُوئی بچّے کی ٹوکری کے گِرد گھیرا ڈال لیتے ہیں۔ وسطی عمر کی ایک عورت بچّے کو ٹوکری میں سے نکالتی، اُسے ہِلاتی جھلاتی، اور اُس کا اچھی طرح معائنہ کرتی ہے۔

“کیا یہ مر گیا؟”

“مر گیا ہے!”

“یا یہ مر گیا ہے؟”

چوگرد سے لوگ متجسس لہجے میں بولتے ہیں۔ بچّے کی آنکھیں سختی سے بند ہیں اور اُس کی نرم جِلد یُوں نُچڑ گئی ہے کہ نیلی رَگیں نمایاں طور پر دِکھائی دے رہی ہیں۔ لیکن بیرونی چوٹ کا کوئی نشان نہیں ہے۔

“ڈرائیور کو بھاگنے مت دینا!”

“جلدی کرو، پولیس کو بلاؤ۔”

ایک تَہ در تَہ ہجوم بس کے سامنے جمع ہو چکا ہے۔ صرف ایک آدمی اتنا متجسس ہے کہ وہ ٹُوٹی پُھوٹی اور مُڑی تُڑی بائیسیکل کو اُٹھاتا ہے۔ جب وہ اُسے دوبارہ زمین پر رکھتا ہے تو اُس کی گھنٹی بج اُٹھتی ہے۔

“کسی شے کو مت چھوؤ! ہر چیز کو جُوں کا تُوں رہنے دو!”

“میں نے واضح طور پر بھونپُو بجایا اور بریک لگائی تھی! سب نے دیکھا ہے—- یہ بس کے سامنے جان بُوجھ کر آ کے اپنے آپ کو مارنے پر تُلا ہُوا تھا! تم لوگ کیسے کہہ سکتے ہو کہ میرا قصور ہے؟” ڈرائیور بھِنچی ہُوئی آواز میں وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اُس کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیتا۔

“تم سب گواہ ہو—- تم سب نے یہ دیکھا ہے!”

“ایک طرف ہو جاؤ! سب ایک طرف ہو جاؤ!”

انبوہ میں سے بڑا سا ہَیٹ پہنے ایک پولیس والا نکلتا ہے۔

“بچّے کو مدد کی ضرورت ہے! جلدی کرو! کوئی کار رَوکو اور اُسے ہسپتال لے کر جاؤ!”

کوفی کے رنگ کی جیکٹ والا ایک نوجوان سڑک کے وسط میں اپنے ہاتھ ہِلاتا ہُوا دوڑتا ہے۔جب وہ سڑک پر اُبل پڑنے والے پیدل لوگوں کے بیچ سے اپنا راستہ بناتا ہے تو ایک چھوٹی ٹویوٹا سیڈان اپنی نفیری بجاتی ہے۔ پھر، ایک 130 لائٹ ٹرک گھسٹتا ہے اور ٹھیر جاتا ہے۔ بس کے اندر سواریاں ٹکٹیں بیچنے والی عورت سے جھگڑ رہے ہیں۔ پیچھے ایک اَور بس آجاتی ہے۔ پہلی بس کے دروازے کھلتے ہیں اور سواریاں دھکم پیل کرتی ہُوئی باہر نکل کر آنے والی دُوسری بس کا راستہ روک لیتی ہیں۔ غل غپاڑا برپا ہے۔

میں کبھی نہیں
کبھی نہیں بھُول پاؤں گا…

ریڈیو کے گِیت کو شور دبا دیتا ہے۔ خُون اب بھی بہہ رہا ہے اور اُس کی مہک فضا میں پھیل گئی ہے۔

“وااا…” آخر بچّہ صدمے سے ہَونک اُٹھتا ہے۔

“یہ اچھی علامت ہے۔”

“ابھی زندہ ہے!”

مسرور آہیں برآمد ہوتی ہیں۔ جُوں جُوں اُس کے ہَونکنے کی آواز زیادہ بلند ہوتی جاتی ہے تُوں تُوں اِردگِرد کے لوگوں میں بھی زندگی آتی جاتی ہے؛ گویا اُنھیں آزادی مل گئی ہو۔ وہ دھڑ کے گِرد کے مجمعے میں شامل ہونے کے لیے دوڑتے ہیں۔

سائرن کی ماتمی آواز۔ پولیس کی روشن نیلی بتّی والی ایک کار آکر ٹھیرتی ہے۔ چار پولیس والے باہر نکلتے ہیں اور اُنھیں راستہ دینے کے لیے ہجوم دو حِصّوں میں بٹ جاتا ہے۔ اُن میں سے دو چرمی چھڑی تھامے ہُوئے ہیں۔

اب ٹریفک تھم چکی ہے اور سڑک کی دونوں سمتوں میں انتظار کرتی ہُوئی گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔ بُھونپو غوغے سے بلند آواز میں چیختے ہیں۔ ایک پولیس والا سڑک کے عین وسط میں کھڑا ہو کر اپنے سفید دستانوں والے ہاتھ ہِلا ہِلا کر ٹریفک کو ہدایات دینا شروع کر دیتا ہے۔

باقی پولیس والے دُوسری بس سے ٹکٹیں بیچنے والی کو بُلاتے ہیں۔ وہ معذرت کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن پھر جھجکتے ہُوئے وسط عمر کی خاتون سے بچّے کو لے لیتی ہے جو اُسے تھامے ہُوئے تھی اور 130 لائٹ ٹرک میں سوار ہو جاتی ہے۔ سفید دستانہ اشارہ دیتا ہے اور ٹرک اپنے ساتھ اُونچی آواز میں سبکیاں بھرتے ہُوئے بچّے کو لے کر روانہ ہو جاتا ہے۔

ایک پولیس والا ڈرائیور سے سوال کر رہا ہے، جو اپنی سوتی ٹوپی سے اپنے چہرے کا پسینا پُونچھ رہا ہے۔ وہ ڈرائیور کا سُرخ پلاسٹک میں رکھا ہُوا لائسنس لے کر اُسے ضبط کر لیتا ہے۔ وہ شکایت کرنے لگتا ہے۔

“تم انکار کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہو؟ اگر تم نے ایک آدمی کو کچل ڈالا ہے تو تم نے اُسے کچل ڈالا ہے!” بائیسیکل گھسیٹتا ہُوا اَیک آدمی بلند آواز میں کہتا ہے۔

“وہ خُود کشی کرنے پر تُلا ہُوا تھا۔ ڈرائیور نے بار بار بُھونپو بجایا اور بریک لگائی لیکن وہ سامنے سے نہیں ہٹا۔ وہ خُود بس تلے آیا ہے۔” نوجوان کو کوسنے کے لیے ٹکٹیں بیچنے والی لمبی آستینوں والی عبا پہنے پہلی بس سے باہر نکلتی ہے۔

“آدمی سڑک کے عین وسط میں تھا اور اُس کے ساتھ ایک بچّہ بھی تھا۔ دِن کی اچھی خاصی روشنی تھی۔ ڈرائیور کو اُسے یقینی طور پر دیکھ لینا چاہیے تھا!”ہجوم میں سے کوئی غصّیلے انداز میں مداخلت کرتا ہے۔ “اِس قسم کے ڈرائیوروں کو کسی کو کچل ڈالنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ ہونا چاہیے کہ لوگوں کی زندگی کے بدلے یہ اپنی زندگی دیں۔” یہ بات طنزیہ انداز میں کہی گئی۔

“کتنا بڑا اَلمیہ ہے! اگر اُس کے ساتھ بچّہ نہ ہوتا تو وہ بروقت سڑک پار کر جاتا!”

“کیا اِس کے بچنے کی کوئی اُمید ہے؟”

“اِس کا دماغ باہر آگیا ہے۔”

“میں نے ابھی اِس کا غوطہ سنا ہے—-”

“تم نے سنا ہے؟”

“ہاں، ابھی غوطہ لیا ہے۔”

“بس! میں اِس بارے میں نہیں جاننا چاہتا!”

“اے، یہی زندگی کا طور ہے—- کوئی بھی شخص اِس طرح مر سکتا ہے۔”

“وہ رو رہا ہے۔”

“کون؟”

“ڈرائیور۔”

سر جھکا کر اپنی رانوں کے بَل اُکڑوں بیٹھا ہُوا ڈرائیور اپنی آنکھیں ٹوپی سے ڈھانپ لیتا ہے۔

“یہ ایک حادثہ تھا۔”

“آدمی کے ساتھ ایک بچہّ بھی تھا؟ بچّے کا کیا بنا؟” ایک نووارد دَریافت کرتا ہے۔

“بچّہ زخمی نہیں ہُوا۔ وہ بے حد خُوش قسمت تھا۔”

“بچّہ بچا لیا گیا۔”

“آدمی مر گیا!”

“کیا وہ بچّے کا باپ تھا؟”

“اُس نے بچّے کی ٹوکری اپنی بائیسیکل کے ساتھ کیوں باندھی ہُوئی تھی؟ اکیلی بائیسیکل کے ساتھ حادثہ ہونا کافی مشکل ہے۔”

“اُس نے تھوڑی دیر پہلے ہی بچّے کو نرسری سکول سے لیا تھا۔”

“نرسری سکولوں کا حال پتلا ہے—- وہاں بچّوں کو دِن بھر کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا۔”

“تم خُوش نصیب ہو اگر تمہیں اپنے بچّے کے لیے ایک ہی سکول مل جائے۔”

“تم کیا دیکھ رہے ہو؟ اب اگر تم نے بِلا اِدھر اُدھر دیکھے سڑک پار کی تو—-” تماشائیوں کے بیچ میں گھسنے والے ایک بچّے کو ایک بڑا سا ہاتھ کھینچتا ہے۔

ہانگ کانگ کے ستارے نے گانا بند کر دیا ہے۔ ریڈیو مرمت کرنے والی دکان کے سامنے والا حِصّہ لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔

ایک ایمبولینس آگئی ہے، اُس کی سُرخ بتّی روشن ہے۔ سفید وردی میں ملبوس طبّی عملے والے لاش کو ایمبولینس کی طرف لے کر جاتے ہیں اور دُکانوں کے دروازوں میں کھڑے لوگ ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر دیکھتے ہیں۔ ایک نزدیکی ریستوران سے ایک موٹا سا باورچی اپنے ایپرن ہی میں یہ دیکھنے باہر نکل آتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔

“کیا ہُوا ہے؟ کیا کوئی حادثہ ہو گیا ہے؟ کوئی زخمی ہُوا ہے؟”

“ایک باپ اور بیٹا۔ اُن میں سے ایک دم توڑ گیا۔”

“کون؟”

“بُوڑھا شخص۔”

“بیٹے کا کیا ہُوا؟”

“زخمی تک نہیں ہُوا۔”

“خوف ناک بات ہے! اُس نے اپنے باپ کو کھینچا کیوں نہیں؟”

“باپ نے اپنے بیٹے کو کھینچ لیا تھا۔”

“یہ ہر آنے والی نسل کے ساتھ بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ آدمی اپنے بیٹے پر اپنا وقت ضائع کر رہا تھا!”

“اگر تمہیں نہیں پتا کہ کیا ہُوا ہے تو بونگیاں مت مارو۔”

“کون بونگیاں مار رہا ہے؟”

“میں تمہارے ساتھ بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔”

“بچّے کو لے جایا گیا ہے۔”

“کیا کوئی چھوٹا بچّہ بھی تھا؟”

کچھ لوگ ابھی آئے ہیں۔

“کیا تم دھکّے دینا بند کرو گے؟”

“کیا میں نے تمہیں دھکا دیا ہے؟”

“چلو۔ تم سب یہاں سے جاؤ۔”

ہجوم کے بیرونی کنارے سے لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ بازو کے گِرد سُرخ پٹّی والا ٹریفک سیکیورٹی کے عملے کا فرد اب منظر پر نمودار ہو گیا ہے جو پولیس والوں سے زیادہ بُرے لوگ ہیں۔

ڈرائیور، جسے پولیس کی کار میں دھکیلا جا رہا ہے، مڑتا اور مزاحمت کرنے کا جتن کرتا ہے لیکن پولیس والے دروازہ بند کر دیتے ہیں۔ لوگ پیدل اور سوار ہو کر جانے لگتے ہیں، ہجوم گھٹنے لگتا ہے لیکن اب بھی بہت سے لوگ آتے ہیں، اپنی بائسیکلیں روکتے ہیں یا کنارے پر چلنے والے راستے سے سڑک پر اُترتے ہیں۔ سڑک کی اِس جانب دُوسری بس کی رہنمائی میں کاروں، وینوں، جیپوں اور لیموزینوں کی ایک لمبی قطار دِھیرے دِھیرے سُرخ اور نیلے رنگ کے چھاتے والی بچّے کی ٹُوٹی پُھوٹی ٹوکری کے پاس سے، جو اَب بھی غلاظت میں پڑی ہے، گذرنے لگتی ہے۔ بیشتر ہجوم جا چکا ہے۔

دو پولیس والے سڑک کے وسط میں پیمائش لیتے ہیں اور ایک اپنی چھوٹی سی کتاب میں کچھ تحریر کرتا ہے۔ بس کے پہیوں کے نیچے والا لہو کا تالاب گاڑھا ہونے اور سیاہ پڑنے لگا ہے۔ ٹکٹیں فروخت کرنے والی کھڑکی کے ساتھ لگ کر بیٹھی ہُوئی خالی خالی نظروں سے سڑک کے ایک طرف تک رہی ہے۔ دُوسری جانب ایک اَور بس آرہی ہے۔ کھڑکیوں میں سے کچھ چہرے گُھورتے ہیں، حتّٰی کہ کچھ اپنے سر بھی باہر نکالتے ہیں۔ اب کام کا وقت ختم ہو گیا ہے اور ٹریفک اپنے عروج پر ہے۔ حدیہ کہ سڑک کے ساتھ ساتھ پیدل چلنے والوں اور بائیسیکل سواروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن پولیس اور ٹریفک سیکورٹی کے عملے والا اُنہیں سڑک سے دُور رکھتے ہیں۔

“کیا یہاں حادثہ ہُوا تھا؟”

“کیا کوئی مرا ہے؟”

“یقینا ًہُوا ہے—- اُس خُون کو دیکھو۔”

“کل جیان کانگ روڈ پر ایک حادثہ ہُوا تھا۔ ایک سولہ سالہ لڑکے کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ دم توڑ گیا۔ ذکر ہو رہا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کا ایک ہی بیٹا تھا۔”

“آج کل تمام خاندانوں کے ایک ایک ہی بیٹا ہے۔”

“اے، والدین کس طرح برداشت کریں گے؟”

“اگر ٹریفک کو بہتر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا تو روز بروز حادثات بڑھیں گے!”

“بجا، حادثے کسی بھی طور کم نہیں ہوں گے، یہ یقینی بات ہے۔”

“بیٹے کے معاملے میں تو پھر بھی سہولت ہے—- بیٹیاں والدین کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث ہیں۔”

“دیکھو! دیکھو! وہ فوٹو کھینچ رہے ہیں۔”

“اِس کا بے حد فائدہ ہو گا! اب بہت دیر ہو گئی ہے۔”

“کیا اُسے بس نے جان بُوجھ ٹکّر ماری ہے؟”

“کسے پتا؟”

“ٹوکری ساتھ نتھی نہیں تھی ورنہ اُسے بھی ٹکّر لگتی۔”

“میں پاس سے گذر رہا تھا۔”

“کچھ لوگ تو بالکل جنونیوں کے مانند گاڑی چلاتے ہیں۔ وہ اِس چیز پر کبھی گاڑی نہیں روکتے کہ کوئی شخص راستے سے نہیں ہٹ رہا!‘”

“ایسے لوگ بھی ہیں جو دُوسرے لوگوں کو مار کر اپنی مایوسیاں رفع کرتے ہیں۔ کوئی بھی شکار ہو سکتا ہے۔”

“اِس قسم کی کسی چیز سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا بے حد دُشوار ہے—- یہ سب نصیب کا لکھا ہوتا ہے۔ ہمارے پُرانے گاؤں میں، ایک ماہر بڑھئی تھا لیکن وہ پینے کا بے حد شوقین تھا۔ ایک مرتبہ وہ کسی کا مکان بنا رہا تھا اور جب وہ رات کو اپنے گھر نشے کی حالت میں لوٹ رہا تھا تو اُسے ٹھوکر لگی اور ایک پتھّر سے اُس کا سر ٹکرا کر پارہ پارہ ہو گیا۔”

“پچھلے کچھ دِنوں سے، کسی وجہ سے میری آنکھ پھڑک رہی ہے۔”

“کون سی آنکھ؟”

“تم ہر وقت اپنے ہی خیالوں میں رہ کر سڑک پر مت چلا کرو۔ میں نے تمھیں کئی بار دیکھا ہے—-”

“مجھے کبھی کچھ نہیں ہُوا۔”

“لیکن اگر کچھ ہو گیا تو میں کبھی نہیں سہہ پاؤں گی۔”

“اِسے ختم کرو! لوگ گُھور رہے ہیں۔”

پولیس حادثے کی جائے وقوع کے فوٹوگراف لے چکی ہے اور پولیس والا پیمائش کے بعد پھاوڑا بھر مٹی خُون پر پھیلا دیتا ہے۔ ہَوا تھم چکی ہے اور تاریکی پھیل رہی ہے۔ کھڑکی سے لگ کر بیٹھی ہُوئی ٹکٹیں بیچنے والی نے بتّیاں روشن کر دی ہیں اور دِن بھر کی آمدنی گِن رہی ہے۔ ایک پولیس والا مُڑی تُڑی بائیسیکل کو اپنے کندھے پر اُٹھا کر کار میں لے جاتا ہے۔ بازوؤں پر لپٹی ہُوئی لال پٹّی والے دو آدمی گندگی سے بچّہ ٹوکری اُٹھا کر کار میں لادتے اور پولیس کے ساتھ ہی رخصت ہو جاتے ہیں۔

رات کے کھانے کا وقت ہو گیا ہے۔ ٹکٹیں بیچنے والی بس کے دروازے میں کھڑی بے صبری سے منتظر ہے کہ اُسے لے جانے کے لیے نیا ڈرائیور بھیجا جائے۔ راہ گیر اب سڑک کے وسط میں نامعلوم سبب کے باعث کھڑی خالی بس پر چھچھلتی ہُوئی نگاہ ڈالتے ہیں۔ کوئی بھی اندھیرے میں خُون پر دھیان نہیں دیتا، جو مٹّی سے ڈھنپا ہُوا ہے اور بمشکل دِکھائی دیتا ہے۔

ایک لمحہ آتا ہے، جب سڑک کی بتّیاں روشن ہو جاتی ہیں اور خالی بس لے جائی جاتی ہے۔ سڑک پر دوبارہ کاریں فراٹے بھرنے لگتی ہیں اور یُوں لگتا ہے جیسے کچھ بھی نہ ہُوا ہے۔ نصف شب تک سڑک کم و بیش خالی ہو جاتی ہے۔ سڑک کی صفائی کرنے والا ایک ٹرک بعید کے ایک ایسے چوراہے سے آتا ہے جہاں آہنی جنگلے پر لگے نیلے پوسٹر سے آگے ٹریفک کی بتّیاں وقفے وقفے سے جلتی بجھتی ہیں۔ سفید رنگ سے یہ حروف چھپے ہیں: “اپنی اور دُوسروں کی بھلائی کے لیے ٹریفک قوانین کی پابندی کریں۔” جس مقام پر حادثہ ہُوا تھا وہاں ٹرک سست پڑتا ہے اور پانی کی تیز پھوار سے خُون کے بچے کھچے نشانات دھو ڈالتا ہے۔

خاکروبوں کو پتا تک نہیں چلتا کہ وہاں چند گھنٹے پہلے کوئی حادثہ ہُوا تھا اور ایک بدقسمت اُس حادثے کا شکار ہو کر موت سے ہم کنار ہُوا ہے۔ لیکن شکار کون تھا؟ لاکھوں لوگوں کے اِس شہر میں اُسے محض اُس کے عزیز و اقارب ہی جانتے ہوں گے۔ اور اگر شناختی کاغذات اُس کے ہمراہ نہ ہُوئے تو اُنہیں اب تک اُسے پیش آنے والے حادثے کے بارے میں پتا بھی نہیں ہو گا۔ وہ آدمی اغلب طور پر بچّے کا باپ تھا اور اِس کا امکان ہے کہ بچّہ حکام کو اُس کے نام کے بارے میں بتانے کا اہل ہو گا۔ اگر وہ شخص باپ تھا تو یقیناً اُس کی ایک بیوی بھی ہونا چاہیے۔ اور چُوں کہ وہ بچّے کو سکول سے لے کر جا رہا تھا تو ایک اچھا باپ اور ایک اچھا شوہر تھا۔ چُوں کہ اُسے اپنے بچّے سے محبت تھی تو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اُسے اپنی بیوی سے بھی محبت تھی، لیکن کیا اُس کی بیوی بھی اُس سے محبت کرتی تھی؟ اگر وہ اُس سے محبت کرتی تھی تو اُس نے ایک ماں ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داریاں پُوری کیوں نہیں کیں اور بچّے کو سکول سے لینے خُود کیوں نہیں آئی؟

شاید اُس آدمی کی زندگی اذیت ناک ہو اور اِسی لیے وہ اِس قدر منتشرالخیال تھا۔ شاید یہ اُس کی شخصیت کی خامی ہو اور وہ ہمیشہ ہی بروقت فیصلہ نہ کرتا ہو۔ شاید اُسے کوئی مسئلہ دِق کر رہا ہو، کوئی ایسا مسئلہ جسے وہ حل نہ کر پایا ہو اور سادہ سی بات کہ اِس بڑی بدقسمتی کا شکار ہونا ہی اُس کے نصیب میں ہو۔ تاہم، اگر وہ ذرا سا بعد میں یا تھوڑا سا پہلے وہاں سے گذرتا تو شاید حادثے سے بچ جاتا۔ یا اگر وہ بچّے کو اُٹھانے کے بعد وہ تیز یا سست روی سے پیڈل چلاتا، یا پھر وہ نرسری سکول کی ماسی سے دیر تک باتیں کرتا رہتا، یا راستے میں اُسے اُس کا کوئی دوست مل جاتا اور وہ اُس سے کلام کرنے کے لیے ٹھیر جاتا…

لیکن یہ ناگزیر تھا۔ اُسے کوئی ناقابلِ علاج مرض نہیں تھا، لیکن پھر بھی جیسے وہ بس موت کا انتظار ہی کر رہا تھا۔ موت سے کسے رَست گاری ہے۔ اور کوئی شہر ٹریفک حادثوں سے مبرا نہیں۔ ہر شہر میں موت کا امکان موجود ہے—- خواہ کسی خاص دِن میں یہ موقع دس لاکھ میں محض ایک ہی ہو—- اور اِس جیسے بڑے شہر میں کسی نہ کسی نوع کی بدقسمتی سے سدا سامنا ہوتا رہتا ہے۔ مرحوم بھی اِسی قسم کا شخص تھا۔ کیا اُسے اِس کے وقوع پذیر ہونے سے قبل پیش آگاہی ہو گئی تھی؟ جب یہ واقعہ پیش آرہا تھا تو کیا سوچ رہا تھا؟ غالباً، اُس کے پاس اپنے اُوپر وارد ہونے والی ناگہانی کے بارے میں سوچنے، اُسے سمجھنے کے لیے وقت ہی نہیں تھا۔ اُس کے لیے اِس سے بڑی کوئی ناگہانی نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ ریت کے لاکھوں ذروں میں سے ایک تھا۔ لیکن مرنے سے قبل، اُس نے واضح طور پر بچّے کے متعلّق سوچا ہو گا۔ کیا اُس نے اپنی ارفع قربانی دی تھی؟ یا شاید یہ قربانی خالصتاً ارفع نہیں تھی—- شاید یہ کسی حد تک جبلّی تھی، ایک باپ کی جبلّت والی۔ لوگ ماں کی جبلّت کی قوّت کے بارے میں باتیں کرتے ہیں، لیکن ایسی مائیں بھی ہیں جو اپنی اولاد کو چھوڑ دیتی ہیں۔ آدمی کا اپنے بچّے کے لیے قربانی دینا بِلا شک و شبہ ارفع کام تھا، لیکن درحقیقت قربانی سے کاملاً بچا جا سکتا تھا۔ اگر وہ تھوڑا پہلے یا تھوڑا بعد میں نکلا ہوتا، جیسا کہ میں نے کہا ہے، اگر وہ ذہنی طور پر اُلجھا ہُوا نہ ہوتا، اگر وہ قدرتی طور پر فوری فیصلے کی قوّت کا حامل ہوتا، اگر وہ اپنی حرکات میں چاق و چوبند ہوتا… اِن تمام خامیوں کے مجموعے نے اُس کی جلد موت واقع کی ہے۔

میں یہاں فلسفہ بیان کر رہا ہوں، لیکن زندگی کوئی فلسفہ نہیں ہے گو زندگی کے علم سے ہی فلسفہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اور ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ٹریفک کے حادثات کی شماریات کریں—- یہ ٹریفک سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کا کام ہے۔ بے شک، ٹریفک حادثہ اخبار کا ایک جزو بن سکتا ہے۔ اور اگر تخیل کا تڑکا لگا کر اِسے متحرک بیانیے میں بیان کر دیا جائے تو یہ ادب کے لیے خام مواد بھی میسر کر سکتا ہے۔ لیکن میں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ محض ایک حادثہ ہے جو شام پانچ بجے ڈیشینگ ایونیو پر ریڈیو مرمت کرنے والی دُکان کے سامنے پیش آیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *