عمران خان صاحب صرف ایک اچھے کھلاڑی ، ملک میں ایک کینسر ریسرچ ہسپتال بنانے والے سماجی کارکن ہیں لیکن اگر انہیں ایک سیاست دان کے طور پر دیکھا جائے تو وہ محض امراءاور درمیانے طبقہ کی نوجوان نسل کے سیاست دان نظر آتےہیں جنہوں نے مئی2013 کے انتخابات میں عمران خان کی شخصیت سے متاثر ہو کر انہیں ووٹ دیئے۔ پچھلے کئی روز سےعمران خان ہر شب شاہراہ دستور پر نوجوانوں کے مجمع سے خطاب فرماتے ہیں اور موجودہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ دیں ، انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کرائیں،نئے الیکشن ہوں تاکہ نئے انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت سے جسٹس رمدے،سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور نجم سیٹھی صاحب کہ35 پنکچروں کی بدولت ہونے والی شکست کی حقیقت سامنے آسکے۔ ان احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا محض ایک مقصد ہے کہ کسی طرحPTI کا مینڈیٹ دھاندلی سے چوری ہونا ثابت کیا جا سکے ۔
دھاندلی کے الزامات کو مزید الزامات سے ثابت کرنے کے عمل کے نتیجے میں عدالتوں کو متنازعہ بنانے اور سرکاری اداروں کو ٹیکس اور بل ادا نہ کرنے جیسےا قدامات کسی بھی طرح “نئے پاکستان” کے لئے کوئی عمدہ مثال پیش نہیں کر رہے۔
پچھلےپندرہ روز سے ہم سب نئے پاکستان کے انتظار کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ ہر لمحہ یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نیا پاکستان ابھی بنا ہی چاہتا ہے، ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے اور فائنل میچ ہوا ہی چاہتا ہے۔عمران خان صاحب کے بیانات کی غیر سنجیدگی پہلے روز سے ہی واضح ہے،”ہم ملین لوگ لے کر جائیں گے، میں وہ کھاؤں گا جو تم کھاؤ گے،میں تم لوگوں کے ساتھ سوؤں گا،آج فیصلہ ہو جائے گا، آج ایمپائر کی انگلی اٹھ جائے گی،ہم کل مل کر ٓازادی کا جشن منایں گے، ہم سول نافرمانی(Civil Disobedience) کی تحریک چلائیں گے” اور ایسے کئی بیانات جو نہ صرف مضحکہ خیز بلکہ زمینی حقائق سے یکسر ناواقف ہونے کے غماز ہیں ۔ یہ بیانات اور دعوےعمران خان کی سیاسی ناپختگی ثابت کرنے کو کافی ہیں۔
عمران خان صاحب کی عوامی مقبولیت اپنی جگہ اور زرداری اور نواز شریف اور تمام سیاسی قیادت کی مصلحت کوشی اپنی جگہ لیکن ایک بات طے ہے کہ اگرتحریک انصاف کے قائد اسی طرح کی سیاست اپنے لوگوں، کارکنوں اور اس ملک کے ساتھ کرتے رہے تو تاریخ میں انہیں ایک کمزورسیاست دان کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جس نے پاکستان کو1992 میں کرکٹ کا بادشاہ بنایا لیکن اگست2014 میں نئے پاکستان کا خواب دکھا کر اس ملک کی عالمی ساکھ،معیشت اور جمہوریت کو شدید نقصان پہنچایا۔
14 اگست کے بعد سے اب تک احتجاجی مظاہروں کے باعث روپے کے مقابلہ میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اور ڈالر کی قیمت بڑھتے ہی مہنگائی میں اضافہ ہو تا ہے، دھرنوں کے آغاز کے بعد سے سٹاک مارکیٹ میں مندے کا رحجان ہے اور اب تک ملک کی معیشت کو800 ارب کا نقصان ہوچکا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ معیشت کو پہنچنے والا نقصان صرف حکومت کا ہی نہیں بلکہ عام آدامی کا نقصان ہے۔ دھاندلی کے الزامات کو مزید الزامات سے ثابت کرنے کے عمل کے نتیجے میں عدالتوں کو متنازعہ بنانے اور سرکاری اداروں کو ٹیکس اور بل ادا نہ کرنے جیسےا قدامات کسی بھی طرح “نئے پاکستان” کے لئے کوئی عمدہ مثال پیش نہیں کر رہے۔
تحریک انصاف اور اس کی قیادت اگر سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتی، خیبر پختونخواہ کو اسی طرح ایک مثال بنا کر پیش کرتے جیسے مسلم لیگ نواز پنجاب کی ترقی اور خوشحالی کو پیش کرتی ہے اور وہاں اپنے منشور کا مکمل نہیں تو کچھ حصہ عملی طور پر پیش کرتے تو الیکشن2018 میں تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوتا۔خیبر پختونخواہ میں کرپشن کی روک تھام، مضبوط ادارے، سیاسی مداخلت سے پاک پولیس ، موبائل کورٹس، آن لائن ایف آئی آرکا نظام،پولیو کی روک تھام اور تعلیمی اصلاحات وہ ایجنڈا ہے جو تحریک انصاف کی کامیابی کی بنیاد بن سکتا تھا۔
خیبر پختونخواہ حکومت اگر تحریک انصاف کے منشور کا کچھ حصہ بھی اگلے چار سال مکمل کر لے تو مجھے امیدہے کہ اگلے اانتخابات میں باقی صوبوں کی عوام بھیایک نیا پاکستان مانگے گی اور عمران خان کو ایک ملک گیر حکومت بنانے میں مدد دے گی۔اگر خیبر پختونخواہ میں حالات بہتر ہوں گے تو لوگ دیکھ سکیں گے کہ قدرتی آفات اور دہشت گردی سے متاثرہ صوبے میں اگرتحریک انصاف نظام بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہےتو پورے ملک میں انہی کو موقع ملنا چاہئے۔لیکن دھرنے اور احتجاج کی سیاست سے ثابت ہوا ہے کہ تحریک انصاف اور اس کی قیادت میں سیاسی سوجھ بوجھ نہیں ہے اورنوجوان کارکنوں کے جوش اور جنون کو محض نظام کو روکنے اور ترقی کے عمل میں خلل ڈالنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
عمران خان صاحب کی عوامی مقبولیت اپنی جگہ اور زرداری اور نواز شریف اور تمام سیاسی قیادت کی مصلحت کوشی اپنی جگہ لیکن ایک بات طے ہے کہ اگرتحریک انصاف کے قائد اسی طرح کی سیاست اپنے لوگوں، کارکنوں اور اس ملک کے ساتھ کرتے رہے تو تاریخ میں انہیں ایک کمزورسیاست دان کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جس نے پاکستان کو1992 میں کرکٹ کا بادشاہ بنایا لیکن اگست2014 میں نئے پاکستان کا خواب دکھا کر اس ملک کی عالمی ساکھ،معیشت اور جمہوریت کو شدید نقصان پہنچایا۔
14 اگست کے بعد سے اب تک احتجاجی مظاہروں کے باعث روپے کے مقابلہ میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے اور ڈالر کی قیمت بڑھتے ہی مہنگائی میں اضافہ ہو تا ہے، دھرنوں کے آغاز کے بعد سے سٹاک مارکیٹ میں مندے کا رحجان ہے اور اب تک ملک کی معیشت کو800 ارب کا نقصان ہوچکا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ معیشت کو پہنچنے والا نقصان صرف حکومت کا ہی نہیں بلکہ عام آدامی کا نقصان ہے۔ دھاندلی کے الزامات کو مزید الزامات سے ثابت کرنے کے عمل کے نتیجے میں عدالتوں کو متنازعہ بنانے اور سرکاری اداروں کو ٹیکس اور بل ادا نہ کرنے جیسےا قدامات کسی بھی طرح “نئے پاکستان” کے لئے کوئی عمدہ مثال پیش نہیں کر رہے۔
تحریک انصاف اور اس کی قیادت اگر سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتی، خیبر پختونخواہ کو اسی طرح ایک مثال بنا کر پیش کرتے جیسے مسلم لیگ نواز پنجاب کی ترقی اور خوشحالی کو پیش کرتی ہے اور وہاں اپنے منشور کا مکمل نہیں تو کچھ حصہ عملی طور پر پیش کرتے تو الیکشن2018 میں تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوتا۔خیبر پختونخواہ میں کرپشن کی روک تھام، مضبوط ادارے، سیاسی مداخلت سے پاک پولیس ، موبائل کورٹس، آن لائن ایف آئی آرکا نظام،پولیو کی روک تھام اور تعلیمی اصلاحات وہ ایجنڈا ہے جو تحریک انصاف کی کامیابی کی بنیاد بن سکتا تھا۔
خیبر پختونخواہ حکومت اگر تحریک انصاف کے منشور کا کچھ حصہ بھی اگلے چار سال مکمل کر لے تو مجھے امیدہے کہ اگلے اانتخابات میں باقی صوبوں کی عوام بھیایک نیا پاکستان مانگے گی اور عمران خان کو ایک ملک گیر حکومت بنانے میں مدد دے گی۔اگر خیبر پختونخواہ میں حالات بہتر ہوں گے تو لوگ دیکھ سکیں گے کہ قدرتی آفات اور دہشت گردی سے متاثرہ صوبے میں اگرتحریک انصاف نظام بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہےتو پورے ملک میں انہی کو موقع ملنا چاہئے۔لیکن دھرنے اور احتجاج کی سیاست سے ثابت ہوا ہے کہ تحریک انصاف اور اس کی قیادت میں سیاسی سوجھ بوجھ نہیں ہے اورنوجوان کارکنوں کے جوش اور جنون کو محض نظام کو روکنے اور ترقی کے عمل میں خلل ڈالنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔