لالٹین پر یہ تحریر یاسر حبیب کے تعاون سے شائع کی جا رہی ہے۔ یاسر حبیب “عالمی ادب کے اردو تراجم” نامی معروف فیس بک گروپ کے ایڈمن ہیں۔ یہ گروپ فیس بک صارفین تک تجربہ کار اور نوآموز مترجمین کا کام پہنچانے کا اہم ذریعہ ہے۔
(ادب اور عالم گیریت کے حوالے سے چند ابتدائی خیالات)
اب سے دور، یہ اس زمانے کی بات ہے جب نام و ناموس کے ایسے سنگین مسائل پربھی شعراء کو زحمت دی جاتی تھی۔ نہیں معلوم کہ اس میں حقیقت کتنی ہے اورافسانہ کتنا، مگراس معاملے کا ذکر میں نے مولوی شبلی کے “شعرالعجم” میں دیکھا تھا۔ اس وقت میرے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ دراصل وہ مولانا محمد حسین آزاد کی “آبِ حیات” ہو یا مولوی شبلی نعمانی کی “شعرالعجم” میں نے پہلے پہل ادبی تنقید و تاریخ کی کتابیں سمجھ کر نہیں پڑھا۔ کیا سمجھ کر پڑھا، یہ بتانا مشکل ہے اور بتائے بغیر چارہ بھی نہیں۔ بہت دنوں بعد جب ڈی ایچ لارنس کی نوبت آئی اوراس کا وہ یادگار فقرہ پڑھا کہ یہ زندگی کی ایک شاندار اور روشن کتا ب ہے۔ تو جیسے ذہن میں چپک کررہ گیا۔ لارنس نے تو خیر یہ ناول کے لیے کہا تھا، مگرمیں سمجھتا ہوں کہ میں نے “آبِ حیات” اور “شعرالعجم” کو زندگی کی ایسی ہی شاندار کتابیں سمجھ کر پڑھا تھا۔ میں انتظار حسین نہیں کہ اس بناء پر ان معزّز و گراں قدر کتابوں کو ناول قرار دے ڈالوں لیکن ادبی تذکروں کو قصے کہانی والے تزک و احتشام سے پڑھ لینے کے نتیجے میں ایک مُستقل گڑ بڑ کا شکار ضرور ہوکر رہ گیا کہ افسانہ افسانہ اور تنقیدی مضمون در تنقیدی مضمون اس پیچاک سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈتا ہوں اور ہربار تھوڑا سا اور ٹوٹ کررہ جاتا ہوں۔ بہرکیف، میری یہ افتاد— کہ جہاں سے شہر کو دیکھتا ہوں اور شاعر کو بھی —کسی اور حوالے سے سہی، ابتداء ہی میں آڑے آگئی اور دِل کا چور نظروں کے سامنے ہی رہے تو اچھا ہے۔ ورنہ مطالعے کے وقت کمرے کی بتیاں بجھانے لگتا ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا کہ دبے پاؤں یہ کون آیا۔
عالمگیر سے بھی پہلے شاہ جہاں کی جہاں بانی کا جو معاملہ سر دربار اُٹھا، اس کا حال میں نے مولوی شبلی کے الفاظ میں پڑھا کہ جب شہنشاہ روم نے شاہ جہاں کے نام پر ہی اعتراض جڑدیا کہ شاہجہاں کیسے، آپ ہندوستان کے بادشاہ ہیں سو یہی کہلوائیے۔ سارے جہاں پر آپ کا دعویٰ کہاں جائز ٹھہرا۔ اعتراض میں وزن تھا، بادشاہ کے دل کو بات لگ گئی، اور بات کیا لگی، نام و ناموس کی بن آئی۔ دربار کے شاعر ابو طالب کلیم نے اعتراض کا مسکت جواب دیا کہ شہنشاہ کے دل کی کلی کھُل اُٹھی اور وہ یہی جواب شہنشاہ روم کو بھجوا کر مطمئن ہوگئے۔ جواب یہ تھا کہ چوں کہ شہنشاہ ہند اور شاہجہاں کے اعداد برابر ہیں، اس لیے کوئی فرق نہیں پڑتا اگرایک کے بجائے دوسرا خطاب استعمال کیا جائے۔
شبلی نعمانی نے یہ نہیں بتایا کہ شاہجہاں کا یہ جواب جب معترض شہنشاہ کے دربار میں پہنچا تو وہاں اس کا کیا ردِ عمل ہوا۔ مگر شاہجہاں کے لیے غالباً بس اتنا ہی کافی تھا کا علم الاعداد کی رو سے شہنشاہ ہند برابر ہے شاہجہاں کے، لہٰذا ہندوستان کے شہنشاہ کو شاہجہاں کہنا جائز ہے۔ کلیم کے لیے حروف و الفاط کی برتری ایک اٹل اور ناقابل تردید دلیل تھی اور شاہجہاں کے لیے شاید اپنے شان و شوکت والے دربار سے ماورا اور غیر متعلق کسی اور جغرافیائی حقیقت کا ادراک غیر ضروری تھا بلکہ بڑی حد تک بےکار۔ مولوی شبلی نعمانی کی تمام تر جادو بیانی کے باوجود ہم اس سوال کا سامنا کس طرح کریں، اس Dilemma سے کیوں کرگزریں۔ تاریخ کے اس سارے تام جھام اور جھمیلے کے باوجود، میں یہ اعتراف بھی کرہی ڈالوں کہ مجھے اس تمام معاملے میں شاہجہاں سے ایک دبی دبی سی ہمدردی سی ہے اور شاید اس لیے محسوس بھی ہوتی ہے کہ میرے نزدیک اس کے جواب میں دلیل بودی رہ گئی ہے۔ جذباتی وابستگی کا اعتراف کسی قدر شرمندگی کے ساتھ اس لیے کررہا ہوں کہ دلیل سے بے دلیل ہوجانے کے باوجود ایسے معاملوں میں ہمارے رویّے کم و بیش وہی مغل اعظم کے سے ہیں۔ دنیا کے کسی کونے سے اعتراض اُٹھے، اس کو ٹھوکر ہم اسی رعونت کے ساتھ مارتے ہیں۔ مگرمیں سوچتا ہوں کہ یہ کیا محض ایک شاعر کی درباری بذلہ سنجی کی بات ہے اور ہم کُل جہاں کہہ کر اپنا دیس مُراد لینا چاہتے ہیں؟ اوراگریہ بات دُرست ہے تو پھر گلوبلائزیشن اور عالم گیر غلبے اوراس کے سامنے ادب کے کردار کی باتیں محض اصطلاحوں کا اُلٹ پھیر ہے۔ ایسے میں گھبرانے کی کیا بات ہے۔ رہیں گے وہی موچی کے موچی، باتی دنیا چاہے گاؤں بن جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ رعونت کے سامنے دلیل ٹھہرتی ہے اور نہ تشویش۔ اسی لیے عالم گیری کے خدشے کی بات کرتے ہوئے میں تشویش سے نہیں رویے سے شروع کروں گا۔ تشویش کے اظہار کے لیے ابھی تو پورا مضمون پڑا ہے۔ رویّے سے بات شروع کریں تو دروں بینی بھی کرسکتے ہیں اور خود احتسابی کی گنجائش بھی رہتی ہے، جس کا نتیجہ خود آگہی اور شعور کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے اور اگرمحض مبتلائے تشویش رہے تو فضا کو ماتم رنگ کردینے سے بڑھ کراور کیا کرسکیں گے کہ اس طرح جذبات بھی آسودہ خاطر ہوسکتے ہیں اور خطابت کی خواہش بھی پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے۔
یوں تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے لیکن جن اِکّا دُکّا مقامات پرایسے معاملوں کا ذکر نکلا ہے، ہماری تنقید اسی مخمصے کا شکار رہی ہے۔ دُنیا تو دو مخالف بلکہ متضاد بلاک کے درمیان بعدِ قُطبین یا Polarization کی پیدا کردہ “سرد جنگ” (Cold War) سے آگے نکل آئی مگرہمارے بہت سے نقّاد چوں کہ اسی ذہنی فضا کے پروردہ تھے، اس لیے وہ وہیں محوِ حیرت بنے کھڑے ہیں اور انہوں نے سرد جنگ کا سارا لفظی گولہ بارود اور Jargon، گلوبلائزیشن کے نام سے موجودہ صورتِ حال پر جاری کردیا کہ اس بہانے ایک جدلیاتی مناقشہ جاری رہے اور نظریے کا جواز نکلتا آئے۔ بغیر ہاتھ میں تلوار لیے، ہروقت لڑتے بھڑتے رہنا بہرحال، لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ضرور ہے۔ جس طرح “سردجنگ” ایک سیاسی اور بین الاقوامی ڈپلو میسی کا شاخسانہ تھی، اسی طرح عالم گیری کا یہ رحجان فی الاصل ایک معاشی Phenomenon ہے اوراس کے عواقب ونتائج کو سرد جنگ کے قطبین کی طرح اچھا اور بُرا کے دو خانوں میں نہ بانٹا جا سکتا ہے اور نہ اِن پرانی اصطلاحوں میں اس کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی معاملے کو ٹھنڈے دِل سے سمجھنے اوراس کے ادبی مضمرات پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا نام آتے ہی مُنہ میں کف لے آنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے، جو ہمارے بیش تر نقّادوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ انگریزی محاورے کے مطابق، حوض میں سے نہانے کا پانی پھینکنے کے ساتھ ساتھ نہلائے جانے والے بچّے کو بھی پھینک دیتے ہیں اورپھر بڑے فخر کے ساتھ سینہ پُھلا کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گلو بلائزیشن جیسے معاملوں میں آپ کے پاس انتخاب کی آزادی موجود ہے!
جتنے منہ اتنی باتیں۔ سمیٹنے کو پوری ایک دُنیا اور ہزاروں طرح کے قصّے۔ گلو بلائزیشن کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ ہم سب اس کی زد پرہیں، کسی نہ کسی شکل میں اس سے متاثر ہورہے ہیں، یہ چُپکے چُپکے ہماری زندگیوں میں سرایت کرکے اِن کے اندر تبدیلی برپا کرڈالتا ہے اور ہمیں پوری طرح اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ آخریہ ماجرا کیا ہے۔ اب تو اس کے بھی ماہرین اور اس میں اختصاص حاصل کرنے والے نمودار ہو گئے ہیں اور کچھ باور کرائے بغیر انہوں نے دفتروں کے دفتر لکھ ڈالے ہیں، لیکن فی الوقت مجھے تو گلوبلائزیشن کی عمومی اور مکتبی تعریف سے سروکارہے اورنہ اس کے خدوخال کا باریکی سے جائزہ مرتب کرنے سے دل چسپی، میں تو محض اتنا جاننا اور سمجھنا چاہتا ہوں کہ گلوبلائزیشن کے اس Phenomenon کے ثقافتی (بلکہ خصوصیت کے ساتھ، ادبی) مضمرات کیا ہیں، ان معاملات سے ادب کی نوعیت اور ماہیت پر بُرا بھلا کیا اثر مرتّب ہوسکتا ہے، پھراس بدلتی ہوئی صورت کے تئیں ادبی تنقید اور ادبی مطالعات کا کیا رویہ ہونا چاہیے اوران حالات میں میں تفہیم و تعیبر کی ادبی جستجو کا فریضئہ منصبی کیا ٹھہرتا ہے۔ مجھے خدشہ یہ ہے کہ اِن پیچیدہ معاملات کو خاطر خواہ حد تک سمجھے بغیر ہم ان کے بارے میں ایک جنگجویانہ اور مزاحمتی (Partisan) رویہ نہ اختیار کرلیں اورحکم صادر نہ کرنے لگیں کہ ادب کو کون سا رُخ اختیار کرنا چاہیے اور تنقید کے اونٹ کو کس کروٹ بیٹھنا چاہیے۔ گلوبلائزیشن کے حوالے سے ہمارے ہاں تنقید کی اگلی صفوں میں کہیں ہلکی پھلکی بے چینی سی اُٹھی بھی ہے تو اس کا محور یہ سوال بن گیا ہے کہ ادب کو کیسا ہونا چاہیے اوران حالات میں ادیب کو کیا لکھنا چاہیے۔ گلوبلائزیشن کے ہوّے سے زیادہ خوف مجھے ادب کے فریضے کی اس نشاندہی سے آتا ہے کہ ادب ایک بار پھر کسی ہدایت نامے کا تابع مہمل بن کر نہ رہ جائے۔ گلو بلائزیشن اگرآزادی اور انتخاب کا معاملہ ہے تو اپنی راہیں اوردریچے کھُلے رکھنے کا یہ حق ادیب کے پاس بھی ہونا چاہیے، ساری دُنیا کا انتخاب۔۔۔۔ فیصلے کے لیے پوری دُنیا۔
ہمارے نقّادوں کو گلوبلائزیشن کے بارے میں نیم رُخ سے دیکھ کر عُجلت میں فیصلہ صادر کرنے کے لیے سہولت کچھ اس وجہ سے بھی میسر آئی ہے کہ یہ سارا معاملہ اپنی اساس میں معاشی ہے، اوراس کے تاثرات کا جائزہ تیار کرتے ہوئے معاشی اصطلاحوں میں گفتگو ناگزیر۔ لیکن یہ گفتگو تمام تران اصطلاحوں پر کاربند نہیں رہ سکتی۔ گلوبلائزیشن میں آخر ایسی کیا طاقت ہے کہ پوری دنیا ایک مٹھی میں بند ہوئی جارہی ہے اوراس کے باسیوں کے لیے سانس لینا دشوار، اس طاقت کی گہرائی کو سمجھنے کےلیے بین الاقوامی تجارتی پالیسی، تجارتی منڈیوں کے رحجانات اوراُتار چڑھاؤ، افرادی قوت اور اجناس کی ترسیل، ملٹی نیشنل اور ٹرانس کارپوریشنز، دور دراز واقع تجارتی مراکز اور غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری سے پیدا ہونے والی اس صورتِ حال کو مدِ نظر رکھنا ہوگا جو گلوبلائزیشن کے فروغ کا سبب بنتی ہے، لیکن ان سے آگے بھی دیکھنا ہوگا۔ گلوبلائزیشن کے بارے میں ایک مختصر، تعارفی کتاب میں مینفریڈ اسٹیگر (Manfred Streger) نے اپنے مطالعے کی بنیاد اس بنیادی اندازے پررکھی ہے کہ گلوبلائزیشن کو سماجی سلسلوں کا ایسا کثیر الجہاتی مجموعہ سمجھا جائے جو کسی ایک موضوعاتی ڈھانچے کا پابند رہنے سے گریزاں ہے اوراسی وجہ سے گلوبلائزیشن میں پنہاں تغیر و تبدیلی کی طاقت، موجودہ سماجی زندگی کے معاشی، سماجی، ٹیکنولوجیکل، ماحولیاتی ابعاد کے ساتھ ساتھ ثقافتی جہت پربھی گہرائی کے ساتھ اثراندازہوتی ہے۔ ایک ابتدائی مطالعے کے طورپر یہ کشادگی اور کھُلے ذہن کا یہ رویہ ہمارے لیے مفید ہوگا۔ ورنہ جہاں تک تعریف متّعین کرنے کی بات ہے تو میری نظرمیں گلوبلائزیشن کی سب سے مکمل وضاحت غالب نے کی ہے – عالم تمام حلقئہ دامِ خیال ہے۔
غالب کے آپ طرف دار ہی کیوں نہ ہوں، گلوبلائزیشن کی مشکلات ایک ڈھیلی ڈھالی اور عارضی سی تعریف متعین کردینے سے بھلا کہیں کم ہوسکتی ہیں؟ متبادل نام وضع کرنے کی کوشش کے ساتھ ہی مشکلات کا اگلا مرحلہ سامنے آتا ہے — گلوبلائزیشن کا مفہوم مختلف لوگوں کے لیے بھلے ہی الگ الگ معنی اور تعبیریں کیوں نہ رکھتا ہو، اس پرسبھی متفق ہیں کہ یہ زندگیوں کو بدل کررکھ دے گا- –کسی اور کی نہیں، ہماری زندگی، ہمارے جیسے لوگوں کی معمولی، بظاہر بے قیمت زندگی جو تبدیلی کے اس برق رفتار اور ہمہ گیر عمل کے لیے خام مواد ہے۔ لہٰذا گلوبلائزیشن کی تعریف وضع کرنے کی ہرکوشش، اس کی تعریف اور نفسِ مضمون کا ایک حصہ ہے۔ گویا یہ کہانی آگے بڑھتی ہے تو اپنے بیان کیے جانے کی ہر کوشش کے اپنے اندر شمولیت کے امکان کے ساتھ۔ اسٹیگر نے اپنی کتاب میں یہ صراحت دیباچے میں ہی کردی ہے، اوراسی لیے مجھے یہ نُکتہ اس تعارفی کتاب کی افادیت میں اہم ترمعلوم ہوتا ہے (متنِ کتاب کے آغاز سے زیادہ مفید، جہاں ابتداء ہی ہوتی ہے اسامہ بن لادن کے ردِ تشکیل (De-constuction) سے یعنی سرمنڈاتے ہی اولے پڑے۔ اوراولے بھی “الجزیرہ نیٹ ورک” کے ٹی وی چینل سے۔ کیا تنقید کے لیے اب اصل حقیقت Virtual Reality ہی ہوگی؟ یہ تعارفی کتاب اس سوال کو حل کرنے میں زیادہ مدد نہیں کرتی، اس لیے میں اس نکتے کو نوٹ کرنے کے بعد میں اسے خیرباد کہہ سکتا ہوں جہاں سے میں نے شروع کیا تھا:
“Globalization contains important discursive aspect in the form of ideologically charged narratives that put before the public a particular agenda of topics for discussion, questions to ask, and claims to make. The existence of these narratives shows that globalization is not merely on objective process, but also a plethora of stories that define, describe, and analyze that very process. The Social forces behind these competing accounts of globalization seek to endow this relatively new buzzword with norms, values, and meanings that not only legitimate and advance specific power interests, but also shape the personal and collective identities of billions of people…”
پڑھتے پڑھتے میں یہاں پہنچ کر رُک جاتا ہوں۔ یہ آئیڈیالوجی کی دہلیز ہے، میں اس مقام کو ٹٹول کر پہچان سکتا ہوں اوراس مقامِ سخت کی وضاحت کے لیے مجھے تعارف نامے کی نہیں، اس میدان کے شہسوار سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے اوراس میں اعجاز احمد کی کتاب کھول کراس کے بھاری بھرکم مقالات کے آخر میں دبی ہوئی ایک مربوط اور قدرے زیادہ کھُلی گفتگو کی طرف دیکھتا ہوں جن میں ایک اچٹتا ہوا حوالہ اس معاملے کا بھی آتا ہے۔ یہ اعجاز احمد کے ادبی مقالات کا مجموعہ نہیں، جس میں فکر سے زیادہ زبانِ مکتب کی پابندی مجھے سہما کر رکھ دیتی ہے، بلکہ سیاسی افکار کا مجموعہ Lineages of the Present ہے۔ جس کو رعب کے مارے اور بھی زیادہ عقیدت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ “سیاسی طورپر دُرست” (Politically Comect) لوگوں میں شمارکیا جاؤں اورجن باتوں کو سمجھنے کی خود اہلیت نہیں رکھتا، ان کے بارے میں مُستند نظرآؤں۔ ثقافت، قوم پرستی اور دانش وروں کے عنوان کے تحت گفتگو کرتے ہوئے وہ ایک سوال کے جواب میں دو ٹوک انداز سے کہہ دیتے ہیں کہ گلوبلائزیشن کا لفظ ہی حد درجے نظریاتی ہے۔ سوتو ہے اوراب بھی اگر واضح نہ ہوا تو پھر کیا بات کیا ہوئی اس لمحہ موجود کے بارے میں، جسے صاحب مکالمہ نے Current historical conjecture کے بھاری بھرکم خطاب سے یاد کیا ہے، اعجاز احمدکا یہ مؤقف بالکل درست ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے (Collapse) کے بعد سے ایک ہی نظام عالمی پیمانے کے لیے رہ گیا ہے، وہ ہے imperialist capital اور باقی ساری دنیا کے لیے عافیت اسی میں ہے کہ اس کو قبول کرلے، اعجاز احمد گلوبلائزیشن کے یک لفظی استعمال میں پنہاں دھمکی کو بے نقاب کر دیتے ہیں اوراس کے ساتھ ان تمام لوگوں کو بھی جو گلوبلائزیشن کے نام پر خوشی کے شادیانے بجانے لگتے ہیں۔ ہم چوں کہ اس کی فیوض و برکات کے مارے ہوئے لوگ ہیں، اوردریا کے بہاؤ کے ساتھ بہے چلے جارہے ہیں، توہم بھی “ہزماسٹرز وائس” کے موجب یہی راگ الاپنے لگے ہیں۔ ہمارے جیسے لوگوں کے لیے عالم گیر تبدیلیوں کا یہ امکان بڑی حد تک ناگزیر ہے تو اس عمل کے موئدین جمہوریت، فری مارکیٹ اور انفارمیشن ٹیکنولوجی کے بے پناہ فروغ کے گُن گاتے ہیں مگرہمیں اندیشہ ہے تو اس عمل کے قلب میں واقع انسانی جوہر سے جو محابا قوتوں کے دباؤ میں آکر مٹ بھی سکتا ہے۔ ادب کی اساس ہے تو اسی جوہر سے، جو دلائل کے زورو شور میں کہیں فراموش ہوکر رہ جاتا ہے۔ خود اعجاز احمد کے یہاں یہی صورتِ حال درپیش آتی ہے جب وہ اس اصطلاح کو یوں کھولتے ہیں:
“…. The term (globalization) refers to tremendous mobility of capital and commodities, the increased role of export/import trade in national accounts, the power of communicational and transport technologies with unparalleled global reach, the enormous power of finance capital and speculation over and above industrial capital across national frontiers, the ability of new and centrally produced cultural commodities to bypass national apparatuses of education and information through telecasting and information highways, the rise of production and management systems in which the production process itself can be fragmented and located in different countries and/or quickly moved from one to the other, and so on.”
اس اقتباس میں زبان بھی قابلِ توجہ ہے – عجیب طرح سے ناموس اور چمک دار تصورات کی بھرمارےسے چکاچوند کردینے والی – ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ تعریف وضع کرنے کی ہرکوشش بھی اسی تعریف کے اجزاء میں شامل ہے، یعنی عناصر میں ظہورِ ترتیب عین داستان ہے۔
گلوبلائزیشن کے لفظی مضمرات بیان کرتے ہوئے اعجاز احمد نے تیسری نشان دہی، استعمار کی نئی شکل کے بارے میں کی ہے کہ یہ اصطلاح اس بات کو بھی پردہ اخفا میں رکھے ہوئے ہے کہ مٹھّی بھر ادارے – اعجاز احمد نے اپنی ناقابلِ تقلید طلاقتِ لسانی میں انہیں “ Imperialist institutional arrangements” قراردیا ہے۔ جیسے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، جی اے ٹی ٹی وغرہ ہم ہمارے جیسے بے دست و پا ممالک میں قومی پالیسیاں مُتعین کررہے ہیں۔ اعجاز صاحب نے اس کی مزید وضاحت ضروری نہیں سمجھی لیکن بات واضح ہے کہ پالیسی بنانے کے قومی عمل میں کم زوری اور اندرونِ ملک سیاسی عمل کے نڈھال ہونے کی وجہ سے نہ صرف ان دیوآسا اور دور سے پہچانے جانے والے اداروں کو کھُل کھیلنے کی چھوٹ مل جاتی ہے بلکہ خالصتاً تجارتی و منفعت بخش مقاصد کے لیے کام کرنے والی ملٹی نیشنل کارپوریشنز کو بھی کھُلم کھلا اجازت مل جاتی ہے کہ دستور، قوانین و روایات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں اورجب جی چاہے توڑ مروڑ بھی لیں کہ سیّاں بھئے کوتوال، اب ڈرکا ہے کا۔ جس چوتھے عنصر کی طرف اشارہ اعجاز احمد نے کیا ہے، وہ بھی اس سے مُنسلک ہے، اور وہ ہے کہ تمام تر پروڈکشن میں سرمایہ داری سرایت کرجائے گی اوریوں عالمی منڈی کی معیشت حاوی ہوتی جائے گی۔ سواب یہی رنگ ڈھنگ ہے دُنیا کا، اورہمارے لیے یہ حکم کہ جو یہ دِکھلائے سونا چار دیکھنا۔
دُنیا کا رنگ ڈھنگ رہے سورہے، اس بڑھیا کی طرح جس نےراجہ کے محل کے گرنے کی خبرسُنتے ہی اپنے برتن بھانڈے سنبھالنے شروع کردیے تھے، ہمیں تویہ فکر لاحق ہے کہ ان اندھی اور بے محابا طاقتوں کی زرپرآئی ہوئی دُنیا میں ادب کا نقشہ کیا رہے گا۔ مگرکوئی اس سوال کا جواب بھی کیسے دے کہ نہ تو ہمارے پاس بلوریں گیند ہے اور نہ جام جم کہ مُستقبل کا احوال بیان کرسکیں۔ ہم اپنے لمحہ موجود کا نقشہ بھی سمجھ سکیں تو ہمارے لیے یہ بہت ہے کہ اس کی اپنی مشکلات بھی کم نہیں اور ذراسی بات پر ہم حال سے بے حال ہوسکتےہیں۔ ایسی کسی صورتِ حال کا ادب پرکیا اثر مرتّب ہوگا، اس کے بارے میں اندازہ لگانا یوں اوربھی مشکل ہے کہ ادب کو براہِ راست ایسے کسی Phenomenon کا نتیجہ قرار دینا گویا ہردور میں Cause اور Effect کا رشتہ ہے، ایسی سیدھی بات بھی نہیں ہے۔ گلوبلائزیشن سے جو تبدیلیاں متّوقع ہیں، ان میں سب سے بڑی تبدیلی، ایک اندازے کے مطابق، لوگوں کے خیالات اورخوابوں میں ہے۔ یہ اندازے ظاہرہے کہ گلوبلائزیشن کے حامی ہی لکھتے ہیں۔ خیالات کی تبدیلی سے پہلے ہمیں لوگوں کے مطالعے میں تبدیلی نظرآنا شروع ہوئی ہے۔ تبدیلی کی یہ شکل اس طورنظرآتی ہے کہ ایک اہم کتاب دنیا کے ایک کونے میں لکھی جاتی ہے تو پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ دوسری زبانوں اور دوسرے ملکوں میں پہنچ جاتی ہے۔ لاطینی امریکا میں تخلیق ہونے والا ناول – مارکیز، فیونتیسس، ماریوبرگس یوسا جس کے اہم اور مستند نام ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ساری دُنیا میں پڑھا جاتا ہے، حد تو یہ ہے کہ اُردو کے نقّاد بھی اس سے آنکھیں چُرا نہیں سکتے۔ یہ عمل بھی مارکیٹ اکانومی کی شرائط سے آزاد نہیں اور تجارتی مقاصد ادب کو بھی یکے از اشیائے صرف تبدیل کرکے اس کے Commodification کی کوشش کرتے ہیں اور میڈیا اپنے مقاصد کے لیے ادب کو بھی خام مواد کے طورپر برتنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوتا نظرآرہا ہے۔ لیکن جو چیز ہمیں پہلے پہل دلکش معلوم ہوتی ہے، وہ اہم ادب کا بڑھتا ہوا دائرہ کارہے کہ وہ اپنی زبان اور ملک کے علاوہ عالم گیر شہرت بھی رکھ سکتا ہے۔ یہاں مناسب ہوگا کہ شہرت و اثر بلکہ فروخت کے اس دائرے کو اس پُرانے تصّور سے الگ کرکے دیکھا جائے جسے گوئٹے نے “عالمی ادب” (Weltliteratur) قراردیا تھا، جو اس کے تصور کے مطابق ایک آفاقی صورت تھی اور قومی و ملکی ادبیات کے چھوٹے چھوٹے دائرے اس میں ضم ہوکرایک بڑے کُل کا حصہ بن گئے تھے۔
عالمی پیمانے پر مصنوعات کے اس فروغ کو (جس میں ادب کے بھی شامل ہوکر محض ایک خریدی جانے والی چیز بن جانے کا خطرہ بڑی حد تک قرینِ قیاس ہے) بعض تجزیہ نگاروں نے Disneyfication or Mc Donaldization کے دِل چسپ مگر عبرت خیز ناموں سے پکارا ہے کہ یہ رُحجانات ایک ایسی صورت کی طرف لیے جارے ہیں جہاں سبھی ایک جیسے کپڑے پہنیں گے (جینز) ایک چیز کھانے کھائیں گے ( پیتزا اور برگر)، ایک جیسی فلمیں دیکھیں گے (والٹ ڈزنی، ہالی وڈ) ایک جیسی موسیقی پر تھرکیں گے اور جھومیں گے (پاپ میوزک) اورپھر ایک جیسی کتابیں پڑھنے لگیں گے اوروہ بھی ایک ہی زبان میں۔ گلوبلائزیشن کا یہ ایجنڈا ظاہر ہے کہ امریکا بہادر طے کرے گا، اسی لیے بعض تجزیہ نگاروں نے گلوبلائزیشن کو فی الاصل “امریکنائزیشن” قراردیا ہے۔
مستقبلِ قریب کی اس یک رنگی کے راستے میں جو رکاوٹ ہے، اسے بعض تجزیہ نگاروں نے دو مختلف رحجانات کے درمیان ایک کشمکش کے طورپر دیکھا ہے۔ گلوبلائزیشن کے مقبول عام نظریہ سازوں میں سے ایک مقبول ترنام ( یہ کام بھی اب ایک کاٹیج انڈسٹری کی حیثیت اختیار کرگیا ہے) بنجمن باربر (Benjamin Barber) کا ہے جنہوں نے ان دو مخالف عناصر میں سے پہلے کو “جہاد” کا نام دیا ہے اور دوسرے کو “میک ورلڈ” (Mc World) کا۔ جہاد کا لفظ اب اپنے انگریزی استعمال میں ایک خالص سیاسی معنویت اختیار کرگیا ہے مگرباربر نے اس سے مراد لی ہیں روایتی اقدار اور محض اسلام ہی ہیں بلکہ ہروہ تحریک جس کے مرکز میں روایت موجود ہے اورجو گلوبلائزیشن کی اس یورش کی مخالف ہے جسے وہ میک ورلڈ کہہ کر پکارتا ہے اور جو گلوبلائزیشن کی “سیاست دشمن صفت” ہے، جس کے دائرہِ انتظام و انصرام میں صرف چیزوں کا ہی نہیں لوگوں کا انتظام بھی اہمیت رکھتا ہے اورجس میں باربر کو یہ مثبت پہلو نظرآتا ہے کہ مارکیٹ کی قوتیں آخرکار امن و استحکام کو فروغ دیتی ہیں، فرقہ واریت و عصبیت اور جنگ کی دشمن ہیں۔ باربر کا یہ تجزیہ گلوبلائزیشن کے حامیوں کو پسند آتا ہے، بس اس میں قباحت یہ ہے کہ یہ ایڈورڈ سعید کے الفاظ میں، بہت Sweeping ہے۔ ایڈورڈ سعید نے اپنے ایک لیکچر میں یہ نکتہ بھی اُٹھایا ہے کہ عربی نہ جاننے کی وجہ سے ایسے تجزیہ نگار یہ نہیں سمجھ سکتے کہ “اجتہاد” کی اصل بھی وہی ہے جو آجکل مغرب کے بدنام لفظ “جہاد” کی ہے اور جہاد کا تعلق حق اور روحانیت سے بھی ہے۔ لفظوں کے استعمال میں غلط فہمی اور اصل معنویت تک رسائی، یہ ہے اسلامی ممالک اور یوروپ و امریکا کی سیاسی برتری کے خواب کے درمیان اس کشمکش کی جڑ جس نے آج ہماری دنیا کو ایک عالم گیر خطرے سے دوچار کیا ہوا ہے، اور جو گلوبلائزیشن کو فوراً سمجھ میں آنے والی شکل ہے، جس سے ہم سبھی واقف ہوچکے ہیں کہ اس سے ہمیں آج کے تیز رفتار میڈیا نے واقف کرایا ہے۔
یہاں تو ٹھیک، لیکن اب اس سے آگے جاکر دیکھنا چاہیے۔ بڑے بڑےمعاشروں پر اثرات (جن کی شکل سیاسی اور معاشی ہے) سے آگے بڑھ کر میں افراد اور انفرادی زندگیوں پران کے اثرات کو سمجھنا چاہتا ہوں جو ادب کا موضوع بھی ہیں اور محرک بھی۔ انفارمیشن کے بے تحاشا چینلز کھُل جانے اور میڈیا کی بھرمارنے انفرادی شناخت کی فصیلوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ وہ گروہ مذہبی ہوں یا ثقافتی، اِن کی بنیاد عقیدے پر ہویا بولی جانے والی زبان، پر، ان سے وابستگی اور پیوستگی اب اتنے مضبوط رشتے نہیں رہے۔ مارکیٹ اکانومی کی قوتیں ان کو اپنے تُند بہاؤ میں ساتھ لیے جاتی ہیں۔ اپنے فطری ماحول سے جُڑے رہنے اور نت نئے شناخت نامے تخلیق کرتے ہوئے رشتے ناتوں کی بھی اپنی ایک کہانی ہے۔ ماحول کے ساتھ ساتھ رشتے ناتے بھی بدل رہے ہیں۔ تعلق کی شکلیں بھی اور خود ماحول کے دوسرے اجزاء بھی۔ نئے سماجی Process سے متاثر ہوکر تبدیل ہونے والے سماجی منظر کی الگ ایک کہانی ہے۔ یہ کہانی سماج میں بھی جاری ہے اوراس سماج کے مرکز میں موجود آدمی کے باطن میں بھی۔ اسی کہانی سے گلوبلائزیشن کا عمل ادب کا موضوع بنتا ہے اور افسانوں کو جنم دیتا ہے۔ اس لحاظ سے اگردیکھا جائے تو جوں جوں گلوبلائزیشن کا یہ عمل تیز ترہوتا جائے گا، کہان کی افادیت بڑھتی جائے گی کہ لوگ اس میں اپنی باقی ماندہ زندگیوں کی معنویت بھی تلاش کریں گے اور کہانی کے تاروپود میں اپنے سماجی تفاعل اور ثقافتی ورثے کے وہ حصے بھی محفوظ کریں گے جو ان کو قابل قدر معلوم ہوں گے۔ گلوبلائزیشن کا یہ عمل ساری دُنیا کو ایک کیوں نہ کردے، کہانی کی گنجائش اپنی جگہ باقی رہے گی۔
اس عالم گیرافسانے میں ہماری اپنی کہانی کی کیا حیثیت ہوگی؟ کیا اردو افسانہ شناخت و کشمکش کا یہ بار اُٹھا سکے گا؟ کیا اس کشمکش کو اپنے اندر منعکس کرسکے گا؟ گلوبلائزیشن کی یلغار میں آدمی پر جو کچھ گزرے گی، حالات و واقعات جس طرح فرد کی سائیکی پراثرانداز ہوں گے، اس کے پیکر تراش سکے گا؟ آج ہمارے افسانے کو اس عہد کے تخیلقی چیلنج کا سامنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس تخلیقی ذمہ داری سے کس طرح عہدہ برآہوتا ہے۔
اس تخلیقی ذمہ داری کی عکاسی کے حوالے سے مجھے افسانے کے بعد اُردو کی جو ادبی صنف اہم معلوم ہوتی ہے، وہ غزل ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ غزل کے دو مصرعے اپنے اندر جہانِ معنی کو سمیٹ لیتے ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ مارکیٹ اکانومی اور ذرائع ابلاغ کی یلغار جیسی غیرشخصی قوتیں جوں جوں لوگوں کی تقدیروں پراثرانداز ہونے لگیں گی، کلاسیکی روایت کی پاس داری میں بجائے خود ایک قدر اوراپنی اپنی ریزہ خیالی کے اظہار کے لیے ایک ادبی پیکر کی ضرورت کا احساس بڑھتا جائے گا۔ غزل کی صنف دونوں صورتوں میں ایک مفید اور معنی خیز صنف معلوم ہوگی۔ صرف یہی نہیں کہ غزل کا شعری استعمال بڑھتا جائے گا بلکہ غزل کی ضرورت بھی بڑھتی جائے گی۔ لیکن یہ لازمی نہیں کہ غزل کی ضرورت کا یہ بڑھتا ہوا احساس ادب میں بھی ڈھل جائے۔ شاعروں کی بڑھتی ہوئی تعداد، شاعری کے معیار کی ضمانت نہیں بن سکتی۔ اچھی شاعری اب بھی اسی قدر دشوار اوراتنی ہی کم یاب ہے جتنی کی متقدمین اور متوسطین کے دورمیں تھی۔ کلاسیکی روایت سے دوری، فنی ریاضت میں کمی اور زبان کے پھوہڑ استعمال کے سبب یہ بھی عین ممکن ہے کہ فراوانی کے باوجود یہ شاعری وہ درجہ نہ حاصل کرسکے جس پراس کے شیدائی اسے فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہوا کہ شاعری میں ہُنر مندی کے بجائے لپّاڈگی نظرآنے لگے۔ ہمارے دورمیں ظفراقبال کی شاعری کے ان گھڑ مقّلدین کا سیلاب ایسے بہت سے خطروں کی جانب اشارہ کررہا ہے۔
غزل کی مقبولیت اپنی جگہ، لیکن اس صنف کی افادیت اور معنویت کو بار بار کھنگالنے اور اس کی تفہیم و تعبیر کرتے رہنے کی ضرورت بھی مسلسل رہے گی۔ اسی طرح افسانے کو بھی ہمیں ایسے ہی معیاروں سے جانچنا ہوگا جو نقادوں کی دادو تحسین کے شعور کے باوجود، سطحی، یک رُخی اور سپاٹ نہیں ہوں گے۔ اب یہ کافی نہیں کہ سینے فخر سے پھُلا کر بلند وبانگ اعلان کیے جائیں (جس طرح ہمارے ناقدینِ کرام کرتے آئے ہیں) کہ اب اُردو افسانہ “عالمی سطح” پر (جو کچھ بھی وہ ہوتی ہے) پہنچ گیا ہے۔ نقادوں کی ناواقفیت کے علاوہ، یہ عالمی سطح جس چیز کا Euphemism ہے، وہ اپنی اصل میں کس قدر ہولناک ہوسکتی ہے، اس کا کچھ اندازہ گلوبلائزیشن پراس ابتدائی گفتگو سے بھی ہوسکتا ہے، جس کا دائرہ فی الوقت محدود ہے۔ مزید برآں، اس “عالمی سطح” (اگریہ کوئی مرئی وجود رکھتی ہے) تک رسائی، وہ محاورے والی دھیّا چھونے کی طرح محض ایک بار کا عمل تو نہ ہوگا۔ اس “سطح” تک پہنچ کر یہاں کسی Sustained Performance کی توقع بھی ہے اوراُردو افسانے کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایسی کسی کارفرمائی کے آثار مشکل سے ہی نظرآتے ہیں۔
افسانے اور غزل کا نام لیتے رہنے سے گلو بلائزیشن کا عُقدہ حل نہیں ہوتا نظرآتا۔ ادب کی مخصوص اصناف ایک طرف، رحجانات کا یہ دائرہ چند ایک زبانوں کے اندر دُنیا کی اکثر و بیش تر زبانوں کو سمو لینے پرکارفرما نظرآتا ہے کہ ایک عالمی معیشت کے لیے ایک عالمی کلچر اوراس کلچر کی ایک عالم گیرزبان۔۔۔۔۔ اور ادب کو اس صورتِ حال سے سمجھوتا کرکے رہنا ہوگا۔ گلوبلائزیشن کے اندر خطرے اس وقت مُضمر ہیں کہ ادب کو پہنچنے والی ممکنہ گزند کی طرف کم ہی تجزیہ نگاروں کا دھیان جاتا ہے۔ وہ تھامس فریڈ مین جیسے گلوبلائزیشن کا جشن منانے والے مُبصّر ہوں یا جارج سوفرز جیسے سیاسی و معاشی تجزیہ نگار، ان کے یہاں گلوبلائزیشن ایک دوسرے پراثرانداز ہونے والے مختلف عناصر و معاملات کے ایک انتہائی مظہر کے طورپر سامنے آتا ہے جس کے اثرات کا جدول بنانے سے پہلے اسے ادراک و احساس کا حصہ بنانا ہوگا اور یہ کام ہماری زبان و تہذیب کے منطقے میں ابھی ڈھنگ سے آغاز بھی نہیں ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ Phenomenon اس وقت کا انتظار نہیں کریں گے کہ جب تک ہمیں انہیں سمجھنا شروع کریں۔ اس سے پہلے کہ ہمیں یہ مہلت ملے، یہ ہمیں اپنے تصّرف میں لا چکے ہوں گے۔ ایسی صورتِ حال میں ہم کیا لائحہ عمل اختیارکرسکتے ہیں، زبان و ادیب کیا کرسکتے ہیں اوراس سوال کے پس منظر میں ایک اور سوال کہ ادیب کو آخرکیا کرنا چاہیے۔
تمام نا ممکن سوالوں کی طرح یہ سوال بھی بظاہر بہت سادہ ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسے ہی سوالوں کا جواب تلاش کرنے میں ہماری زندگی بیت جائے گی اور عمر بھر کی ریاضت کے بعد بھی ہم اس سوال کے حل کے قریب تک نہیں پھٹکیں گے۔ یہ سوال ہی ہمارا مقّدر ہیں۔ بہرحال، اس سوال پر جو بات فوری طورپر میرے ذہن میں آتی ہے وہ یورپ کی گرین پارٹی نامی سیاسی جماعت کا نعرہ ہے۔
Think globally, act locally
اس نعرے پر مجھے اپنے بہت پسندیدہ افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کی ایک بات یاد آرہی ہے جو انہوں نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران کہی تھی۔ بیدی گلوبلائزیشن کی اس روش سے پہلے کے لکھنے والے تھے مگران کی بات آج بھی برمحل اس لیے معلوم ہوتی ہے کہ اُردو کے ثقہ نقّادوں کے برخلاف وہ اپنے کلیدی مضمون “افسانوی تجربہ اور اظہار کے تخلیقی مسائل” میں “عالمی سطح” اوراس تک رسائی پر داد کے ڈونگرے برسانے کے بجائے “عالمی پیمانے” کو حوالہ بناتے ہیں۔ مغرب لکھے جانے والے افسانے سے استفادہ کرنے میں کوئی عارنہ ہونےکا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
“افسانے کے فن کو چھوڑیے، کسی بھی فن کو جانچنے، پرکھنے کے لییے عالمی پیمانے پراسے جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں کوئی علاحدگی (Isolation) نہیں ہیں، ملکوں اور قوموں کی حدیں نہیں ہیں۔ بہ شرطے کہ آپ منٹو کو موپساں اور مجھے چیخوف کے نام سے نہ پکارنےلگیں۔۔۔۔۔”
یہ یقیناً ممتاز شیریں ایسے نقادوں پرچوٹ ہے لیکن بیدی کے اس بیان میں ہم دبے پاؤں گلوبلائزیشن کی دہلیز تک پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ایک حل تجویز کیا ہے۔ یونس اگاسکر اور دوسرے ادیبوں سے گفتگو (مشمولہ “باقیاتِ بیدی”) کرتے ہوئے وہ بالکل غیررسمی انداز میں اس موضوع کی طرف آتے ہیں:
“اثر قبول کرتے ہیں بھئی،ا وراثر قبول کیوں نہ کریں۔ اثر قبول کرنا بھی چاہیے بین الاقوامی ادب کا۔ انگریزی میں کہتے ہیں:
Art has got to be international in form and national in content.
تو فارم آپ کہیں سے بھی لیجیے وہ نقّالی نہیں ہوگی بلکہ آپ کو لینی چاہیے۔ ڈرما کیسے لکھنا ہے، یہ شیکسپیئر کو پڑھے بغیر جاننا ممکن نہیں ہے۔ فارم آپ لیجیے لیکن Content آپ کا اپنا ہو۔۔۔۔”
بیدی کی یہ ذہنی کشادگی مجھے بہت اہم معلوم ہوتی ہے اور بجائے خود ایک جواب، اگرچہ اس سے ایک اور سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ کیا فارم اور Content، ہیئت اور مواد میں اس طرح تفریق کی جا سکتی ہے اور کیا ایک کے اندر دوسرا مُضمر نہیں ہے؟ ایک عُنصر کے دوسرے سے نمودار ہونے کے اس مسلسل عمل کو شاید ہمیں اب ازسرِ نو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ سوال ہو یا اس جیسا کوئی اور، سارے سوال بہت گھمبیر ہیں۔ لیکن لکھنے والا ان پر بساط بھر غور کرنے کے علاوہ اورکربھی کیا سکتا ہے؟ میرے حساب سے تو یہی غنیمت ہے۔ ادیب کے فرض ِ منصبی کی بات کرتے ہوئے میں اسی کو بہت سمجھتا ہوں۔ کسی بھی ادیب کا فرض اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے تجربے کی بنیاد پرزندگی کی حقیقتوں کو بیان کرے اوراپنے ضمیر کی آواز کے تحت لائحہ عمل اختیار کرے۔ لکھنے والے کا کام بس اتنا ہے اور یہ اتنا بھی بہت۔ اس سے بڑھ کر کوئی حکم لگانےیا فیصلہ صادر کرنے کا مجاز کوئی نہیں، سوائے خود اس ایک ادیب کے جو اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے لیے فکرو عمل کا مؤقف اختیار کرے۔ یہ روّیہ ایک فرد کی حیثیت میں ادیب کا اختیار ہے لیکن جہاں تک ادیب(اور یہاں مجھے اصطلاحی معنوں والے ‘دانش ور’ کا نام لینا چاہیے) کے اجتماعی اور پبلک رول کی بات آئے گی، اس کے لیے میں ایڈورڈ سعید کا حوالہ دینے پر اکتفا کروں گا۔ ایڈورڈ سعید کا حوالہ یوں بھی برمحل ہے کہ وہ وجودی صورتِ حال میں براہِ راست سیاسی مداخلت کے نظر انداز کیے جانے کو مُضر بلکہ بلکہ مُہلک سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک ہم میں سے ہرایک اپنے اپنے طورعالمی نظام کا خاکہ یا سمجھ بوجھ لیے گھومتا رہتا ہے لیکن اس سے براہِ راست آمنا سامنا ہونے پرہی کشمکش، دارو رسن کی آزمائش بنتی ہے اورفتح کے آثار نمایاں ہوتے نظرآتے ہیں۔ اپنی مختصر سی مگربڑی بلیغ آخری کتاب Humanism and Demoratic Criticism کے آخری خطبے میں وہ جدوجہد کی وہ تین مثالیں پیش کرتا ہے۔
پہلی جدو جہد ماضی کو محفوظ کرنے کے لیے ہے۔ تیز رفتار تبدیلی، روایت کی ازسرِ نو تشکیل اور تاریخ کو بدل کراپنی پسند کے مطابق ڈھال لینے کی کوششوں کے برخلاف ماضی کو محفوظ رکھنےاوراسے غائب ہونے سے بچانے کی جدو جہد کا سلسلہ وہ “جہاد” اور “میک ورلڈ” کی دو طرفہ مخاصمت سے جوڑ دیتا ہے۔ اس نے لکھا ہے:
The intellectual’s role is to present alternative narratives and other perspectives on history than those provided by combatants on behalf of official memory and national identity and mission.
ماضی کی بازیافت معاصر اُردو افسانے میں ایک معتبر حوالہ بن کر کارفرما رہی ہے جس میں قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کے نام فوراً ذہن میں آتے ہیں کہ یہ روّیے ان سے منسوب رہے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کی فنی دل چسپیوں کا دائرہ خاصا وسیع ہے لیکن خاص طورپر انتظار حسین کے ہاں ماضی کے ایک مترادف اورآزاد خیال بیانیے کے طورپر اُبھرسکنے کا امکان ایک انکشاف بن کر سامنے آتا ہے اوریہ انکشاف افسانے کے اندر ہی تشکیل پاتا ہے۔ اسی لیے مجھے ان کا افسانہ آزادی بخش اور بسا اوقات Heroic بھی معلوم ہوتا ہے۔
دوسری جدوجہد ایڈورڈ سعید کے مطابق، دانش ورانہ مشقت کے نتیجے کے طورپر میدان جنگ و جدل کے بجائے Fields of co-existence کی تعمیر ہے۔ تیسری مثال اس نے فلسطین کی پیش کی ہے، جو اس کے حافظے اوراس کی پوری فکری دُنیا کا محور ہے، بے دخلی کا شکار اورایک فریب خوردہ عالمی سلسلے کے پیدا کردہ معاہدوں اورامن منصوبوں کا مارا ہوا۔ فلسطین کے لیے اس کی بے قراری کیا اپنا کھویا ہوا گھر دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش ہے؟ لیکن اسی خطبے کے آخرمیں اسے فن کار کا گھر بھی عارضی نظرآتا ہے، تسلی و پناہ سے دور:
The intellectual’s provisional home is the domain of an exigent, resistant, intransigent art into which, alas, one can neither retreat nor search for solutions.
گلوبلائزیشن کی ماری ہوئی دُنیا میں ادیب کے لیے بس ایسے عارضی گھرکی تعمیر ہے جہاں اسے معلوم ہے کہ کسی سوال کا جواب نہیں ملے گا، گلوبلائزیشن کے سوال کا نہیں جو ایک بلا بن کربستی بستی گھوم رہا ہے اورکوئی دن جاتا ہے کہ اس کی دستک ہرگھر کے دروازے پر گونج اُٹھے گی۔