Laaltain

یومِ نجات

17 فروری، 2016
زندگی اس جوتے کی مانند ہے جو ایک انسان کو صرف ایک بار ہی ملتا ہے، اسے واپس یا تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور ضروری نہیں کہ یہ انسان کی پسند کا بھی ہو۔ بس مل گیا تو مل گیا، اب اسی کو پہننا ہے۔ ہاں شکایت تو کی جاسکتی ہے کہ یہ مجھے لگتا ہے، سائز میں چھوٹا ہے مگر اس کا کوئی حل نہیں نکالا جاسکتا۔ پاﺅں زخموں سے چُور ہوتے ہیں تو بھلے ہوں آپ کے پاس دوسرا کوئی انتخاب نہیں ہے۔ بس جو ہے اسی کو پہنے جاﺅ اور بنانے والے کی تعریفوں کے گن گاتے رہو جس نے تمہیں اتنی ’حسین‘ نعمت سے نوازا ہے۔ اور ہاں اپنی مرضی سے آپ اس جوتے کو اتار کے پھینک بھی نہیں سکتے۔ پاﺅں چُور چُور ہیں مگر آپ نے بدستور یہ بوجھ اٹھانا ہے اور تب تک گھسٹتے گھسٹتے چلتے رہنا ہے جب تک بنانے والا جوتے واپس لینے پر تیار نہیں ہوجاتا۔

 

اپنی مرضی سے آپ اس جوتے کو اتار کے پھینک بھی نہیں سکتے۔ پاﺅں چُور چُور ہیں مگر آپ نے بدستور یہ بوجھ اٹھانا ہے اور تب تک گھسٹتے گھسٹتے چلتے رہنا ہے جب تک بنانے والا جوتے واپس لینے پر تیار نہیں ہوجاتا۔
اکثر لوگ یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ جوتا ان کے ناپ کا نہیں ہے، کاٹتا ہے، تکلیف دیتا ہے مگر کیا جاسکتا ہے لاکھ باتیں بنا لیں اصل اختیار تو بس بنانے والے کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہے گا تو آزادی ملے گی اور جب چاہے گا تب ملے گی۔ مُکتی دینے والا صرف وہی ہے۔ اپنے ہاتھوں سے جوتا اتارنے والے بھی سن لیں کہ ایسا کرنے میں تکلیف بھی زیادہ ہوگی اور پھر جوتے تیار کرنے والی فیکٹری کے مالک نے بھی ڈرایا ہوا ہے کہ میرا دیا ہوا جوتا میری مرضی کے بغیر اتار کے پھینکا تو سخت سزا ملے گی۔ اس مالک کے بارے میں سب سے کمال کی بات یہ ہے کہ اسے کبھی کسی نے دیکھا نہیں ہے مگراس کے احکام سینہ بہ سینہ چلتے رہتے ہیں اور ہر زمانے میں وہ اتنا ہی باخبر ہے جتنا پہلے دن تھا۔ مگر نہ جانے سامنے نہ آنے میں کیا مصلحت ہے۔ کبھی تو دیکھتا کہ اس کے بنائے ہوئے بن ناپ کے جوتے کس قدر تکلیف دیتے ہیں۔ لیکن سنا ہے وہ سب دیکھتا ہے۔ وہ سب دیکھتا ہے تو یہ حال ہے اللہ جانے وہ نہ دیکھتا ہوتا تو لوگوں کا کیا ہوتا!

 

اس مالک سے ڈرتے ہوئے اور اس کے غضب سے خوف کھاکر ہر جگہ فلاح انسانیت کے ٹھیکے داروں نے ہرکارے تعینات کر رکھے ہیں جو اس بات کی نگرانی کرتے ہیں کہ کوئی اپنی مرضی سے یہ جوتا نہ اتار سکے۔ ایسی کوشش کرنے پر سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ ایک عام آدمی اکثر سوچتا ہے کہ ایسا پنجر جس میں سرے سے پاﺅں اٹھانے کی بھی ہمت نہیں ہے وہ جوُتا کیونکر اور کیسے اٹھائے گا۔اسے اتار کے پھینک دینا چاہیئے مگروہ سوچتا ہے ان دیکھی سزا سے بہتر ہے دیکھی سزا ہی بھگت لیتے ہیں۔

 

خوف سے بھرے اس ماحول میں اگر کسی نے ہمت کر کے یا یوں سمجھ لیجئے کہ ہمت ختم ہونے پر اپنے آپ کو اس قید سے آزاد کرا لیا تو اس کی مثالیں اس طرح دی جاتی ہیں؛ فیکٹری مالک آزاد ہونے والے شخص کو آگ کے بڑے ڈھیر میں پھینکے گا، کوڑے مارے گا، ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سن کر ایک مرتبہ پھر زندہ رینگنے والے لوگ آزادی سے نفرت کرنے لگتے ہیں، ان دیکھی سزا کا خوف ان پر حاوی ہوجاتا ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ بھائی لوگ فلاح اسی میں ہے کہ رینگتے رہو مگر شکایت نہ کرو کیونکہ شکایت کرنا تو ناشکروں کا کام ہے۔ اس کا احسان مانو اور آئندہ ایسی آزادی کی خواہش اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دینا۔

 

یہ سن کر ایک مرتبہ پھر زندہ رینگنے والے لوگ آزادی سے نفرت کرنے لگتے ہیں، ان دیکھی سزا کا خوف ان پر حاوی ہوجاتا ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ بھائی لوگ فلاح اسی میں ہے کہ رینگتے رہو مگر شکایت نہ کرو کیونکہ شکایت کرنا تو ناشکروں کا کام ہے۔
بعض پاﺅں میں تو جوتا اس بُری طرح سے چُبھ رہا ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کا بے اختیار جی چاہتا ہے وہ اسے اتار پھینکے اور اپنے ساتھی کو اس عمر قید سے آزاد کرا دے تاکہ پہلی بار اپنی مرضی سے ایک آزاد پنچھی کی مانند کھلے آسمان میں غوطے لگا سکے۔ ایک عام آدمی یہ سب کچھ دیکھتا اور محسوس کر لیتا ہے مگر حیرت ہے فیکٹری مالک اس سے مکمل غافل رہتا ہے۔ ترجیحات کا بھی تو فرق ہوتا ہے نا، ہوسکتا ہے وہ کہیں دوسری جگہ مصروف ہو!

 

ایسا کوئی یقین سے تو نہیں کہہ سکتا مگر امکان ہے کہ کسی روز جب یہ فیکٹری کسی عام آدمی کے ہاتھ میں آئے گی تو وہ سب سے پہلے پرانے مالک کو کٹہرے میں لاکھڑا کرے گا اور اس کے ہاتھوں کیے گئے مظالم کا حساب ضرور مانگے گا۔ نئے مالک کے ساتھ ہی ایک تبدیلی یہ بھی آئے گی کہ جوتا صرف اسی کو پہنایا جائے گا جو اس کی خواہش ظاہر کرے گا۔ ٹھیک ٹھیک ناپ والے جوتے تیار کئے جائیں گے اور جوتوں کی بے دریغ پیداوار کی بجائے صرف اتنے ہی جوتے تیار ہوں گے جتنے پیروں کی بعد میں خبربھی رکھی جاسکے۔ یہ جوتے پہننے والا کوئی پاﺅں بے آسرا نہیں چھوڑا جائے گا۔

 

اس کے بعد جوتے مرمت کرنے کے لئے جگہ جگہ ڈھیروں مراکز کھولے جائیں گے جہاں صرف عام آدمی کو بیٹھنے کی اجازت ہوگی۔ پرانا مالک یا اس کا کوئی وفادار ان مراکز کے قریب سے بھی نہیں گزرے گا۔ کسی کے جوتے میں تھوڑی بہت گنجائش ہوتی ہے تو ان مراکز سے ٹھیک کروائے جا سکتے ہیں اور سب سے خوش آئند تبدیلی یہ آئے گی کہ اگر کسی کو جوتا پسند یا پورا نہیں آرہا تو وہ اسے اپنی مرضی سے اتار کے پھینک سکتا ہے۔ عام اعلان ہوگا کہ اسے کسی آگ میں نہیں جھونکا جائے گا اور نہ ہی اسے کوڑے مارے جائیں گے۔

 

مجھے یقین ہے اگر ایسا ہو جائے تو اس دن لوگ ’نیا مالک زندہ باد‘ کے نعرے لگائیں گے اور ہر کوئی یوم نجات منائے گا۔

Image: Three Pairs of Shoes by Vin­cent Van Gogh

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *