Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

پیرس میں دہشت گردی کے اثرات

test-ghori

test-ghori

29 نومبر, 2015
کہا جارہا ہے کہ فرانس کی شام میں مداخلت کے پیش نظر داعش کی جانب سے پیرس میں دہشت گردی کے ذریعے انتقام لیا گیا ہے۔ اس تناظر میں اہم سوال یہ ہے کہ پیرس میں دہشت گردی کی یہ واردات کامیاب کیسے ہوئی؟ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں یہ بہت ناممکن لگتا ہے، پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کا اثر حکومتوں اور عام لوگوں پر ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات میں اس حوالے سے چھپنے والی خبروں سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ فرانسیسی حکومت نے دستیاب معلومات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اورکچھ زیادہ ہی خود اعتمادی کا شکار ہوگئی۔ مختلف ماہرین اس بات کی جانچ کر رہے ہیں کہ یہ حملہ کیوں ہوا اور دہشت گرد آٹھ مقامات پر اسلحہ لے کر اتنی آسانی سے کیسے پہنچ گئے۔ خود کش جیکٹس، خود کار ہتھیار اور بارودی مواد لے کر یہ افراد پورے شہر میں گھومتے رہے اور اُنہیں کسی نے روکا نہیں۔ پیرس کے سیکیورٹی ادارے اور انٹیلی جنس والے آخر کہاں تھے؟ لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ امریکہ میں دہشت گردی کی نائن الیون جیسی بڑی کارروائی کے بعد شدت پسند پہلے سے زیادہ مظبوط ہوئے ہیں جبکہ ان سے ہمدردی کرنے والوں میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے اس لیےشدت پسندوں کے لیے ایسے حملے کرنا ممکن ہے۔

پیرس میں پہلے شارلی ایبڈو پر اور اب عام شہریوں پر دولت داعش کے حملوں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ دہشت گردوں کی پہنچ سے اب کوئی مقام محفوظ نہیں، وہ دنیا میں جب اور جہاں چاہیں تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ پیرس میں دہشت گردی کے اثرات مستقبل کی بین الاقوامی سیاست پر جلد ہی نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ پیرس حملوں کا تمام تر ملبہ عام مسلمانوں پر گرا ہے، امریکا میں عربی بولنا بھی آپ کو مشکوک بنانے کے لیے کافی ہے۔ جمعرات 19 نومبر 2015ء کو امریکی ریاست شکاگو سے فلاڈیلفیا جانے والی ساؤتھ ویسٹ ایئرلائنز کی پرواز کے دو مسافروں کو محض اس وجہ سے جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا گیا کیونکہ وہ آپس میں عربی زبان میں باتیں کر رہے تھے۔

یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ امریکہ میں دہشت گردی کی نائن الیون جیسی بڑی کارروائی کے بعد شدت پسند پہلے سے زیادہ مظبوط ہوئے ہیں جبکہ ان سے ہمدردی کرنے والوں میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے اس لیےشدت پسندوں کے لیے ایسے حملے کرنا ممکن ہے
جس روز پیرس میں حملے ہوئے اُسی دن ترکی کے شہر استنبول میں دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بنایاگیا، حکام کے مطابق پولیس نے 13 نومبر 2015ء کو جمعہ کے روز استنبول سے داعش جنگجو جہادی جان کے قریبی ساتھی سمیت پانچ ملزمان کو گرفتار کیا تھا، یہ لوگ سانحہ پیرس والے دن استنبول میں حملوں کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ اس نے پیرس حملوں میں ملوث ایک خودکش بمبار عمر اسماعیل کے بارے میں فرانسیسی حکام کو آگاہ کردیا تھا تاہم انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ تفصیلات کے مطابق امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور فرانس نے پیرس جیسے مزید حملوں کا انتباہ جاری کردیا ہے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن نے خبردار کیا ہے کہ داعش نے پیرس جیسے مزید حملوں کی منصوبہ بندی کررکھی ہے، سیکورٹی اور انٹیلی جنس ادارے ان سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنی پوری صلاحیت بروئے کار لارہے ہیں۔ خودکش بمباروں نے پیرس کے دل میں انتہائی منظم منصوبہ بندی کے تحت حملے کیے اور اس عمل میں کئی ماہ کا عرصہ لگا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ داعش کسی بھی وقت اس طرح کے مزید حملے کر سکتی ہے۔ فائنینشل ٹائمز کے سام جونز لکھتے ہیں کہ ایسے اشارے مل رہے تھے کہ یہ واقعہ ہونے والا ہے۔ گزشتہ مہینوں میں دو اعلیٰ عہدیداروں نے فائنینشل ٹائمز کو بتایا تھا کہ انہوں نے داعش کی سرحدوں سے بہت باہر اس کے عزائم اور مقاصد کا جو اندازہ لگایا تھا اس میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ داعش القاعدہ کی طرح بہت بڑا حملہ کرنا چاہتی تھی، مگر یہ بات غیر واضح تھی کہ وہ اس نوع کا حملہ کرنے کی سکت رکھتی بھی ہے؟

پیرس حملے پر بات کرتے ہوئے لندن میں مقیم صحافی قندیل شام کا کہنا تھا کہ پیرس پر حملہ یورپ میں دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ ہے اور اگر اس کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی ہے تو یہ اُن کے لیے بھی بڑی تبدیلی ہے۔ فرانس میں انتخابات کا انعقاد بھی ہونے والا ہے جس پر اس کا بہت اثر پڑے گا۔ اس سال یورپ میں سترہ دہشت گردی کے حملے ہوئے جس میں سے سات فرانس میں ہوئے ہیں اور 1200 سو کے قریب غیر ملکی جنگجو اس وقت فرانس سے عراق اور شام میں جنگ لڑ رہے ہیں۔ فرانس میں ان حملوں کے بعد انتہا پسندی کے خلاف آواز بڑھ گئی ہے۔ چارلی ہیبڈو پر حملے کے بعد دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے فرانس کی حکومت کی تیاری پر بات کرتے ہوئے قندیل شام نے کہا کہ اس کے دو جواب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ دولت اسلامیہ جیسے گروہ اب زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں جو اس حملے سے نظر آرہا ہے کیوں کہ یہ ایک منظم حملہ تھا۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یورپ میں اب اس طرح کے عناصر ہیں جو اس طرح کے حملے مستقبل میں کر سکتے ہیں اور ‘خوابیدہ گروہوں’ کی موجودگی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

برطانیہ میں مقیم کالم نگار نجمہ اسلام کا کہنا ہے کہ پیرس حملوں کے بعد میرا حجاب میں باہر نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔ نجمہ اسلام کہتی ہیں کہ جب بھی یورپ میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے، مسلم آبادی کی زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔ نجمہ اسلام کے مطابق ایشیائی آبادی میں رہنے والے مسلمان تو پھر بھی محفوظ رہتے ہیں، لیکن دوسرے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں پر دہشت گردی کے رد عمل میں عرصہ حیات تنگ ہوجاتا ہے۔ کیا ان دہشت گردوں کو اس بات کی پروا ہے کہ ان کے شیطانی عمل سے عام مسلمان شہریوں کی زندگیوں پر کتنے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اب میں حجاب میں گھر سے باہر جاتے ہوئے ڈرتی ہوں، لوگوں کی نگاہیں میرا تعاقب کرتی ہیں۔ پیرس حملوں کے بعد جب میں حجاب کرکے باہر نکلتی ہوں تو لوگ سرگوشی میں مجھے دہشت گرد اور مسلم کتیا کہتے ہیں اور میرا تعلق داعش سے جوڑتے ہیں۔ نوجوانوں کے غول میرے ارد گرد اکٹھے ہوجاتے ہیں اور وہ مسلمانوں کو گالیاں دیتے ہیں۔ اب گھر سے باہر نکلنے کا مطلب ہراساں ہونے کے لیے تیار رہنا ہے۔ میرے فیس بک کے دوست اسلام کو دہشت گردوں کا مذہب قرار دے رہے ہیں اور معاشرے کو محفوظ بنانے کے لیے مسلمانوں کو دیس نکالا دینا چاہتے ہیں۔ میرے حجاب کی وجہ سے مجھے ایک منصوبے سے الگ کردیا گیا ہے۔

کیا ان دہشت گردوں کو اس بات کی پروا ہے کہ ان کے شیطانی عمل سے عام مسلمان شہریوں کی زندگیوں پر کتنے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پیرس میں داعش دہشت گردوں کے حملے نے مغرب میں رہنے والے مسلمان شہریوں کو احساس جرم اور احساس ندامت کا شکار کردیا ہے۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اپنے میزبان معاشرے سے اعتماد پر مبنی تعلق استوار کرنے کے لیے ایک فرانسیسی مسلمان نوجوان نے ایک انوکھا انداز اختیار کیا۔ وہ پیرس کے ایک مصروف چوراہے پر آنکھوں پر پٹی باندھ کر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنے سامنے ایک گتے پر لکھ رکھا تھا “اگر آپ مجھ پر اعتماد کرتے ہیں تو مجھے گلے لگایئے، میں ایک مسلمان ہوں اور مجھے کہاجاتا ہے کہ میں دہشت گرد ہوں”۔ یہ دیکھنے کے بعد پیرس کے رہنے والے بڑی تعداد میں اس سے گلے ملنے لگے۔ کچھ لوگ اس جذباتی منظر کو دیکھ کر روتے رہے۔ ایک طویل وقفے تک مجمعے سے نکل کرآنے والے مردوخواتین نوجوان سے بغل گیر ہوتے رہے جس کے بعد نوجوان نے اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی اتار دی اور کہا کہ میں آپ میں سے ہر ایک کا شکرگزار ہوں جو مجھ سے بغل گیر ہوا، میں نے یہ سب کچھ ایک پیغام دینے کے لیے کیا اور وہ پیغام یہ تھا کہ “میں ایک مسلمان ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں دہشت گرد ہوں”۔ میں دہشت گردی کے اس سانحہ میں نشانہ بننے والے افراد کے اہل خانہ کے گہرے دکھ کو محسوس کرتا ہوں اور میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسلمان ہونے کا مطلب لازماً دہشت گرد ہونا نہیں ہے۔ اس پیغام کو سن کر لوگوں نے تالیاں بجائیں اور خوشی کا اظہار کیا۔

http://dai.ly/x3edtph

اسی طرح مسلم نوجوانوں کی جانب سے شروع کیا گیا ٹویٹر ٹرینڈ “میرے نام پر نہیں” بھی مذہبی دہشت گردوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ وہ مذہب کو دہشت گردی کے لیے جواز نہیں بنا سکتے۔پاکستانی نوجوانوں نے اپنی ایک ویڈیو میں پیرس حملے کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کیا اور کہا کہ انہیں بھی اتنا ہی صدمہ ہے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثارنے کہا ہے کہ تارکین وطن پاکستان کا اثاثہ ہیں۔ دہشت گردی کےحالیہ واقعات سے بیرون ملک پاکستانیوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گا، جبکہ پیرس میں موجود پاکستانی سفیر غالب اقبال نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فرانس میں مقیم پاکستانی برادری نہ صرف مکمل طور پر محفوظ ہے اور وہ قطعی طور پر ایسا نہیں سمجھتے کہ پیرس پر ہونے والے حملوں کے ردعمل میں انہیں کسی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے باوجود حکومت پاکستان اور ہمارے سفارت خانوں کو یورپ اور امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے رابطے میں رہنا چاہیئے، عام پاکستانیوں کو بھی چاہئیے کہ وہ کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کی اطلاع فوری طور پر اپنے سفارت خانے کو دیں۔

فرانسیسی پولیس نے جب مجرموں کا پیچھا شروع کیا تو ایک خاتون خودکش بمبار حسنہ آیت ابوالحسن تک پہنچ گئے لیکن 26سالہ حسنہ نے گرفتار ہونے کے بجائے پولیس کارروائی کے دوران مبینہ طور پر خود کو بم سے اُڑا لیا تھا۔ حسنہ آیت ابوالحسن پیرس کے حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ اباعود کی کزن تھی۔ اُس کی لاش پیرس کے شمال میں واقع ایک نواحی علاقے کے اُس اپارٹمنٹ سے برآمد ہوئی ہے جہاں سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے پیرس حملوں کے مبینہ ماسٹرمائنڈ کو ہلاک کر دیا تھا۔ حسنہ آیت ابوالحسن کے خاندان کے افراد اور دوستوں کاکہنا ہے کہ حسنہ نے پارٹی گرل سے بنیاد پرست بننے کا سفر صرف چھ ماہ میں طے کیا۔ حسنہ کی متزلزل پرورش ہوئی اور اس نے حکومتی نگرانی میں چلنے والے کیئرہومز میں بھی وقت گزارا ۔ حسنہ کو اس کے دوست مخبوط الحواس کہتے تھے اور وہ کاؤ بوائے ہیٹ اور جوتے پہننا کرتی تھی۔ حسنہ آیت ابوالحسن کے بھائی نے بتایا کہ “حسنہ اچانک ہی چھ ماہ میں بنیاد پرست بن گئی، اس نے پہلے حجاب پہننا شروع کیا پھر پورے چہرے کا نقاب پہننے لگی، وہ متزلزل تھی، اس نے کبھی مذہب کا مطالعہ نہیں کیا اور میں نے کبھی اسے قرآن پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا”۔ حسنہ آیت بوالحسن کی پڑوسی صوفین نے بتایا کہ وہ تیز طرار تھی اور ساتھ ہی مخبوط الحواس بھی تھی۔

داعش اور اس جیسی جنگجو مذہبی جہادی تنظیموں کی پیداوار کی ایک بڑی وجہ بنیاد پرست اور سیاسی اسلام کے ساتھ ساتھ مغرب اور امریکہ کی توسیع پسند خارجہ پالیسی اور مسلم ممالک میں غیر جمہوری حکومتوں کے باعث پیدا ہونے والاسیاسی اور نظریاتی خلاء ہے۔
داعش اور اس جیسی جنگجو مذہبی جہادی تنظیموں کی پیداوار کی ایک بڑی وجہ بنیاد پرست اور سیاسی اسلام کے ساتھ ساتھ مغرب اور امریکہ کی توسیع پسند خارجہ پالیسی اور مسلم ممالک میں غیر جمہوری حکومتوں کے باعث پیدا ہونے والاسیاسی اور نظریاتی خلاء ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے افغانستان اور عراق میں مداخلت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران کا ایک نتیجہ داعش ہے بالکل ویسے ہی جیسے افغان جہاد کے نیتجے میں القاعدہ پیدا ہوئی تھی۔ عرب ممالک کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے بھی داعش جیسی تنظیم کی سرپرستی کی گئی۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر عراق جنگ میں ہونے والی غلطیوں کا عتراف بھی کر چکے ہیں۔ داعش والے دہشت گرد تو ہیں لیکن مسلمان نہیں، یہ کمزور ذہن اور متزلزل مسلمانوں کو مذہب کے نام پر استمال کرتے ہیں اور ان کی بے روزگاری بھی ختم کرتے ہیں، اس بات کا ثبوت پیرس کے شمال میں واقع ایک نواحی علاقے کی رہنے والی ایک خاتون خودکش بمبار حسنہ آیت ابوالحسن ہے۔ یہ دہشت گرد جو نام نہاد مسلمان بنے ہوئے ہیں درحقیقت کرائے کے قاتل ہیں تاہم بدقسمتی سے مسلم دنیا میں ابھی تک ایسی تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر مزمت یا مزاحمت کا رحجان دیکھنے کو نہیں ملا۔