کراچی میں ہرے بھرے درختوں کی کٹائی اب معمول کی بات ہے۔ ہر روز کسی نئے سائن بورڈ کے لئے یا پھر کسی ترقیاتی منصوبے کی خاطر برسوں پرانے درخت کاٹ دیے جاتے ہیں۔
کراچی میں ہرے بھرے درختوں کی کٹائی اب معمول کی بات ہے۔ ہر روز کسی نئے سائن بورڈ کے لئے یا پھر کسی ترقیاتی منصوبے کی خاطر برسوں پرانے درخت کاٹ دیے جاتے ہیں۔ صوبائی حکومت اور انتظامیہ نوٹس لیتی ہے لیکن کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ جو درخت کاٹے گئے ہیں ان کی جگہ یا پھر کسی متبادل جگہ پر کوئی نیا پودا یا درخت لگایا گیا ہو۔ کسی بھی درخت کو کاٹنے میں بہت کم وقت درکار ہوتا ہے لیکن اگانے اور پروان چڑھانے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ زمیں کے ان گہنوں کی قدروقیمت سے کون واقف ہے؟ شاید صرف مرحوم اردشیرکاؤس جی۔۔۔۔ اردشیر کاؤس جی نے ہمیشہ کراچی کے سبزے کے حق میں آواز اٹھائی اور درختوں کو زندہ رکھنے کے لیے عدالتوں کے چکر لگائے۔ باتھ آئی لینڈ میں درختوں اور پودوں میں گِھرا ان کا گھر الگ ہی پہچان رکھتا تھا۔ سابقہ بلدیاتی حکومت میں شامل چند ماحول دشمنوں نے بہت کوشش کی کہ ان کے گھر کے سامنے لگے درختوں کو کاٹ دیا جائے۔ اس دور میں ہر جانب ترقیاتی منصوبے تیزی سے مکمل ہو رہے تھے کہیں انڈر پاس توکہیں پلوں کی تعمیر جاری تھی لیکن کاوس جی نے درختوں کی کٹائی کا معاملہ عدالت میں چیلنج کرڈالا اور عدالت کے حکم پر ان درختوں کو زندگی ملی۔ ماحول کے لئے ہمیشہ آواز بلند کرنے والے ارد شیر کاوس جی آج خود تو ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کے برقت اقدام کے تحت زندہ بچ جانے والے درختوں نے گزشتہ برس کی گرمی کی لہر کے دوران کئی زندگیاں بچائی ہوں گی۔ گرمی کی اس شدید لہر کے ان دنوں میں جب کسی کو کہیں کوئی سایہ نظر نہیں آیا ہوگا تب یہ درخت کسی نہ کسی کی جان بچانے کا سبب ضرور بنے ہوں گے۔
سکول کی کتابوں میں بچوں کو یہ ضرور پڑھایا جاتا ہے کہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے اور آکسیجن فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں لیکن کبھی ان کے ہاتھوں یہ کام نہیں کروایا گیا کہ شہر میں جگہ جگہ ان سے درخت لگوائے جائیں یا انہیں یہ شعور دیا جائے کہ وہ اپنے گھر، محلے اور شہر میں ماحول کو صاف اور شاداب رکھنے کے لیے کچھ کر سکیں۔
گزشتہ برس کراچی میں جب گرمی کی لہر سے دو ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے تو یہ پورے ملک کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب صوبائی حکومت سے لےکر وفاقی حکومت تک سبھی کو معلوم ہوا کہ لگ بھگ دو کروڑ کی آبادی کے اس شہر میں مردہ خانے، سرد خانے کم ہیں، ایمبولینسز کی تعداد بھی ضرورت کے مطابق نہیں اور تو اور ہسپتالوں میں طبی امداد دینے کا مناسب بندوبست نہیں۔ گزشتہ رمضان کے دوران گرمی کی اس شدید لہر پر رپورٹنگ کی ذمہ داری میرے سپرد کی گئی۔ تین گھنٹوں کے دوران میں نے اپنے سامنے آٹھ لوگوں کو زندگی کی بازی ہارتے دیکھا۔ ہسپتالوں کے وارڈ گرمی کی شدت سے جاں بلب مریضوں سے بھرے پڑے تھے۔ ایک ایک ڈاکٹر کے ذمے کئی کئی مریض تھے، نرسز کی بھاگ دوڑ بتا رہی تھی کہ ان کے پاس سر کھجانے کی فرصت نہیں، کراچی والوں کے لئے موسم کی یہ تبدیلی بالکل نئی تھی کوئی اس کے لئے تیار نہ تھا۔ ہسپتال سے باہر شہر میں نکلے تو باہر سڑکیں تپ رہی تھیں۔ لوگ بے حال تھے اس وقت میں نے پہلی بار شہر کو الگ نظر سے دیکھا، ڈھونڈنا چاہا کہ کیا دور دور تک کہیں کوئی سایہ ہے؟ کوئی درخت ہے؟ مجھے کہیں کوئی درخت کوئی سایہ دکھائی نہ دیا۔ شہر کو خوبصورت بنانے کے لئے ہم نے بلند و بالا عمارتیں بنا لیں اور پھر ہم نے ان عمارتوں کے سامنے اگے تمام درخت محض اس لیے کاٹ ڈالے تاکہ یہ بلندوبالا کثیر منزلہ کنکریٹ کے ڈھیر دور سے صاف دکھائی دیں۔

شاہراہ فیصل ہو یا کلفٹن یا پھر دیگر اہم شاہراہیں ان پر سائن بورڈز کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بتاتا ہے کہ یہاں درختوں کی کوئی ضروت ہے نہ جگہ۔
شاہراہ فیصل ہو یا کلفٹن یا پھر دیگر اہم شاہراہیں ان پر سائن بورڈز کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بتاتا ہے کہ یہاں درختوں کی کوئی ضروت ہے نہ جگہ۔ سی ویو کی جانب جائیں تو سمندری ریت اڑتی دکھائی دے گی لیکن درختوں کا کوئی وجود نہیں۔ 2005 میں بلدیاتی حکومت نے 62کروڑ کی لاگت سے شہر میں سب سے بڑا پارک باغ ابن قاسم بنایا گیا۔ جس میں جگہ جگہ لگائے جانے والے درختوں سے یہ پارک بہت خوبصورت دکھائی دیتا تھا۔ آج اس پارک میں صرف دھول، مٹی اور منشیات کا استعمال کرنے والے دکھائی دیتے ہیں۔ ہرے بھرے پیڑ سوکھ چکے ہیں، درخت ختم ہو چکے ہیں اور کروڑوں روپے نجانے کہاں غارت ہو گئے۔ یہ ایک نہیں پورے شہر کی کہانی ہے۔ جہاں پارکس تھے ان پر لینڈ مافیا کا قبضہ ہے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کس کی اجازت سے ہرے بھر پارکس ختم کر کے پلاٹنگ کی گئی؟ فلیٹس بنائے گئے؟ گلی محلوں میں جو چھوٹے چھوٹے پارکس تھے ان میں کبھی نیم اور سفیدے کے درخت ہوا کرتے تھے لیکن اب ان درختوں کا نام و نشان تک باقی نہیں۔
شہر میں موجود گرین بیلٹس کو نہ صرف بے دردی سے ختم کیا جا رہا ہے بلکہ نئے شروع کیے جانے والے منصوبوں میں سب سے پہلے درختوں کو کاٹا جاتا ہے۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ناجائز تجاوزات کے طور پر فوڈ چینز اور رہائشی عمارتیں قائم کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی کیوں کہ انتظامیہ جانتی ہے کہ یہ تجاوزات کرنے والے طاقتور ہیں، نوکری بھی جائے گی اور جان کا بھی خطرہ ہے لیکن ان جاندار درختوں کو جب چاہے قتل کر دیا جائے کوئی نہیں پوچھے گا۔ یہ قتل ہی تو ہے اس جاندار کا جو خود طوفان، گرمی، بارش اور موسم کی بے رحمی سہتا ہے اور دوسروں کو زندگی دیتا ہے، چھاوں دیتا ہے، پرندوں کو آشیانے دیتا ہے تو کسی بے گھر کو سونے کا ٹھکانہ بھی دیتا ہے۔ لیکن درختوں کا قتل آسان ہے، ان کے قتل پر کوئی ان کی لاش سڑک پر یا پریس کلب کے باہر رکھ کر احتجاج نہیں کرتا، کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ہڑتال کا اعلان نہیں ہوتا اور کوئی ان کی آخری رسومات پر تعزیتی بیانات جاری نہیں کرتا۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ درختوں کی ٹارگٹ کلنگ بہت آسانی سے جاری ہے۔ افسوس کہ اب اردشیر کاوس جی جیسا جی دار بھی ہم میں نہیں جو ان جانداروں کے لئے اٹھ کھڑا ہو۔ کچھ تنظیمیں ضرور ہیں جو درخت لگانا چاہتی ہیں لیکن وہ جب یہ کام کریں تو کچھ ہی روز میں انھیں اس جگہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی سے پریشان ہے اور خطرے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو عالمی گرماو کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ محکمہ موسمیات کا کہناہے کہ کراچی میں گرمی کی لہر عالمی گرماو کا نتیجہ ہے۔ موسم گرما میں درجہ حرارت 40 سے 50 سینٹی گریڈ تک بلند ہو سکتا ہے جبکہ عالمی گرماو سے سطح سمندر میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ جنگلات کی کمی اور درختوں کی کٹائی سے سیلاب بھی آسکتے ہیں۔ لیکن ہم اس سب سے بے خبر سو رہے ہیں کیو نکہ ہم اسے اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ نہ ہم درختوں کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ہمارا حال اس کبوتر جیسا ہے جو بلی کو سامنے دیکھتے ہی آنکھیں بند کر لیتا ہے کہ وہ محفوظ ہے۔ بس اتنا سوچ لیا جائے کہ درختوں کے لگانے سے جہاں گرمی کی شدت میں کمی لائی جاسکتی ہے وہیں گھروں میں زیادہ سے زیادہ پودے لگانے اور باہر کیاریوں میں درخت اگانے سے شدید گرمی میں گھروں کو ٹھنڈا بھی رکھا جاسکتا ہے۔
پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی سے پریشان ہے اور خطرے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو عالمی گرماو کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔
کچھ عرصہ قبل درختوں اور شجرکاری کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن سے میری ملاقات ہوئی، ان کا نام سید مسلم رضا ہے۔ انہوں نے لوگوں کو اس کی اہمیت بتانے کے لئے اپنے گھر کی چھت پر گملوں، بالٹیوں اور بڑے بڑے ڈرموں میں پودے لگا رکھے ہیں جن میں سے بیشتر اب درخت بن چکے ہیں۔ ان کے گھر کے باہر لگے درختوں نے نہ صرف ان کی چھت کو سایہ دے رکھا ہے بلکہ باہر سے گزرنے والی سڑک کو بھی سایہ دار کر رکھا ہے، سامنے موجود قبرستان آنے والے لوگ اکثر ان درختوں کی چھاوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور ان درخت لگانے والوں کو دعا دیتے ہیں۔
مسلم رضا سے جب میں نے کراچی کو درپیش گرمی کی ممکنہ لہر پر بات کی تو ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ کراچی کو اس وقت کسی چیز کی نہیں ہزاروں درختوں کی ضرورت ہے۔ جس طرح ذرائع ابلاغ پر گرمی سے بچاو کی احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جارہا ہے اسی طرح یہ بتانے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ہمیں مستقبل میں ماحول کو بہتر بنانے اور اس قیامت خیز گرمی سے بچنے کے لئے کن اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ مسلم رضا بحثیت شہری اس بات کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ وہ اسکول اور کالج کے طلبہ کو درختوں کی اہمیت سے آگاہ بھی کریں اور شہر قائد میں جہاں تک ممکن ہو سکے درخت لگوائیں۔ ان کا یہ اقدام سراہنے لائق ہے لیکن کیا اس شہر میں یہ سب ایک فرد واحد کی ذمہ داری ہے؟ ہرگز نہیں اگر یہ ذمہ ہم سب اٹھا لیں تو شہری انتظامیہ اور صوبائی حکومت کو بھی اس میں لوگوں کا ساتھ دینا ہوگا۔ کیونکہ شہر کو اس وقت گرمی سے بچاو کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ گرمی کے ستائے لوگوں کو جہاں سایہ فراہم کرنے کا سبب بنیں وہیں آنے والے سالوں میں گرمی کی شدت کم کرنے کا موثر ذریعہ بھی ثابت ہوں۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں جب کوئی درخت کاٹ دیا جاتا ہے تو سوئی ہوئی انتظامیہ نیند سے بیدار ہوتے ہی نوٹس جاری کر دیتی ہے اور میڈیا پر سرکاری ٹکرز دے دئیے جاتے ہیں۔ جب یہ ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہوتی ہے اس وقت کوئی روکنے والا دکھائی نہیں دیتا۔ اس سفاک کے مرتکب افرادکو بخوبی علم ہوتا ہے کہ انہیں پکڑنے والا کوئی نہیں۔ درخت کاٹنے والے یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں کہاں کون سا ایسا درخت ملے گا اور وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں جبکہ انتظامیہ کو وہ جگہیں نہیں مل پاتیں جہاں نئے درخت لگا دئیے جائیں۔ وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اگر گرمی کی نئی لہر کا سامنا شہر کو کرنا پڑا تو قبرستانوں میں ممکنہ ہلاکتوں کے پیش نظر قبریں نہ کم پڑ جائیں لیکن وہ اس بات کی کوشش میں نہیں کہ قبروں کے لئے کھودے جانے والے گڑھوں میں لاشوں کی بجائے خالی جگہوں پر؎ آج وہ کوئی بیج ڈال دیں یا کوئی پودا لگا دیں تو وہاں سے اگنے والا درخت کئی لاشیں دفنانے سے بچانے کا وسیلہ بن جائے گا۔