Laaltain

نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے

20 اگست، 2015

youth-yell-featured

اک ہنگامہ سا برپا ہے۔ مستعفی ہونے اور استعفیٰ دینے والوں کو منانے کا غلغلہ جاری ہے۔ اس مرتبہ بھائی کے جیالے مستعفی ہو گئے ہیں اور فضل الرحمان صاحب انہیں منا رہے ہیں۔ پچھلی قراردادوں کا شور کچھ تھما تو خان صاحب نے بھی اعلان کر دیا کہ ایوان میں جائیں گے۔ حکمران جماعت نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ ڈی سیٹ کرنے کی کسی بھی قرارداد کی نہ صرف مخالفت کریں گے بلکہ اس کے خلاف ووٹ بھی ڈالیں گے ۔ پیپلز پارٹی نے بھی سابقہ محبوبہ (ایم کیو ایم) سے ہاتھ کھینچ لیا اور تحریک انصاف کے استعفوں کی منظوری کی قرارداد میں ان کا ساتھ نہیں دیا۔ ہاتھ کیا کھینچا کے استعفوں کا کھیل ہی اُلٹا ہو گیا اور اب بھائی لوگ استعفے دینے پر اتر آئے ہیں۔ اور خبری یہ بھی خبر دے رہا ہے کہ استعفے قبول بھی ہو سکتے ہیں۔ شاید جن کے برتے پر اسمبلیوں میں نہ بیٹھنے کے بلندبانگ دعوے کیے گئے انہوں نے ہی دغا دے دیا۔
پیپلز پارٹی کے مفاہمانہ رویے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف ہی وہ واحد جماعت بن کر سامنے آئی ہے جوحکومت پر تنقید کرنے میں پیش پیش ہے
حکمران جماعت کے لیے تحریک انصاف کے استعفوں کی منظوری کی تحاریک کی مخالفت کرنا نہ صرف اس کی اپنی عزت بچانے کے لیے ضروری تھا بلکہ اس حقیقت کا بھی واضح اعلان تھا کہ اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت تحریک انصاف ہی دراصل حقیقی حزب اختلاف ہے۔ نشستیں کم ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف تیسری کے بجائے دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے کیوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ملکی سطح پر مقبولیت کم ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے مفاہمانہ رویے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف ہی وہ واحد جماعت بن کر سامنے آئی ہے جوحکومت پر تنقید کرنے میں پیش پیش ہے۔اور اب تو ایم کیو ایم نے بھی راگ سیاسی کی لمبی تان میں کہہ دیا ہے کہ انہیں ہٹا کر تحریک انصاف کو لایا جا رہا یعنی خطرہ بہر حال انہی سے ہے۔
مولانا صاحب نے ڈی سیٹ کرنے کا بیڑا اٹھایا تو ان کو خود بھی یقین نہ تھا کہ ن لیگ ان کی مخالفت میں کمر بستہ ہو جائے گی ۔ ان کو شاید امید ہو چلی تھی کہ عمران خان اور نواز شریف کے اختلافات اس تحریک کے خُشک پودے کے لیے ساون کی بارش ثابت ہوں گے ۔ لیکن صد افسوس! ایسا نہ ہو سکا۔کامیابی کی بجائے سُبکی مقدر ٹھہری۔ مولانا صاحب کے لیے ہمیشہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت خواہ کوئی سی بھی ہو وہ حکومت کا حصہ بننا اتنا ہی ضروری سمجھتے ہیں جتنا مچھلی کے لیے پانی۔ پانی کے بغیر جیسے مچھلی تڑپتی ہے اسی طرح مولانا صاحب حکومت سے باہر رہ کر تڑپتے ہیں۔ کھسیانی بلے کھمبا نوچے کے مصداق مولانا صاحب کو جب ن لیگ کی طرف سے جھنڈی دکھا دی گئی تو اس کے علاوہ کچھ نہ بن پڑا کہ تحریک واپس لے لی جائے۔ حکمران جماعت نے پرانے تعلقات کا خیال کرتے ہوئے مولانا صاحب کو تحریک واپس لینے کا وقت دیا ورنہ اگر تاخیر کے بجائے فوراً اس پر رائے شماری کروا دی جاتی تو مولانا صاحب مارے شرمندگی کے نہ اِدھر کے رہتے، نہ اُدھر کے۔
ایم کیو ایم کی تحریک کی بنیاد بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف پر تنقید تھی۔ لیکن ان بنیادوں میں دراڑیں اسی وقت پڑنا شروع ہو گئیں جب شاہ جی نے بغیرکسی ہچکچاہٹ کے کہہ دیا کہ وہ ایسی کسی بھی تحریک کا ساتھ نہیں دیں گے
ایم کیو ایم بھی پاکستان تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کرنے کے معاملے پر مولانا صاحب کی ہم نوا تھی۔ ایم کیو ایم کے پاس 24 نشستیں ہیں لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایم کیو ایم بھی گلے پڑی رَسی کے خوف سے ہوا میں ہی ہاتھ پاؤں چلا رہی ہے۔ جیسے ن لیگ نے مولانا صاحب کو دغا دیا ویسا ہی کچھ حال جیالوں نے ایم کیو ایم کے ساتھ کیا۔ ایم کیو ایم کی تحریک کی بنیاد بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف پر تنقید تھی۔ لیکن ان بنیادوں میں دراڑیں اسی وقت پڑنا شروع ہو گئیں جب شاہ جی نے بغیرکسی ہچکچاہٹ کے کہہ دیا کہ وہ ایسی کسی بھی تحریک کا ساتھ نہیں دیں گے۔ ایک بار پھر ایاز صادق صاحب مدد کو آئے اور لندن کال کھڑکا دی ۔ یہ کال نہیں تھی بلکہ عزت بچانے کا نادر موقع تھا۔ جس طرح عرصے سے میکے میں بیٹھی ناراض بہو سسرالیوں کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہوتی ہے اور ان کے آنے پر مرغ مُسَلم تیار کیے جاتے ہیں ایسے ہی ایک فون کال پر ہی تحریک کے غبارے سے ہوا نکل گئی ۔ ایم کیو ایم 24 نشستوں سے جو تحریک منظورکرانا چاہتی تھی وہ وقت سے پہلے ہی تاریخ کے صفحوں میں گم ہو گئی ۔اس تحریک کا ماخذ تحریک انصاف کے رویے سے زیادہ رینجرز کی ” کارستانیاں” ہیں۔ سونے پہ سہاگہ ” دفتری غلطی” سے بھارتی ہائی کمیشن کو خط چلا گیا۔ جلتی پہ تیل کا کام “کلرز لسٹ ” نے کر دیا۔ لہذا تحریک انصاف والے اس حوالے سے بھی پریشان نہ ہوں کیوں کہ وہ پنجابی کا مشہور ضرب المثل ہے نا کہ” آکھاں دھی نوں، سناواں نونہہ نوں”(مخاطب کوئی اور ہو غصہ کسی اور پہ ہو) تو یہاں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی تھی۔ کہیں اور کا غصہ اُتر کہیں اور رہا تھا۔اور اب ایم کیو استعفے دے کر جوابی وار کر رہی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے ایم کیو ایم اور مولانا کو ہر ممکن موقع دیا کہ وہ رہی سہی عزت بچا لیں اور دونوں نے اِس موقع غنیمت جانا ۔ ورنہ اگر واقعی خان صاحب پہلے سے زیادہ ووٹ لے کر دوبارہ اسمبلی میں وارد ہو جاتے تو دونوں کی نظریں چاہنے کے باوجود نہ اُٹھ پاتیں۔ تحاریک واپس لینے کے بعد بھی مولانا صاحب اور ایم کیو ایم بہت کچھ کھو بیٹھے ہیں۔ یعنی؛
نہ خدا ہی ملا، نہ وِصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے
استعفے تحریک انصاف کے بھی قبول ہونے چاہیے تھے اور قریشی صاحب نے اسمبلی فلور پہ شاید اسی لیے کہا تھا کہ جو تلوار چلانی ہے چلا لیں لیکن واضح کریں۔ اسی طرح استعفے اب بھی قبول ہونے چاہیے کیوں کہ سیاسی مقاصد کے لیے استعفوں کا استعمال روایت بن چکاہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *