مینار کے اوپر لگا لاوڈ سپیکرکھانسا، اور اپنے گلے کو صاف کرتے ہوئے ایک چپچپا سیال اور گاڑھا بلغمی تھوک پھینک کر خاموش ہو گیا۔ نو مولود تھوک محلے کے سب گھروں کی چھتوں ،صحنوں، دروازوں اور کھڑکیوں پر چپک گیا۔ تھوک کے چھینٹوں کی نمی سے جاگنے والوں نے جسم کے وہ تمام حصے جن پر کپڑا نہیں تھا تین تین بار دھوئے اور کپڑے جھاڑتے ہوئےگلی سے گزرے۔ تھوک نالی میں بہتا ہوا جم گیا اور گٹر میں سے ابل کر بہنے لگا۔ تھوک بھرا پانی گلی میں پھیل گیا، گزرنے والوں نے اپنے پائنچے مزید اوپر کئے۔ تھوک کے چھینٹوں سے آلودہ پانی نے سر ذرا اوپر کیا اور پھر ڈر کر نیچے بچھی مٹی میں گھل کر کیچڑ ہو گیا۔ کیچڑ نے کچھ جوتوں میں گھسے پیر گدلائے اور راستے سے ذرا ہٹ کر نشیب میں اکٹھا ہونے لگا۔ ایک اینٹ، پھر دوسری، پھر تیسری اور پھر بہت سی اینٹیں رکھ کر اور ان اینٹوں پر کیچڑ میں لتھڑے جوتوں والے پاوں رکھ کر کیچڑ کچلا گیا۔ دھوپ نکلنے تک ساری گلی اینٹوں سے پر تھی اور گاڑیوں کے ٹائروں کے گزرنے کا راستہ بند ہو چکا تھا۔ ایک گاڑی کے ٹائرنے سپیکر کے اگلے ہوئے تھوک سے آلودہ پانی کے کیچڑ کو کچلتی اینٹوں کے بیچ سے گزرنے کی کوشش کی اور پھَٹ کر لنگڑاتے لنگڑاتے لڑکھڑانے لگا۔ ٹائر کی نائیلون سے سپیکر کی اگلی تھوک کے چھینٹے چپک گئے تھے ۔ ٹائر اس اذیت میں اپنی ایکسل سے اتر کر سڑک کے بیچ آ کر جلنے لگا اوراس پر چپکے تھوک کے چند چھینٹے دھواں بن کر کچھ تو ناکوں میں گھسے اور مزید کھانسی بن کر داڑھیوں ، مونچھوں ،باچھوں اور ہونٹوں پر نعرے بن کر چپک گئے اور کچھ ہوا میں تحلیل ہو گئے۔داڑھیوں، مونچھوں، باچھوں اور ہونٹوں سے چپکے تھوک کے چھینٹے پسینے کے ساتھ رینگتا ہاتھوں کی پوروں سے ٹپکنے لگا ، آستینیں چڑھیں اور شٹر گرنے لگا۔ ہاتھوں نے تھوک ملی کیچڑ میں لتھڑی ہوئی اینٹیں اٹھائیں اور شیشوں پر اچھالیں تو تب تک وہ دھواں بن کر اڑ جانے والے تھوک زدہ نعروں کے پسینے کو جذب کر چکی تھیں۔ شیشوں نے زندگی بچانے کے لئے نیچے کیچڑ میں چھلانگیں لگائیں اور ان کی لاشیں کیچڑ میں غوطہ کھا کر پھول گئیں اورسطح پر آ گئیں۔ کرچیاں سپیکر کے اگلے ہوئے تھوک سے آلودہ پانی کی کیچڑ میں لتھڑ گئی تھیں ۔ کرچیوں کی لاشوں نے پیروں کو پہلے زخمی کیا ، تھوک کی چھینٹوں سے انہیں آلودہ کیا اور خون رس کر کیچڑ میں ملنے لگا۔ اس زہر آلود خون کو چندے کی طرح اکٹھا کر کے بینر لکھے گئے، پوسٹر چھاپے گئے اور گولیوں والے ہتھیار خریدے گئے۔ بینروں کی سیاہی میں تھوک کے چھینٹوں کی آمیزش تھی۔ انہوں نے ہوا میں رسیوں سے جھول کر خود کشی کر لی، اور ان کے ڈھانچے گلی میں بہت دن تک جھولتے رہے۔ پوسٹر دیوار سے چپکائے گئے ، پریشانی سے پوسڑوں کے چہروں پر سلوٹیں پڑ گئیں اور وہ بد رنگ ہونے لگے۔ ہتھیاروں نے اپنی اپنی نالیوں سے گولیاں اگلیں، خوف پرندوں کی طرح پیڑوں کی شاخون سے شور مچاتا اڑا تو کچھ آنکھوں نے شام اور پھر رات گئے تک ان کی براہ راست تصویریں نشر ہوتی دیکھیں ۔ کچھ زبانوں نے ان کی خبریں دیں اور تبصرے کئے۔ گولیوں کے ڈر سے ہوا بھاگ اٹھی ۔ ہوا جب بینروں میں کئے چھیدوں سے گزری تو سورج گلی میں پھیلے کیچڑ کو خشک کر چکا تھا اور اس کے بخارات ہوا میں شامل تھے۔ کھڑکیوں کے چوکھٹے سپیکر کی اگلی تھوک کی کیچڑ کے بخارات اٹھائے ہواوں سے ڈر کر جھولنے لگے۔ کھڑکیوں کے چوکھٹوں سے ٹکراتی ہوا لاوڈ سپیکر کے پاس سے گزرتی ہوئی سارے محلے سائرن بجانے لگی۔ سائرن نے ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کے گولوں سے گلی میں پھیلی اینٹوں پر سے گزرتے جوتوں جن پر اب کیچڑ خشک ہو چکی تھی کو منتشر کیا اور راستہ صاف کرکے بندوقیں اور بوٹ بن کر گشت کرنے لگا ۔گشت کرفیو بن کررات بھر محلے میں اندھیر اکئے خاموشی سے دبکا رہا اور نفرت چیونیٹیاں بن کر رینگتی ہوئی ہر پکے صحن میں بل بنانے لگی۔ سبھی مکانوں کی پیشانیوں پر غصہ دراڑیں بن کر ابھر آیا۔ سوکھتے کیچڑ پر پلنے والی سرگوشیوں کی مکھیاں اب باسی خبروں پر بھنھنا نے لگیں تھیں جن کے پروں کے ساتھ سپیکر کی اُگلی تھوک کا زہر بھی تھا۔ سرگوشیوں کے کف بہے اور وہ بھونکتے ہوئے رات بھر ساری گلی میں پھرتے رہے، دکانوں کے تھڑوں کے نیچے چھچھڑے ڈھونڈتے رہے اور تھک گئے، تھکن نیند بن کر اعصاب پر اترنے کو تھی کہ۔۔۔۔

اچھا استعارہ ھے ، خوب لکھا
محترم بس تھوک تھوک ہی ہوگیا من میرا ،یہ پڑھ کے۔۔۔بلاغت اپنے عروج پہ تھی ماشاءاللہ