[blockquote style=”3″]
علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔
ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔
[/blockquote]
علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔
سردار سودھا سنگھ مجبوراً ولیم کو رخصت کرنے کے لیے جیپ تک آیا اور اُس کو سوار ہوتے دیکھتا رہا۔ جیپ جب تک رخصت نہیں ہوئی، وہیں کھڑا رہا۔ کسی نے کوئی بات بھی نہ کی۔ دلبیر سنگھ نے گاڑی کواسٹارٹ کر کے اُ سے گئیر میں ڈال دیا اور وہ رفتہ رفتہ گاؤں والوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔جیپ کے گاؤں سے نکل جانے کے بعد سودھا سنگھ نہایت بے چینی سے حویلی کی طرف مڑا۔ مجمع جو چند لمحوں میں قریب دو سو نفوس پر مشتمل ہو گیا تھا، وہ بھی سودھا سنگھ کی حویلی کی طرف چل دیا تاکہ پتہ چلے فرنگی گورنمنٹ کیسے آئی تھی اور سردار سودھا سنگھ کے ساتھ کیا بات چیت ہوئی مگر فوجا سیؤ نے سب لوگوں کو جھڑک کر پیچھے کر دیا۔
حویلی میں داخل ہو کر فوجا سیؤ نے پھاٹک بند کروا دیا۔پھر دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ آخر سودھا سنگھ نے سکوت توڑا اور فوجا سیؤ کی طرف مخاطب ہو کر بولا، فوجے لگتا ہے معاملہ کچھ گھمبیر ہو گیا ہے۔ اس کلکٹر کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے۔
فوجا سیؤ خاموشی سے کان کھجاتا رہا اور سودھے سنگھ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ کچھ دیر کے لیے پھر خاموشی چھا گئی۔ حویلی کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ کسی دوسرے کے بولنے کی ہمت اس لیے نہیں تھی کہ سودھا سنگھ غصے سے بھرا بیٹھا تھا۔ نہ جانے کیا ہنگامہ کھڑا کر دیتا۔ آخر جگبیر نے ہمت کی اور بولا، سردار جی واہگرو جی شرماں رکھُو، ہمت سے کام لے۔ غلام حیدر یا انگریز کے پاس کوئی ثبوت تو ہے نہیں۔ کلکٹر آگیا ہے تو کوئی قہر نہیں ٹوٹ پڑا، دیکھی جائے گی۔
فوجا سیؤ جو پہلے ہی کلکٹر کی طرف سے کی گئی توہین سے سخت برہم تھا اور جودھا پور پر حملہ بھی اس کے مشورے کے برخلاف ہوا تھا۔جس میں جگبیرنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، جگبیر کے ان جملوں پر ایک دم بھڑک اٹھا اور بولا۔
جگبیرے تیرے جیسے بارہ تالیے شراب کے چوہے ہوتے ہیں، جو دوگھونٹ چڑھا کر اپنی دُم پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور شیر کو للکار دینا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ یہ تم ہی تھے جنھوں نے سودھا سنگھ کو الٹی مت دی ہے اور جودھا پور پر دھاوا بول دیا۔اسی وجہ سے فرنگی کو ہمت ہوئی کہ وہ میری اور سردار سودھا سنگھ کی بے عزتی میں ہاتھ ڈبو کر چلا گیا ہے۔ اُس وقت سے ڈر جب چراغ دین مُسلے کا پھندا سودھا سنگھ کے گلے میں فٹ ہو جائے۔ مگر تجھے کیا، تو کوئی اور کڑاھا ڈھونڈ لے گا جہاں پرانے گُڑ کی پت چڑھی ہو گی۔ مسئلہ تو ہمارا ہے کہ جینا مرنا سودھا سنگھ کے ساتھ ہے۔
جبگیر نے فوجا سیؤ کے آگ لگا دینے والے جملے سنے تو کرپان کھینچ کر فوراً اُٹھ کھڑا ہوا۔ غصے سے نتھنے پھڑکنے لگے اور چہرہ انگارے کی طرح دہک گیا۔
تیری تو میں دو گز لمبی زبان کھینچ لوں گا۔ واہگرو کی سونہہ تیرا قتل نہ کروں تو سمجھ لینا میری ماں پھیروں پر رہی ہے۔ بڈھا پاگل ہو گیا ہے۔ اِسے کسی نے سمجھایا نہیں کہ جگبیر سے بات کن محاوروں میں کی جاتی ہے۔
تیری تو میں دو گز لمبی زبان کھینچ لوں گا۔ واہگرو کی سونہہ تیرا قتل نہ کروں تو سمجھ لینا میری ماں پھیروں پر رہی ہے۔ بڈھا پاگل ہو گیا ہے۔ اِسے کسی نے سمجھایا نہیں کہ جگبیر سے بات کن محاوروں میں کی جاتی ہے۔
جگبیر کو مشتعل ہوتے دیکھ کر سب اٹھ کھڑے ہوئے اورپیت سنگھ نے آگے بڑھ کر جگبیر کو جپھا ڈال لیا۔ بیدا سنگھ نے اس کے ہاتھ سے کرپان پکڑ لی۔
مگر اسی اثنا میں جما سنگھ بھڑک اٹھا۔ پیتے چھوڑ دے اس سورمے کو، میں اس کی وراچھیں چیر دوں گا۔ خنزیر چاچے فوجے کو للکارتا ہے۔حرامی کیا یہ نہیں جانتا سردار فوجا سئیو کون ہے؟
مگر اسی اثنا میں جما سنگھ بھڑک اٹھا۔ پیتے چھوڑ دے اس سورمے کو، میں اس کی وراچھیں چیر دوں گا۔ خنزیر چاچے فوجے کو للکارتا ہے۔حرامی کیا یہ نہیں جانتا سردار فوجا سئیو کون ہے؟
اس کے ساتھ ہی تلوار کھینچ لی اور بیدا سنگھ کی طرف بھاگا۔ساتھ گالیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ا ِدھر نکل رانی خاں کے سالے تیری ایسی تیسی پھیر دوں گا۔تو نے سمجھا تھا یہاں جھانجھروں والے بیٹھے ہیں۔ لیکن دو تین جوانوں نے اُٹھ کر فوراً جما سنگھ کو پکڑ لیا۔
مگر اُدھر سے للکار سُن کر جگبیر دوبارہ پلٹا،چھوڑ دے بیدے مجھے۔یہاں آج لہو کی چکیاں چل ہی لینے دے۔ لاف سرداروں کو مہنا ہے۔ لیکن لوگوں نے جگبیر کو مضبوطی سے پکڑے رکھا۔ اس دنگے میں شور اور واویلا اتنا بلند ہوا کہ باہر کھڑا مجمع حواس باختہ ہو کر حویلی کا پھاٹک پیٹنے لگا۔ سودھا سنگھ یہ تماشا دیکھ کر انتہائی کرب اور بے بسی سے چیخا۔ مترو واہگرو کا خوف کرو۔یہ کیا اودھم مچا دیا تم نے۔ کیا جھنڈو والا میں آگ لگ گئی؟ سودھا سنگھ کی آواز میں اس قدر غیظ تھا کہ تمام لوگ حویلی کے اندر اور باہر والے سب ایک ہی دفعہ خاموش ہو گئے۔ اس خموشی سے سودھا سنگھ کو ذرا سکون ملا۔ وہ دوبارہ قدرے دھیمے لہجے میں بولا، فوجے اب لڑنے اور طعنے مہنے دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو ہوا سو ہوا۔ کیے پر پچھتانا مورکھوں کا شیوہ ہے۔ بس آگے کی سوچو۔
فوجا سیؤ نے جب دیکھا کہ سودھا سنگھ بالکل ہی ہتھیار پھینک چکا ہے تو وہ قدرے سکون سے بولا۔ دیکھ بھئی سردار سودھا سنگھ اب میں تب بولوں گا جب میرا مشورہ جڑ سے پرامبلوں تک مانو گے۔ ورنہ(طنز سے جگبیر کو دیکھتے ہوئے ) تیری اور اِن سورموں کی اپنی راہ اور میری اپنی راہ۔
سودھا سنگھ نے بڑے سکون سے پگڑی کو درست کیا اور سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہو گیا۔پھرفوجا سیؤ نے آگے جھک کر اپنی بات شروع کی۔
سردار سودھا سنگھ میری دو باتیں غور سے سن اور اس کو پلے باندھ لے۔ ایک یہ کہ اب جھنڈو والا سے باہر قدم نہ نکالنا، چاہے قیامت آ جائے۔کچھ سمے تک یہ حویلی ہی تیرا مرن جیون رہنا چاہیے۔اس کے علاوہ جتنی جلدی ہو سکتا ہے، مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے کسی سفارش کا بندوبست کر بلکہ میں تو کہتا ہوں دو چار مہینوں کے لیے وہیں پٹیالہ چلا جا اور اُدھر ہی بیٹھ کے سارا مقدمہ لڑ۔دوسری صلاح میری یہ ہے کہ ڈُلھے بیروں کا کچھ نہیں گیا،عبدل گجر کی طرف فوراً بندہ بھیج کے انھیں شاہ پور پر حملے سے روک دے۔
فوجا سیؤ کی بات سن کر جگبیر اور پیت سنگھ نے منھ بسورا لیکن کچھ بولے نہیں مگر سودھا سنگھ نے تحمل سے سوال کیا، اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم اتنی بزدلی کا ثبوت دیں؟
فوجا سیؤ دوبارہ بولا،وجہ یہ ہے سردار سودھا سنگھ اس دفعہ دو کام ایسے ہوئے ہیں جو آج تک نہیں ہوئے تھے۔ اُن کا شگون اچھا نہیں۔ ایک یہ کہ تیری کمر پر غلام حیدر نے قتل کا پرچہ رکھ دیا ہے۔ دوسرا کلکٹر ایسا آ گیا ہے جس کے تیور شینہہ کی طرح خونخوار ہیں۔ وہ سمجھ چکا ہے کہ یہ سب کیا دھرا تیرا ہی ہے۔ ورنہ وہ جھنڈو والا کبھی نہ آتا۔ اب شاہ پور پر حملہ ہوا تو اس میں چاہے تو جتنا بھی پلہ چھڑائے باٹوں کی جگہ تجھے ہی رکھا جائے گا۔ ادھر انگریز راج میں قتل معاف نہیں ہو سکتا۔ رہی غلام حیدر کی بات، وہ بھوکے شیر کی طرح باولا ہوا ہے۔تھانیدار نے جو حالت اس کی بتائی ہے،اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسے پرچے ورچے سے کچھ غرض نہیں۔ وہ تو بس تیرا سامنا چاہتا ہے اور یہ اچھی بات نہیں۔
تو کیا بزدلوں کی طرح چوڑیاں پہن لوں؟ سودھا سنگھ ذرا تپ کر بولا۔
میں نے کب کہا ہے چوڑیاں پہن لے۔ بس ذرا کوئلوں کو سیاہ ہونے دے اور حالات کا رخ دیکھ۔
واہ حالات کا رخ دیکھ “اب کے پیت سنگھ بولا”تاکہ پُلس آرام سے آکر سودھا سنگھ کو بیل کی طرح نتھ ڈال کر لے جائے اور پھر جیل میں چکی پر جوت دے۔
اس کا ایک حل ہے، فوجا سیؤ اسی تحمل سے بولا۔
اس کا ایک حل ہے، فوجا سیؤ اسی تحمل سے بولا۔
وہ کیا؟ سودھا سنگھ نے پوچھا۔
دیکھ سردار سودھا سنگھ معاملہ ابھی زیادہ بگڑا نہیں ہے۔ایک قتل کی بات سنبھالی جا سکتی ہے اور مونگی کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اِس سے تھوڑا سا بھی آگے بڑھے تو سمجھ لو دودھ کا چھنا گوبر میں جا گرے گا۔( پھر تھوڑی دیر رُک کر )میری مان غلام حیدر سے صلح کر لیں اور چراغ دین کا قصاص دے دیں۔ فوجا سیؤ نے لجائے ہوئے لہجے میں کہا۔
فوجے سیؤ کی بات سن کر تمام لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ فوجا سیؤ اتنی بزدلی کی بات کرے گا۔ خاص کر جگبیر کے تو گویا سر پر فوجے نے راب کی اُبلی اُبلی دیگ ڈال دی۔ ادھر سودھا سنگھ اور پیت سنگھ بھی غصے سے سرخ اور لال پیلے ہو گئے لیکن ان کے جواب دینے سے پہلے ہی فوجا سیؤ اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ اُسے پتہ تھا کہ وہ جو جواب دیں گے، وہ اس سے سنا نہیں جائے گا۔اس لیے بہتر ہے حویلی سے نکل جائے اور انھیں ان کے حال پر چھوڑ دے۔
فوجا سیؤ کے ساتھ ہی جما بھی حویلی سے نکل گیا۔ اگرچہ فوجا سیؤ کا سردار سودھا سنگھ کو یوں بات سُنے بغیر چھوڑ کے جانا اچھا فیصلہ نہیں تھا۔ مگر سودھے سنگھ کو بھی فوجا سیؤ کی یہ بات بہت گھٹیا اور شوہدی لگی۔ یہ بزدلی کی حد تھی جو فوجا سیؤ نے کی تھی۔ اس لیے سودھا سنگھ نے اسے روکنے کی ذرا بھی کوشش نہ کی۔ اُس نے سوچاجگبیر سنگھ اور پیتا ٹھیک کہتے ہیں۔ ابھی کون سی قیامت آگئی ہے کہ مُسلوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیں۔ خاص کر کل کے چھوکرے کے آگے،جو ابھی سکول کا مُنڈا ہے۔ پوری سکھ برادری میں نا ک کٹ جائے گی اور شریکے میں کیا منہ دکھائیں گے۔ بَیر اور لڑائی توجوانوں کا سنگھار ہے ورنہ مر تو وہ بھی جاتے ہیں جو ساری عمر اکھاڑے میں ناچتے ہیں اور کیکر کا نٹاچبھنے سے بیہوش ہو جاتے ہیں۔پھر سودھا سنگھ جگبیر کی طرف منہ کر کے بولا،، جگبیرے اب تیرا مشورہ ہی چلے گا۔ بول واہگرو کے نام سے کیا کہتا ہے۔ فوجا سیؤ نے تو زنخوں والی بات کی ہے،، میرے لیے تو دما،رنگا اور آپ ہی اب سب کچھ ہو۔
جگبیرنے جو ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں سودھاسنگھ کو فوجا سیٔو کے بھرے مجعمے سے اٹھ کر جانے کا افسوس نہ ہوا ہو،،سودھا سنگھ کی طرف سے حوصلہ پا کر کہا،سردار سودھا سنگھ پندرہ جوان میرے ساتھ کر دے اور عبدل گجر کو پیغام بھیج کر پوچھ،اگر وہ کل تک شاہ پور پر حملہ کرتا ہے تو ٹھیک ورنہ یہ کام بھی میں ہی کرتا ہوں۔ وہ راضی ہو جائے تو میں اس کی فوج میں شامل ہو جاتا ہوں۔ کل رات ہی ہم اور گجر مل کر یہ کام کر دیں تو یہ انگریزی بابو اور غلام حیدر دونوں پاگل ہو جائیں گے اوربول کی جھاگ کی طرح نہ بیٹھ جائیں تو مجھے کہنا۔
جگبیرنے جو ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں سودھاسنگھ کو فوجا سیٔو کے بھرے مجعمے سے اٹھ کر جانے کا افسوس نہ ہوا ہو،،سودھا سنگھ کی طرف سے حوصلہ پا کر کہا،سردار سودھا سنگھ پندرہ جوان میرے ساتھ کر دے اور عبدل گجر کو پیغام بھیج کر پوچھ،اگر وہ کل تک شاہ پور پر حملہ کرتا ہے تو ٹھیک ورنہ یہ کام بھی میں ہی کرتا ہوں۔ وہ راضی ہو جائے تو میں اس کی فوج میں شامل ہو جاتا ہوں۔ کل رات ہی ہم اور گجر مل کر یہ کام کر دیں تو یہ انگریزی بابو اور غلام حیدر دونوں پاگل ہو جائیں گے اوربول کی جھاگ کی طرح نہ بیٹھ جائیں تو مجھے کہنا۔
سودھا نے پیت سنگھ کی طرف دیکھا تو وہ بولا،سردار صاحب، دیکھ شاہ پور پر حملہ اس وقت بڑا مفید ہے۔ جگبیرے نے بڑی ٹھیک صلاح دی ہے۔ شاہ پور میں میرا یار فضلو میو موجود ہے۔بندہ بھیج کر اُسے بلا لے۔ سو روپیہ دے کر سب مخبری لے لیتے ہیں۔
سودھا سنگھ کو پیت سنگھ کی بات پسند آئی۔ ہرے سنگھ کو آواز دے کر سودھے نے پاس بلایا اور اسے فوراً شاہ پور جانے کے لیے کہا کہ جا کر عشا تک فضلو کو لے آئے۔ دوسری طرف نتھا سنگھ کو ہدایات بھیج کر عبدل کی طرف روانہ کر دیا کہ ان کو سودھے کے فیصلے سے آگاہ کر دے اور جو کچھ بھی وہ کہیں وہ آ کر خبر دے لیکن انھیں کہہ دے کہ حملہ ہر صورت کل ہونا چاہیے۔
(14)
مولوی کرامت کو جودھا پور میں تیسرا دن تھا۔ چراغ دین کے ساتے کو دو دن گزر چکے تھے۔ اُسے فضل دین کی فکر کھائے جا رہی تھی، جسے اکیلا پیچھے چھوڑ آیا تھا۔مگر اب وہ کمشنر صاحب سے ملے بغیر واپس نہیں جا سکتا تھا۔ دوسری طرف رحمتے اور اس کی بیٹی جودھا پور میں بالکل اکیلی تھیں۔تیسری طرف غلام حیدر نے دس ایکڑ زمین چراغ دین کی بیوی کے نام کرنے کا اعلان کر کے ایک عجیب کشمکش پیدا کر دی تھی۔ شریفاں رحمت بی بی اور اُس کی بچی کے ساتھ چولہے کی انگنائی میں بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔مولوی کرامت دو قدم دور بان کی چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ اُس کے ذہن میں سہ طرفہ تفکرات کی آندھی چل رہی تھی۔ خدا جانے صاحب کمشنر اُسے تحصیل بلا کر کیا کہنا چاہتا تھا۔ اُس نے کوئی ایسی ویسی بات تو کی نہیں تھی جس سے صاحب کو کچھ شک پیدا ہوا ہو۔ شاید انگریز بہادر اُس سے چراغ کی کسی خفیہ دشمن داری کی بابت سوال کرنا چاہتا تھا ؟ کچھ چیز سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ اس نے تنگ آکر سر جھٹک دیا اور دس ایکڑ زمین پر غور کرنے لگا، جو رحمتے کے نام ہونے والی تھی۔ لیکن رحمتے اس زمین کو کیا کرے گی۔ چراغ دین تو مر چکا تھا جبکہ وہ اتنی دور قصور میں رہ کر اُسے کیسے کاشت کر سکتا تھا۔ بہرحال یہ بعد کی باتیں تھیں۔ اول تو اُسے کل ہر حالت تحصیل جانا تھا۔ خیر دین ٹانگے والے سے اُس نے بات کر لی تھی۔ جو روزانہ جودھا پور سے جلال آبادسواریاں لے کر جاتا تھا۔ اُس نے کرایہ زیادہ مانگا تھا۔ پو رے ایک روپیہ وصول کر رہا تھا۔مگر پندرہ کوس پیدل طے کرنا بھی تو مشکل تھا۔ سارا دن سفر میں کٹ جاتا۔ اس طرح ایک روپے کا نقصان تو ہو جاتا مگر خیر دین کا ٹانگا اُسے دن نکلتے ہی جلال آباد پہنچا سکتا تھا۔ اگر صبح کاذب سے پہلے چل نکلتا۔ وہ انہی نے سوچوں میں گم تھا کہ رحمت بی بی نے مولوی کرامت کو مخاطب کر کے کہا۔
بھائی کرامت کچھ پتا ہے کہ سرکار بہادرنے تمہیں کیوں تحصیل بلایا ہے؟ مجھے تو لگتا ہے سرکار صلح کرانا چاہتی ہے، تمہیں بیچ میں ڈال کے۔
مولوی کرامت نے داڑھی کھجاتے ہوئے کہا، دیکھ رحمتے، سرکار کا اُس وقت تک کوئی پتا نہیں چلتا جب تک بات کھل کر نہ کرے۔ میرا خیال ہے سرکار کو اتنی خبر تو ہو گئی ہو گی کہ یہ قتل سودھا سنگھ نے ہی کرایا ہے۔ اب رہی صلح کی بات،وہ تیری مرضی کے بغیر کیسے ہو سکتی ہے ؟پھر میں نے سنا ہے کہ پرچے کا مدعی غلام حیدر خود بنا ہے اور آج کی خبر یہ ہے کہ وہ فیروز پور بڑے صاحب کو ملنے گیا ہے۔
رحمت بی بی نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا، بھائی کرامت سنا ہے، وائسرا ئے کی بیٹی کا غلام حیدر سے یارا نہ ہے۔ آج مجھے فاتاں اور شیداں نے بتایا ہے۔ انھوں نے کہا ہے سودھا سنگھ کو فکر پڑگئی ہے کہ غلام حیدر بدلہ لے کے رہے گا۔ اس لیے وہ صلح کی کوشش کر رہاہے۔ میرا تو خیال ہے چھوٹے صاحب نے سکھوں سے رشوت کھا لی ہے۔وہ تم کو بلا کر دھونس دھاندلی سے سودھا سنگھ کے ساتھ صلح کروا دے گا۔
“مولوی کرامت نے فکر مند ہوتے ہوئے سر ہلایا۔
“شریفاں رحمت بی بی کی بات سن کر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولی” ہائے ہائے کیا زمانہ ہے بہن رحمتے۔ یہ تو تم نے بڑی ناہونی سنائی۔ پر وائسرائے کی دھی غلام حیدر سے ملی کہاں؟ نا پر وائسرائے کو پتا ہے اس کہانی کا؟
رحمت بی بی چولہے میں جلتی لکڑیوں کو پھونک مارتے ہوئے بولی”اے ہے شریفاں اب بھلا مجھے اس کا کیا پتا؟” بڑے لوگوں کے ملن ملاپ کوئی ہم غریبوں سے پوچھ کر ہوتے ہیں۔ سنا ہے، اُدھر لاہور میں اونچے اونچے بنگلوں میں دونوں کی ملاقاتیں ہوئیں۔ فاتاں کہتی تھی، وائسرائے کی بیٹی بے حد چٹی گوری اور سوہنی سنکھنی ہے۔ یونہی آنکھ سے دیکھے میلی ہو جائے۔ ایسی کُڑی تو پورے ولایت میں نہیں۔
شریفاں نے فوراً رحمتے کی بات کاٹ کر لقمہ دیا، پر دیکھ رحمتے،اپنا غلام حیدر بھی تو چاند کا ٹکڑا ہے۔ اس جیسا گبھرو اُسے بھلا پورے ولایت میں ملے گا؟ آنکھوں سے خداسلامت رکھے خون چھوٹتا ہے اور رنگ مکھنوں پلے کا گلابوں میں ڈھلتا ہے۔
رحمت علی چپکے بیٹھا دونوں کی گفتگو سن رہا تھا، اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے حقے کی نَے ایک طرف کی اور اُٹھ کردروازے کی کُنڈی کھول دی۔ سامنے خیر دین کھڑا تھا ہاتھ میں چابک لیے۔ مولوی کرامت نے پیچھے مڑ کر رحمتے اور شریفاں سے رخصت لی۔ اپنی پگڑی درست کر کے باندھی اور باہر نکل آیا۔دونوں عورتیں دروازے پر آ کر مولوی کرامت کو تانگے پر بیٹھتے ہوئے دیکھ کر دعائیں دینے لگیں کہ خیر سلامت سے واپس لوٹے۔ مولوی کرامت کے بیٹھتے ہی تانگا چل پڑا۔
(15)
ولیم نے اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی ہیٹ اتار کر کھونٹی پر رکھا اور فوراً گھنٹی دی۔ گھنٹی سنتے ہی کرم دین اندر داخل ہو کر باادب کھڑا ہو گیا۔
نجیب شاہ کو بلاؤ، ولیم نے کرم دین کی طرف دیکھے بغیر نہایت سپاٹ لہجے میں حکم دیا۔
نجیب شاہ کو بلاؤ، ولیم نے کرم دین کی طرف دیکھے بغیر نہایت سپاٹ لہجے میں حکم دیا۔
کرم دین کے باہر نکلتے ہی چند ثانیوں بعد نجیب شاہ کمرے میں داخل ہوا اور ابھی اُس نے سانس بھی نہ لی تھی کہ ولیم نے ہدایات دینا شروع کر دیں،جنھیں نجیب شاہ کھڑے کھڑے نوٹ بک پر اُتارنے لگا۔
نجیب شاہ،تحصیل جلال آباد میں جس قدر سکول ہیں، اُن کا تمام ریکارڈ مجھے جلد از جلد چاہیے۔وہاں پر اساتذہ کی تعداد سے لے کر طلبااور اُن کی تعلیم کے معیار سے متعلق ہر چیز تحصیل ایجوکیشن افسرسے کہو، دو گھنٹے کے اندر لے کر میرے پاس میٹنگ کے لیے پہنچے۔ اِس کے علاوہ انسپکٹر متھرا داس اور منڈی گرو ہرسا کے تھانیدار کو بلواؤ اور غلا م حیدر کے معاملے کی فائل میز پر پہنچا دو۔
نجیب شاہ نے ہدایات نوٹ کیں اور پچھلے قدموں پُھرتی سے ُمڑا۔
اور سنو! ولیم دوبارہ بولا،آج ایک شخص مولوی کرامت کسی وقت آئے گا، اُسے مجھ سے ملے بغیر نہیں لوٹنا چاہیے۔
جی سر جیسے ہی آیا،اُسے سرکار میں حاضر کر دوں گا۔ اِس کے بعد نجیب شاہ نے نہایت ادب سے سلام کیا اور باہر نکل گیا۔
نجیب شاہ کے باہر نکلنے کے بعد کمرے میں پھر سناٹا چھا گیا۔ اس خموشی میں ولیم کا دماغ ایک دفعہ پھر سودھا سنگھ اور غلام حیدر کے بارے میں الجھ گیا۔ ولیم کو اس کیس پر کام کرتے چوتھا دن تھا۔ وہ تمام حاصل شدہ حقائق اور معلومات سامنے رکھتے ہوئے ایک نتیجے پر یقین سے پہنچ چکا تھا۔ چراغ دین کا قتل اور مونگی کے کھیت کی تباہی کا ذمہ دار سودھا سنگھ ہی تھا۔چنانچہ اُس کی گرفتاری بہت ضروری تھی۔ ولیم کمرے میں ٹہلنے لگا اور معاملات کے نشیب و فراز پر مزید غور کرنے لگا۔اسی اثنا میں کمرے کی دیواروں پر اُس کی نظر پڑی،جہاں سابقہ تحصیلداروں اور ایک اسسٹنٹ کمشنر زکی تصاویر آویزاں تھیں،جو یکے بعد دیگرے جلال آبادمیں پوسٹ کیے گئے تھے۔ولیم نے پہلے دن جب اس کمرے میں قدم رکھا تو ان تصویروں پر اُس کی نظر پڑی تھی لیکن وہ نہ جانے کیوں انھیں کمرے کی فالتو چیز سمجھ کر نظر انداز کر گیا تھا۔ اب اُس نے خیال کیا آخر ایسا کیوں ہوا۔ اُس نے ان تصاویر پر کیوں توجہ نہیں دی؟ شاید پہلی پوسٹنگ کی وجہ سے اُسے یہ گمان نہ گزرا ہو کہ اب وہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ اُس نے سوچا شاید نئے افسروں کے ساتھ ایسا ہو جاتا ہے، انھیں کافی عرصہ تک باور نہیں آتا کہ وہ افسر بن چکے ہیں۔ اسی لمحے اُسے خیال آیا اُس کی اپنی تصویر پر بھی اب یہاں آویزاں ہو جانی چاہیے۔یہ خیال آتے ہی وہ ہلکا سا مسکرادیاپھر آگے بڑھ کر گھنٹی پر ہاتھ رکھ دیا۔ گھنٹی سن کر کرم دین دوبارہ کمرے میں داخل ہوا تو ولیم نے اس کی طرف دیکھے بغیر کافی کا آرڈر دیا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ کرم دین نے کمرے سے نکلنے سے پہلے ایک چٹ سامنے رکھ دی، جس پر مولوی کرامت لکھا تھا۔
ہاں اس کو اندر بھیجو۔ ولیم نے چٹ کو ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا۔
کرم دین کے جانے کے ایک منٹ بعد ہی مولوی کرامت کمرے میں داخل ہو ااور سلام کر کے کھڑا ہو گیا۔ جیسے نماز میں قیام کی صورت ہو۔ ولیم نے مولوی کرامت کو سامنے بیٹھنے کا حکم دیا پھر کچھ دیر خموشی چھائی رہی۔ اس دوران ولیم نے محسوس کیا کہ مولوی کرامت اندر سے سہما اور ڈرا ڈرا تھا۔ ماتھے پر پسینے کے قطرے اُبھر آئے تھے۔اُنہیں حدِ ادب کی وجہ سے صاف کرنے سے گریز کر رہا تھا۔علاوہ ازیں ولیم سے آنکھیں بھی نہیں ملا رہا تھا اور نہ ہی پورے کمرے کو دیکھنے کی جرات کر سکا۔مولوی کرامت نے اپنی آنکھوں کو صرف اتنی اجازت دی تھی کہ وہ کسی شے سے ٹھوکر نہ کھا سکے۔اُس نے اُن کا دائرہ اپنے قدموں سے لے کر ولیم کی میز تک رکھا۔ کمرے میں میز اور ولیم کے سوا کیا کچھ تھا؟ یہ سب کچھ مولوی کرامت نہیں دیکھ سکا۔اِدھر سفید لٹھے کا سوٹ اور سفید پگڑی کی شفافیت نے ولیم کو ایک دفعہ پھر متاثر کیا۔ اسی اثنا میں کرم دین کافی کاکپ رکھ کر چلا گیا، جس کی ولیم چسکیاں لینے لگا۔ ولیم کی احساس تھا کہ اُس کی خموشی مولوی کرامت کے اضطراب کو بڑھا رہی ہے مگر وہ جان بوجھ کر اس عمل سے لطف لے رہا تھا، جو کچھ دیر تک مزید جاری رہا۔ جب ولیم نے کا فی کے گھونٹ کے ساتھ چھ سات چُسکیاں مزید لے لیں اور مولوی صاحب کی بے چینی بھی کافی بڑھ گئی، تو اُس نے بات کا آغاز کر ہی دیا۔
مولوی صاحب کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کچھ لکھ پڑھ سکتے ہیں؟
مولوی صاحب کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کچھ لکھ پڑھ سکتے ہیں؟
حضور، غلام کچھ کچھ عربی اور فارسی کی سُدھ بُدھ رکھتا ہے۔ عرفی کے قصیدے اور حافظ کی کئی غزلیں بھی یاد ہیں۔ اس کے علاوہ سعدی کی گلستان،بوستاں اور اُردو کے میر تقی اور غالب کے کچھ شعر اور انیس کے دو مرثیے بھی یاد ہیں۔ ہیر وارث شاہ اور بابا بلھے شاہ کی ساری شاعری تو الف سے یے تک سب زبانی یاد ہے۔ بس انگریزی سے بے بہرا ہوں۔ سرکاریہ مجھے نہیں آتی حضور۔
عربی، فارسی اور اردو کیا لکھ بھی لیتے ہو یا صرف پڑھنا ہی جانتے ہو؟ ولیم نے دوبارہ کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا۔
مولوی کی جھجھک اب کچھ دور ہو چکی تھی اس لیے کھل کر تیزی سے بولا،سرکار فَرفَر پانی کی طرح لکھتا ہوں۔ آپ کا غلام مولوی کرامت یہ کام تو بڑے ڈھنگ سے کر سکتا ہے اور سرکار میری خوش خطی کی دھوم توقصور شہر تک ہے۔دو قُرآ ن میں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں۔ بہشتی والد نے نستعلیق، نسخ، خطِ کوفی، ہر طرح کی اِملا سکھا دی تھی۔
اگر ہم چاہیں کہ آپ انگریزی سیکھو تو کتنے مہینے لگیں گے؟ ولیم نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
مولوی کرامت ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور بولا، صا حب بہادر آپ مہینوں کی بات کرتے ہیں، میں کوئی بوند لایا ہوا تھوڑی ہوں۔ تھوڑا بہت لکھنے پڑھنے کا تو دنوں میں کر لوں گا۔لیکن سرکار آخر انگریزی بادشاہوں کی زبان ہے اورسب زبانوں کی بادشاہ ہے۔اس کو سیکھنے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ مَیں اگر اِس عمر میں لکھنے پڑھنے لگ گیا تو بچوں کو کیا کھِلاؤں گا؟
اُس کی پرواہ نہ کرو۔ اُسی کا بندوبست ہم آپ کے لیے کرنے والے ہیں،ولیم نے کہا
پھر تو حضور بندہ دنوں میں ہی یہ سب کچھ سیکھ جائے گا،،مولوی کرامت انتہائی بے تابی سے بولا،، اور جو کچھ سرکار کی طرف سے کام ملے گا،وہ پورا پورا منشا کے مطابق ہو گا۔
او کے مولوی “ولیم نے کہا” ہم تم کو یہاں جلال آباد میں ایک ہیڈ منشی رکھتے ہیں۔تم بچوں کو اردو، فارسی اور عربی پڑھا یا کرو۔ اس جلال آباد کے بڑے سکول میں تمھاری پوسٹینگ کے آرڈر کروا دیتا ہوں۔ ہم نے تمھیں اسی لیے یہاں بلایا کہ تم سرکار کی نوکری میں آجاؤ۔ ہم تمہارا چالیس روپے مہینہ مقرر کروا دیتے ہیں۔
مولوی کرامت ولیم کی بات سن کر حیرانی اور خوشی کی ملی جلی کیفیت سے کانپنے لگا اور اُٹھ کر دونوں ہاتھ جوڑ کر ولیم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُس کی درازی ٔ عمر کی دعا میں مصروف ہو گیا،سرکار بہادر آپ کا احسان میری نسلوں کے ساتھ چلے گا۔ یہ آپ نے مجھ ناچیز پر ایسی عنایت کی ہے،جس کا صلہ خدا وند مسیح آپ کو دے گا اور میرا خدا آپ پر برکتیں نازل کرے۔ حضور برطانیہ کا سایہ ہندوستان پر تاقیامت رہے۔
مولوی کرامت ولیم کی بات سن کر حیرانی اور خوشی کی ملی جلی کیفیت سے کانپنے لگا اور اُٹھ کر دونوں ہاتھ جوڑ کر ولیم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُس کی درازی ٔ عمر کی دعا میں مصروف ہو گیا،سرکار بہادر آپ کا احسان میری نسلوں کے ساتھ چلے گا۔ یہ آپ نے مجھ ناچیز پر ایسی عنایت کی ہے،جس کا صلہ خدا وند مسیح آپ کو دے گا اور میرا خدا آپ پر برکتیں نازل کرے۔ حضور برطانیہ کا سایہ ہندوستان پر تاقیامت رہے۔
ولیم نے ہاتھ کے اشارے سے مولوی کرامت کو خاموش ہو جانے کے لیے کہا پھر نجیب شاہ کو کمرے میں بلا کر حکم دیا، نجیب شاہ جب تک ٹی ای او نہیں آتا، مولوی کو باہر بٹھاؤ۔
مولوی کرامت کے جانے کے بعد ولیم نے نجیب شاہ کو کچھ اور بھی ہدایات دیں اور اُس کی طرف سے پیش کی گئی بقیہ فائلوں کا ایک ایک کر کے مطالعہ کرنے لگا۔ ان فائلوں میں محکمہ مال، فوجداری،نہری اور تحصیل کے انتظامی معاملات کے متعلق بہت معلومات افزا چیزیں تھیں، جن کا مطالعہ کرنے میں ولیم کو کم ازکم ڈیڑھ گھنٹا لگ گیا۔اس عرصے میں، ٹی ای او، تلسی داس خاکی رنگ کی بڑی بڑی جیبوں اور نصف بازؤوں والی شرٹ اور سفید رنگ کا بغیر بیلٹ کے پاجامہ پہنے تحصیل کے ایجوکیشن ریکارڈ کی فائل بغل میں دابے آچکا تھا۔ لیکن اُسے ولیم کے کمرے میں اُس وقت تک جانے کی ہمت نہیں تھی،جب تک صاحب خود دوبارہ یاد نہ فرماتے۔ وہ سر پر دو پلی ٹوپی رکھے،نجیب شاہ کے کمرے ہی میں بیٹھ کر صاحب کے مکرر بُلاوے کا انتظار کرنے لگا۔نجیب شاہ کے کمرے کے باہر مولوی کرامت بھی چپڑاسیوں کی بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔جس کو ولیم کے حکم کے مطابق باہر بٹھا تو رکھا تھا لیکن اُس کے بارے میں نجیب شاہ کو ابھی کوئی ہدایت نہیں ملی تھی۔ کافی دیر بیٹھنے کے بعد اندر سے بیل کی گھنٹی بجی تو تُلسی داس کی سانس میں سانس آئی کہ صاحب کو یاد تو آیا۔گھنٹی بجنے کے فوراًبعد نجیب شاہ کمرے میں داخل ہو گیا جبکہ تُلسی داس نے پہلے تو اپنی عینک اُتار کر اُس کے شیشوں کو اچھی طرح اپنی شرٹ کی جیب میں اڑسے ہوئے رومال سے صاف کیا۔پھر اُسے آنکھوں پر چڑھا لیا۔اُس کے بعد قمیض کے کالر درست کر کے اُٹھ کھڑا ہوا اور فائل کو کھول کر اُس پر ایک سرسری نظر مارنے لگا۔ اتنے میں نجیب شاہ باہر آ گیا۔ اُس سے پہلے کہ تُلسی داس آگے بڑھ کر اندر جانے کی کوشش کرتا،نجیب شاہ نے اُسے بڑی سنجیدگی سے صاحب کا اگلا حکم سنا دیا،،صاحب کہتے ہیں میٹنگ لنچ کے بعد ہو گی۔پھر انتہائی بے نیازی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
صاحب کا حکم سن کر تُلسی داس دوبارہ اپنے آفس کی طرف چلا گیااورسب عملے نے بوسیدہ میزوں کی درازوں سے اپنے اپنے کھانے کے برتن اور گھی سے لپڑے ہوئے رومالوں میں بندھی روٹیاں نکال لیں اور کھانے میں مصروف ہو گئے۔ جبکہ مولوی کرامت وہیں بنچ پر بیٹھا اُن کو دیکھتا رہا، جس سے تمام لوگ اس طرح بے نیاز ہو چکے تھے جیسے وہ مولوی کرامت نہیں بلکہ صاحب کے آفس میں آج ہی کسی نے لکڑی کا پُتلا لا کر رکھ دیا ہو۔کرم دین چپڑاسی نے ایک رومال میں بندھا ہوا اپنا کھانا کھول لیا،جو محض دو سوکھی روٹیوں پر مشتمل تھا۔ اُن کے اُوپر پِسی ہو ئی لال مرچیں رکھی تھیں۔ کرم دین اپنا کھانا لے کر مولوی کرامت کے پاس آ بیٹھا اور اُسے اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دے دی۔مولوی کرامت بھوکا تو تھا ہی،اشارہ پاتے ہی شریک ہو گیا۔ دونوں نے ایک ایک روٹی کھا کر خدا کا شُکر ادا کیا اور مٹی کے گھڑے سے پانی پی کر دوبارہ ایک طر ف ہو کر بیٹھ گئے۔ دو بجے نجیب شاہ کو دوبارہ بُلاوا آ گیا۔ نجیب شاہ نے باہر آ کر تُلسی داس کو اندر جانے کا اشارہ کر دیا جولنچ کے بعد آ کر بیس منٹ سے نجیب شاہ کمے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔تُلسی داس نے آگے بڑھ کر آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا اور بڑے احترام کے ساتھ ولیم کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ فائل اُس نے اپنے سینے کے ساتھ لگا رکھی تھی۔ولیم نے اُسے کچھ دیر تک خموشی سے دیکھا، پھر آنکھ کے اشارے سے بیٹھنے کا حکم دیا۔
ولیم نے تُلسی داس کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد آخر گفتگو کا آغاز کر ہی دیا،،مسٹر تُلسی مجھے کچھ سوالوں کے جواب جلداور بہت مختصر چاہییں۔
، جی سر، تُلسی داس نے ولیم کی طبیعت کو بھانپتے ہوئے کہا۔
، جی سر، تُلسی داس نے ولیم کی طبیعت کو بھانپتے ہوئے کہا۔
جلال آباد میں پرائمری، مڈل اور اپر درجے کے کتنے اسکول ہیں؟ وہاں کے طلبا اور مُنشیوں کی تعداد اور حالات کے بارے میں مجھے بتاؤ،،ولیم نے دو ٹوک لہجہ اپناتے ہوئے سوال کیا۔
سرتحصیل جلال آباد میں اس وقت ایک سو ستر پرائمری کے درجے کے، آٹھ مڈل اور دو اپر درجے کے اسکول ہیں۔ جن میں مُنشیوں اور طلبا کی تعداد(فائل کھول کر اُس کا مطلوبہ صفحہ آگے بڑھاتے ہوئے)اِس میں تفصیل کے ساتھ درج ہے۔ اِس کے علاوہ بورڈنگ ہاؤس،لائبریریزاوراور دوسری بہت سی معلومات سر اس فائل میں صحیح اندراج کے ساتھ جمع کی گئی ہیں۔
ولیم فائل سامنے رکھ کر اُس کا غور سے مطالعہ کرنے لگا۔ اس عرصے میں تُلسی داس غالباً ولیم کے اگلے سوالوں کا دل ہی دل میں اندازہ لگانے میں مصروف ہو گیا۔اسی کیفیت میں پندرہ منٹ گزر گئے۔حتیٰ کہ ولیم نے سر اوپر اُٹھا یااور بولا
تُلسی داس اِن اسکولوں میں مسلمان طُلبا اور مُنشیوں کی تعدادتشویشناک حد تک کم ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟کیا سرکار کی طرف سے اُن کے لیے کوئی رُکاوٹ ہے؟
حضور،سرکار کی طرف سے اُن کے لیے کوئی رُکاوٹ نہیں۔خود اُنہی کی طرف سے رُکاوٹ ہے۔
مثلاً؟ ولیم نے مختصر پوچھا۔
اب تُلسی داس نے وضاحت کرتے ہوئے جواب دیا،،مسلمانوں کے مُلا وں نے انہیں روک رکھا ہے کہ گورنمنٹ کے اسکولوں میں نصاریٰ کی تعلیم دی جاتی ہے اور بچوں کو زبردستی عیسائی بنا دیا جاتا ہے۔وہ اسی لیے مسلمان اپنے بچوں کو گورنمنٹ کے اسکولوں میں بھیجنے سے کتراتے ہیں۔
لیکن وہ یہ پراپیگنڈہ اتنے وسیع پیمانے پر کس طر ح کر سکتے ہیں؟،ولیم نے فائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،آپ کی اس رپورٹ کے مطابق پوری تحصیل میں مسلمان طلبا کی تعداد محض ایک سو پینتیس ہے، جن میں اپر درجے کے صرف اٹھارہ بچے ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟
تُلسی داس نے سیاہ ڈوری سے بندھی ہوئی اپنی عینک آنکھوں سے اُتار کر گلے میں لٹکائی لی اور دانشوارانہ انداز میں جواب دیا،،سر،گورنمنٹ کے اسکولوں میں مسلمان طلباکی یہ حالت اسی تحصیل میں نہیں بلکہ ہر جگہ یہی کیفیت ہے۔اُن کے مُلا کے وسیع پرپیگنڈاہ کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہر گاؤں میں ایک مسجد ہوتی ہے، جس میں ایک دن میں پانچ بار یہ لوگ جمع ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور جمعہ کے روز تو ہر شخص نماز کے لیے وہاں حاضر ہوتا ہے۔ جہاں یہ اپنے مولویوں کے خطبے سنتے ہیں۔اُن خطبوں میں اِسی طرح کے درس دیے جاتے ہیں۔ اکثر لوگ اَن پڑھ ہوتے ہیں لہذا وہ اپنے مولویوں کی بات کو سچ مان کر اُس پر پورا پورا عمل کرتے ہیں اور حکومت کی بار بار تاکید کے باوجود اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے۔
اوں وووہوں، ولیم فکرمندی سے ہنکارہ بھرتے ہوئے بولا، اوکے مسٹر داس، ہمیں اس پر غور کر کے اس کا کوئی حل نکالنا ہے۔
اس کے بعد کچھ دیر خموشی چھا گئی اور ولیم اپنی کرسی سے اُٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا، جسے دیکھ کر تلسی داس بھی احتراماًاُٹھ کھڑا ہوا۔ پھر چند ثانیوں کے بعد ولیم دوبارہ بولا، تُلسی داس ابھی آپ جا سکتے ہواور یہ فائل یہیں چھوڑ دو۔
تُلسی داس سلام کر کے کمرے سے نکلنے لگا تو ولیم اُسے دوبارہ مخاطب کر کے بولا،اور سنو
تُلسی داس آواز سُنتے ہی واپس مڑا،حکم سر
تُلسی داس آواز سُنتے ہی واپس مڑا،حکم سر
باہر ایک مُلا بیٹھا ہو گا نجیب شاہ کے پاس۔اُسے جلال آباد ہائی سکول میں مُنشی کی حیثیت سے نوکر کر لو،چالیس روپے ماہوار پر،،ولیم نے اپنا حکم دوٹوک سناتے ہوئے کہا، اور آج ہی اُس کا لیٹرجاری کر کے میرے پاس لاؤ۔کسی فارسی دان سے کہنا،اُس کا انٹرویو بھی کرلے۔
جی بہتر سر، تُلسی داس سلام کر کے کمرے سے نکل گیا