اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
میری یادداشت ایک معجزہ ہے۔ مجھے سب یاد ہے بس شرط یہ ہے کہ جو بھی میں نے دیکھا ہو، شاید بصری یادداشت اسی کو کہتے ہیں۔ حالانکہ کچھ ایسا بھی ہے جو مجھے یاد نہیں آتا یا اُسے میں لفظوں کاجامہ نہیں پہنا سکتا، مثلاً مجھے ایک تاریک دُنیا کا بھی احساس ہے جسے آپ عدم کہہ سکتے ہیں، اگرچہ میرا خیال ہے کہ عدم محض ایک واہمہ ہے۔
تو مجھے اِس واہمے کا بھی احساس ہے، تاریک دنیا کی پرچھائیاں، وہاں کی اشیا جو چاقو کی نوک پر لرزتی ہوئی اُن شکلوں کی طرح ہیں جو کبھی نظر نہیں آتیں۔ شاید اِس لیے کہ چاقو سے صرف سفید کاغذ پر لکیریں ڈالی گئی ہوں؟
اور وہاں کے کھانے، اُن کا کھٹا میٹھا اور تیکھا ذائقہ۔ اور اُن کھانوں کی خوشبو، میرے پیٹ کی آنتوں کو اُلجھن میں مبتلا کرتے ہیں جس کی وجہ سے میرے دماغ کے بائیں حصّے میں کچھ کشمکش کی سی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔
میں کبھی کبھی تنگ آکر اس وبال سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر میرا حافظہ، وہ میرا وفادار کتّا دبے پاﺅں میرے پیچھے پیچھے چلاآتا ہے۔
بچپن میں اکثر سڑکوں پر چلتے وقت مجھے لگتا تھا جیسے کوئی کتا میرے تعاقب میں ہے، اب جاکر میری سمجھ میں آیا کہ وہ میرا حافظہ تھا۔
بچپن میں اکثر سڑکوں پر چلتے وقت مجھے لگتا تھا جیسے کوئی کتا میرے تعاقب میں ہے، اب جاکر میری سمجھ میں آیا کہ وہ میرا حافظہ تھا۔
خیر! اب تو بہت سی باتیں صاف ہو چکی ہیں مثلاً زندگی میں موت کی یاد اور موت میں زندگی کی یاد اس طرح گھلی ملی ہوئی ہیں جیسے بھونے جاتے ہوئے مرغ میں مسالہ۔
ویسے بھی زندگی اور موت میں کوئی فرق تو ہوتا نہیں ۔ موت کا چھینا ہوا زندگی میں حاصل ہوجاتا ہے اور موت کے اندھیرے میں کھوئی ہوئی تمام اشیا مل جاتی ہیں۔
اسی لیے اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ زندہ انسانوں کا خون مُردوں پر چھڑکتے ہیں یا مُردوں کا خون زندہ انسانوں پر۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی برآمد ہوتا ہے، یعنی کچھ کھوکر پالینا یا کچھ پاکر کھو دینا۔
ریاضی کا ایک معمولی طالب علم بھی اس سے ایک مساوات بنا سکتا ہے۔ مگر اِس مساوات کو حل کرنا یا ثابت کرنا بڑا مشکل ہے۔ یہ ایک ایساعمل ہے جس سے میں لگاتار دوچار ہوں اور شیطان کی آنت کی طرح یہ مساوات پھیلتی اور لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ اِس کی وجہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں شاید یہ ہے کہ اس سفر میں انسان اپنی روح کے جغرافیے سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کم از کم میرے ساتھ تو یہی ہوا۔ میں نے بچپن کی اپنی خاکی پتلون میں اپنی روح کے جغرافیے والا بوسیدہ کاغد سنبھال کر رکھ لیا تھا، مگر عمر کے نہ جانے کس پڑاﺅ پر اور پتہ نہیں کون سی بارش میں وہ گل سڑ گیا۔ میں نے اُسے گنوا دیا۔
اپنے اس بے رحم حافظے، زچ کرکے رکھ دینے کی حد تک اُس وفادار کتّے سے پیچھا چھڑانے کے لیے میں نے یہ ترکیب بھی سوچی کہ میں مڑ کر جلدی سے اِس کتّے کا پٹّہ پکڑ کر اُسے ناول کے کنویں میں دھکّہ دے دوں یعنی اپنی یادداشتوں کو میں ناول کے قالب میں ڈھال دوں اوراپنی جان چھڑاﺅں۔
میں اور ناول؟ یہ خیال کرکے مجھے ہنسی آتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ایک ناول لکھوں۔ مگر میں ناول تو ناول ایک چھوٹی سی کہانی بھی نہیں گڑھ سکتا بلکہ میں ایک پیراگراف تک نہیں لکھ سکتا۔ اس کی ایک، بالکل سامنے کی وجہ تو یہ ہے کہ میرے اندر قابل رحم حد تک تخلیقیت کا فقدان ہے اور دوسری، شاید زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ بچپن سے ہی میری قواعد پوری طرح ٹھپ ہے۔ میں زمانوں میں فر ق نہیں کرسکتا۔ ماضی بعید اور ماضی قریب میرے لیے ایک ہی ہیں بلکہ زمانہ حال اور زمانہ ماضی تو مجھے احساس کی سطح پر ایک دوسرے کے جڑواں نظر آتے ہیں۔ یہی حال مستقبل کا ہے، زمانہ مستقبل مجھے گزرا ہوا زمانہ ہی نظر آتا ہے۔ بچپن میں امتحان میں قواعد کے پرچے میں بس رٹ رٹاکر کام چلا لیا کرتا تھا۔ اس لیے افسوس کہ میں تو صرف مقدموں کی اپیلیں اور عرض داشتیں وغیرہ ہی لکھ سکتا ہوں، اور وہاں بھی اکثر مجھ سے گڑبڑ ہوجاتی ہے، جسے میرا محرّر ٹھیک کر دیا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں، میں اگر اتنا ناکارہ اور نااہل نہ ہوتا تو میں تو واقعی ناول لکھتا۔
میرا ناول ہی میرا گھر ہوتا۔
میرا گھر، میرا گھر۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ گھر کا سب سے خطرناک حصّہ کون سا ہوتا ہے؟
میرا گھر، میرا گھر۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ گھر کا سب سے خطرناک حصّہ کون سا ہوتا ہے؟
لہٰذا میرا المیہ یہ ہے کہ میں اپنے حافظے کے قدموں کی چاپ سے بھڑک بھڑک کر بھاگ رہا ہوں اور اُن لفظوں کے ساتھ جی رہا ہوں جو ابھی لکھے نہیں گئے۔ ان لفظوں کے شور میں اِس طرح لاپروائی سے ہاتھ پیر پھینک کر چل رہا ہوں جیسے بہرا ہوں۔ میں تو بس اپنی گزری، بھولی بسری یادوں کے اندھیروںمیں لڑکھڑا رہا ہوں۔
جائے سب کچھ جہنم میں جائے۔
میں لفظوں کی غلامی تو کرنے سے رہا، جس دنیا میں ہر انسان ایک خوفناک راز کی طرح دوسرے انسان کی زندگی پر چھایا ہوا ہو، اُس دنیا کے بارے میں، اور انسانوں کے بارے میں لکھنا ویسے بھی ایک کارِ عبث ہی ہوتا۔
ہاں مگر، انسان کی ماہیت کے بارے میں ایک بات کا مجھے بخوبی علم ہے یا احساس ہے، بلکہ میں اسے احساس کی سطح پر ہی رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ احساس جیسے ہی علم بنتا ہے۔ لوگ علم کو اپنے دماغ پر اِس طرح باندھ لیتے ہیں جیسے سُوّر کو باڑے میں۔
اور وہ احساس یہ ہے کہ انسان اپنی آنتوں کے اندر رہتا ہے۔ انسان کے اعضائے پوشیدہ تو محض انسانوں کے ہونے کے امکان، اُن کی پرچھائیوں کے ٹھکانے ہیں۔
ذہنی اور روحانی طورپر آدمی اپنی آنتوں کے اندر ہی چھپا رہتا ہے۔ اپنی بدنیتی، اپنے چٹورپن اور اپنی بھوک کو، دوسرے کے منھ پر مارتا ہوا، ایک دوسرے کی بھوک کے ذلیل لال رنگ سے دوسرے کا منھ سنا ہوا، یہ خون کی ہولی ہے۔
ذہنی اور روحانی طورپر آدمی اپنی آنتوں کے اندر ہی چھپا رہتا ہے۔ اپنی بدنیتی، اپنے چٹورپن اور اپنی بھوک کو، دوسرے کے منھ پر مارتا ہوا، ایک دوسرے کی بھوک کے ذلیل لال رنگ سے دوسرے کا منھ سنا ہوا، یہ خون کی ہولی ہے۔
خون؟
خون، جس کی بُو میرے بچپن کی جیومٹری کی کتاب میں بنے ایک ایک دائرے، ایک ایک مثلث میں اور ہراُس قضیے میں ایک خفیہ گناہ اور فاش غلطی کی مانند شامل ہے جسے میں کبھی حل نہ کر سکا۔
اور یہ بھی ایک خفیہ امر ہے کہ انسان کی آنتیں ہی اُس کا گھر ہےں۔
گھر؟؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ گھر کا سب سے خطرناک مقام کون سا ہے؟
یاد رکھیے، ’باورچی خانہ‘ ایک خطرناک اور مخدوش جگہ کا نام ہے۔