آج سارا دن ہم لوگ سٹینڈ ٹُو رہے لیکن کسی موو کا حکم ملا نہ کوئی ناگوار واقعہ ہوا۔ پُنّوں میرے پاس رہا۔بے چارہ گزشتہ چند روز کے واقعات سے بہت گھبرایا ہوا تھا، مُجھ سے اپنے خوف کا اظہار کرکے رونے لگا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، مَیں بھی جب رنگروٹی پاس کرکے پلٹن میں آیا تھا تو پینسٹھ کی جنگ چھڑ گئی تھی لیکن سب خیر خیریت سے گزر گیا۔اسے حوصلہ اور دلاسہ دیا اورچند لطیفے سُنائے تو ہنستے ہوئےاس کے سانولے گالوں پر دو گڑھے سے بن گئے۔سلمیٰ باجی کہتی تھیں کہ جب میرا بیٹا پُنّوں جوان ہوگا تو اس کی ہنسی اور گالوں کے یہ گڑھے کتنی ہی چھوریوں کو اسکا دیوانہ کردیں گے۔کاش وہ زندہ ہوتیں تو دیکھتیں کہ پُنوں ہنستے ہوئے کتنا پیارا لگتا ہے۔
کیپٹن دُرّانی صاحب نے دوپہر کو ہمیں فالن کیا ۔ وہ بہت غصے میں تھے۔ہم سے خطاب کرتے ہوئے بولےکہ ریڈیو اور دیگر ذرائع سے افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ پاک فوج کے جوان بنگالی خواتیں کی عزت لوٹنے میں ملوث ہیں وغیرہ۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ خبریں جھوٹی ہیں اور رضاکاروں، مُکتی باہنی، سنٹرل پیس کمیٹی اور دیگر آوارہ تنظیموں کی غلط کارروائیوں کا الزام ہم پر لگایا جا رہا ہے اور اگر کوئی جوان ان خبروں پر تبصرہ کرتا ہوا پایا گیا تو اُس کا فوری طور پر کورٹ مارشل کیا جائے گا۔ اُنہوں نے ہمارے ریڈیو سُننے پر بھی پابندی لگا دی۔لانس نائیک غلام شبیر صاحب عُرف چمڑا، جو کہ گانے کے بہت شوقین ہیں ،یہ سُن کر کہنے لگے”سر اب ان تمام جوانوں کو گانا سُنانے کی ڈیوٹی میرے ذمے لگائی جائے”دُرّانی صاحب مُسکرا اُٹھے اور کہا “تاکہ جوانوں کو دوگُنی بوریت ہو؟”ہم لوگ ہنس دیئے اور کچھ ماحول ہلکا ہوا۔
شام کے وقت کیپٹن صاحب نے حُکم دیا کہ کھانا اُن کے ساتھ کھاوں۔آج تمام کیمپ نے صرف شام کا کھانا ہی کھایا۔میں نے ڈرتے ڈرتے دن کی افواہ کے بارے میں پوچھ لیا تو کیپٹن صاحب نے کہا “سب بکواس ہے یار۔ دیکھو تنویر ، تم بچے نہیں، بارہ جماعتیں پاس ہو، ہم ان حالات میں جس طرح دشمنوں میں گھِرے ہیں، کیا ہمارے پاس ان کارروائیوں کی فرصت ہے؟” پھر کچھ دیر خاموش رہ کر دوبارہ بولے “تنویر حُسین، جنگ میں سب سے پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے—کُچھ بھی ممکن ہے”
(سٹینڈ ٹو:چوکس، تیار۔ فالن: انگریزی کا لفظ Fall-in ، مراد اکٹھا ہونا، صف میں)