Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

میکال حسن – لالٹین انٹرویو

test-ghori

test-ghori

05 مارچ, 2014
لالٹین:حال ہی میں آپ کے ساتھ ہندوستان کے دورے کے دوران کچھ ناگوار واقعات پیش آئے۔ ہندوستان میں آپ کی پریس کانفرنس پر ہندوانتہا پسند تنظیم شیو سینا کے کارکنوں کے حملے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
میکال حسن: میکال حسن بینڈ ،راحت فتح علی خان، سٹرنگز اورعاطف اسلم جیسے پاکستانی فنکار گزشتہ کئی برسوں سے ہندوستان جا کر پرفارم کر ہے ہیں لیکن ایسی صورتِ حال کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا۔ میرا خیال ہے یہ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا تعلق وہاں کی انتخابی سیات سے ہے، ذاتی حیثیت میں کسی کو کبھی پاکستانی فنکاروں سے کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ شیوسینا ہمیشہ سے پاکستانی فن کاروں اور کھلاڑیوں کے ہندوستان خصوصاً مہاراشٹر میں کھیلنے اور پرفارم کرنے کے خلاف رہی ہے۔ انتخابات کا سال ہونے کی وجہ سے بھی وہاں پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دی جارہے۔یہی وجہ ہے کہ بمبئی میں ہماری پریس کانفرنس سے ایک ہفتہ قبل ٹول بوتھ پر بھی شیو سینا نے ہنگامہ آرائی کی۔ پھر بمبئی پریس کلب میں ہماری پریس کانفرنس کے دوران توڑ پھوڑ کی گئی اور ہمیں پریس کانفرنس کرنے سے روک دیا گیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بمبئی پریس کلب میں اس سے قبل دو بار ہم پرفارم کر چکے ہیں اور کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ تاہم ایسی مشکلات کے باوجود میکال حسن بینڈ ہندوستانی فنکاروں کے ساتھ مل کر سٹوڈیو البم اور لائیو پرفارمنسز کرتا رہے گا۔ ہندوستانی فنکار اور پاکستانی سفارت خانہ ہمارے ساتھ بھر پور تعاون کرنے کو تیار ہیں۔مجھے ہندوستان کے موسیقی سے محبت کرنے والے لوگ بلاتے ہیں شیو سینا نہیں۔ ہندوستان پاکستان کے بیچ مسائل بیورو کریٹک اور سیاسی ہو سکتے ہیں مگر ہندوستان پاکستان کا سُر علیحدہ نہیں ہو سکتا۔ ہماری ثقافت اورموسیقی ایک ہے، راگ اور بندشیں ایک ہیں ، ہمارا سر ہندوستانیوں کو پسند آتا ہے تو ہی وہ ہمیں بلاتے ہیں اور ہمیں ان کا سر پسند ہے تو ہم انہیں سنتے ہیں۔

لالٹین: آپ نے ابھی ہندوستانی فنکاروں کے ساتھ مل کر پرفارم کرنے کی بات کی۔ آج کل آپ ہندوستانی فنکاروں کے اشتراک سےایک البم ریکارڈ کر رہے ہیں۔ اپنے نئے البم کے حوالے سے کچھ بتائیں؟
میکال حسن: “سمپورن ” اور “سپتک” کے بعد میکال حسن بینڈ کا یہ تیسرا البم ہے اور اس کی موسیقی بھی میکال حسن بینڈ کے گزشتہ البمز کی طرح صوفیانہ ، کلاسیکی اور مغربی موسیقی کا امتزاج ہو گی ۔ اس البم میں بھی ع ہم ارفانہ کلام اور کلاسیکی بندشیں مغربی مووسیقی کے امتزاج سے پیش کی جائیں گی۔فرق یہ ہے کہ اس بار ہمارے بینڈ لائن اپ میں مقامی فنکاروں کے ساتھ غیر ملکی فنکار بھی ہوں گے۔اس البم میں ہندوستان سے شرمیستا چیٹر جی (vocals)،جینو بینکس (Drums)، شیلڈن ڈی سلوا (Bass) ہیں اور باقی محمد احسن پپو (Flute) اور میں گٹار پر ہوں گا۔ یہ البم “اندھولن” کے نام سے مارچ یا اپریل میں مارکیٹ میں ریلیز ہوگا۔ اس کے علاوہ ہمارا فوک بینڈ بھی اپنا کام جاری رکھے گا۔ہم اُ دے پور میں راجھستانی فنکاروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ آئندہ ہمارا ارادہ ہے کہ پاکستان کے تمام صوبوں کے فنکاروں کو اپنے فوک بینڈ میں شامل کر کے کام کیا جائے۔ میں حمیرا چنا کے ساتھ مہدی حسن کو خراج ِتحسین پیش کرنے کے لئے بھی ایک البم کر رہا ہوں۔ حمیرا چنا کے ساتھ ہی غزل اور لوک گیت کے دو البم کرنے کا ارادہ بھی ہے، ایک قوالی البم بھی جلد شروع کروں گا۔
میکال حسن اپنے سٹوڈیو میں
میکال حسن اپنے سٹوڈیو میں

لالٹین: آپ کے بینڈ کا لائن اپ اور آپ کی موسیقی دونوں میں بہت Diversity ہے ۔یہ خیال کیسے آیا کہ آپ فوک گلوکاروں اور روایتی موسیقی کو اپنے بینڈ کے ذریعے فروغ دیں گے ؟؟
میکال: میں جب امریکہ سے واپس پاکستان آیا تو اس وقت پاکستان میں جنون، سٹرنگز اور بہت سے دیگر بینڈز پرفارم کر رہے تھے اور یہ سب بینڈز ہماری روایتی موسیقی کو اپنے اپنے اندازمیں پیش کررہے تھے۔ہمارے پاپ بینڈز کے سب سے مشہور گانے بھی لوک گیت ہی ہیں جنہیں وہ اپنے انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ لیکن ان بینڈز میں شامل فنکار باقاعدہ موسیقی کے پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگ نہیں تھے جس کے باعث ہمارے سٹوڈیوز میں کام کرنے والے عام “موسیقی پیشہ فن کار” نظر انداز ہو رہے تھے ۔ اکثر ان فنکاروں کو ان کے کام کا کریڈٹ بھی نہیں دیا جاتا تھا، سٹیج اور ٹیلی وژن پر ان لوگوں کی نمائندگی نہیں تھی اور یہ بات مجھے خاصا ناگوار محسوس ہوتی تھی۔ میں نے یہ بینڈ پاکستان کے ایسے باصلاحیت فنکار وں کو سامنے لانے کے لئے تشکیل دیا تھا جو تعلیم یافتہ نہ ہونے یا غربت کے باعث گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میکال حسن بینڈ کی وجہ سے جاوید بشیر، گمبی اور محمد احسن پپو سمیت کئی فنکاروں کو پہچان اور شہرت حاصل ہوئی۔ میکال حسن بینڈ کی شناخت اس خطے اور اس خطے کے فنکاروں سے جُڑی ہوئی ہے
آج کا موسیقار اور گلوکار صرف “پاپولر انٹرٹینمنٹ آئیکون “(Popular Entertainment Icon) ہے۔آج کل لوگ صرف مشہور ہونا اور خبروں میں رہنا چاہتے ہیں اسی لئے بعض لوگ ہر وقت ٹی وی پر نظر آتے رہتے ہیں۔ بہت سے فنکار تو لگتا ہے ریاض کرنے کے سوا دنیا کا ہر کام کر رہے ہیں۔
لالٹین: جب آپ نے2001 کام شروع کیا تب بہت سے لوگ گارہے تھے ، نئے بینڈز اور گلو کار ٹی ویی، ریڈیو اور کانسرٹس میں نظر آ رہے تھے ۔ آپ کے خیال میں کیا وجہ ہے کہ گزشتہ دس برس میں کوئی نیا فن کار سامنے نہیں آیا، اور بہت سے فنکار یا تو مذہب کی طرف مائل ہو کر موسیقی کا شعبہ چھوڑ چکے ہیں یا پھر کسی مقصد یا نظریے کی ترویج کے لئے گا رہے ہیں ؟
میکال: آج کا موسیقار اور گلوکار صرف “پاپولر انٹرٹینمنٹ آئیکون “(Popular Entertainment Icon) ہے۔آج کل لوگ صرف مشہور ہونا اور خبروں میں رہنا چاہتے ہیں اسی لئے بعض لوگ ہر وقت ٹی وی پر نظر آتے رہتے ہیں۔ بہت سے فنکار تو لگتا ہے ریاض کرنے کے سوا دنیا کا ہر کام کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان فنکاروں سے پو چھا جائے کہ یہ دن بھر میں کتنی Practice کرتے ہیں تو یقیناً یہ لوگ اتنا وقت موسیقی سے زیادہ وقت اپنے میک اپ اوروارڈروب پر صرف کرتے ہوں گے۔ میرا نہیں خیال کے اچھے کپڑوں سے سُر بھی سیدھا ہو سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان میں ہر فنکار دوسرے فنکار کی موجودگی سے خوف زدہ ہے اگر کسی کو اپنے کام کا پتہ ہے تو دوسرا اس سے ڈرتا ہے۔ یہاں ایک دوسرے کا حق مارنے اور دوسرے سے خوف زدہ ہونے کی نفسیات کی وجہ سے بھی باصلاحیت لوگ سامنے نہیں آ سکے اور کوئی نیا فنکار سامنے نہیں آیا۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اب کارپوریٹ سیکٹر کے لئے انٹرٹینمنٹ نہیں رہے، ان کمپنیوں کے لئے اب نئے گلوکاروں کو سامنے لانا ترجیح نہیں رہا۔

لالٹین: کیا موسیقی کی تعلیم اور تربیت کے اداروں کی کمی کی وجہ سے ہمارے پاس اچھے فنکاروں کی کمی ہے؟
میکال: جہاں تعلیم ترجیح نہ ہو وہاں آرٹ اور آرٹسٹ کیسے ترجیح ہو سکتے ہیں۔

لالٹین: آپ موسیقی کو کسی مقصد یا مفاد کے لئے استعمال کرنے کی بجائے موسیقی کو بطور ایک فن دیکھنے کے قائل ہیں کبھی کمرشل کام کرنے کا نہیں سوچا؟
میکال : میرے خیال میں تمام قسم کی موسیقی کمرشل ہے، اسے بجانا ، پیش کرنا اور سننا سب کچھ کمرشل ہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ کون سی موسیقی عام فہم ہے ، مقبول ہے اور کس قسم کی موسیقی منفرد اور اختراعی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید لوگ ہماری موسیقی سے اس لئے نا آشنا ہیں کیوں کہ وہ راگ کی چلن یا مشرقی موسیقی کی نزاکت سے ناواقف ہیں ۔ عام لوگوں کو اس موسیقی سے روشناس کرانے کے لئے اس موسیقی کا زیادہ سے زیادہ بجایا جانا اور عام فہم بنانا ضروری ہے۔ اور پھر ایسا نہیں کہ ہمارا میوزک مقبول نہیں ہے۔میکال حسن بینڈ کے گیت “سجن دے ہتھ بانہہ ،””کدی آ مل سانول یار،” اور ربا میرے حال دا محرم تُو” گزشتہ دس برس سے ہندوستان پاکستان کے تمام ٹیلنٹ شوز میں گائے جارہے ہیں، لوگوں نے یہ گانے سنے ہیں توہی گاتے ہیں۔ میرے نزدیک اچھا کام جب بھی اور جو بھی کرے گا اس کی پذیرائی ہو گی، ہم نے اچھا کام کیا ہے جبھی لوگ ہمارے گیت دس برس سے سن رہے ہیں۔ ہندوستان میں جتنے روز ہم رہے ہیں وہاں لوگ ہماری پزیرائی کرتے رہے ہیں،تاہم میں نے کبھی خود کو کیش کرانے یا ہر وقت میڈیا میں رہنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمیں اپنی جگہ بنانے کے لئے میڈیا کوریج کی ضرورت نہیں ہماری موسیقی ہی ہماری پہچان کے لئے کافی ہے۔

لالٹین: آپ نے اپنی فنی زندگی کا آغاز عالمی شہرت رکھنے والے فنکاروں کے ساتھ کام کر کے کیا تھا۔ اس زمانے میں آپ نے پیٹ لاکٹ، پیٹر گبرئیل، رابرٹ پلانٹ اور سمپلی ریڈ جیسے فنکاروں کے ساتھ کام کیا تھا۔ یہ تجربہ کیسا رہا؟
میکال :جب ایسا کچھ ہو رہا ہو تو آپ کچھ سوچتے نہیں۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ میں کس کے ساتھ بجا رہا ہوں، میں نے ہمیشہ اس بات پر غور کیا ہے کہ کیسی موسیقی پیش کی جائے ۔ ابھی ہندوستان میں شنکر مہادیون اور پریتم جیسے لوگ بھی ہمیں ملے، اور یہ اتنے بڑے لوگ ہماری عزت اسی لئے کرتے ہیں کیوں کہ ہم کچھ اوریجنل (Original)اور اچھا بجا رہے ہیں ۔ میں کسی کے ساتھ بھی کام کر رہا ہوں تو میں اپنی پسند کی موسیقی بجاتا ہوں اور اسی لئے ہمارا دنیا بھر میں نام ہے ۔ ان لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے بھی ہم اپنی موسیقی پیش کر رہے تھے اور آج بھی ہم اپنی مرضی اور پسند کی موسیقی بجا رہے ہیں۔

لالٹین : برکلےکالج بوسٹن کا کیا اثر اپنی موسیقی پر دیکھتے ہیں؟
میکال: برکلے میں پڑھنے سے مجھے یہ احساس ہوا کہ مجھے ایک روایتی راک بینڈ نہیں بنانا جو ویسٹرن بینڈز کے گانے کاپی کرکے اپنے نام سے پیش کر دے۔ جب مجھے وہاں کے فنکاروں سے ملنے کا موقع ملا تو احساس ہوا کہ وہاں کی موسیقار بھی چالیس اور پچاس کی دہائی میں اپنے سیاہ فام امریکی فنکاروں کے ساتھ وہی سلوک کررہے تھے جو آج ہمارے ہاں کے عام پیشہ ور موسیقاروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔اس زمانے میں وہاں سیاہ فام فنکاروں سے ان کی رنگت، غربت اور تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ اسی سے متاثر ہو کر میں نے میکال حسن بینڈ میں مقامی فنکاروں کو موقع دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے بینڈ میں ہمیشہ تما فنکاروں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا ہے۔ میکال حسن بینڈ کے ویڈیوز میں تو سیشن آرٹسٹ کو بھی فیچر کیا جاتا ہے، کوئی اور بینڈ ایسا نہیں کرتا۔
پاکستان کے بد ترین حالات میں موسیقی کی خدمت کرنے والےغلام علی ،غلام عباس اور حمیرا چنا جیسے فنکاروں کو کو ک سٹودیو میں صرف اس لئے نظر انداز کردیا گیا کہ یہ لوگ سکرین پر اچھے نہیں لگیں گے،کوک سٹوڈیو میں بعض ایسے لوگوں کو گانے کا موقع ملا جن کے بارے میں کبھی کسی نے سنا ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ گاتے بھی ہیں۔
لالٹین:میکال کوک سٹوڈیو پاکستان کا واحد پروگرام ہے جو پاکستان سے دنیا بھر میں برآمد ہوا۔ آپ کے کچھ تحفظات رہے ہیں اس پروگرام کے حوالے سے۔ کیا وجہ ہے کہ آپ کوک سٹوڈیو انتظامیہ سے بہت خوش نظر نہیں آتے۔
میکال: کوک سٹوڈیو کے حوالے سے سب باتیں با ر بار نہیں کی جاسکتی۔ کوک سٹوڈیو ایک ایسا پروگرام ہے جس نے ہماری کارپوریٹ انٹرٹینمنٹ کا رخ تبدیل کر دیا ہے۔ اس پروگرام سے پہلے کانسرٹس ہوا کرتےتھے اور ملٹی نیشنلز نوجوانوں کو کام کرنے اور گانے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتی تھیں، لیکن اب ہر کمپنی سوشل میڈیا کے ذریعےنوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتی ہے جس کے باعث ہماری لوک موسیقی اور کانسرٹ کی روایت ختم ہوئی۔ اور پھر کوک سٹودیو کی پروڈکشن کے تمام اختیارات ایک ہی فرد کے سپر کر دینے سے موسیقی اور فنکاروں کے انتخاب میں شفافیت اور معیار برقرار نہیں رہا۔ پاکستان کے بد ترین حالات میں موسیقی کی خدمت کرنے والےغلام علی ،غلام عباس اور حمیرا چنا جیسے فنکاروں کو کو ک سٹودیو میں صرف اس لئے نظر انداز کردیا گیا کہ یہ لوگ سکرین پر اچھے نہیں لگیں گے،کوک سٹوڈیو میں بعض ایسے لوگوں کو گانے کا موقع ملا جن کے بارے میں کبھی کسی نے سنا ہی نہیں تھا کہ یہ لوگ گاتے بھی ہیں۔ ایک “شخص” کی اجارہ داری کی بجائے موسیقی کے شعبہ سے وابستہ دیگر لوگوں سے مشاورت کر لینی چاہئے تھی۔ میں میکال حسن بینڈ کی یا اپنی بات نہیں کر رہا ، میری زندگی کا مقصد کوک سٹوڈیو میں آنا نہیں انڈسٹری میں اور بہت سے لوگ موجو دتھے جن سے پوچھ لیا جاتا تو اچھا ہوتا ۔یہ وجہ بھی ہے کہ کوئی نیا فنکار سامنے نہیں آیا کیوں کہ مستحق لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی اور نہ ہی مقامی موسیقاروں کو کریڈٹ دیا گیا۔ ہندوستان نے کوک سٹوڈیو کے لئے ہر جگہ روڈ شوز کئے ہیں اور ایک کی بجائے کئی مختلف پروڈیوسرز کے ذریعے سے موسیقی پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس سے ہندوستان کے ہر خطے کی موسیقی اور فنکار سامنے آئے ہیں۔اسی طرح نیسلے بیسمنٹ میں اگر نئے گانے نہیں بنائے جا رہے تو کم از کم زلفی )نیسلے بیسمنٹ کے پروڈیوسر( نئے لوگوں کو موقع تو دے رہے ہیں۔ چھ سال کوک سٹوڈیو چلتا رہا ہے مگر کوئی نئی آوز سامنے نہیں آئی تو ایسے پروگرام کا کیا فائدہ۔

فیوژن دو مختلف کلچرز کے ردھم(Rhythm) اور میلوڈی(Melody) کو ملانے اور ان کی Groove کوسمجھنے سے ہوتا ہے، صرف طبلہ، ڈرم ، گٹار اور کلاسیکی گائیک اکٹھے کر لینے سے فیوژن نہیں ہوتا۔ اصل میں آپ کو اپنی میلوڈی کو کسی دوسری ثقافت کے ذریعے سے پیش کرنا ہوتی ہے۔
لالٹین: کوک سٹوڈیو سمیت ہندوستان پاکستان میں ہر گلوکار اور پروڈیوسر فیوژن (Fusion)کر رہا ہے۔آپ کا فیوژن باقی فنکاروں کے فیوژن سے کیسے مختلف ہے؟
میکال : فیوژن دو مختلف کلچرز کے ردھم(Rhythm) اور میلوڈی(Melody) کو ملانے اور ان کی Groove کوسمجھنے سے ہوتا ہے، صرف طبلہ، ڈرم ، گٹار اور کلاسیکی گائیک اکٹھے کر لینے سے فیوژن نہیں ہوتا۔ اصل میں آپ کو اپنی میلوڈی کو کسی دوسری ثقافت کے ذریعے سے پیش کرنا ہوتی ہے۔ میکال حسن بینڈ کی تمام تر میلوڈی مشرقی کلاسیکی موسیقی سے اخذ کی ہوئی ہے جب کے ہماری موسیقی کے Arrangements اورChords مغربی موسیقی سے لئے گئے ہیں اس کے باوجود ہمارے گیتوں میں راگ کے چلن کو مسخ نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر میں آپ کو مالکونس سناوں گا تو مالکونس کی اصل شکل برقرار رہے گی لیکن آپ کو اس کا انداز مختلف لگے گا۔ یونان، ہندوستان، رومن چرچ اور باخ کے بعد کی مغربی موسیقی سمیت کئی مختلف قسم کی موسیقی دنیا میں موجود ہے جسے فیوژن کے ذریعے پیش کیا جارہا ہے۔ کچھ لوگ اچھا کام کر رہے ہیں جیسے Clinton Cerejo، لیکن زیادہ تر فیوژن غیر معیاری اس لئے ہوتا ہے کیوں کہ ہر کوئی استاد نصرت فتح علی خان صاحب کی طرح موسیقی کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتا۔لوگ مختلف ثقافتوں کی سب سے نمایاں اور عام پائی جانے والی چیزوں کا فیوژن کرتے ہیں جو disconnected محسوس ہوتا ہے کیوں کہ لوگ مختلف ثقافتوں کی موسیقی کی نزاکت کو سمجھے بغیر ایسا کرتے ہیں۔

لالٹین: لائیو موسیقی سننے کی روایت پاکستان میں ختم ہو چکی ہے۔ اس روایت کی بحالی کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے؟
میکال: اس کے لئے موسیقاروں اور گلوکاروں کو خودکوشش کرنی ہوگی اگر پاکستانی گلوکار گانا چاہتے ہیں تو پھر اس کے مواقع بھی انہیں خود پیدا کرنے ہوں گے۔ ہم کسی ادارے یا کارپوریٹ سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ ہمیں گانے کا موقع دے اور ہمارے پروگرام کرائے۔ ہم نے اپنا بینڈ اور سٹوڈیو اسی طرح سے بنایا ہے۔ لوگ سننا چاہتے ہیں لیکن گانے والے ہمیشہ سپانسر کے انتظار میں رہتے ہیں۔ زیادہ کمانے کے چکر میں فنکار خود کم سے کم مشقت کرنا چاہتے ہیں۔

لالٹین: آپ نوجوان اور نئے آنے والے گلوکاروں کو کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں؟
میکال: ایک زمانہ تھا کہ میں لوگوں کو بہت کہا کرتا تھا کہ ریاض کرو اور مشق کرو اب وہ حالات نہیں رہے، سمجھ ہی نہیں آتا کہ لوگوں کو کیا کہوں۔