اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں – چوتھی قسط

عبدالمجید عابد: جماعت اسلامی نے بحیثیت جماعت یا اس کے اکابرین نے بحیثیت افراد اس پر کوئی عملی اقدام تو کجا زبان سے ایک حرف تک نہ نکالا، بلکہ ایک اصولی اسلامی جماعت کی حیثیت سے اپنے دور اول میں اس نے ایسی باتیں کہیں کہ جن سے قادیانیوں کی تکفیر کی براہ راست نہ سہی بالواسطہ ضرور ہمت شکنی ہوتی ہے۔

مزاح کی مابعد الطبعیات

عبدالمجید عابد: ہمارے معاشرے میں پدر شاہی نظام، فوج، ذات پات کے نظام اور ملا کی اجاری داری ہے۔ عمدہ لطائف وہ ہوں گے جو ان برتر قوتوں پر چوٹ کریں، ان کی بے مائیگی پر طنز کے نشتر چلائیں، ان کے استبداد کی مخالفت کریں۔

یہ چار عناصر ہوں تو۔۔

عبدالمجید عابد: یہ شناخت پنجاب اور دیگر صوبوں کے شہری علاقوں میں دیہی علاقوں کی نسبت نمایاں ہے۔ ہمارے لئے فکر کی بات یہ ہے کہ اس شناخت کو بعینہٰ تسلیم کیا جائے یا اسے بدلنے کی سعی کی جائے؟

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں-پہلی قسط

اکتوبر انیس سو پینتالیس میں مولانا مودودی نے اپنی جماعت کے ارکان کو انتخابات میں مسلم لیگ کو ووٹ ڈالنے سے منع کیا۔ حالانکہ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے ’اسلام خطرے میں ہے‘ کا نعرہ بلند کیا تھا اور پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں اسے مذہبی شخصیات کی آشیر واد حاصل تھی۔

سیاسی اسلام کی ناکامی

عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد مولانا مودودی اور حسن بناء کا وضع کردہ 'سیاسی اسلام' کا نظریہ متنوع سیاسی اور سماجی حالات کے حامل متعدد ممالک میں ناکام ہو چکا ہےاور اب اسے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینے کی ضرورت ہے۔

معراج محمد خان

استعفیٰ دینے کے کچھ عرصے بعد بھٹو صاحب کے حکم پر معراج کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور گرفتار کر لیا۔ بھٹو دور کے باقی ماندہ سالوں میں معراج ایک جیل سے دوسری جیل کے چکر کاٹتا رہا اور مختلف کمیونسٹ جماعتوں کا رکن رہا۔