‘ایک کامل زندگی کی تین جہات’ کو میں ایک ایسے موضوع کے طور پر برتنا چاہتا ہوں جس کی تبلیغ کی جا سکے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہالی وڈ میں کسی بھی فلم کو مکمل کرنے کے لیے وہ بتایا کرتے ہیں کہ اُس کو (3D) سہ جہاتی ہونا چاہیے۔ آج میں چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی پر نظر کرے کہ آیا یہ کامل ہے؛ اس کی تین جہات ہونی چاہئیں۔
بہت بہت صدیوں بیشتر ایک آدمی تھا جس کا نام جون (John) تھا۔ وہ پیٹموس (Patmos) نامی ایک تاریک و تنہا جزیرے پر قید ہو گیا۔ اور میں بھی قید میں رہا ہوں اور اچھے سے جانتا ہوں کہ یہ تنہائی کا ایک تجربہ ہے۔ اور جب آپ اس حالت میں مبتلا ہوتے ہیں، آپ ہر قسم کی آزادی سے محروم ہو جاتے ہیں، ماسوائے سوچنے کی آزادی سے، عبادت کی آزادی سے، غور و فکر کی آزادی سے، مراقبے کی آزادی سے۔ اور جب جون اس جزیرے پر تنہا قید تھا، اس نے اپنی نگاہیں آسمان تک بلند کیں اور اس نے فلک سے نازل ہوتے ہوئے، ایک نئی زمین کو دیکھا۔ انجیل کے اکیسویں باب ریویلیشن (Revelation) کے شروع میں ایک مقولہ ہے، ‘اور میں نے ایک نیا فلک دیکھا اور ایک نئی زمین۔ اور میں جون ہوں، میں نے ایک مقدس شہر دیکھا ایک نیا یروشلم، جو خداوند کے عالم بالا سے نازل ہو رہا تھا۔’
اور خداوند کے اِس عظیم شہر کی عظمتوں میں سے سب سے بڑی عظمت یہ بھی تھی کہ جون نے اِس کو کامل دیکھا۔ یہ کہیں سے اونچا اور کہیں سے نیچا نہیں تھا بلکہ، اپنی تینوں جہات میں کامل تھا۔ اور اِسی باب میں جب ہم سولہویں آیت کو دیکھتے ہیں، جان کہتا ہے: اس کے طول، عرض اور بلندی مساوی ہیں؛ دیگر الفاظ میں خدا کا یہ شہر، مثالی انسانیت کا یہ شہر ایک غیرمتناسب وجود نہیں ہے بلکہ تمام اطراف سے کامل ہے۔ اب میں سوچتا ہوں کہ یہاں جون علامتوں میں کچھ کہہ رہا ہے۔ وہ بنیادی طور پر کہہ رہا ہے کہ زندگی کو زندگی ہونا چاہیے اور بہترین زندگی وہ ہے جو تمام اطراف سے کامل ہو۔
اور کسی بھی زندگی کے کامل ہونے کی تین جہات ہیں؛ جس کے لیے ہم مناسب طور پر انہیں تین الفاظ دے سکتے ہیں: طول، عرض اور بلندی۔ اب زندگی کے طول کو ہم یہاں ایسے استعمال کریں گے کہ کسی کی اپنی بھلائی کے لیے انفرادی فکر۔ دیگر الفاظ میں یہ ایک داخلی سعی ہے جو کسی کے آگے بڑھنے کے اپنے مقاصد اور نصب العین کی وجہ بنتی ہے۔ زندگی کا عرض، جِسے ہم یہاں دوسروں کی بھلائی کے لیے خارجی فکر کے طور پر استعمال کریں گے۔ اور زندگی کی بلندی اوپر خداوند تک رسائی ہے، اب تمہیں کامل زندگی پانے کے لیے یہ تینوں جہات درکار ہیں۔
اب کچھ دیر کے لیے زندگی کے طول پر بات کرتے ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ یہ زندگی کی وہ جہت ہے جہاں ہماری فکر اپنی داخلی طاقتوں کی بلوغت کے لیے ہوتی ہے۔ ایک طرح سے یہ ایک خود غرضانہ جہت ہے۔ یہ ایک معقول اور صحت مندانہ مفاد جیسی بات ہے، ایک عظیم یہودی پیشوا، مرحوم جوشوا لِیب مین (Joshua Leibman) نے کچھ سال پیشتر ‘ذہنی سکون‘ (Peace of Mind) کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس میں ایک باب ‘اپنے آپ سے ڈھنگ سے محبت کرو۔’ (Love Thyself Properly) کے عنوان سے تھا۔ اور خلاصتًہ وہ اس باب میں کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ آپ دوسروں سے اچھے سے محبت کر سکیں، آپ کو پہلے اپنے آپ سے ڈھنگ سے محبت کرنی ہو گی۔ آپ جانتے ہیں بہت سے لوگ جو خود سے محبت نہیں کرتے، وہ زندگی میں گہرے اور حسرت ناک جذباتی تصادم سے گزرتے ہیں۔ سو زندگی کا طول یہ ہے کہ آپ لازماً خود سے محبت کریں۔
اور آپ جانتے ہیں کہ اپنے آپ سے محبت کا اور کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے خود کو قبول کرنا ہے۔ بہت سے لوگ کوئی اور بننے کی سعی میں مصروف ہوتے ہیں۔ خدا نے ہم سب کو کچھ نہ کچھ خاص عطا کیا ہے۔ اور ہمیں ہر دن خدا سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں خود اپنے آپ کو قبول کرنے میں مدد دے۔ یہ ہی سب کچھ ہے۔ بہت سے وحشی نیگروز اپنے وجود پر شرمندہ ہیں، کالے ہونے پر شرمندہ ہیں، ایک نیگرو کو اٹھنا ہو گا اور اپنی روح کی گہرائی سے کہنا ہو گا کہ، ‘میں ایک وجود ہوں۔ میرا ایک قیمتی، باوقار اور پُرفخر اثاثہ ہے۔ میری تاریخ جتنی بھی استحصال زدہ اور جتنی بھی دردناک رہی ہے؛ میں کالا ہوں۔ بلکہ کالا اور خوب صورت ہوں۔’ ہمیں یہی کہنا ہو گا۔ ہمیں خود کو قبول کرنا ہے۔ اور ہمیں دعا کرنی چاہیے، اے خدا ہر دن خود کو قبول کرنے میں میری مدد فرما؛ اپنی صلاحیتوں کو قبول کرنے میں مدد دے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں کالج میں تھا، میرا میجر (خصوصی مطالعے کا مضمون) عمرانیات تھا اور تمام عمرانیات میجر والوں کو ایک مضمون پڑھنا پڑتا تھا، جو شماریات کہلاتا تھا۔ اور شماریات کافی مشکل ہو سکتی ہے۔ آپ کے پاس حساب کتاب والا دماغ ہونا چاہیے، اور جیومیٹری کا درست علم، اور مِین، میڈین، موڈ ڈھونڈنا آنا چاہیے۔ میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ میں نے یہ مضمون پڑھا اور آپ جانتے ہیں میرا ایک ہم جماعت تھا جو یہ کام فوری کر سکتا تھا۔ اور وہ اپنا کام ایک گھنٹے میں کر لیتا تھا۔ ہم اکثر لیب یا ورک شاپ میں جاتے، وہ صرف ایک گھنٹہ میں اس پر کام کر لیتا اور بیٹھ جاتا۔ اور میں وہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، جو وہ کر رہا تھا۔ اور میں اپنا کام ایک گھنٹہ میں کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور جتنا میں اس کو ایک گھنٹہ میں کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اُتنا ہی اس میں مار کھا رہا تھا۔ اور مجھے ایک تلخ نتیجے پر پہنچنا پڑا اور کہنا پڑا: ‘اب سنو مارٹن لوتھر کنگ، لیف کین (Leif Cane)کے پاس تم سے بہتر دماغ ہے۔’ بعض اوقات آپ کو ماننا پڑتا ہے۔ اور مجھے خود سے یہ کہنا ہی پڑا۔ اب دیکھو وہ ایک گھنٹہ میں بھلے کر سکتا ہو مگر مجھے کرنے کے لیے دو یا تین گھنٹے لگیں گے۔ میں اپنے آپ کو قبول کرنے کے لیے رضامند نہ تھا۔ میں اپنے وسائل اور حدود کو قبول نہیں کر پا رہا تھا۔

لیکن آپ جانتے ہیں کہ زندگی میں یہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ ایک فورڈ (Ford) کار کا کیڈلک (Cadillac) بننا مہمل ہے، لیکن اگر فورڈ یہ قبول کر لے کہ وہ فورڈ ہے، تو وہ بہت کچھ کر سکتی ہے جو کیڈلک کبھی نہیں کر سکتی؛ وہ پارکنگ کی ایسی جگہوں پر پوری آ سکتی ہے جہاں کیڈلک کبھی نہیں آ سکتی۔ اور زندگی میں ہم میں سے کچھ فورڈ ہیں اور کچھ کیڈلک۔ ’سرسبز چراگاہوں’ (Green Pastures) [تورات کی کتاب الادعیہ] میں موسیؑ فرماتے ہیں: ‘خداوند، میں بہت کچھ تو نہیں ہوں، لیکن یہی کچھ ہوں۔’ خود کو قبول کرنے کا اصول ہی زندگی کا بنیادی اصول ہے۔
اب ہم زندگی کے طول کے بارے ایک اور بات کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو قبول کرنے کے بعد ہمیں یہ دریافت کرنا چاہیے کہ ہمیں کس کام کے لیے بنایا گیا ہے۔ اور ایک بار جب ہم یہ دریافت کر لیں، تو اپنے وجود میں موجود تمام تر طاقت اور تمام تر قوت کے ساتھ وہ کام کرنا چاہیے۔ یہ دریافت کرنے کے بعد کہ ہمیں کیا کام کرنا ہے، ہمیں وہ کام اس طرح انجام دینا چاہیے، اس خوبی سے انجام دینا چاہیے کہ کوئی زندہ، کوئی مردہ یا جو ابھی پیدا نہیں ہوا، اِس سے بہتر انجام نہ دے سکے۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کوئی زندگی کے نام نہاد معروف بڑے کام کرے گا۔ بہت کم لوگ فنون اور سائنس کی بلندیوں کو پائیں گے؛ بہت کم اجتماعی طور پر مخصوص شعبوں میں نام کمائیں گے۔ ہم میں سے بیشتر کو مطمئن ہو کر کھیتوں میں اور گلیوں میں کام کرنا ہو گا۔ لیکن ہمیں تمام کاموں کو پُروقار نظر سے دیکھنا چاہیے۔
جب میں منٹگمری، الاباما میں تھا، تو میں ‘گورڈن شو شوپ’ (Gordon Shoe Shop) نامی ایک جوتوں کی دکان میں اکثر جایا کرتا تھا۔ اور وہ ایک دوست تھا، جو میرے جوتے چمکایا کرتا تھا۔ اور اِس دوست کو جوتے چمکاتے دیکھنا میرے لیے ایک تجربہ تھا۔ وہ کپڑے کی ایک دھجی اٹھاتا، اور آپ جانتے ہیں کہ وہ اس میں سے موسیقی پیدا کر سکتا تھا۔ اور میں اپنے آپ سے کہتا، ’اس شخص کے پاس جوتے چمکانے کی ڈاکٹریٹ ڈگری ہے۔‘
اس صبح میں آپ سے جو یہ کہہ رہا ہوں، حتیٰ کہ اگر آپ گلی کے ایک خاکروب ہیں، جائیں اور ایسے گلی کو صاف کریں جیسے مائیکل انجیلو نے مصوری کی ہے، ایسے گلی صاف کریں جیسے ہینڈل(Handel)، بیتھوون(Beethoven) نے موسیقی ترتیب دی، ایسے گلی کو صاف کریں جیسے شیکسپئر نے شاعری کی۔ اتنی اچھی گلی صاف کریں کہ زمین و آسمان کا میزبان بھی اک لمحے کے لیے رُکے اور کہے: ‘یہاں ایک عظیم خاکروب رہتا ہے، جس نے اپنا کام بخوبی انجام دیا۔’
اگر تم پہاڑی کا صنوبر نہیں بن سکتے
تو وادی کی جھاڑی بنو- مگر بنو
پہاڑی کے پہلو میں ایک بَڑھیا چھوٹی جھاڑی،
جھاڑی بن جاؤ اگر نہیں بن سکتے پیڑ
اگر تم شاہراہ نہیں بن سکتے، پگ ڈنڈی ہونا کافی ہے۔
آفتاب نہیں ہو سکتے تو ستارہ بنو؛
یہ معنی نہیں رکھتا کہ تم کامیاب ہو یا ناکام
خود کا بہترین بن جاؤ۔
اور جب آپ یہ کرتے ہیں، تب آپ زندگی کے طول کے مالک بن جاتے ہیں۔ آگے جا کر زندگی میں خود آسودگی کے احساس کا ختم ہونا، اُس شخص کی زندگی کو ختم کر دیتا ہے۔ اور اب یہاں رُکنا نہیں ہے۔ اگرچہ تمہیں معلوم ہے، بہت سے لوگ زندگی میں طول سے زیادہ کچھ نہیں پاتے۔ وہ اپنی داخلی طاقت حاصل کر لیتے ہیں؛ وہ اپنی ذمہ داری اچھی طرح نمٹاتے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں، وہ زندگی ایسے گزارنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے اُن کے علاوہ کوئی زندہ نہیں۔ اور وہ ہر ایک کو آگے بڑھنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے علاوہ کسی سے محبت نہیں کرتے۔ اور وہ دوسروں کے لیے محبت کی ایک ہی قسم روا رکھتے ہیں: افادی محبت۔ آپ جانتے ہیں، وہ صرف لوگوں سے اس لیے محبت کرتے ہیں کہ ان کا استعمال کر سکیں۔
بہت سے لوگ زندگی کی پہلی جہت سے پرے نہیں جاتے۔ وہ دوسرے لوگوں کا استعمال محض سیڑھی کے طور پر کرتے ہیں، جن سے وہ اپنے نصب العین اور مقاصد تک پہنچ سکیں۔ ایسے لوگ زندگی میں اچھا کام نہیں کرتے۔ وہ کچھ حد تک آگے جا سکتے ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ وہ درست ہیں۔ لیکن ایک قاعدہ ہے۔ طبعی دنیا میں اس کو کششِ ثقل کا اصول کہتے ہیں۔ اور یہ واقعی کام کرتا ہے، یہ بات حتمی اور کٹھور ہے؛ جو کچھ اوپر جاتا ہے نیچے آتا ہے۔ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔ خدا نے اس کائنات کو اسی طرح بنایا ہے۔ جو کوئی زندگی میں دوسروں کی پروا کیے بِنا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، اس اصول کا غلام اور شکار بن جاتا ہے۔
ایک دن یسوع مسیحؑ نے ایک حکایت بیان کی۔ آپ کو وہ حکایت یاد ہو گی۔ان کے پاس ایک آدمی سنجیدہ معاملات پر گفتگو کرنے آیا۔ اور آخر میں اُس نے سوال اٹھایا، ‘میرا ہمسایہ کون ہے؟’ یہ آدمی یسوع مسیح سے بحث کرنا چاہتا تھا۔ یہ سوال آسانی سے ایک مذہبی یا فلسفیانہ بحث کی مانند تحلیل ہو سکتا تھا۔ لیکن آپ کو یاد ہے کہ یسوع مسیح نے یہ سوال ہوا ہونے سے روکا۔ اور اِس کو یروشلم(Jerusalem) اور جیریکو (Jericho)کے درمیان خطرناک موڑ پر رکھ دیا۔ انہوں نے ایک آدمی کی بات کی، جو چوروں کے نرغے میں گھِر گیا تھا۔ دو آدمی وہاں سے گزرے اور آگے بڑھتے چلے گئے۔ پھر آخر کار ایک اور آدمی آیا، جو کہ ایک دوسری نسل کا فرد تھا، رُکا اور اس نے مدد کی۔ اور اس حکایت کے آخر میں کہا کہ وہ (Good Samaritan) نیک سامری ایک عظیم انسان تھا، ایک اچھا انسان تھا کہ وہ اپنے علاوہ بھی کسی کے لیے فکرمند تھا۔
اب آپ جانتے ہیں، اس بارے میں کئی آراء موجود ہیں کہ وہ پادری اور لاوی (Levite) [عبرانی قبیلہ لاوی کا فرد جو یہودیوں کی عبادت گاہوں میں بطور معاون کام کرتے ہیں] وہاں سے گزرے اور اس آدمی کی مدد کو کیوں نہ رُکے۔ بہت سی آراء ہیں۔ کچھ کہہ سکتے ہیں کہ عبادت کے لیے جا رہے تھے، اور ان کو عبادت کے لیے دیر ہو رہی تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ چرچ کے لیے دیر نہیں کی جا سکتی، سو وہ آگے بڑھتے رہے، کیونکہ انہیں کنیسہ کے لیے جانا تھا۔ اور کچھ کہیں گے کہ وہ پادری تھے اور نتیجتاً ایک کلیسائی قانون کے مطابق جو مقدس عبادت کرانے جا رہا ہو، عبادت سے چوبیس گھنٹے پہلے کسی انسانی جسم کو چھو نہیں سکتا۔ اب ایک اور امکان موجود ہے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ جیریکو روڈ امپرومنٹ ایسوسی ایشن کو منظم کرنے، جیریکو جا رہے ہوں۔ ایک امکان اور ہے کہ وہ وہاں سے گزر رہے ہوں اور یہ امکان تو ہے کہ انہیں محسوس ہوا ہو کہ اِس مسئلہ کو بجائے ایک انفرادی شکار کے، سرسری نظر سے دیکھنا چاہیے۔
لیکن آپ جانتے ہیں، جب میں اِس حکایت کے بارے میں سوچتا ہوں، میں اپنے تخیل کو کام میں لا کر ایک اور امکان کے بارے میں سوچتا ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ کہ وہاں سے گزرنے والے افراد خوفزدہ ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ جیریکو روڈ ایک خطرناک روڈ ہے۔ میں وہاں سے گزرا ہوں اور میں جانتا ہوں۔ اور میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ میں اور مسز کنگ کچھ عرصہ پہلے مقدس سرزمیں پر گئے تھے۔ ہم نے ایک کار کرائے پر لی اور یروشلم سے تقریباً سولہ میل تک کے فاصلے پر اُس سڑک تک کار چلائی۔ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ یہ الل ٹپ، ترچھی گھومتی، چک پھیری سڑک ہے۔ اور ڈاکے کے لیے سازگار سڑک ہے۔ اور میں نے بیگم سے کہا: ’اب میں سمجھ سکتا ہوں کہ اس سڑک کو وقوعہ کے طور پر یسوع مسیحؑ نے اپنی حکایت کے لیے کیوں استعمال کیا۔ جب آپ یروشلم سے چلنا شروع کرتے ہیں، سطح سمندر سے بائیس سو فٹ بلند ہوتے ہیں، جب آپ سولہ میل نیچے جاتے ہیں – – مطلب یروشلم سے سولہ میل — آپ سطح سمندر سے ہزار فٹ نیچے ہوتے ہیں۔ یسوع مسیحؑ کے زمانے میں یہ سڑک ’خونی سڑک‘ کے طور پر جانی جاتی تھی۔ سو جب میں پادری اور لاوی کے بارے میں سوچتا ہوں تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ خوفزدہ تھے۔
وہ میری طرح خوف زدہ تھے۔ میں ایک دن اپنے والد کے گھر اٹلانٹا (Atlanta) جا رہا تھا۔ وہ میرے گھر سے تین چار میل دور رہتے ہیں، اور آپ وہاں ِسمپسن (Simpson) روڈ کے ذریعے جاتے ہیں۔ اور اُس رات جب میں واپس آرہا تھا— اور برادر، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ سِمپسن روڈ ایک چک پھیری سڑک ہے۔ اور ایک شخص وہاں کھڑا تھا اور مجھے اشارہ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور مجھے محسوس ہوا کہ اُس کو کسی مدد کی ضرورت ہے؛ جانتا تھا کہ اُس کو مدد کی ضرورت ہے۔ لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا، میں آپ کو ایمانداری سے بتاؤں گا، میں آگے بڑھتا رہا، میں واقعی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
میں آج آپ کو کہتا ہوں کہ پہلا سوال جو پادری نے پوچھا تھا، وہ سوال اٹلانٹا کی جیریکو روڈ جو سِمپسن روڈ کے نام سے جانی جاتی ہے، پر میں نے پوچھا۔ وہ پہلا سوال جو لاوی نے پوچھا تھا کہ ’اگر میں اس شخص کی مدد کرنے رکتا ہوں تو مجھے کیا ہو گا؟‘ لیکن اچھا سامری جب گزرا تو اس نے سوال الٹ دیا، بجائے اس کے کہ ’اگر میں اس آدمی کی مدد کرنے رکتا ہوں تو میرے ساتھ کیا ہو گا؟‘ اس نے پوچھا ‘اس آدمی کے ساتھ کیا ہو گا اگر میں اِس کی مدد کرنے کے لیے نہیں رکتا؟’ اس لیے وہ شخص اچھا اور عظیم تھا۔ وہ عظیم تھا کیونکہ وہ انسانیت کی خاطر خطرہ مول لینے کے لیے تیار تھا، کہ اس آدمی کے ساتھ کیا ہو گا؟
آج خدا کو ضرورت ہے، ایسے مرد اور عورتوں کی جو پوچھیں گے کہ انسانیت کو کیا ہو گا اگر میں مدد نہیں کرتا؟ شہری حقوق کی تحریک کو کیا ہو گا اگر میں حصہ نہیں لیتا؟ میرے شہر کو کیا ہو گا اگر میں ووٹ نہیں دیتا؟ بیمار کو کیا ہو گا اگر میں عیادت نہیں کرتا؟ آخر میں خدا اسی پر لوگوں کی مصنفی کرے گا۔
اور، ایک دن ایسا آئے گا جب یہ سوال نہیں ہو گا، ‘کہ تم نے اپنی زندگی میں کتنے انعام پائے؟’ اُس دن نہیں۔ یہ نہیں ہو گا، ‘کہ تم اپنے معاشرتی حلقے میں کتنے مقبول تھے؟’ یہ سوال اس دن نہیں ہو گا۔ یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ ‘تم کتنی اسناد حاصل کر پائے؟’ یہ سوال اُس دن کوئی اہمیت نہیں رکھے گا کہ تم ‘پی ایچ ڈی’ ہو یا نہیں؟’ یہ اہم نہیں ہو گا کہ ‘تمہارے پاس بہت سے گھر تھے یا تم بےگھر تھے؟’ یہ سوال نہیں ہو گا ‘تم نے کتنا پیسہ بنایا؟ تمہارے پاس کتنے سٹاک اور بونڈز ہیں؟’ یہ سوال نہیں ہو گا کہ تمہاری گاڑی کون سی تھی؟ اُس دن صرف یہی پوچھا جائے گا کہ، ‘دوسروں کے لیے تم نے کیا کیا؟’
اب میں کسی کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ، خداوند، میں نے زندگی میں بہت سارے کام کیے۔ میں نے اپنی نوکری اچھے طریقے سے انجام دی؛ دنیا نے مجھے میری نوکری کے لیے عزت دی۔ میں نے بہت سے کام کیے۔ خداوند؛ میں سکول گیا اور محنت سے پڑھا۔ میں نے بہت سا پیسہ بنایا، خداوند میں نے یہ کچھ کیا۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں خداوند کو یہ کہتے سنتا ہوں، ’لیکن میں بھوکا تھا، تم نے مجھے کھانا کھلایا کہ نہیں؛ میں بیمار تھا، تم عیادت کے لیے آئے یا نہیں۔ میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑے پہنائے یا نہیں۔ میں قید میں تھا، تم نے میری فکر نہیں کی۔ سو میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔ تم نے دوسروں کے لیے کیا کیا؟ یہ زندگی کا عرض ہے۔
کہیں ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ کسی کے لیے کچھ کرنے سے بڑھ کے کچھ نہیں ہے۔ اور اپنے باقی ماندہ ایام گزارنے کے لیے اِسی راستے کو اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اور مجھے اسی کی فکر ہے۔ جون، اور برنارڈ، اگر کبھی زندگی میں ایسا لمحہ آتا ہے کہ میں موت کے قریب ہوں، میں اُن کو بتانا چاہتا ہوں کہ میری ایک درخواست ہے؛ میں لمبی چوڑی رسوم نہیں چاہتا۔ درحقیقت میں ایک یا دو منٹ سے بڑھ کر اپنی میت پر نوحہ گری نہیں چاہتا۔ مجھے امید ہے کہ میں باقی ماندہ ایام اچھی طرح گزاروں گا— مجھے نہیں پتہ کہ میں کب تک جئیوں گا، اور نہ مجھے اس کی فکر ہے— لیکن میں امید کرتا ہوں کہ میں اتنا اچھا جی سکتا ہوں کہ مبلغ اٹھ کر کہہ سکتا ہے، ‘وہ ایماندار تھا۔ اور بس، یہ کافی ہے۔ اس طرح کی تقریر سننا مجھے پسند ہو گی: بہت خوب میرے ایماندار نوکر۔ تم ایماندار رہے؛ تمہیں دوسروں کی فکر رہی۔’ یہ ہی ہے وہ نکتہ جس کے ساتھ میں اپنی باقی ماندہ زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ ‘جو تم میں عظیم ہے تمہارا نوکر ہو گا۔’ میں نوکر بننا چاہتا ہوں۔ میں اپنے خداوند کی گواہی چاہتا ہوں، کہ دوسروں کے لیے کچھ کیا۔
اور دوسروں لے لیے کچھ کرنے میں یہ نہ بھولیں کہ آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ دوسروں کی بدولت ہے۔ یہ نہ بھولیں ہم اس دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہیں۔ اور آپ سوچ سکتے ہیں، اس صبح جب آپ چرچ کے لیے اٹھے ہوں گے تو آپ کا آدھی سے زیادہ دنیا پر انحصار ہو گا۔ آپ صبح اٹھتے ہیں، باتھ روم جاتے ہیں اور وہاں آپ صابن پکڑتے ہیں جو ایک فرانسیسی نے آپ کو دیا ہے۔ آپ اسفنج اٹھاتے ہیں، جو ایک تُرک نے آپ کو دیا ہے۔ آپ تولیہ اٹھاتے ہیں جو کہ بحرالکاہلی جزیرے کے ایک شخص نے آپ کو دیا ہے۔ ناشتہ کرنے کے لیے آپ کچن کی طرف جاتے ہیں، کافی اٹھاتے ہیں جو آپ کے کپ میں جنوب امریکی نے انڈیلی ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس صبح چائے پینے کا فیصلہ کیا ہو، صرف معلومات کے لیے، وہ آپ کے کپ میں ایک چینی نے انڈیلی ہے۔ اور شاید آپ کو تھوڑا کوکا چاہیے ہو جو آپ کے کپ میں مغربی افریقی نے انڈیلا ہے۔ پھر آپ کو تھوڑی ڈبل روٹی چاہیے اور آپ اس کو اٹھاتے ہیں جو آپ کے پاس ایک انگریز کسان کے ہاتھوں پہنچی ہے، نانبائی کو نہ بھولیں۔ اس سے پہلے کہ آپ اپنا ناشتہ کریں، آپ کا انحصار آدھی دنیا پر ہے۔ خدا نے یہ اس طرح بنایا ہے؛ خدا نے یہ دنیا اسی طرح بنائی ہے۔ سو آئیں ایک دوسرے کی فکر کریں کیونکہ ہم ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔
لیکن یہاں بھی رکنا نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ زندگی کے طول پر قدرت حاصل کر لیتے ہیں، اور وہ عرض پر قدرت حاصل کر لیتے ہیں؛ مگر وہ وہاں رکتے نہیں۔ ہمیں انسانیت سے آگے بڑھنا چاہیے اور اوپر اٹھنا چاہیے، اوپر کائنات کے رب کی طرف، جس کا مقصد بدلا نہیں ہے۔
بہت سارے لوگ اس تیسری جہت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سارے لوگ اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور جانتے بھی نہیں کہ وہ اس بات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ وہ دوسری چیزوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اور آپ جانتے ہیں کہ الحاد پرستی کی دو اقسام ہیں۔ الحاد کا نظریہ ہے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں۔ اب ایک قسم نظریاتی بھی ہے، جہاں شخص صرف بیٹھ جاتا ہے اور اس بابت سوچنا شروع کر دیتا ہے اور پھر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں۔ دوسری قسم عملی الحاد پرستی کی ہے اور وہ زندگی کے ساتھ چلتی ہے کہ جیسے خدا کا کوئی وجود نہ ہو اور آپ جانتے ہیں کہ کثیر تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو زبان سے خدا کے وجود کا اقرار کرتے ہیں، لیکن اپنے اعمال سے، یا اپنی زندگیوں سے اس کے وجود سے انکاری ہیں۔ آپ ان لوگوں کو دیکھ چکے ہیں جنھیں عقیدے کا ہائی بلڈ پریشر اور اعمال کا انیمیا لاحق ہے۔ وہ اپنی زندگی میں خدا کے وجود سے انکاری ہوتے ہیں اور وہ دوسرے کاموں میں بہت مصروف ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے بینک کے اثاثے بڑھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ وہ خوبصورت گھر حاصل کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں جو ہم سب کے پاس ہونا چاہیے۔ وہ خوبصورت گاڑی حاصل کرنے میں اتنا مصروف ہو جاتے ہیں کہ لاشعوری طور پر خدا کو بھول جاتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو شہر میں انسان کی تخلیق کی ہوئی بستیوں کو دیکھنے میں اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ وہ لاشعوری طور پر آسمان کی طرف نگاہیں اٹھانا اور کائنات کی عظیم روشنی کی جانب دیکھنا اور اس کے بارے میں سوچنا بھول جاتے ہیں — وہ روشنی جو ہر صبح مشرقی افق سے نمودار ہوتی ہے اور نیلے آسمان پر ایک تھرکتی دھن اور اپنے بےشمار رنگ بکھیر دیتی ہے — ایسی روشنی جو انسان کبھی نہیں بنا سکتا۔ وہ آسمان تک پہنچتی ہوئی لوپ آف شکاگو یا ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ آف نیو یارک کو دیکھنے میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ وہ لاشعوری طور پرعظیم الوجود پہاڑوں کے بارے میں سوچنا بھول جاتے ہیں جن کی چوٹیاں آسمانوں کو چومتی ہیں جیسے کہ ان کی چوٹیاں نیلی بلندی میں نہا رہی ہوں — ایسی چیز جو ایک انسان کبھی نہیں بنا سکتا۔ وہ ریڈار اور اپنے ٹیلی ویژن کے بارے میں سوچنے میں اتنا مصروف ہیں کہ وہ لاشعوری طور پر ستاروں کے بارے میں سوچنا بھول جاتے ہیں۔ آسمانوں کو اس طرح سجائے ہوئے ہیں جیسے دوام کی لالٹینیں لٹکی ہوں، وہ ستارے اتنے چمکدار ہیں جیسے ایک پُرشکوہ کُشن میں چاندی کی سوئیاں کھُبی ہوئی ہوں۔ وہ انسانی ترقی کے بارے میں سوچنے میں اتنا محو ہیں کہ وہ تاریخ میں خدا کی طاقت کی ضرورت کے بارے میں سوچنا بھول جاتے ہیں۔ آخرکار وہ دنوں کے دن گزار دیتے ہیں یہ جانے بغیر کے خدا ان کے ساتھ نہیں ہے۔
میں آج یہاں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ ہمیں خدا کی ضرورت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جدید انسان بہت کچھ جانتا ہو لیکن اس کا علم خدا کو نہیں مٹا سکتا۔ اور آج صبح میں آپ کو بتاتا ہوں کہ خدا ہمیشہ رہنے کے لیے ہے۔ چند عالم دینیات کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خدا مر چکا ہے۔ اور میں ان کو اس بارے میں پوچھتا رہا ہوں کیونکہ یہ جاننا مجھے پریشان کرتا ہے کہ خدا مر چکا ہے اور مجھے اس کی آخری رسوم میں شرکت کا موقع نہیں ملا۔ اور وہ مجھے ابھی تک یہ بتانے کے قابل نہیں ہوئے کہ اس کی تاریخ وفات کیا ہے، اور ابھی تک انہوں نے مجھے یہ نہیں بتایا ہے کہ اس کی آخری رسوم کس نے ادا کیں یا کس نے اس کی موت کا اعلان کیا۔
آپ دیکھتے ہیں جب میں خدا کے بارے میں سوچتا ہوں، میں اس کا نام جانتا ہوں۔ عہد نامہ قدیم میں کسی جگہ اس نے فرمایا ہے: ’موسیٰ میں چاہتا ہوں کہ تم جاؤ اور اُن کو بتا دو کہ ”میں ہوں“ میں نے تمہیں بھیجا ہے۔‘ اُس نے صرف یہ واضح کرنے کے لیے کہا، وہ جان لیں کہ ’میرا اسمِ آخر بھی اول کی طرح ہے، “میں ہوں جو بھی میں ہوں۔” یہ واضح کر دو کہ میں ہوں۔
اس کائنات میں صرف خدا ہی ایسی ہستی ہے جو کہہ سکتا ہے کہ ‘میں ہوں’ اور اس کے آگے ختمہ لگا دیتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی جو یہاں بیٹھا ہے اُس کو کہنا پڑتا ہے، “میں اپنے والدین کی وجہ سے ہوں؛ میں مخصوص ماحولیاتی شرائط کی وجہ سے ہوں؛ میں مخصوص وراثتی حالات کی وجہ سے ہوں؛ میں خدا کی وجہ سے ہوں۔‘ صرف خدا ایسی واحد ہستی ہے جو کہ کہہ سکتا ہے، “میں ہوں۔” آگے کوئی اور بات نہیں کرتا۔ “میں ہوں جو میں ہوں۔” اور یہاں رک جاتا ہے۔ کسی کو ہمیں یہ محسوس نہ کرانے دیں ہمیں خدا کی ضرورت نہیں۔
آج صبح میں جب آیا تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں، میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس کی تلاش کرنی چاہیے۔ ہم خدا کے لیے بنائے گئے تھے اور تب تک بےچین رہیں گے جب تک اُس میں امان نہیں پاتے۔ اور اس صبح میں آپ سے کہتا ہوں کہ یہ ذاتی یقین ہے جو مجھے آگے بڑھاتا گیا ہے۔ میں مستقبل کے بارے میں پریشان نہیں ہوں۔ آپ جانتے ہیں حتیٰ کہ میں اس نسل پرستی کے سوال پر بھی پریشان نہیں ہوں۔ میں پچھلے دنوں الاباما میں تھا، اور میں الاباما کی ریاست کے بارے میں سوچنے لگا جہاں ہم نے بہت محنت کی اور شاید والیسز کو منتخب کرتے رہیں۔ اور ریاست جارجیا میں، میرے گھر میں لیسٹر میڈکس (Lester Maddox) نامی ایک بیمار ذہن گورنر موجود ہے۔ یہ تمام باتیں آپ کو الجھا سکتی ہیں۔ لیکن وہ مجھے پریشان نہیں کرتیں، کیونکہ وہ خدا جس کی میں عبادت کرتا ہوں ایسا خدا ہے کو کہ بادشاہوں حتیٰ کہ گورنروں کے لیے بھی فرماتا ہے۔ ‘صبر رکھو، میں جانتا ہوں کہ میں خدا ہوں۔’ خدا نے ابھی تک اس کائنات سے لیسٹر میڈکس اور لرلین والس (Lurleen Wallace) کو بےدخل نہیں کیا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ‘زمین خدا کی ہے اور اسی لیے آباد ہے۔’ اور میں آگے بڑھ رہا ہوں کیونکہ مجھے اُس پر یقین ہے۔ میں نہیں جانتا کہ مستقبل میں کیا رکھا ہے۔ لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ مستقبل کس کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ ہمیں راستہ دکھا دے گا اور ہمارا ہاتھ پکڑتا ہے، تو ہم آگے بڑھتے جائیں گے۔۔
مجھے منٹگمری، الابامہ میں ایک تجربہ یاد ہے، جو میں آپ کو بتانا چاہوں گا۔ جب ہم بس بائیکاٹ کے بیچ تھے۔ ہمارے درمیان ایک حیرت انگیز خاتون موجود تھیں جن کو ہم پیار سے سسٹر پولارڈ (Pollard) کہا کرتے تھے۔ وہ ایک بہتر سالہ حیران کن خاتون تھیں اور اس عمر میں بھی کام کر رہی تھیں۔ بس بائیکاٹ کے دوران وہ کام پر روزانہ پیدل آتی جاتی تھیں۔ صرف وہی تھیں جن کو ایک دن کسی نے روکا اور پوچھا، “آپ بس میں سوار ہونا پسند نہیں کریں گی؟” اور انہوں نے کہا، ‘نہیں۔’ اور پھر ڈرائیور آگے بڑھ گیا، اور رُکا اور سوچا، اور تھوڑا پیچھے آیا اور کہا، ‘آپ تھکی نہیں؟’ انہوں نے کہا، ‘ہاں میرے پیر تھک گئے ہیں مگر میری روح سکون میں ہے۔’

وہ ایک حیرت انگیز خاتون تھیں اور مجھے یاد ہے کہ وہ ایک ہفتہ میرے لیے بہت مشکل تھا۔ اُس سے ایک دن پہلے سارا دن ساری رات دھمکی آمیز فون کالز آئی تھیں، اور میں ڈگمگانا اور اندر سے کمزور پڑنا اور اپنی جرات کھونا شروع ہو گیا تھا۔ اور میں کبھی نہیں بھولوں گا کہ میں پیر کی اس رات کے جلسے میں بہت کم ہمتی اور خوف کے ساتھ گیا تھا اور سوچ وچار کر رہا تھا کہ آیا ہم یہ جدوجہد جیت پائیں گے؟ اور میں اُس رات اپنی تقریر کرنے کھڑا ہوا، لیکن وہ تقریر طاقت اور قوت کے ساتھ نہیں کی۔ سسٹر پولارڈ میٹنگ کے بعد میرے پاس آئیں اور کہا، ‘بیٹا تمہیں کیا پریشانی ہے؟’
اور میں نے کہا، ‘کچھ بھی نہیں، سسٹر پولارڈ، میں ٹھیک ہوں۔’ انہوں نے کہا تم مجھے بیوقوف نہیں بنا سکتے۔’ کہا، ‘تمہارے ساتھ کچھ تو گڑبڑ ہے۔’ پھر انہوں نے یہ کہا، ‘گورے تمہارے ساتھ کچھ ایسا کر رہے ہیں جو تمہیں پسند نہیں؟’
میں نے کہا، ‘سسٹر پولارڈ سب ٹھیک ہو جائے گا۔’
پھر آخر انہوں نے کہا، ’میرے قریب آؤ اور مجھے دوبارہ کہنے دو، میں چاہتی ہوں کہ تم سنو۔’
انہوں نے کہا، ‘میں پہلے بھی تم کو بتا چکی ہوں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘اب ہم بھی تمہارے ساتھ نہ ہوں تو خداوند تمہارے ساتھ ہے۔’
اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کی، ‘خداوند تمہاری مدد فرمائے گا۔’ میں نے اس دن سے بہت ساری چیزیں دیکھی ہیں، منٹگمری الابامہ میں اس رات سے میں بہت سے تجربات سے گزرا ہوں۔ اُس وقت سے سسٹر پولارڈ وفات پا گئیں۔ اس وقت سے میں اٹھارہ سے زیادہ بار جیل میں رہا ہوں۔ اُس وقت سے اب تک میں ایک خطرناک حد تک دیوانی نیگرو خاتون کے ہاتھوں موت کے قریب جا چکا ہوں، اُس وقت سے میں نے اپنے گھر پر تین بار بمب گرتے دیکھا ہے۔ اس وقت سے مجھے ہر دن موت کے خطرے کے تحت جینا پڑا ہے، اس وقت سے میں نے بےشمار ناآسودہ اور سٹ پٹائی راتیں گزاری ہیں، لیکن میں سسٹر پولارڈ کے الفاظ ابھی بھی سُن سکتا ہوں: ‘خدا تمہاری حفاظت کرے گا۔’ سو آج میں کسی بھی مرد و زن کا مقابلہ کر سکتا ہوں اور سربلند ہو کر سکتا ہوں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جب آپ حق پر ہوں تو خدا آپ کی جنگ لڑے گا۔
رات جتنی بھی کالی ہو
جنگ جتنی بھی کٹھور ہو،
اپنے حق کے لیے ڈٹے رہو۔
ایسا محسوس ہوتا ہے، حتیٰ کہ اِس صبح بھی میں ایک ایسی آواز کو سن سکتا ہوں جو ہم سب سے کہہ رہی ہے، ‘اپنے حق کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ انصاف کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ دیکھو، میں تمہارا ساتھ دوں گا دنیا کے خاتمے تک۔’ ‘ہاں میں نے بجلی کو چمکتے دیکھا ہے، بادلوں کو گرجتے سنا ہے۔ میں نے بدی کی طاقتوں کو چمکتے محسوس کیا ہے، جو میری روح کو مغلوب کرنا چاہتی ہیں، اور مغلوب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن میں نے یسوع مسیح کی آواز سنی ہے، جو کہہ رہے ہیں کہ لڑتے رہو! انہوں نے مجھے کبھی نہ چھوڑنے کا وعدہ کیا ہے، کبھی اکیلے نہ چھوڑنے کا۔ اور میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔ میں آگے بڑھتا ہوں اور زندگی کی وسعت کو پا لیتا ہوں۔

ہو سکتا ہے کہ آپ خدا کو فلسفیانہ اصطلاحات میں بیان کرنے کے قابل نہ ہوں۔ لوگوں نے عہد ہا عہد اس بارے میں بحث کرنے کی کوشش کی ہے۔ افلاطون نے کہا وہ تعمیراتی علم کا ماہر ہے۔ ارسطو نے کہا خدا حرکت میں آئے بنا کائنات کو الٹنے، پلٹنے پر قادر ہے۔ ہیگل نے اسے مطلق کہا ہے۔ پھر ایک آدمی جس کا نام پال ٹیلِک (Paul Tillich) ہے نے خدا کو یکتا کہا ہے۔ ہمیں ان تمام بھاری اصطلاحات کے جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اسے جانتے ہوں اور کسی اور راستے سے اسے دریافت کر سکیں۔ اس کی معرفت کسی اور راستے پر چل کر کر سکیں۔ ایک دن آپ کو رکنا چاہیے اور کہنا چاہیے، ‘میں اسے جانتا ہوں کیونکہ وہ وادی کا سوسن ہے، وہ صبح کا روشن ستارہ ہے، شیرون کا پھول ہے، بابل و نینوا کی وقتوں کی گلہری ہے۔’ اور کہیں آپ کو کہنا چاہیے، ‘وہ میرا سب کچھ ہے، وہ میری ماں ہے وہ باپ ہے، وہ میری بہن ہے، بھائی ہے۔ وہ بے دوستوں کا دوست ہے۔’ یہ پوری کائنات کا خدا ہے اور اگر تم اس پر ایمان رکھتے ہو اور اس کی عبادت کرتے ہو تو تمہاری زندگی میں کچھ اچھا ہو گا۔ تم مسکراؤ گے جب باقی سب تمہارے ارد گرد رو رہے ہوں گے۔ یہی خدا کی طاقت ہے۔
جاؤ! اس صبح، اپنے آپ سے محبت کرو اور اس کا مطلب ہے معقول اور صحت مندانہ خود غرضی۔ آپ کو ایسا کرنے کا حکم ہے۔ یہ زندگی کا طول ہے۔ پھر اس کے بعد اپنے ہمسائیوں سے محبت کرو جیسا کہ تم خود سے کرتے ہو۔ یہ زندگی کا عرض ہے۔ اور میں اب اپنی نشست پر آپ کو یہ بتانے کے لیے بیٹھنے لگا ہوں کہ سب سے بڑا اور اولین حکم یہ ہے کہ: ‘اپنے خداوند سے محبت کرو۔ اپنے خدا سے پورے دل کے ساتھ، اپنی پوری روح کے ساتھ اور پوری طاقت کے ساتھ۔’ میرا خیال ہے کہ ایک ماہرِ نفسیات کہے گا کہ اپنی پوری شخصیت کے ساتھ۔ اور جب تم یہ کرتے ہو تو زندگی کی بلندی پا لیتے ہو۔ اور جب تم یہ تینوں حاصل کر لیتے ہو، تو تم چل سکتے ہو، کبھی نہ تھکتے ہوئے۔ اور آپ دیکھ سکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ صبح کے ستارے مل کر، اور خدا کے بیٹے مل کر خوشی سے شور مچا رہے ہیں۔
جب آپ زندگی میں اِن تینوں چیزوں سے کام لیتے ہیں، انصاف بارش کے پانی کی طرح بہے گا اور راست بازی ایک ندی کی طرح۔ جب آپ ان تینوں چیزوں کو باہم حاصل کر لیں گے تو شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیئں گے۔
جب آپ ان تینوں چیزوں کو باہم حاصل کر لیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ہر وادی ارفع ہو جائے گی، اور ہر چٹان اورہر پہاڑ جُھک جائے گا۔ ناہموار میدان ہموار ہو جائیں گے۔ ٹیڑھی ترچھی راہیں سیدھی ہو جائیں گی: اور خداوند کی عظمت عیاں ہو جائے گی اور تمام مخلوقات مل کر اس کو دیکھیں گی۔
جب ان تینوں چیزوں کو تصرف میں لاتے ہیں تو تو آپ دوسروں کے ساتھ وہی کریں گے جو آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ کریں۔ جب آپ ان تینوں کو باہم حاصل کر لیتے ہیں تو آپ یہ پہچان لیتے ہیں کہ خدا نے اس کرہ ارض پر رہنے والے تمام انسانوں کو ایک ہی خون سے بنایا ہے۔