وہ اپنے زیر جاموں سے اور ان کے زیر جامے ان سے اُوب چکے تھے
انہوں نے لیبل اتارے اور انہیں چوراہے پر لٹکا دیا
اُن کی آوازیں زنگ آلود تھیں
انہوں نے مل کر ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا
اور گونج بن کر سماعتوں کی جھولیاں بھرنے لگے
وہ اپنے خوابوں کی یکسانیت سے تنگ تھے
انہوں نے اپنے سرہانے بدل لیے
اور دور دور تک نیند میں جاگنے لگے
ان کے دکھ ان کی آنکھوں میں پک چکے تھے
انہوں نے اپنے آنسو پیالے میں جمع کیے
اور گھونٹ گھونٹ سب کے دکھ چکھنے لگے
وہ جسموں سے خوفزدہ تھے
انہوں نے جسموں سے جسم بدل لیے
ان کا ڈر اتر گیا
وہ جو ایک دوسرے کے لیے خاص ہیں
سب کے لیے عام ہو گئے
وہ جو جسموں سے بھرے ہوئے ہیں
ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر سوتے ہیں