Laaltain

خواب (عبدالسلام العجیلی)

[blockquote style=”3″] عبدالسلام العجیلی 1918ء میں شام کے مقام رقّہ میں پیدا ہوے اور وہیں طبیب کے طور پر کام کرتے ہیں۔ لکھنے کے علاوہ انھوں نے سیاست میں بھی حصہ لیا ہے اور کئی وزارتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، جن میں وزیر ثقافت کا عہدہ بھی شامل ہے۔ عطا صدیقی (پورا نام […]

جس وقت لوگ سیر کو نکل جاتے ہیں (لی کوک لیانگ)

[blockquote style=”3″] لی کوک لیانگ (Lee Kok Liang) ملائیشیا کی چینی نژاد برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی کہانی ’’جس وقت لوگ سیر کو نکل جاتے ہیں‘‘ یوں تو ایک ایسے موضوع کو پیش کرتی ہے جس پر ہزارہا انداز سے لکھا جاتا رہا ہے، لیکن زوال عمر کے تجربے کو اس کہانی میں […]

ہیلو مایا

یہ کہانی کچھ یوں میرے من میں آئی جیسے کسی انجان جگہ سے کوئی ننھی منی، نازک سی چڑیا اڑتی ہوئی آئے اور صدیوں سے چپ چاپ کھڑے برگد کے اس پیڑ کی ایک ٹہنی پر آ ن بیٹھے۔ اور پھر، پل بھر کے لئے سارے ماحول میں شوخ رنگوں اور سریلی آوازوں کا جادو بکھیرکر، جھٹ سے کہیں اُڑ جائے۔۔۔۔۔کہیں دور،بہت دور۔ خیر،آپ کہانی سنئے

خاموش خدا

اشفاق آذر: میرے خاموش خدا کو کہنا !
شور بڑھ گیا ہے کتنا تو
شہر کا شہر ہو گیا ہے بہرا
گونگے الفاظ تڑپ رہے ہیں حلق میں
کون ہے کون، جو بات کرے؟

نہ دیکھو آسماں کو

ڈاکٹر تنویر عباسی: یہ دکھ جو ہم پر ہے نازل ہوا
اس کا کوئی آ کے عیسی مسیحا نہ بنے گا
ہم اپنے خود ہی مسیحا
خود ہی پیمبر ہیں

ڈبلیو ایچ آڈن کی ایک نظم

نیچے اترتا خالی صحن میں
عین اُسی کے مسخ نین و نقوش کا اک سایہ
جو رویا، پھر دیو ہیکل ہوا، اور بھرّائی آواز میں گویا ہوا، ہائے وائے

اندھیرا ہونے کے بعد چہل قدمی

اس طرح کی ایک چھٹے بادلوں والی صاف آسمان کی رات
روح کو آزاد اونچا اڑانے کو کافی ہوتی ہے
ایک تھکا دینے والے دن کے بعد
گھنٹہ گھر کا منظر کافی متاثر کرتا ہے
ہلکے سے بور کرنے والے
اٹھارہویں صدی جیسے احساس کی مانند

مٹری کی کہانی

لوک کہانیاں کسی بھی تہذیب کی اپنی ثقافت، روزمرہ کے رہن سہن اور عام لوگوں کی خواہشوں، اندیشوں اور خیالوں کی ترجمان ہوتی ہیں۔ اب بھی بہت سے گھر کے بزرگ اپنے بچوں کو سونے سے پہلے اس طرح کی لوک کہانیاں سناتے ہیں اور کہانی نسل در نسل تعمیر ہوتی رہتی ہے۔ یہ کہانیاں […]

مائے نی میں کنوں آکھاں

(Translation of ‘Misery: To Whom shall I tell my Grief’) (انطون چیخوف) شام کا جھٹپٹا پھیل رہا تھا۔ برف کے چھوٹے چھوٹے گالے سڑک کنارے لگے کھمبوں کے گرد چکر کھا کھا کر نیچے گر رہے تھے اور گھروں کی چھتوں، گھوڑوں کی پیٹھوں، لوگوں کے شانوں، ٹوپیوں اور پگڑیوں پر برف کی سفید تہہ […]