Laaltain

خود کلامی

ابرار احمد: تم نے ٹھیک سمجھا ہر تعلق ایک ذلت آمیز معاہدہ ہے تھکے ہارے دلوں کا ، اپنے ارادوں کے ساتھ
ابرار احمد: اور وہ بھی تم ہو گے جو کبھی ۔۔۔ بارشوں سے دھڑکتی کھڑکی کے شیشے سے اپنی نمناک آنکھوں سے میری جانب دیکھو گے جب میں دنیا کی خوبصورتی برداشت کرنے سے انکار کرنے والا ہوں گا
ابرار احمد: جو منتظر تھا ہمارا، جو راہ تکتا تھا جو ہم پہ وا نہیں ہوتا، جو ہم پہ کھلتا نہیں جو ہم پہ کھلتا نہیں، اس حصار کی جانب کسی طلب کو، کسی انتظار کی جانب
ابرار احمد: اور اگر تم کہتے ہو ہمارے دکھوں کا علاج کہیں نہیں ہے تو ہم چپ رہ سکتے ہیں قبروں سے بھی زیادہ
ابرار احمد: اگر مجھے دوڑنا ہی تھا تو میں دوڑتا چلا جاتا کسی بھی نا ہموار سڑک پر، آنکھیں بند کیے ہوے میں کیوں ان دیکھے بھالے راستوں پر ٹھوکریں کھاتا پھرا
ابرار احمد: کہیں ایک باغ ہے غیر حتمی دوری پر سیاہ گلابوں اور ابد کی مہک میں سویا ہوا کہیں کوئی آواز ہے بے نہایت چپ کے عقب میں بے خال و خد، الوہی، گھمبیر کہیں کوئی دن ہے بے اعتنائی میں لتھڑا ہوا
ابرار احمد: ہجوم روز و شب میں کس جگہ سہما ہوا ہوں میں کہاں ہوں میں تری دنیا کے نقشے میں کہاں ہوں میں
ابرار احمد: اس کے ہونٹوں پر پھول کھلانے اور اسے ملنے کے لیے وقت نکالنے میں میں ںے بہت سا وقت ضایع کر دیا
ابرار احمد: بھول جاتا ہے آدمی، وہ وقت جب اس کا دل دکھایا گیا یا جب اسے دعاؤں اور محبتوں سے شرابور کر دیا گیا
ابرار احمد: ہم تیری صبحوں کی اوس میں بھیگی آنکھوں کے ساتھ دنوں کی اس بستی کو دیکھتے ہیں ہم تیرے خوش الحان پرندے، ہر جانب تیری منڈیریں کھوجتے ہیں