موت مجھے بلاتی ہے

ابرار احمد: میں ایک خواب سے دوسرے خواب میں اس شام سے گزر کر جانا چاہتا ہوں تم کہاں ہو موت مجھے بلاتی ہے

بہت یاد آتے ہیں

بہت یاد آتے ہی چھوٹے ہو جانے والے کپڑے ، فراموش کردہ تعلق اور پرانی چوٹوں کے نشان - ----اولین قرب کی سرشاری، سرد راتوں میں ٹھٹھرتے ہوے ,ریتلے میدان .....

تم جو آتے ہو

ابرار احمد: تم جو آتے ہو تو ترتیب الٹ جاتی ہے دھند جیسے کہیں چھٹ جاتی ہے

اجنبی جگہیں

ابرار احمد: دریچے، آنکھیں بن جاتے ہیں ایک اجنبی باس الوہی سرشاری سے ہمارے مساموں میں اتر جانے کو بے چین ہو جاتی ہے

تم نہیں دیکھتے

ابرار احمد: آنکھیں دیکھتی رہتی ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے پڑے رہتے ہو عقب کے اندھیروں میں، لمبی تان کر اور نہیں جانتے آنکھیں کیا کچھ دیکھ سکتی ہیں

خود کلامی

ابرار احمد: تم نے ٹھیک سمجھا ہر تعلق ایک ذلت آمیز معاہدہ ہے تھکے ہارے دلوں کا ، اپنے ارادوں کے ساتھ

وہ بھی تم ہو گے

ابرار احمد: اور وہ بھی تم ہو گے جو کبھی ۔۔۔ بارشوں سے دھڑکتی کھڑکی کے شیشے سے اپنی نمناک آنکھوں سے میری جانب دیکھو گے جب میں دنیا کی خوبصورتی برداشت کرنے سے انکار کرنے والا ہوں گا

کسی انتظار کی جانب

ابرار احمد: جو منتظر تھا ہمارا، جو راہ تکتا تھا جو ہم پہ وا نہیں ہوتا، جو ہم پہ کھلتا نہیں جو ہم پہ کھلتا نہیں، اس حصار کی جانب کسی طلب کو، کسی انتظار کی جانب

اگر مجھے

ابرار احمد: اگر مجھے دوڑنا ہی تھا تو میں دوڑتا چلا جاتا کسی بھی نا ہموار سڑک پر، آنکھیں بند کیے ہوے میں کیوں ان دیکھے بھالے راستوں پر ٹھوکریں کھاتا پھرا