ہمیں معلوم ہے
یہ شام بکھر جاے گی
اور یہ رنگ۔۔۔۔ کسی گوشہ بے نام میں کھو جائیں گے
یہ زمیں دیکھتی رہ جاے گی.. قدموں کے نشاں
اور یہ قافلہ۔۔۔۔۔
ہستی کی گز...
بہت یاد آتے ہی
چھوٹے ہو جانے والے کپڑے ،
فراموش کردہ تعلق
اور پرانی چوٹوں کے نشان -
----اولین قرب کی سرشاری،
سرد راتوں میں ٹھٹھرتے ہوے ,ریتلے میدان .....
ابرار احمد: اور وہ بھی تم ہو گے
جو کبھی ۔۔۔ بارشوں سے دھڑکتی کھڑکی کے شیشے سے
اپنی نمناک آنکھوں سے
میری جانب دیکھو گے
جب میں
دنیا کی خوبصورتی برداشت کرنے سے
انکار کرنے والا ہوں گا
ابرار احمد: جو منتظر تھا ہمارا، جو راہ تکتا تھا
جو ہم پہ وا نہیں ہوتا، جو ہم پہ کھلتا نہیں
جو ہم پہ کھلتا نہیں، اس حصار کی جانب
کسی طلب کو، کسی انتظار کی جانب
ابرار احمد: اگر مجھے دوڑنا ہی تھا
تو میں دوڑتا چلا جاتا
کسی بھی نا ہموار سڑک پر، آنکھیں بند کیے ہوے
میں کیوں ان دیکھے بھالے راستوں پر
ٹھوکریں کھاتا پھرا