Laaltain

سرنگ (اسد رضا)

15 جولائی، 2021
Picture of اسد رضا

اسد رضا

ایک صبح آپ اٹھتے ہیں تو خود کو زندان میں پاتے ہیں۔ آپ اس جرم کی بابت سوچتے ہیں جس کارن آپ زندان میں قید ہیں۔ آپ کچھ بھی یاد کرنے سے قاصر ہیں۔ آپ کو اپنا نام، علاقہ، شناخت کچھ بھی یاد نہیں آتا۔ پہچان کے طور پر آپ کے لباس پر ایک نمبر موجود ہے۔ آپ اس نمبر میں اپنی شناخت کھوجتے ہیں لیکن ایک نمبر سے خود کو ڈھونڈنا کافی دشوار کام ہے۔ اب آپ زندان میں ٹہل رہے ہیں۔ آپ زندان کی جالی سے باہر جھانکتے ہیں تو آپ کو دونوں اطراف بہت سی بیرکیں نظر آتی ہیں۔ آپ بہت جلدی جان لیتے ہیں کہ یہاں سے فرار ہونا قریب قریب ناممکن ہے۔ اب آپ آرام سے بیٹھے ہیں اور ایک دفعہ پھر اپنے جرم کے بارے میں غور کرتے ہیں۔ اب ایک کہانی تراشتے ہیں جس میں آپ ایک سیریل کلر ہیں۔ سب سے پہلے آپ کو اپنے جنون کی وجہ بُننی ہے۔ آپ ان تمام خواتین کے بارے میں سوچتے ہیں جنہیں آپ نے ممکنہ طور پر قتل کیا ہے۔ اُف آپ ان سے کتنی شدید نفرت کرتے ہیں۔ خاص طور پر وہ موٹی مالک مکان جو ہر وقت اپنے کتے کو ساتھ لیے گھومتی رہتی ہیں اور جگہ جگہ تھوکتی ہے۔ آپ کو یاد آتا ہے کہ قتل کرنے کے بعد آپ نے اس کی زبان بھی کاٹ ڈالی تھی۔ اس کی لاش کو ٹھکانے لگانا کتنا تھکا دینے والا کام تھا جس کے بعد آپ کو بئیر کے چھ کین پینے پڑے تھے۔ دوسری خاتون وہ دھوبن تھی جو کپڑے دھوتے وقت تمام جیبوں کی تلاشی لیتی تھی۔ اس کا لالچ نہ ختم ہونے والا تھا۔ آپ نے اسی کا فائدہ اٹھا کر اسے گھر بلایا تھا۔ آپ یاد کرتے ہیں کہ اس کو آپ کے جسم سے زیادہ بیڈ کے پاس پڑی آپ کی پینٹ سے دلچسپی تھی۔ اس نے قتل کے خلاف کتنی سخت مزاحمت کی تھی۔ لالچی لوگ موت سے کتنا ڈرتے ہیں۔ اور وہ روسی خاتون کتنی منحوس تھی جس کے جسم پر جا بجا تل تھے اور مردوں سے جسم کے تل گنوانا کتنا پسند کرتی تھی۔ آپ نے چاقو سے اس کے سینے اور ناف کے تل کے درمیان ایک خط کھینچ دیا تھا۔ یہ کتنا پُر لطف تھا۔ اس کے سفید جسم پر موجود سیاہ تل سُرخ خون میں کیسے ڈوب گئے تھے۔ آخری مرنے والی خاتون وہ ہم جنس پرست تھی جو سستے سگریٹ پیتی تھی اور اس کے کانوں میں ڈھیر ساری بالیاں تھیں۔ کسی عورت کا ہم جنس پرست ہونا ہی اس کے قتل کی کافی وجہ ہے اور خاص طور پر جب وہ آپ سے بلا وجہ ہمدردی جتائے۔ اس نے مرنے سے پہلے بتایا تھا کہ بچپن میں اس کا باپ اور بھائی روز اس کا ریپ کرتے تھے۔ دھت تیری کی۔۔۔ یہ بیوقوف عورت اگر شیرف کی دوست نہ ہوتی تو آج آپ جیل میں نہ ہوتے۔ آپ کے قالین پر سے اس کی خون آلود بالی مل گئی تھی۔

آپ اس سنسنی کو محسوس کرتے ہیں جو قتل کرتے وقت آپ کے رگ و پے میں دوڑتی تھی۔ اب آپ تھک چکے ہیں اور لیٹ جاتے ہیں۔ پتہ نہیں کیسے یکایک آپ کے ذہن میں خدشہ ابھرنے لگتا ہے۔ جلد ہی آپ اپنی کہانی پر شک کرنے لگتے ہیں۔ آپ کو بنائی گئی کہانی میں بے شمار منطقی غلطیاں نظر آنے لگتے ہیں۔ مثلاً موٹی خواتین کتے کی بجائے بلی رکھنا پسند کرتی ہیں۔ روسی خواتین کے بدن پر کالے کی بجائے بھورے تل ہوتے ہیں۔ اور ہم جنس پرست لڑکی کا کردار بناتے وقت آپ نے کلیشوں کا کس قدر استعمال کیا ہے۔ پھر قتل کے لئے خنجر کا استعمال آپ کو اپنی نفاست پسند طبعیت سے کچھ میل کھاتا نظر نہیں آتا۔ نیز آپ اتنے احمق نہیں ہو سکتے کہ قتل کے بعد قالین کو اچھی طرح سے چیک نہ کریں۔ صبح ہونے تک آپ اپنی کہانی کو مکمل طور پر رد کر چکے ہیں۔ اب آپ نئے عنوان سے اپنی موجودگی کو معنی دیتے ہیں۔ آپ کی پرتجسس اور باریک بین فطرت یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ آپ کے ایک جاسوس ہیں جو دشمن ملک میں پکڑے جا چکے ہیں۔ آپ کو یاد آتا ہے کہ آپ نے کیسے 6 مختلف زبانیں اور 14 مختلف لہجے یاد کئے تھے۔ آپ اپنی سخت تربیت کے مراحل یاد کرتے ہیں۔ آپ اپنے جسم پر موجود ایک ایک نشان کی وجہ سے آگاہ ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ کو یوم آزادی کی وہ رات یاد آتی ہے جب لطیفے سناتے ہوئے کس چالاکی سے آپ نے دشمن ملک کے جنرل سے معلومات حاصل کی تھی۔ آپ ان کوڈز کے بارے میں سوچتے ہیں جن کے زریعے آپ اپنا پیغام بھیجا کرتے تھے۔ آپ کو یاد آتا ہے کہ باسکٹ بال کا میچ دیکھتے ہوئے آپ کتنے جذباتی ہو گئے تھے اور یہی غلطی آپ کے پکڑے جانے کا سبب بنی۔ آپ اپنے ملک کی ایجنسیوں کی جہالت پر حیران ہوتے ہیں کہ وہ جاسوس کو محب الوطن بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک پروفیشنل کو کبھی بھی محب وطن نہیں ہونا چاہیے۔ بہرحال رات گئے تک آپ اپنی مہمات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ زندان کو قابل برداشت بنانے میں مدد دیتا ہے۔ رات کی تاریکی، زندان کی ہولناکی، تنہائی اور شناخت کے مسائل یہ سب اتنا چشم کشا ہوتا ہے۔ کہ آپ کی بنائی گئی ہر کہانی آپ کو ایک سیراب سے زیادہ کچھ نہیں لگتی اور آپ اس سے لا تعلقی کا اظہار کر دیتے ہیں۔ آپ ایک ایٹمی سائنسدان سے لے کر معمولی گورکن تک سب کچھ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ہر بار کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے۔

آخر آپ کو یاد آتا ہے کہ آپ ایک کہانی کار ہیں اور آپ کی کسی کہانی کے کسی کردار کی ایسی ہی کسی فاش غلطی کے سبب آج آپ زندان میں ہیں۔ اب آپ شدت سے وہ کہانیاں یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو آپ نے کبھی لکھی ہوں گی۔ آپ کو وہ سب بہت پھیکی اور بد مزہ سی لگتی ہیں۔ زندان سے باہر لکھی گئی کہانیاں پھکڑ بازی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتیں۔ کیا واقعی آپ ایک کہانی کار ہیں؟ آپ اس سوال سے کترا کر سر جھکائے ایک اور کہانی بُننے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *