Laaltain

سنو پِتاجی!

4 اکتوبر، 2025

جیا جادوانی
ہندی سے ترجمہ: محمد ابوالحسن عسکری

جیا جادوانی کی یہ کہانی آج کے شمارہ 127 میں شامل ہے، خریدنے کے لیے اس نمبر پر وٹس ایپ کیجیے: 03003451649

جیا جادوانی کی یہ کہانی آج کے شمارہ 127 میں شامل ہے، خریدنے کے لیے اس نمبر پر وٹس ایپ کیجیے: 03003451649

انتہائی قابلِ احترام پتاجی،

آج میں بے حد ادب کے ساتھ آپ کو شردھانجلی پیش کرنا چاہتی ہوں۔ میں جو کچھ بھی ہوں وہ نہ ہوتی، اگر آپ ویسے نہ ہوتے جیسے تھے۔

آپ کو ٹائم خراب کرنا سخت ناپسند ہے، سو جلدی اصل بات پر آتی ہوں۔ پچھلے مہینے میرے دونوں بھائیوں کا پیغام آیا میرے پاس کہ میں اپنے حصے کی موروثی جائیداد ان کے نام لکھ دوں، نہیں تو وہ مجھ سے ’تعلق‘ نہیں رکھیں گے اور مجھے’دیکھ‘ لیں گے۔ میں جانتی ہوں، مجھے ’دیکھ‘ لینے کے چکر میں وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ وہ بھی اسی پدرشاہی نظام کا حصہ ہیں جس کے آپ رہے۔ آپ کو بھی پسند نہیں تھا کہ کوئی عورت اپنے حق کی بات کرے یا سوچے بھی۔ آپ نے یہ اجازت نہ ماں کو دی، نہ مجھے۔ آپ کو یاد ہی ہوگا کہ میرے ذرا سے جواب دینے پر پورا گھر مجھ پر ٹوٹ پڑتا تھا: ’’یہ وکیلوں والی جرح اپنی ساس سے کرے گی تو وہ ’بیچاری‘ تو اپنی چھاتی کُوٹ لے گی‘‘۔ ساس نے چھاتی کُوٹی ضرور، پر میرے جواب دینے سے نہیں، میرے پڑھنے لکھنے سے۔ وہ بھی ’بےچاری‘ اسی پدرشاہی نظام کا حصہ بنی رہی جو سمجھتا ہے کہ لڑکیاں پڑھنے لکھنے سے بگڑ جاتی ہیں— بالکل صحیح سوچتے ہیں، میرے بگڑنے کی شروعات بھی یہیں سے ہوئی۔

چار سال ہو گئے ہیں آپ کو گئے ہوے اور شاید ہی کبھی میں نے آپ کو اس شدت سے یاد کیا ہو۔ گاہے بگاہے کوئی مجھے آپ کی یاد دلا بھی دیتا تھا، یہ کہتے ہوے کہ تمھیں دیکھ کر تمھاری عمر کا اندازہ نہیں ہوتا، تم اپنی عمر سے بیس سال چھوٹی لگتی ہو، تو میں بے حد انکسار سے جواب دیتی تھی کہ میں اپنے پِتا پر پڑی ہوں۔ آپ تو نوّے کی عمر میں بھی ساٹھ سے زیادہ کے نہیں لگتے تھے۔ لوگ کہتے تھے، آپ کی ٹانگیں کاٹھ کی بنی ہیں، تھکتیں ہی نہیں۔ آپ کبھی رکتے نہیں تھے پتاجی، ہمیشہ چلتے رہتے تھے۔ اتنا چلے کہ بہت دور نکل گئے، ہماری پہنچ سے پرے۔ ہمارے لیے تو آپ پِتا نہیں، دور سیاروں سے آیا کوئی شکتی شالی آدمی تھے جس سے ہم سدا ڈرتے رہتے تھے۔ ہمارے ننھے ہاتھوں نے کبھی آپ کا ہاتھ نہیں پکڑا۔ آپ کا گھر میں گھسنا ہمارے خوف کا سبب ہوتا تھا۔ آپ کے آنے کی آہٹ پاتے ہی ہم اپنی کوئی بھی کتاب کھول اس میں اپنا سر ڈال دیتے تھے تاکہ کسی بھی طرح آپ کی آنکھوں سے اوجھل رہ سکیں۔ جو آپ کے سامنے پڑا، وہ گیا۔ پڑنا تو ماں کو پڑتا تھا، اور وہ یہ قہر اپنے دل اور جسم پر جھیلتی تھیں۔ چھلنی ہو گئے ہوں گے دونوں، جب وہ اوپر گئی ہوں گی۔ عورت کے جیون کی اتنی دشواریاں جھیل لیں انھوں نے کہ سب کچھ چتھڑا چتھڑا ہو گیا۔’جیوں کی تیوں دھر دینی چدریا‘، کبیر کہتے ہیں۔ کیا سچ مچ کوئی عورت ایسا کر پاتی ہے؟ ان کی ’چدریا‘ کے تار تو دور سے بھی ٹوٹے پھوٹے دکھائی دیتے تھے۔ آتما کو بھی اس میں رہتے شرم آنے لگی تھی۔

اب دیکھیے نا، بھائیوں کے فون کے ساتھ ہی رشتےداروں کے فون بھی آنا شروع ہو گئے اور وہ مجھے’شائستگی‘ سے یہ سمجھانے کی کوشش کرنے لگے کہ ’بھگوان کا دیا ‘ سب کچھ میرے پاس ہے، سو میں بھائیوں سے ’پنگا‘ لینے کی کوشش نہ کروں، نہ سوچوں۔ نہیں تو میں وہ ’گھر‘ [میرا مائیکا] کھو دوں گی۔ یہ سن کر بھی مجھے بہت زور سے ہنسی آتی رہتی ہے۔ یہ وہی رشتےدار ہیں جو آپ کے رہتے گھر میں گھسنے سے بھی ڈرتے تھے۔ آپ نے انھیں ہمیشہ اپنے گھر سے باہر رکھا، اور اب آپ کی غیرموجودگی میں دیکھیے کیسے گھسے چلے آ رہے ہیں! اور رہی اس ’گھر‘ کی بات تو وہ ’گھر‘ تو میرا پِتاجی، آپ کے رہتے بھی نہ تھا۔ آپ نے کبھی اس کا احساس ہی نہ ہونے دیا۔ جو ’گھر‘ ستر سال کی ماں کا نہ ہو سکا تو بھلا سولہ سال کی لڑکی کا کیا ہوگا؟ وہ گھر صرف آپ کا تھا، پِتاجی۔ وہاں تو ہر دن یہی سنائی دیتا تھا: ’’جا اپنے گھر تو ہمیں تجھ سے چھٹکارا ملے!‘‘ ہم لڑکیوں سے زیادہ تو آپ لوگ گھر کی گایوں کا سمّان کرتے تھے— تب تک جب تک وہ دودھ دیتی تھیں۔ بوڑھی ہو جانے پر آپ انھیں دان میں دے دیتے تھے۔ ہم بھی ہاڑتوڑ محنت کرتی تھیں، پِتاجی، میں اور میری چاروں بوائیں (پھپھیاں)، تاکہ ہم خود پر ہونے والے خرچ کے قرض کی بھرپائی کر سکیں۔ اگر وہ سب آپ کو دِکھا نہیں تو بھی کوئی بات نہیں پِتاجی، ’دِکھنے‘ لائق کچھ تھا بھی نہیں۔

بواؤں کی جیسے تیسے شادی کر کے انھیں ان کے نام نہاد ’گھر‘ بھیج کر، آپ نے مجھے گھر میں قید کرنے کے تمام جتن کیے۔ اس بندی خانے کو کتابوں سے بھر دیا کہ اسی میں الجھی رہوں، اور میں شبدوں کی پیٹھ پر سوار، اپنا جسم وہیں دھرے، اُڑ جاتی۔ آپ نے یہ بڑے ثواب کا کام کیا، پِتاجی۔ کتابوں نے مجھے وہ وہ دیا جو آپ دینے کا سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ میں دھیرے دھیرے آپ کے خلاف کھڑی ہونے لگی تھی۔ پھر ایک دن جب میری ماں پٹی، میں آپ دونوں کے بیچ کھڑی ہو گئی۔

ہم آپ کو بہت پیار کرتے تھے، پِتاجی۔ گھر کی ہر اچھی چیز پر آپ کا ہی ادھیکار رہتا تھا، پھر آپ کے بیٹوں کا، چاہے وہ ماں کے ہاتھ کا بنا لذیذ کھانا ہو یا کچھ اَور۔ کھانا بنتے ہی ماں تھالی پروس کے آپ کے لیے الگ رکھ دیتی تھیں، پھر ہم بچوں کو کھلاتی تھیں، اور آخر میں سامنے رکھی کڑھائی کو پونچھ پونچھ کر اپنی روٹیاں ختم کر ایسی تسکین سے اٹھتیں جو آپ کو بھی وہ سپیشل تھالی کھاکر نہ ملتی ہوگی۔ مجھے یاد ہے، آپ اپنے کانوں میں مہنگے عطر کا پھاہا رکھتے تھے۔ آپ کے گھر سے نکلتے ہی ہم بھائی بہن آپ کے تکیے کو سونگھنے کے لیے ٹوٹ پڑتے تھے۔ کبھی ایک گِرے ہوے پھا ہے کے لیے ہم لڑ مرتے تھے۔ ہم کتنے بھی نالائق ہوں، پر کیا ہوتا پِتاجی، اگر ایک پھاہا آپ ہمارے کانوں میں بھی رکھ دیتے؟ ہم تمام عمر آپ کی یاد سے مہکتے رہتے۔

مجھے خود پر بڑی شرم بھی آتی ہے کہ مجھے وہ وہ چیزیں یاد نہیں ہیں جو مجھے آپ سے ملیں: حوصلہ، خودداری، اکیلے جوجھنے کی فولادی طاقت، خوداعتمادی، اَور بھی بہت کچھ۔ اس سنگھرش نے میرے وجود کو ایک دھار دی۔ نہیں، صرف اسی سنگھرش نے نہیں، اُس دوسرے سنگھرش نے بھی جو اُس دوسرے گھر کی دین تھا جہاں آپ نے شادی کے نام پر مجھے بھیجا تھا۔ کتنا آزاد محسوس کیا ہوگا آپ نے یہ کہتے ہوے کہ ’’جا، اب اِس طرف پیٹھ کرکے سونا‘‘۔ اس گھر میں تو ہم کھارے پانی سے کبھی کبھی روبرو ہوتے تھے کیونکہ یہاں ماں تھیں، اُس گھر میں تو میں روز کھارے پانی سے سنان کرنے لگی کیونکہ وہاں ساس تھیں۔ ہم پیدائشی بےگھر لڑکیاں ایک گھر کی تلاش میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتی ہیں، اور داؤ پر لگانے کے لیے ہمارے پاس ہوتا ہی کیا ہے اس جسم کے سوا؟ پر میں نے آپ سے کبھی کوئی شکایت نہیں کی، نہ کبھی اپنا کوئی دکھڑا رویا۔ وہ میرا نصیب تھا جس سے مجھے خود ہی بھڑنا تھا۔ آپ نے مجھے ’چیز‘ بنایا، سسرال مجھے ’اچھی چیز‘ بنانے پر مُصر تھا۔
ہم پریم سے اُپجی اولاد نہیں تھیں، پر اولاد تو تھیں۔ میں آپ سے، آپ کے سامنے پیدا ہوئی، پلی بڑھی، جوان ہوئی، لڑی جھگڑی، پر گھر میں کسی کو سمجھ میں نہیں آئی، یہاں تک کہ ماں کو بھی نہیں۔ ان پر معاشی بوجھ تو تھا ہی، اپنی اور بچوں کی حفاظت کا بھی بوجھ تھا۔ صبح تین بجے اٹھ کر رات گیارہ بجے تک وہ عورت ہاڑتوڑ محنت کرتی تھی۔ آج کی عورتوں کو جب دیکھتی ہوں، کہ کس طرح وہ بازار میں اور بازار اُن میں ناچ رہے ہیں، وہ لگی ہیں مرد کو ’خالی‘ کرنے اور اپنے لالچ ’جی‘ لینے میں، تو حیرانی نہیں ہوتی۔ وہ اپنا پچھلا بدلہ چکا رہی ہیں۔ مجھے ماں پر غصہ آتا تھا۔ تمام وقت وہ تمھارے اور تمھارے بیٹوں کے لیے برت رکھتی تھیں، آنولے کے پیڑ کو گول گول گھومتے ہوے لال دھاگے باندھتی تھیں، اور ہولیکا دہن یا دوسرے تیوہاروں میں تمھارے لیے انگاروں پر میٹھے روٹ سینکتی تھیں۔ تم نے ہمیں دو حصوں میں توڑ دیا تھا: کمر سے نیچے اور اوپر۔ یہ دونوں تمھارے ہی لیے کام کرتے تھے۔ نیچے کا دھڑ مزاحمت کرتا ہے تو اسے سرسنبھالتا ہے، سر بغاوت کرتا ہے تو دھڑ سنبھالتا ہے۔ تم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ تمھارے اقتدار سے الگ بھی میں اور ماں کچھ ہو سکتے ہیں، کہ ہمارے پاس بھی اپنا دماغ اور شعور ہے۔ یہ ہمیشہ تم ہی طے کرتے تھے کہ ہمیں کیا اور کتنا دینا چاہیے۔ اور دیا بھی۔

آپ تو اپنے ناکارہ بیٹوں کے ہر سکھ دکھ میں کھڑے ملے، پِتاجی۔ وہ آپ کی کروڑوں کی جائیداد کے مالک ہوں گے، یہ بات آپ کو بےحساب خوشی دیتی تھی۔ وہ پڑھنا نہیں چاہتے تھے، آپ ان کو مار مار کر پڑھاتے تھے۔ میں پڑھنا چاہتی تھی، آپ نے میری پڑھائی چھڑوا دی۔ آپ ان پر فضول خرچ کرتے تھے پر مالی مشکلات کی شکار اپنی بہنوں کو سو روپلّی دیتے ہوے کہتے تھے، ’’میرے پاس ہے کہاں بہنا، بس کام چلا رہا ہوں۔‘‘ اپنے جس نام کو ’روشن‘ کرانے کا آپ کو بےپناہ لالچ تھا، اسی ’نام‘ کو آپ کے بیٹوں نے ’ڈبو‘ دیا۔ پر کوئی بات نہیں پِتاجی، جس سورگ میں آپ ہیں، وہ بھی آپ جیسوں کا ہی جماؤڑا ہے، وہاں بھی سارے دیوتا ایک دوسرے کی تعریفیں گاتےگواتے ہیں، دیویوں کو بھی انھوں نے اپنے حساب سے گڑھ رکھا ہے، سو مجھے امید ہے، اوپر آپ کے نام کا جھنڈا ضرور لہرا رہا ہوگا۔ پر ایک بات اَور بتائیے پِتاجی، کیا آپ کا ’نام‘ اور ’شان‘ کچھ سطحی چیزوں پر نہیں ٹکا تھا؟ میں سر پر دوپٹہ نہیں لیتی تھی تو آپ چیختے تھے: ’’بےنظیر بھٹو کو دیکھو، سر پر دوپٹہ لے کر تقریر کرتی ہے۔ ایک تم ہو! لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ یا، ’’ لتا منگیشکر کو دیکھو، اس نے کتنا اپنے باپ کا نام روشن کیا ہے، ایک تم ہو!‘‘ میرے ہر کام میں، یہاں تک کہ میری شکل صورت میں بھی آپ کو ہزار نقص دکھتے تھے۔

’’دیکھو تو، کیسے چلتی ہے! دھپ دھپ کرکے۔ کون اس سے شادی کرے گا؟‘‘
’’قد دیکھو، کیسے نکلتا جا رہا ہے! لڑکیاں چھوٹی اچھی۔‘‘
’’اتنی زور سے ہنسنے کی کیا ضرورت ہے؟ لڑکیاں ہنستی ہوئی اچھی نہیں لگتیں۔‘‘

آپ ٹھیک تھے پِتاجی، لڑکیاں صرف روتی ہوئی اچھی لگتی ہیں، کیونکہ تب ان پر ترس کھایا جا سکتا ہے، ان پر مہربان ہوا جا سکتا ہے۔ اچھا ہوا آپ کو پتا نہیں چلا، کتنے امکانات کے بیج آپ نے اپنے الفاظ کے سفاک پیروں تلے کچل دیے۔ ہمارے سیلف کانفیڈنس کو مٹی میں ملا دیا۔ ہم ’کچھ نہیں‘ تھے ،اور یہ آپ کبھی نہیں جان پائے کہ ’کچھ نہیں‘ سے ’کچھ‘ ہونےکا جان لیوا سفر کرنے میں مجھے کتنے برسوں اور کتنے دردوں سے گزرنا پڑا۔ اپنی مٹی سے پرانے کانٹوں کی فصل اکھاڑنا، مٹی کو دوبارہ اُپجاؤ بنانا، نئے بیج لگانا، پھر بارش اور فصل کا انتظار کرنا۔ میں آپ کو دھنے واد دیتی ہوں پِتاجی، کہ آپ نے مجھے سر نہیں چڑھایا۔ آپ کے سر چڑھائے بیٹوں کا انجام میں دیکھ رہی ہوں جنھیں اپنے بُوتے دو قدم چلنا نہیں آیا۔

بےنظیر بھٹو بھی ڈری سہمی گھومتی ہوگی کہ وہ آپ جیسوں کی ذہنیت والوں کا شکار نہ ہو جائے، اور وہ ہو گئی۔ آپ لوگ ایک قدآور عورت کو گھروں میں بھی برداشت نہیں کر پاتے، سڑکوں اور اونچے عہدوں پر تو کوئی سوال ہی نہیں۔ برداشت کرنا بھی نہیں چاہیے پِتاجی، یہ زنانہ فوج گھر سے نکل آئی تو پھر بچے کون پالے گا؟ اِن کو اِن کی اوقات بتانا بہت ضروری ہے۔

پر میری ایک درخواست ہے، اپنے بچوں کو ’بنا‘ دینے کی ذمےداری کسی باپ کی نہیں ہوتی۔ پلیز اس سے باز آئیے۔ آپ وہی بنا سکتے ہو جو آپ خود ہو۔ آپ تو بس اتنا پیار اور سمّان دو کہ وہ خود کو بھی وہی دے سکے، خود اپنی مٹی سے اٹھ، تن کر کھڑا ہو سکے۔ ہم عورتوں کو بھرپور صحت مند رشتے کہاں ملتے ہیں؟ ہمیں تو ملتے ہیں چیزوں کے ڈھیر۔ ہم انھی سے چپکتے، انھی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہمیں تو وہ مرد ملتا ہی نہیں جو ہمیں ہمارے مکمل ہونے کا شعور کرا سکے۔ اکثر ہم ایک بےتسکینی بھرے بھٹکاؤ میں ہی جیون گزار دیتی ہیں۔ ہاں، کبھی کبھی کوئی بےخوف، دبنگ، بےباک اور بیہڑ عورت مردانہ اقتدار کے خلاف آواز اٹھاتی ہے اور اس کی چُولیں ہلا دیتی ہے۔ خود کو اپنی زبان سے کہتی ہے، اپنے ہونے کا اعلان کرتی ہے۔ پر پھر کیا ہوتا ہے؟ یہ اقتدار تیور بدل کر بات کرتا ہے اور آخرکار اسے ٹھکانے لگا دیتا ہے۔

آپ نے اپنی بہنوں پر بھی اتنی زیادتیاں اور بےعزتیاں کیں کہ انھوں نے آگے ہونے والی بےعزتیوں کو بھی اپنا نصیب مان لیا۔ اب آپ کی جگہ ان کے شوہروں اور بیٹوں نے لے لی ہے۔ پر آپ بھی کیا کیا کرتے پِتاجی، اب سب کی ذمےداری آپ نے تھوڑا ہی لے رکھی ہے! ایک مَیں ہی اُن کی طرح نہیں بن پائی۔ آپ نے تو ہم سب کو بےچہرہ ہی بنا رکھا تھا، پر میں نے اپنے بھیتر سے اپنا نیا چہرہ اُگا لیا۔ یقیناً اس کا بھی کریڈٹ آپ ہی کو جاتا ہے۔ اب بتائیے، جو کتابیں آپ مجھے اپنی قید میں بنے رہنے کے لیے دیتے تھے، انھی نے میرا بیڑا غرق کر دیا۔ ماں یہ بات ضرور سمجھتی ہوں گی، تبھی تو وہ کتابیں جلا دیتی یا چھت پر پھینک دیتی تھیں۔ کہتی تھیں، ’’لڑکیوں کو زیادہ نہیں پڑھنا چاہیے، بھلا گھرگرھستی چلانے میں پڑھائی کا کیا کام؟ سلائی کڑھائی سیکھو، پاپڑبڑیاں، گھجیے کچری بناؤ، رضائی گدّےجھولے بناؤ، سندھی کڑھائی سیکھو، گُرمکھی سیکھو، دھارمک گرنتھ پڑھو، اچھی پتنی، اچھی بہو بننے کے گُن سیکھو، نہیں تو لوگ ہم پر تھوکیں گے کہ تم نے اپنی بیٹی کو کیا سکھایا؟‘‘ اب بتائیے، ہمارے دیش میں تو لوگ کہیں بھی تھوک دیتے ہیں، ان کا کیا کیا جائے؟ پھر میری جبراً شادی کر دینے پر انھوں نے سمجھائش دی، ’’روز صبح جلدی اٹھ کر گھر کے سارے کام کرنا۔ ساس سسر کے روز پیر چھونا۔وہ جو بھی کہیں، کبھی پلٹ کر جواب مت دینا۔ اگر وہاں سے کوئی شکایت آئی تو سمجھ تُو ہمارے لیے مر گئی۔‘‘ پتاجی، کیا میں آپ کو بتا پاؤں گی کہ جینے کے لیے ایک لڑکی کو کتنی بار مرنا پڑتا ہے؟ میں نے وہ سب کرنے کی بھرپور کوشش کی جو مجھ سے کہا جاتا رہا، پر میں کیا کرتی؟ میری زمین پھوڑ کر تب تک ایک نئی عورت نکل آئی تھی اور اس نے پرانی کی جان ہی لے لی۔

میں ماں کو کبھی سمجھا نہیں پائی کہ تم جن کی طاقت کو کوستی اور کراہتی ہو، انھی کو دراصل پالتی پوستی بھی ہو۔ ماں آپ سے نفرت بھی کرتی تھیں اور ایک عجیب سوامی بھکتی بھی تھی ان میں۔ ان کے وجود کے معنی اپنے ’سوامی‘ (پتی) سے ہیں، اور وہ اس وجود کو ہی بےمعنی مانتا ہے۔ وہ ہمیشہ چڑچڑی، غصیل اور بےچین رہتی تھیں۔ ان کا بےبس غصہ ہم پر پھوٹ کر ٹوٹے کانچ سا ہر وقت گڑتا رہتا تھا۔ یہ خودبخود نہیں ہوا کہ ان کی موت دل کی دھڑکن رکنے اور یونی میں کیڑے پڑنے سے ہوئی۔ پر اس میں آپ کا کیا قصور؟ یہ تو قسمت ہوتی ہے ہر مورکھ عورت کی۔ آپ ہی تو کہتے تھے، ’’عورتیں ڈنڈے کی نوک پر سیدھی رہتی ہیں۔‘‘

مجھے لگتا تھا کہیں نہ کہیں جاکر اس سے آزادی پانا ممکن ہے، پر میں غلط تھی۔ عورتیں بوڑھی ہونے کے بعد بھی آزاد نہیں ہوتیں، صرف ان کے مالک بدلتے ہیں۔ ہر لمحے مردانہ طاقت سے اپنی حفاظت کرتے رہنے کا ڈر ہمیشہ ان کے شعور پر حاوی رہتا ہے۔ اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لیے مرد کے مقابلے میں انھیں چوگنا سنگھرش کرنا پڑتا ہے۔ دیکھیے نا، میں ابھی تک کر رہی ہوں۔

آپ تو اتنے گیان وان تھے پِتاجی، کہ آپ کو بھولے اور بھوندو شوہر پسند ہی نہیں آتے تھے کیونکہ ان میں عورتوں کو دابے رکھنے کا ہنر نہیں ہوتا۔ شاید اس لیے آپ کو اپنے پِتا ناپسند تھے، کیونکہ ان میں آپ کی ماں کو دابنے کا ہنر نہیں تھا۔ تو آپ نے اپنے بیٹوں کو بھی غور سے دیکھا ہی ہوگا۔ کون کس کو داب رہا ہے؟ آپ کو اپمان اور دکھ ہوتا ہوگا، پر وقت اب تھوڑا سا بدل گیا ہے۔ آپ کو تو اپنی بدزبان اور اَن پڑھ ماں بھی اچھی نہیں لگتی تھیں۔ آپ چاہتے تھے، عورت ’سمجھدار‘ بھی ہو اور اپنی ’حد‘ میں بھی رہے، ’عقل‘ اور ’فیصلے کی قوت‘ ہو پر وہ اس کا استعمال نہ کرے۔ اب ایسی عورتیں تو صرف کتابوں میں ملیں گی پِتاجی!

آپ سے اس ساری بدتمیزی کے لیے مجھے بے حد افسوس ہے، قابلِ احترام پِتاجی۔ جیسی بھی ہوں، آپ کی اُپج ہوں۔ نہ میں آپ کے ہونے سے انکار کرتی ہوں، نہ آپ کو مٹانا چاہتی ہوں نہ جھکانا۔ بس اتنا چاہتی ہوں، آج ذرا برابری کے لیول پر بات ہو جائے۔ دیکھیے نا، آپ نے مجھے بولنے کا کبھی موقع نہیں دیا، آج میں جی بھر کر بول رہی ہوں۔ آپ نیچے ہوتے تو ضرور مجھے اپنی چھتری سے مارتے۔ چھتری کی مار مجھے کبھی بری نہیں لگی، پِتاجی، بس شبدوں کی مار ذرا زور سے لگتی ہے۔ پر کوئی بات نہیں، یہ آپ کا پیدائشی حق تھا۔ آپ بات بات پر کہتے تھے، ’’میں نہ ہوتا تو کیا ہوتا تم لوگوں کا؟ دانے دانے کو محتاج ہو جاتے!‘‘ مجھے نہیں پتا کیا ہوتا، پِتاجی۔ پر اگر آپ نہ ہوتے تو ہم ضرور اپنے بھیتر کھوئی عقل، حوصلے اور خودشعوری کو جگا ہی لیتے۔

آج اتنے برسوں بعد اتنی دور کھڑے ہوکر میں آپ کی ذہنیت کی دھجی دھجی اُدھیڑنے کے لیے آپ سے معافی مانگتی ہوں، پِتاجی۔ جانتی بھی ہوں، کہ درحقیقت یہ آپ کا چناؤ نہیں، کنڈیشننگ ہے جو آپ کے ریشے ریشے میں سما گئی ہے۔ جو مرد اس سے آزاد نہیں ہو پاتے، مجھ جیسی عورتیں ان سے آزاد ہو جاتی ہیں۔

عورت کی غلامی مرد کے وجود کی مانگ ہے، عورت کی آزادی اس کی آتما کی ضرورت ہے۔

اور یہ سب آج میں آپ کو کیوں کہہ رہی ہوں؟ کیونکہ بھائی بھی وہی کر رہے ہیں جو انھوں نے اس روایت سے سیکھا ہے۔ ہم عورتوں کو تمھاری جائیداد محفوظ رکھنے کا حق تو ہے، اس کا استعمال کرنے کا نہیں۔ وہ چاہتے ہیں میں ’پھوکٹ‘ میں ان کا ٹائم خراب نہ کروں، اپنی ’اوقات‘ میں رہوں، چپ چاپ اپنا راستہ ناپوں، دفع ہوؤں ان کی زندگیوں سے۔ میں تو کب کی دفع ہو چکی ہوں، پِتاجی۔ میں کسی کے اندر زندہ نہیں ہوں، پر میرے اندر سب زندہ ہیں۔ اب اس حق سے مجھے محروم کرنے کے لیے انھیں بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے، ویسے ہی پاپڑ جنھیں ٹھیک سے نہ بیل سکنے پر آپ لوگ میری انگلیاں توڑتے تھے۔ مجھ میں آپ کا مقدس خون ہے پِتاجی، اس لڑائی میں ہار کر میں آپ کو شرمندہ ہونے کا موقع ہرگز نہیں دوں گی۔ اس جرم کی معافی کی درخواست کبھی کی ہو تو واپس لیتی ہوں۔

آپ کی سرکش بیٹی۔

(نام نہیں لکھ رہی۔ آپ کا دیا نام پیچھے چھوڑ آئی ہوں۔ نیا جان کر آپ کیا کریں گے ؟)

جیا جادوانی کی یہ کہانی آج کے شمارہ 127 میں شامل ہے، خریدنے کے لیے اس نمبر پر وٹس ایپ کیجیے: 03003451649

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *