خان صاحب بسم اﷲ خاں 21،اگست 2006 ء کو نوے برس کی عمر پا کر دل کی حرکت بند ہونے کے سبب ہم سے رخصت ہوئے تھے۔ ہند سرکار نے ان کی موت پر ایک دن کے قومی سوگ کا اعلان کیا تھا اور ان کی میت کو 21 توپوں کی سلامی کے ساتھ بنارس میں دفن کیا گیا۔ خان صاحب اپنی عمر کے آخری سالوں میں ہند سرکار سے یوں شاکی تھے:

"وزیراعظم ( اس وقت کے ) اٹل وہاری واجپائی اور صدر کے۔ آر۔ نارائن سے اپنے پوتے کے لئے مائع پڑولیم گیس کی ایجنسی بارے جو مودبانہ در خواست میں نے کی تھی اس کی شنوائی تاحال نہیں ہوئی۔۔۔ میں نے واجپائی جی کو ذاتی طور پر تفصیل سے بتایا تھا کہ میرے لئے اپنے بچوں اور ان کے بچوں کا وسیع کنبہ پالنا دن بدن مشکل سے مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کے چند ماہ بعد میں صدر نارائن سے بھی جون 2002 ء میں ملا۔ میں نے ان سے بھی یہی التجا کی۔ نارائن جی نے مجھے یقین دلایا کہ 15 اگست تک میری درخواست پر عمل درآمد ہوجائے گا لیکن اس کو بھی سال سے اوپر ہو گیا ہے اور میں نے متعلقہ حکام سے تا حال کچھ نہیں سنا۔۔۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ گیس ایجنسی جو صرف ایک ایم پی،یہاں تک کہ ایک ایم ایل اے کی سفارش پر مل جاتی ہے۔ میری درخواست پر، وہ بھی اپنے خاندان کے لئے، باوجود وزیراعظم اور صدر کی یقین دہانی کے، کو ئی عمل درآمد نہیں ہوا۔۔۔ میں یہ سب کہنا نہیں چاہتا تھا لیکن حالات نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کردیا ہے اور ایسا سب کہتے ہوئے مجھے انتہائی دکھ ہے۔”

استاد بسم اﷲ خاں نے اسی انڑویو میں بتایا تھا کہ ان کا کنبہ لگ بھگ سو افراد پر مشتمل ہے جو ایک مشترکہ خاندانی نظام کے تحت چلتا ہے۔ اسی انٹرویو میں جب انہیں یاد دلایا گیا کہ وہ ہندوستان کے تیسرے گرو ہیں جن کو”بھارت ر تن” ایوارڈ دیاگیا اور اس سے قبل انہیں "پد م شری” ایوارڈ کے علاوہ سینکٹروں دوسرے ایوارڈ بھی مل چکے ہیں تو ان کا جواب تھا:
"یہ سارے ایوارڈ گھر چلانے میں میرے مددگار نہیں، ویسے بھی ایوارڈوں کو کون پوچھتاہے۔ ”

استاد بسم اﷲخاں , 21مارچ1916ء کو ریاست دھمراؤں (موجودہ بہار) میں پیغمبر خاں اور مِٹھاں کے گھر پیدا ہوئے۔ پہلے ان کا نام بڑے بھائی شمس الدین کے وزن پر قمر الدین رکھا گیا۔ لیکن جب ان کے دادا رسول بخش خاں نے نومولود کو دیکھا تو ان کے منہ سے بسم اﷲ نکلا تو نام بدل دیا گیا۔ استاد بسم اﷲ خاں کے آباؤاجداد بھوج پور ریاست (موجودہ بہار) کے درباری سازندے تھے۔ ان کے والد مہاراجہ کیشوپرشادسنگھ آف دھمراؤں ریاست (موجودہ بہار) کے دربار میں شہنائی نواز تھے۔ استاد بسم اﷲ خاں کے والد چاہتے تھے کہ وہ شہنائی بجانے کا آبائی پیشہ اختیار کر نے سے قبل سکول جائیں اور اعلی تعلیم حاصل کریں لیکن بسم اﷲ خاں کا من تو شہنائی کی مدھر اور جادو بھری آوازنے موہ رکھا تھا۔ یہ ‘ موہ ‘ اس وقت سے پیدا ہو گیا تھا جب ان کی والدہ انہیں لے کر اپنے بھائی علی بخش "ولایتو” کے ہاں بنارس آیئں۔ بسم اﷲ اس وقت تین برس کے تھے۔ تب سے بسم اﷲ خاں کا تعلق اپنے ماموں جنہیں وہ اپنا گرو بھی مانتے تھے سے ایسا جڑا کہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ علی بخش "ولاتیو” وارانسی کے وشنواناتھ مندر کے ساتھ منسلک تھے۔

اس زمانے میں شہنائی پورے برصغیر میں بجائی اور سنی جاتی تھی اور شہنائی بجانے والوں کی کمی نہ تھی مگر شہنائی کو کلاسیکی موسیقی میں وہ درجہ حاصل نہیں تھا جو سارنگی، ستار، سرود، رباب یا دلربا و غیر ہ کو حاصل تھا۔ شہنائی شادی بیاہ اور دیگر مقامی رسوم میں بجتی تھی یا پھر مندروں میں پوجاپاٹ سے جڑی ہوئی تھی۔ علی بخش "ولایتو” نے شہنائی کو پہلی بار اس قابل بنایا کہ وہ کلاسیکی موسیقی کی دنیا میں ستار،سرود اور رباب وغیرہ کے ہم پلہ آ کھڑی ہو۔ اس کے لئے انہوں نے استاد بسم اﷲخاں کو تیار کیا اور 1937 ء میں جب کلکتہ میں آل انڈیا میوزک کانفرنس ہوئی تو استاد بسم اﷲ خاں اپنے بڑے بھائی شمس الدین کے ہمراہ اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ یو ں شہنائی کو بھی وہ مقام مل گیا جو ستار اور سرود جیسے سازوں کو حاصل تھا۔

اپنی اوائل عمری کے بارے میں خا ں صاحب نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا:
” شروع میں تو میں گھر پر ہی شہنائی بجایا کرتا تھا جبکہ میرے ماموں اور گرو بنارس کے بالا جی کے مندر میں ریاض کیا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے مجھے بھی بالاجی کے مندر میں اسی جگہ بٹھا کر ریا ض کرانا شروع کیا جہاں وہ خود بیٹھا کرتے تھے۔ پہلے یہ ریاض 30 منٹ تھا پھر 45 منٹ ہوا اور جب میں نے اس جگہ پر اپنے ریاض کا پہلا سال مکمل کیا تو میرا ریاض ساڑھے تین گھنٹے تک پہنچ چکا تھا۔ ”

شہنائی ان کے آباؤ اجداد میں کیسے آئی ؟ اس بارے میں ان کا کہنا تھا:
” میرے آباؤ اجداد پہلے گاتے تھے اور بہت اچھا گاتے تھے۔ ان کی استھائی،انترا اور خیال سب بہت عمدہ تھا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ گانے والوں میں بہت مقابلہ ہے تو انہوں نے ستار کی طرف رجوع کیا۔ یہاں بھی مقابلہ زیادہ تھا تو انہوں نے سرود بجانے کی طرف دھیان کیا لیکن سرود نواز بھی بہت تھے یہی حال طبلے کا تھا، بالاخر شنہائی کی باری آئی جس کا ہندوستانی کلاسیکی موسیقی میں کو ئی مقام نہیں تھا۔ یہ عوامی ساز تھا۔ میرے آباوٗ اجداد کا وہ تجربہ جو گانے سے لے کر مختلف سازوں کے تجربے سے گزر کر جب شہنائی میں سمِٹا تو میرے آباء شہنائی بجانے میں منفرد ہو گئے اور ان کی شہنائی داد پانے لگی۔”

استاد بسم اﷲ خاں نے اوائل عمری میں ہی یوپی اور آس پاس کے علاقوں میں مروجہ موسیقی کی مختلف صنفوں جیسے ٹھمری، ساوانی وغیرہ سے جانکاری حاصل کر لی تھی۔ بعد میں انہوں نے "خیال” پر توجہ کی اور راگوں پر بھی مہارت حاصل کی۔

HMV سے وابستہ اندرجیت بھدوار اپنے مضمون (انڈیا ٹوڈے 1986ء) میں لکھتے ہیں: "میں نے استاد بسم اﷲ خاں کو پہلی بار 1941 ء میں سنا اور پھر ملا بھی۔ اس وقت وہ اپنے بڑ ے بھائی کے ہمراہ شہنائی بجایا کرتے تھے۔ دونوں زبردست شہنائی نواز تھے۔لیکن ‘ بڑے بھائی تو بڑے بھائی، چھوٹے بھائی سبحان اﷲ ‘ لیکن انہوں نے اپنے بھائی کی سنگت میں بجاتے ہوئے ہمیشہ اس بات کا خیا ل رکھا کہ ان کا بجانا بڑے بھائی کے بجانے پر سبقت نہ لے جائے۔ ”

جب ان کے بڑے بھائی کا انتقال بھی ہو گیا تب بھی وہ یہی کہتے تھے:
” وہ میرے بڑے بھائی تھے لہذا مناسب نہیں کہ میں ان سے بہتر شہنائی بجاؤں۔”

استاد بسم اﷲ خاں کی سنگت میں عام طور پر تین چار سازندے ہوا کرتے تھے۔ شروع میں طبلہ نہیں تھا صرف "ڈونگی”ہوا کرتی تھی لیکن بعد میں طبلہ بھی ان کی سنگت میں شامل ہوگیا۔

اندر جیت بھدوار مزید لکھتے ہیں :
” میں جب 1964ء میں لندن اور یورپ گیا تو وہاں برطانیہ، جرمنی، فرانس اور دوسرے ممالک میں موسیقی کے شیدائی بسم اﷲ خاں کے ‘ ایل پی ‘ (گراموفون ریکارڈ) سنتے دکھائی دیتے۔ میں نے واپس آ کر استاد بسم اﷲ خاں کو یورپی ملکوں کی طرف سے ملے دعوت نامے دیئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ وہاں جائیں اور اپنا فن پیش کریں۔ استا د بسم اﷲ خاں کو ہوائی جہاز کے سفر سے ڈر لگتا تھا لہذا انہوں نے جانے کی شرائط کچھ ایسی رکھیں کہ انہیں پورا کر نا ممکن نہ ہوتا۔ یہ سلسلہ دو سال چلتا رہا اور استاد بسم اﷲ خاں مختلف حیلے بہانوں سے غیر ملکی دعوت ناموں کو ٹالتے رہے۔ ”

1966 ء میں لیکن جب انہیں ایڈن برا فیسٹول کا دعوت نامہ آیا اور خاں صاحب کی وہ تمام شرائط بھی مان لی گیئں جو انہوں نے اس لئے رکھی تھیں کہ نہ مانی جائیں گی نہ انہیں جانا پڑے گا تب ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ انکار کر سکیں۔ پھر بھی انہوں نے ایک اور حیلہ کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو عمرہ کرایا جائے۔ یہ بات بھی مان لی گئی چنانچہ خاں صاحب نے اپنے ساتھیوں سمیت پہلے عمرہ کیا اور پھر بحفاظت لندن پہنچ گئے۔ یوں خاں صاحب کا ہوائی جہاز کے سفر کا ڈر ختم ہوا اور وہ اس کے بعد ساری دینا میں شہنائی کی آواز پہنچانے جاتے رہے۔ امریکہ میں ایک کنسرٹ کے اختتام پرراک فیلر فاؤ نڈیشن کی طرف سے انہیں دعوت دی گئی کہ وہ امریکہ میں ہی بس جائیں۔ وہ ان کے لئے وہیں ایک بنارس بنا دیں گے۔ خاں صاحب کا جواب تھا:

” آپ بنارس تو بنا لو گے مگر وہ مسجد کہاں سے لاؤ گے میں جس میں نماز پڑھتا ہوں، وہ مند ر کہاں سے لاؤ گے جہاں بیٹھ کر میں ریاض کرتا ہوں اورسب سے بڑھ کر وہ گنگا کہاں سے لاؤ گے جس کے کنارے یہ دونوں موجود ہیں۔ ”

استاد بسم اﷲخاں کو یہ اعزاز حاصل ہے جب 15، اگست 1947ء کو بٹوارے کے ساتھ بندوستان آزاد ہوا تو وہ پہلے سازنواز تھے جنہوں نے آزادی کے اعلان کے بعد شنہائی بجا کر ملک کے باسیوں کو مبارک باد دی تھی۔ یہ تقریب لال قلعہ دہلی میں ہوئی تھی اور سامعین میں مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو بھی شریک تھے اور آل انڈیا ریڈیو پر سارا ہندوستان استاد بسم اﷲخاں کی شنہائی سن رہا تھا۔ خاں صاحب نے اس وقت شہنائی پر "کافی” بجائی تھی۔ بعد ازاں 26،جنوری 1950 ء کو جب لال قلعہ دہلی میں پہلے ری پبلک ڈے کی تقریب ہوئی تو ان کی شہنائی کو پھر وہی اہمیت حاصل ہوئی۔ تب سے یہ ریت برسوں جاری رہی کہ وزیراعظم کے خطاب کے فوراً بعد استاد بسم اﷲخاں کی شہنائی نشر ہوتی۔

استاد بسم اﷲ خاں کو ملے اعزازات کی فہرست خاصی طویل ہے۔ ان اعزازت کے علاوہ انہیں بنارس ہندو یوینورسٹی، وشوا بھارتیہ یوینورسٹی اور شانتی نکیتن کی طرف سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں سے بھی نوازا گیا۔ انٹر نیٹ پر استاد بسم اﷲ خاں کے البموں کی جو فہرست پڑی ہے اس کے مطابق ان کے67 البم موجود ہیں۔

خاں صاحب نے فلمی دینا میں بہت کم کام کیا۔ ایک بار انہوں نے ‘کنٹر’ زبان میں بنی فلم "سانادی اپانہ” میں شنہائی بجائی۔ سیتہ جیت رے کی فلم "جولسہ گھر” میں بذات خود پرفارم کیا۔ فلم "گونج اٹھی شہنائی” کے لئے شہنائی بجائی یا پھر ہندی فلم "سوادیس "(2004 ء) کے گانے "یہ جو دیس ہے تیرا” کے لئے شہنائی بجائی۔ ہدایت کا ر گوتم گھوش نے 1989 ء میں استاد بسم اﷲ خاں پر ایک دستاویزی فلم "سنگ میل سے ملاقات” بنائی۔ گو تم گھوش نے یہ فلم 17 دنوں میں بنائی تھی۔ استاد بسم اﷲ خاں کے ساتھ گزارے ان دِنوں کے بارے میں گوتم گھوش کہتے ہیں:

"میں نے جب استاد بسم اﷲ خاں سے پہلی بار رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے صرف چار دن کا وقت دیا لیکن جب فلم شوٹ ہونا شروع ہو ئی تو ان کی اپنی دل چسپی اس میں اتنی بڑھ گئی کہ چار دن سترہ دنوں میں بدل گئے۔ میری فلم دراصل بنارس اور خاں صاحب کے درمیان تعلق کا احاطہ کرنا چاہتی تھی۔۔۔ ان دنوں بابری مسجد کا مسئلہ خاصی اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ خاں صاحب اس پر سخت نالاں تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا "یہ انتہا پسند کیا پاگل ہو گئے ہیں۔ میری یادداشت میں وہ بچپن موجود ہے جب میں گنگا میں نہا کر نماز پڑھتا تھا اور پھر بالاجی کے مندر میں بیٹھ کر ریاض کیا کرتا تھا۔۔۔۔ وہ ان چند استادوں میں سے ہیں جنہوں نے سکول نہیں کھولا۔ ”

استاد بسم اﷲ خاں کو لتا منگیشکر اور بیگم اختر کی آواز بہت پسند تھی۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے لتا کی آواز کے بارے میں کہا:
” اس کی آواز میں وہ جادو ہے جو بہت کم لوگوں کی آواز میں ہوتا ہے۔ ”

جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں لتا کے کو ن سے گانے زیادہ پسند ہیں تو انہوں نے کہا :”خاص طور پر تو کوئی نہیں، بس اس کی آواز ہے جو جادو بکھیرتی ہے۔ ”

البتہ جب ان سے بیگم اختر کی غزلوں اور ٹھمریوں کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا:
"جب بیگم اختر نے ‘دیوانہ بنا دے ‘ گایا تھا تو میں خاص طور پر سٹو ڈیو گیا تاکہ میں بیگم اختر کو سن سکوں۔ ”

استاد بسم اﷲ خاں نے جہاں دنیا کے مختلف ملکوں میں جاکر براہ راست (Live) کنسرٹ کئے وہاں وہ پاکستان بھی آئے۔ وہ واحد بھارتی ساز نواز ہیں جنہوں نے پاکستان ٹیلی وثیرن پر شہنائی بجائی۔ پاکستان کے دورے کے بارے میں ان کا کچھ یہ تاثر تھا:

"دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی مجھے اجنیت کا احساس رہا مجھے وہ گھر سا نہیں لگا۔ شاید اس کی وجہ وہ باڑ تھی جو دونوں ملکوں کو جدا رکھے ہوئے تھی اِدھر پاکستان تھا اُدھر ہندوستان۔ مجھے اندر سے سخت غصہ تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں پاکستانیو ں کو نمسکار کروں اور بھارتیوں کو سلام علیکم۔”

خان صاحب کے ان تاثرات کے باوجود لاہوری ان کی شہنائی کی دلنوازی سے محروم نہ رہے۔ الحمرا آرٹس کونسل کا بڑا ہال ان کے شیدائیوں سے کچھا کچھ بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے اس شام اپنے شائقین کو اپنے الہامی فن سے مسحور کئے رکھا۔ یہ شام لاہور پر اس طرح وارد ہوئی کہ اپنا انمٹ نقش حاضرین کے دلوں پر چھوڑ گئی۔

استا د بسم اﷲ خاں کی شخصیت کے دو رخ ہیں۔ ایک طرف وہ کٹر شیعہ مسلمان تھے اور محرم کے دنوں میں ننگے پاؤ ں ماتمی جلوس کے آگے آگے کالا لباس پہنے ننگے پاؤ ں شنہائی بجاتے بنارس کے روضہ امام حسین تک جاتے تھے۔ باقاعدگی سے نمازیں پڑھتے۔ دوسری طرف وہ دیوی سرسوتی (موسیقی کی دیوی) کے پجاری تھے۔ وہ راگ بھیرویں میں اﷲ کی حمد شہنائی پر بجاتے تھے جسے سن کر غیر مسلم بھی سر دھنتے تھے۔ استاد بسم اﷲ خاں کا یہ بھی کہنا تھا:
” دنیا ختم ہو سکتی ہے لیکن موسیقی فنا نہیں ہو سکتی۔۔۔۔ موسیقی کی کوئی ذات پات نہیں، کو ئی مذہب نہیں، کوئی جغرافیائی حد نہیں، کوئی نسل کوئی رنگ نہیں۔”

استاد بسم اﷲ خاں "گھرانوں” پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا راگ تو اپنی جگہ راگ ہی ہوتے ہیں۔ مختلف گھرانے صرف انہیں اپنا ایک رنگ دے دیتے ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ ان کو جو اچھا لگتا ہے وہ اسے اپنا لیتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا:

"میں نے نصیر الدین خاں صاحب کی ‘گمک’ سنی اور شہنائی میں ڈھال دی۔ میں نے عبدالکریم خاں صاحب کو سنا، فیاض خاں صاحب کو سنا اور تھوڑا تھوڑا کر کے ان سب کو اکٹھا کر دیا۔”

استاد بسم اﷲ خاں نے استاد ولایت خاں، استاد امیر خاں اور پنڈت وی جی جوگ کے ہمراہ جگل بندیاں بھی ریکارڈ کرائیں۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو (2003ء) میں کہا تھا:

"آج سے تیس سال قبل میں یہ سمجھتا تھا کہ میں نے موسیقی کی دنیا فتح کر لی ہے یا فتح کر نے والا ہو ں۔ میں کتنا نادان تھا۔ آج میں اپنے آپ سے کہتا ہوں۔ میں تو کہیں بھی پہنچ نہیں پایا۔ موسیقی ایک ساگر ہے میں اسے پار کر نا چاہتا تھا لیکن آج جب میں اسے دیکھتا ہوں تو یہی جانکاری ہوتی ہے کہ میں تو بمشکل اس ساگر کے ساحل پر ہی پہنچ پایا ہوں۔ میں نے تو اس ساگر میں ابھی ایک بھی ڈبکی نہیں لگائی، پارکرنا تو دور کی بات ہے۔”

استاد بسم اﷲ خاں ایک نئے راگ کی بندش کرنا چاہتے تھے اور اس پر وہ کام بھی کر رہے تھے۔ اس راگ کو وہ "راگ بدھائی” (مبارک باد کا راگ) کا نام دینا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ یہ راگ بنا کر سب سے پہلے "انڈیا گیٹ” کے سامنے شہنائی پر بجائیں گے۔ مگر وہ اپنی زندگی میں نہ تو راگ مکمل کر سکے اور نہ ہی انڈیا گیٹ کے سا منے اسے بجا سکے۔ انتقال سے قبل ہسپتال میں جو لوگ ان کو ملنے جاتے تھے وہ ان سے لتا کا ذکر ضرور کر تے اور کہتے:
"وہ میری چھوٹی بہن ہے۔ کا ش میں اسے مرنے سے پہلے مل پاتا۔”

ان کا خیال تھا کہ ان کا بڑا بیٹا مہتاب حسین اچھی شنہائی بجاتا ہے۔ ان کے نزدیک ان دوسرا بیٹا نیر بھی اچھا شنہائی نواز ہے مگر انہیں سب سے ز یادہ آس اپنی پوتی کہکشاں سے ہے۔ خاں صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا ناظم حسین طبلہ نواز ہے جو مہتاب اور نیر کو سنگت دیتا ہے۔

استاد بسم اﷲ خاں نے اپنے آخری انٹرویو (18 اگست 2006 ء) میں نیناادر شیوا ناتھ کو کہا تھا:

” دیکھو ہندو مسلمان، سکھ،عیسائی یہ جو کوئی بھی ہیں اصل میں ایک خدا کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔ ایک دفعہ لوگ یہ بات سمجھ لیں تو پھر ان سب میں کو ئی تقیسم نہیں رہے گی۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں گے۔”

سادے کپڑے پہننے والے، سائیکل یا آٹو رکشہ میں سفر کرنے والے،سادہ خوراک کھانے والے استاد بسم اﷲ خاں اب بنارس میں اس نیم کے پیڑ تلے دفن ہیں جس کے ایک طرف وہ مسجد ہے جس میں وہ نماز پڑھا کرتے تھے، دوسری طرف وہ بالاجی کا مندر ہے جس میں وہ بچپن سے ریاض کیا کرتے تھے اور سامنے گنگا دریا ہے جس میں وہ نہا کر فجر کی نماز پڑھا کرتے تھے۔ المیہ یہ ہے ان کے جانے کے بعد کوئی ایسا نہیں رہا (شاید ان کے اپنے بیٹے بھی) جو شہنائی کو اس طرح اٹھائے اور بجائے جس طرح خاں صاحب مشکل سے مشکل راگ کو آسانی سے شہنائی کی آواز میں ڈھال دیتے تھے۔ بقول ان کے اپنے” شاید سمے بدل رہا ہے۔”

Leave a Reply