Laaltain

فلسفہ کیا نہیں ہے؟ (تحریر: کارل پوپر، ترجمہ: ڈاکٹر ساجد علی)

23 جون، 2021
Picture of ڈاکٹر ساجد علی

ڈاکٹر ساجد علی

(زیر نظر اقتباس کارل پوپر کے ایک مضمون کا جز ہے۔ پوپر چونکہ اپنے زمانے کے ہر غالب اور مقبول فلسفیانہ رجحان اور فیشن کا مخالف تھا، اس لیے یہ سب نکات کسی نہ کسی فلسفیانہ مکتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں جن کو پوپر ناقابل قبول قرار دیتا ہے۔)

“میں اب فلسفے کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظر اور ایسی سرگرمیوں کو بیان کروں گا جو عام طور پر فلسفے کا مآخذ سمجھی جاتی ہیں اور جنہیں میں غیر تسلی بخش سمجھتا ہوں۔ اس حصے کو یہ عنوان بھی دیا جا سکتا ہے: میرے نزدیک فلسفہ کیا نہیں ہے۔

(1 ) میں نہیں سمجھتا کہ فلسفے کا کام لسانیاتی معموں کو حل کرنا ہے، اگرچہ بعض اوقات غلط فہمیوں کو رفع کرنا ضروری ابتدائی قدم بن سکتا ہے۔

(2 ) میرے نزدیک فلسفہ فن پاروں، دنیا کی حیران کن اور بدیع تصاویر یا دنیا کو بیان کرنے کے تیز فہم اور غیر معمولی طریقوں کی حیثیت نہیں رکھتا۔ میرا خیال ہے کہ فلسفے کے بارے میں اس طرح کا نقطہَ نظر اپنا کر ہم عظیم فلاسفہ کے ساتھ صریح نا انصافی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عظیم فلاسفہ کسی جمالیاتی کاوش میں منہمک نہیں تھے۔ وہ فکری نظاموں کے معمار بننے کے لیے کوشاں نہیں تھے بلکہ عظیم سائنسدانوں کی طرح، ان کا اولین مقصد صداقت کی تلاش تھا;245; حقیقی مسائل کے صحیح حل کی تلاش۔ ہرگز نہیں۔ میں فلسفے کی تاریخ کو لازمی طور پر صداقت کی تلاش کی تاریخ کا حصہ سمجھتا ہوں اور میں اس کے خالصتاً جمالیاتی نقطہَ نظر کو مسترد کرتا ہوں، اگرچہ حسن فلسفے کے ساتھ ساتھ سائنس میں بھی اہم ہے۔
میں مکمل طور پر فکری بےباکی کے حق میں ہوں۔ ہم بیک وقت فکری اعتبار سے بزدل اور صداقت کے متلاشی نہیں ہو سکتے۔ صداقت کے متلاشی میں زیرک ہونے کی ہمت ہونی چاہیے۔۔۔ اس کے اندر میدانِ فکر میں انقلابی ہونے کی جرات ہونی چاہیے۔

( 3) میں فلسفیانہ نظاموں کی طویل فکری تاریخ کو ایسے فکری قلعوں کی قبیل سے نہیں سمجھتا جن میں تمام ممکنہ خیالات کو آزمایا جاتا ہے اور جن میں صداقت ایک ضمنی پیداوار کی حیثیت سے سامنے آ سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ماضی کے عظیم فلاسفہ سے نا انصافی کے مرتکب ہوں گے اگر ہم ایک لمحے کو بھی یہ شک کریں کہ ان عظیم فلسفیوں میں سے ہر ایک اپنے نظام کو رد کر دیتا (جیسا کہ اسے کرنا چاہیے تھا) اگر وہ اس بات کا قائل ہو جاتا کہ اس کا نظام صداقت کی راہ پر ایک قدم آگے لے جانے والا نہیں خواہ اس کا نظام کیسا ہی شاندار کیوں نہ ہو۔ (اسی بنا پر میں فختے یا ہیگل کو سچا فلسفی نہیں مانتا۔ صداقت کے لیے ان کی لگن پر مجھے قطعاً اعتبار نہیں ہے)۔

( 4)۔ میرے نزدیک فلسفہ تعقلات، الفاظ یا زبانوں کی تصریح، تجزیے، یا توضیح کی کوشش کا نام نہیں۔
تعقلات یا الفاظ قضایا، قیاسات اور نظریات کو وضع کرنے کے محض آلات ہیں۔ تعقلات یا الفاظ بذاتِ خود صادق (یا کاذب) نہیں ہو سکتے، وہ صرف انسان کی بیانیہ اور استدلالی زبان کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد معانی کا تجزیہ نہیں بلکہ دلچسپ اور اہم صداقتوں کی تلاش ہونا چاہیے، یعنی صادق نظریات کی تلاش۔

(5 )۔ میں نہیں سمجھتا کہ فلسفہ ہمیں تیز طرار اور ہوشیار بنانے کا وسیلہ ہے۔

(6 )۔ میں فلسفے کو فکری معالجہ کی ایک قسم (وٹگنسٹائن) نہیں سمجھتا جو لوگوں کو فلسفیانہ گورکھ دھندوں سے باہر نکلنےکی سعی کا نام ہو۔ میرے خیال میں وٹگنسٹائن نے (اپنی متاخر کتاب میں ) مکھی کو بوتل سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں دکھایا۔ بلکہ بوتل سے فرارنہ ہو سکنے والی مکھی میں مجھے وٹگنسٹائن کا ذاتی مرقع دکھائی دیتا ہے۔ (وٹگنسٹائن ایک وٹگنسٹائنی مریض تھا جس طرح فرائڈ ایک فرائڈین مریض تھا)۔

(7 )۔ میرے نزدیک فلسفہ اس مشق کا نام نہیں کہ کسی بات کو زیادہ ایجاز یا زیادہ صحتِ الفاظ کے ساتھ کیسے ادا کیا جائے۔ ایجاز اور صحتِ الفاظ بذات خود فکری اقدار نہیں اور ہ میں زیرِ بحث مسئلہ پر ضرورت سے زیادہ ایجاز یا الفاظ کے درست ہونے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

(8 )۔ اسی طرح، میرے خیال میں فلسفہ مستقبل قریب یا بعید میں ظہور میں آنے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے بنیادیں فراہم کرنے یا تعقلاتی سانچے مہیا کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ جان لاک نے یہی کیا، وہ اخلاقیات پر ایک مقالہ لکھنا چاہتا تھا، اور اس نے یہ ضروری جانا کہ وہ پہلے تعقلاتی تمہیدات فراہم کرے۔
اس کا مقالہ اِنھی تمہیدی کلمات پر مشتمل ہے اور اسی وقت سے برطانوی فلاسفہ (چند ایک مستثنیات کو چھوڑ کر مثلاً ہیوم کے بعض سیاسی مقالات) ان تمہیدات میں الجھے ہوئے ہیں۔

(9 )۔ میرے نزدیک فلسفہ روح عصر کا اظہار بھی نہیں۔ یہ ایک ہیگلی تصور ہے جو تنقید کا سامنا نہیں کر سکتا۔ فیشن فلسفے میں بھی پائے جاتے ہیں جیسا کہ سائنس میں بھی۔ لیکن صداقت کا سچا متلاشی فیشن کے پیچھے نہیں بھاگے گا، وہ فیشنوں کو شبہ کی نظر سے دیکھے گا بلکہ ان کا مقابلہ کرے گا۔

II

تمام مرد و زن فلسفی ہوتے ہیں۔ اگر انھیں فلسفیانہ مسائل کے حامل ہونے کا شعور نہ ہو تو بھی وہ فلسفیانہ تعصبات کے حامل ضرور ہوتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر (تعصبات) نظریات کی صورت میں ہوتے ہیں جنہیں وہ بلا تامل قبول کیے ہوئے ہوتے ہیں : انھوں نے یہ نظریات اپنے فکری ماحول یا روایت سے جذب کیے ہوتے ہیں۔

چونکہ ان میں سے چند ہی نظریات کو شعوری طور پر قبول کیا گیا ہوتا ہے، لہٰذا یہ ان معنوں میں تعصبات ہوتے ہیں کہ انھیں تنقیدی پرکھ کے بغیر تسلیم کر لیا جاتا ہے، درانحالیکہ یہ نظریات لوگوں کے اعمال اور ان کی ساری زندگی کے لیے نہایت اہم ہو سکتے ہیں۔ پیشہ ورانہ فلسفے کے وجود کا یہی جواز ہے کہ ایسے لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے جو ان مقبولِ عام اور با اثر نظریات کو تنقیدی طور پر جانچ سکیں۔

اس نوع کے نظریات ہر طرح کی سائنس اور فلسفے کے لیے غیر محفوظ نقطہَ آغاز ہوتے ہیں۔ فلسفے کو غیر تنقیدی فہمِ عامہ کے غیر معتبر اور بالعموم مضرت رساں خیالات سے آغاز کرناچاہیے۔ اس کا مقصود روشن خیال اور انتقادی فہمِ عامہ تک رسائی ہے: ایسے نقطہَ نظر تک رسائی جوصداقت سے قریب تر ہواور جس کے اثرات انسانی زندگی کے لیے کم سے کم نقصان دہ ہوں۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *