بہار نے ہماری طرف پھول پھینکے
قبرستان نے ہماری طرف ایک قبر پھینکی
مجھے نہیں معلوم کہ پھول اور قبر
ہمارے اس شخص کے ہاتھ کیسے
لگ گئے جس شخص کو ہم ابھی
تختی پر زندگی لکھنا سکھا رہے تھے
جلد باز دن نے ہمیں اتنی بھی سہولت
نہیں دی کہ ہم ایک موت کی واضح تصویر بنا پاتے
کوئی نہیں جان پائے گا کہ کیوں ہمارے گھر
میں ایک فریم بغیر کسی تصویر کے ہمیشہ
کے لئے رکھ دیا گیا ہے
رات بڑبڑا رہی ہے اور ہم اپنے سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے
بڑھ رہے ہیں ایک ایسی آواز کی طرف جو آواز
شام کے شور میں ہمیں پوری طرح سنائی نہیں دیتی
آج چاند کو اتنی تابناکی کے ساتھ رات کی بڑبڑاہٹ
کا ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا
آنسوؤں کی ایک قطار آج پرندوں کے ساتھ
سرحد عبور کر جائے گی اور کوئی سپاہی
آنسوؤں کا پاسپورٹ چیک نہیں کرے گا
ہم دیکھ رہے ہیں کہ خون کی ایک دھار
بیساکھیاں تھام کر ہماری جانب بڑھ رہی ہے
اور کہہ رہی کہ تم لوگ اتنے زور سے
اپنے دل کو پتھر پر کیوں نہیں پٹختے کہ
تمہارے دل کے ٹکڑے بھی اس بہار
میں کھلنے والے پھولوں میں شمار ہو جائیں
اب خون کی دھار کو کون بتائے کہ کیوں ہم
اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ایک آواز
کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے