انتظار حسین کا یہ کالم ٢ فروری ١٩٦٦ء کے روزنامہ مشرق میں پہلی بار شائع ہوا۔ جو بارِ دیگر ان کے نثری مجموعہ “ذرّے” میں شائع ہوا۔
غالب نے عجب شعر کہا ہے ࣠
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
پھر وہی بے وفا لتا منگیشکر ہے، اور پھر وہی ہم ہیں اور پھر وہی ریڈیو جالندھر اور پھر وہی چائے کی دکان پر فرمائشیں سننے والے اور پھر وہی پرانے اشتہار اور پھر وہی سنتوش کمار۔ پندار کا صنمکدہ ویراں ہے اور ہم اپنی روش پر واپس آ رہے ہیں۔
وہ ٦ ستمبر تھی جب لتا منگیشکر نے ہم سے بے وفائی کی، اور ہم نے اس کافر سے کنارا کیا۔ پھر اٹھارہ دن گزر گئے اور وہ آواز سننے میں نہ آئی۔ مگر انیسویں دن مزنگ چونگی سے گزرتے گزرتے یہ آواز ہمارے کان میں پڑی۔ ہم چونکے، مگر ابھی ہم نے سنبھالا لیا تھا کہ پنواڑی نے سوئچ گھمایا اور سوئی پھر لاہور ریلوے سٹیشن پر آ گئی اور جنگی ترانہ ہونے لگا۔
پھر دن گزرتے گئے، پنواڑیوں کی دکانوں اور چائے خانوں میں ریڈیو پاکستان کی آواز لشتم پشتم گونجتی رہی۔ کوئی پنواڑی بے اطمینان ہو کر سوئچ گھماتا، کبھی ریڈیو سیلون لگاتا، کبھی جالندھر ریڈیو سے ملاتا۔ مگر کوئی تن جلا طنزیہ سوال کرتا “استاد جالندھر لگا رکھا ہے، اور پنواڑی جھینپ کر سوئی کو پھر اپنے اسٹیشن پر لے آتا۔ رفتہ رفتہ طنزیہ لہجہ اور جھینپ دونوں رخصت ہو گئیں۔ اب پھر چھوٹے چائے خانوں میں یار لوگ چائے کی پیالی کے ساتھ فرمائش کا آرڈر دیتے ہیں اور ریڈیو سیلون سے ریڈیو جالندھر تک کے فرمائشی پروگرام سنتے ہیں۔ لتا منگیشکر پھر کتنی مقبول ہو چکی ہے، اور
کل لڑائی سی لڑائی ہو چکی
اور ہم پھر مال روڈ کے اس چائے خانہ میں جہاں انگریزی ریکارڈوں کے ساتھ چند اردو ریکارڈ بھی ہیں، یہ ریکارڈ ذوق و شوق سے سنتے ہیں:
کنکریا مارے کر کے اشارے
بلما بڑا بے ایمان
لاہور ریڈیو سٹیشن جہاں تھا، اب پھر وہیں ہے۔ اور ہم نے دوستوں سے کہا کہ یارو یہ کیا بات ہے کہ جنگ کے دنوں میں تو تمہیں لاہور اسٹیشن سنے بغیر کل نہیں پڑتی تھی۔ جنگ کا زمانہ رخصت ہوا تو تم نے اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکا ہے۔
جنگ کا ایک اثر یہ ہوا تھا کہ آوارہ روحیں اپنی اپنی جون میں واپس آ گئی تھیں۔ اور تو اور سنتوش کمار نے بھی اعلان کر ڈالا کہ اب لوگ مجھے سنتوش کمار نہ کہیں، موسیٰ رضا کہیں۔ سنتوش کمار نے چندے موسیٰ رضا بن کر اپنا نام روشن کیا۔ کسی فلم کے اشتہار میں ان کا نام آتا تو یوں لکھا جاتا، موسیٰ رضا (سنتوش کمار) مگر اب جو ان کی فلموں کے اشتہار آ رہے ہیں، وہ بریکٹ کے جھنجھٹ سے آزاد ہیں۔ موسیٰ رضا غائب ہوئے اب پھر سنتوش کمار کے نام کی دھوم ہے۔
اور قصہ شادی بیاہ کا یوں ہے کہ جنگ بہت سی شادیوں کو لے بیٹھی۔ بعض شادیاں کچھ اس طرح ملتوی ہوئیں کہ بس ملتوی ہی ہو گئیں۔ بعض عاقبت نا اندیشوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور جنگ کے پردے میں جہیز، بری اور ولیمہ قسم کے سارے جھمیلوں کے بغیر سیدھی سادی جنگی شادی کر ڈالی۔ اور ایک ادیب دوست نے ہمارے کان میں کہا کہ یار میں تو سچ مچ شادی کرنے لگا تھا، مگر خیر جنگ چھڑ گئی اور جنگ دیکھیے کب تک چلے۔ تو شادی کو ہم نے سلام کیا۔
مگر پھر فائربندی ہو گئی اور اللہ بھلا کرے ہمارے ایک انگریزی اخبار نویس دوست کا کہ فائربندی کے دن بہت بپھرے بپھرے پھر رہے تھے۔ مگر تیسرے دن ہم نے دیکھا کہ انہوں نے ٹکٹ کٹایا اور کراچی چلے گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے اپنی معطل منگنی کی تجدید کی اور شادی کر لائے۔
یہ دیکھ کر ہمارے ادیب دوست نے جھرجھری لی اور سوچا کہ جنگ تو واقعی ختم ہو گئی ہے، لاؤ شادی ہی کر لیں۔ سو انہوں نے اٹھ کر ایک پھیرا کراچی تک کا لگایا اور واپس آ کر دو معتبر پروفیسروں اور ڈھائی تین ادیبوں کو لے کر ایک دروازے پر دستک دی اور جھٹ پٹ نکاح پڑھوا لیا۔ پھر ایک دانشور راولپنڈی سے اچانک لاہور پہنچا اور نکاح کے دو بول پڑھوا کر واپس پنڈی چلا گیا۔ اور نکاح بیاہ کی رو ایسی آئی ہے کہ جنگ سے پہلے احباب جن کے لیے دعائے خیر کر چکے تھے، ان کے بھی ہاتھ پیلے ہو گئے۔
تو پھر وہی زندگی کے قصے، وہی شادیاں خانہ آبادیاں، وہی فلمی ریکارڈوں کی فرمائشیں، وہی لتا منگیشکر، وہی ہم
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے