ہوائے رنگِ گریزاں میں برگِ آوارہ
اڑا تو اڑ کے نجانے کدھر کو جا نکلا
کہاں تھی مہلتِ تعبیرِ خوابِ افسردہ
کہاں ہے قریۂ امکانِ خوابِ خوش رنگی
کسے خبر ہے اس امکان بھر خرابی کی
کسے گماں ہے اس آوازِ بے صدائی کا
سفر سفر میں نہاں راہ راہ میں لرزاں
قدم قدم سے پرے شاخ شاخ میں پیچاں
وہ ماہتابِ شبِ چار دہ نگاہوں میں
چمک رہا تھا تو سینے میں رات اترتی تھی
وہ رات جس میں مسرت چھلکتی دیکھنے کو
شبِ شکست کے امکان تک چلا آیا
ہوائے سحرِ گذشتہ میں برگِ آوارہ
کہ جس کو یاد نہیں کون شاخ سے گر کر
وہ روئے زرد لیے پائمال ہوتا رہا
کہ راہ راہ میں پنہاں سفر سفر میں نہاں
زیاں کا ذائقہ چکھتی ہوئی ہنر کی زباں
گرہ کھلی تو پکاری کہ شہر اور ہوا
وہ شہر کھو گیا جس کے مہیب جنگل میں
ہوا نے شاخِ برہنہ سے انتقام لیا
تو آندھیوں میں جڑوں سے اکھڑ گئے تھے درخت
وہ شہر اور ہوا اور ہو گیا میں بھی
وہ خواب ٹوٹ گیا ٹوٹتا رہا میں بھی
اسی کی گلیوں دریچوں کا خواب تھا میں بھی
اور اب ہے داغِ ندامت جو نقشِ پیشانی
سو کیسی حیرانی
۔۔۔۔
وہی گلی ہے دریچے کی نیم وائی میں
جہاں دھڑکتے ہیں موسم جہاں بھڑکتی ہے آگ
جہاں چھلکتی ہیں آنکھیں جہاں چہکتے ہیں لب
پرندے اڑتے ہیں
دو رویہ پیڑوں کے خمدار شاخچوں سے پرے
جہاں وہ گھر ہے کہ جس کے طویل آنگن میں
بہارِ رفتہ و آئندہ سانس لیتی ہے
وہی مکان ہے دہلیز سے ادھر کہ جہاں
میں چاہتا ہوں دھروں پاؤں ، دھر نہیں پاتا
جہاں پہ تم سے جڑے خواب چہچہاتے ہیں
جہاں پہ اڑتی ہے اب تک وہ فاختہ جس نے
مری نگہ میں بُنا اپنا گھونسلا اک روز
برس گزر گئے وہ دن کہاں تمام ہوا ۔۔۔
تمام ہو گئے کتنے ہی قرن کس کو خبر
رہا ہے کون ادھر
گواہ کون بنے بیتتے زمانوں کا
کوئی کہے گا کہاں داستانِ بے رنگی
کوئی سنے گا بھلا
وہ خواب خواب مسافت جو اندروں دھڑکی
تو پاؤں آپ ہی دہلیز پار کرتے گئے
وہی جہان ہے خاموش رہگزاروں پر
جہاں کلام کیا بے طرح کلام کیا
جہاں خموش ہیں اور بے طرح خموش ہیں اب
ہوائے شامِ گریزاں میں برگِ آوارہ
اڑے تو کیسے کہ پامالیوں کے موسم میں
قدم قدم نے اسے روند کر مسل ڈالا
سو اب یہ ہمتِ آوارگی نہیں رکھتا
اگرچہ جی میں دھڑکتے ہیں خواب گوں رستے
نہیں ہے تابِ سفر رنجِ لامقامی میں
ٹھہر گئی ہیں جو تاریکیاں نہیں جاتیں
سو یہ کہاں بھٹکے
۔۔۔۔۔
رگوں میں تیرتے سناہٹوں کی لرزش سے
اک آنکھ رنگِ ندامت سے مرگ رنگ ہوئی
تو جی میں خواہشِ پرواز جیسے مر ہی گئی
یہ ناؤ اپنی اندھیرے میں آپ اتر ہی گئی
شکستگی کی وہ ساعت بھی تو گذر ہی گئی
اور اب جو رہ گیا اس کو بسر تو کرنا ہے
یہ معرکہ ہمیں تا عمر سر تو کرنا ہے