Laaltain

صالح شاہ کا امام باڑا

5 جولائی، 2025

ہمارا گھر صالح شاہ کے امام باڑے (امام بارگاہ ) کے ساتھ ہی تھا۔ امام باڑے کے گرد پیلو کی جھاڑیوں کی باڑ تھی۔ امام باڑے کے اندر علم کے علاوہ پیلو کے چند جھاڑ اور دو تین سینگر کے درخت تھے۔پیلو پر پھل آتا تو میٹھے پیلو جلد ہی غائب ہوجاتے۔ سینگر کی پھلیوں کی سبزی آس پاس کے گھروں میں بننے لگتی۔ صالح شاہ کے مزار کے ساتھ چند کچی قبریں بنی ہوئی تھیں۔ ان میں ایک آدھ ننھی قبر بھی تھی۔

امام باڑے کے داخلی دروازے کے دائیں طرف ایک کُٹیا بنی ہوئی تھی جس میں ایک چٹائی، ایک ڈنڈا کونڈا، پانی کا مٹکا، اور دو تین آب خورے پڑے ہوئے تھے۔کٹیا کے درمیان دوتین اینٹیں جوڑ کر ایک چولھا بنا ہوا تھا جو ہمیشہ دن کے وقت چلم گرم کرنے کے لیے سلگتا تھا۔ امام باڑے سے کبھی شور شرابے کی آواز نہیں آتی تھی۔ معمول کے مطابق دو تین افراد ہی کا آنا جانا رہتا تھا۔ وہ اتنے نرم خُو ہوتے تھے کہ ان کے آنے جانے کی چاپ تک سنائی نہیں دیتی تھی، گویا ہوا پر تیرتے آتے اور ہوا ہی پر تیرتے ہوئے چلے جاتےتھے۔ان کی موجودگی کا احساس کبھی کبھار ” یا علی مولا مدد” کے نعرے ہی سے ہوتا تھا۔ آس پاس رہنے والوں کو کبھی ان سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ ایسا لگتا تھا وہ ہر آدمی کی زندگی سے جٌڑے ہوئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں معصوم بچوں سے ہر کوئی نالاں رہتا تھا۔

میں صرف دو افراد ہی کو ناموں سے جانتا تھا۔ ایک محمد بخش اور دوسرا حسین بخش شر بلوچ۔حسین بخش دبلا پتلا اور بہت دھیمے انداز میں ہمیشہ مٹھاس بھرے لہجے میں بات کرتا تھا۔اس کا سر ہمیشہ جھکا ہوا ہوتا تھا اور ہر بات کے ساتھ “بابا یا بابلا ” کہتا تھا۔ وہ پولیس میں سپاہی بھی رہ چکا تھا۔ بعد میں کسی وجہ سے ملازمت چھوڑ دی تھی یا اس سے ہو نہیں پائی، معلوم نہیں۔ اس کی عمر اتنی زیادہ نہیں تھی۔ابھی جوان ہی تھا، نجانے کس دکھ نے اسے گوشہ نشین بنا دیا تھا۔وہ امام باڑے کی کٹیا میں چٹائی پر لیٹ کر، سر اینٹ پر رکھے ایک موٹی کتاب پڑھتا رہتا تھا۔شام کو جاتے وقت کتاب جھونپڑی کی چھت میں لگی لکڑیوں میں اٹکا دیتا۔ میں نے بچوں کے رسالے اور کہانیوں کی کتابیں پڑھنا شروع کر دی تھیں۔ ہر وقت نئی کتاب کی کھوج میں رہتا۔ ایک دن وہ کتاب کو اوپر رکھنا بھول گیا اور کتاب میرے ہاتھ لگ گئی۔ اس ضخیم کتاب کا نام ” مشاہیرِ روما “تھا۔ جس میں مسولینی اور دیگر کئی مشاہیر کی سوانح لکھی ہوئی تھیں۔میں نے بار بار اسے پڑھنے کی کوشش کی مگر مجھے سمجھ نہیں آئی۔ میرے ہاتھ میں ہر وقت کتاب دیکھ کر ایک بار حسین بخش نے میرے بھائی سے کہا،
” دیکھنا یہ کتابیں پڑھ پڑھ کر ایک دن میری طرح پاگل ہو جائے گا”۔

امام باڑے کی فضا میں ہمیشہ پرندوں کی چہچہاہٹ گونجتی رہتی تھی۔ شام کے وقت بچے کھیلتے ہوئے امام باڑے میں چلے جاتے جس کے داخلی راستے پر دروازے کے نام پر چھوٹا سا لکڑی کا تین چار فٹ لمبا اور دو تین فٹ چوڑا ایک پلڑا سا بنا ہوا تھا جس میں لگا ہوا کنڈا بہت کم اپنے درست مقام پر ہوتا تھا۔

امام باڑے کا متولی چاچا اسحاق خاں تھا جو بہت غصیلے مزاج کا تھا۔ غصے کی آنچ کی وجہ سے اس کی آنکھیں ہمیشہ لال دکھائی دیتی تھیں۔ فربہ بدن چھوٹے قد اور چہرے پر گھنی مونچھوں کی وجہ سے اس کی شخصیت رعب دار لگتی تھی۔ شخصی تاثر میں وہ کسی اجڑی ہوئی ریاست کا معزول شدہ نواب لگتا تھا۔گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے ایک ٹانگ پر ہمیشہ زور دے کر چلتا تھا۔ بچے امام باڑے میں آکر شور غُل مچاتے تو وہ لاٹھی یا پتھر لے کر اپنے تھل تھل کرتے بھاری جسم کے ساتھ ان کے پیچھے دوڑتا۔بچے ڈر کر بھاگ جاتے۔کوئی بچہ اس کی گرفت میں آنے لگتا تو وہ یکا یک اپنی رفتار دھیمی کر لیتا۔

بابا کسی سیاسی شخصیت سے ملنے جاتے تو کبھی کبھی اسحاق خاں بھی جناح کیپ پہن کر بابا کے ساتھ جاتا تھا۔ ہمارے گھرانے کے ساتھ ان کا تعلق خاندان کے ایک فرد جیسا تھا۔ وہ سینتالیس کے بعد ہندستان سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے۔ ظاہری سخت خول کے باوجود اندر سے وہ ایک ملائم اور دردمند انسان تھے۔ اسحاق خاں کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ان کی اہلیہ ہمارے گھر آتی تو میرے سر پر ہاتھ پھیر کر پیشانی چومتے ہوئے” میرا بچہ، میرا بیٹا” کہتی تھیں۔پان کی گلوری ہمیشہ ان کی منہ میں ہوتی۔ مجھے ہمیشہ ان میں سے اپنی ماں جیسی مہک آتی تھی۔ایک گاؤں میں ایک بچے کی ایک نہیں بہت ساری مائیں ہوتی ہیں۔

پھلاڈیوں ایک چھوٹا سا شہر تھا مگر اس کا مزاج شہری نہیں دیہاتی تھا۔

لوگ صالح شاہ کے امام باڑے کی طرف بھول کر بھی پاؤں کر کے نہیں سوتے تھے۔

محرم کا مہینا آتا تو سارے ریڈیو بند ہوجاتے تھے۔ شہر میں صرف ہمارے گھر پر جنریٹر سے چلنے والا بلیک اینڈ وائٹ فلپس ٹیلی ویژن تھا، جو محرم کے پہلے عشرے میں بند کر دیا جاتا۔

شہر کے لوگ مسلکی تفریق سے آشنا نہیں تھے۔ شہر میں چند ہی گھرانے شیعہ مسلک کے تھے مگر جمعہ کی نماز اسحاق خاں اور ڈاکٹر الیاس سمیت سبھی جامع مسجد میں ہمارے ساتھ ہی پڑھتے تھے۔ سب کے ہاتھ پیٹ پر بندھے ہوتے تھے مگر چند ہاتھ کھلے ہوئے رہتے تھے، جنھیں کبھی کسی نے محسوس نہیں کیا۔ عید کی نماز بھی سب اسی مسجد میں ہمارے ساتھ پڑھتے تھے۔

نو محرم کو صالح شاہ کے امام باڑے میں مجلس ہوتی تھی۔ قریب و دور کے شیعہ اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ امام باڑے میں نیا سیاہ پرچم لگ جاتا تھا۔ اسحاق خاں صفائی ستھرائی کے بعد چھڑکاؤ کرواتے تھے اور امام باڑا زندگی سے بھر جاتا تھا۔

مجلس شروع ہوتی تو سارا شہر امنڈ پڑتا۔ کیا ہندو کیا مسلمان کیا سنی، سب کے سب ایک فریکوئنسی پر آ جاتے۔ مجلس کے ذاکر کربلا کا بیان کرتے تو امام باڑے کے باہر کھڑے لوگوں کی آنکھیں بھی بھیگنے لگتی تھیں۔ مجھ سمیت کئی بچے بھی مجلس میں بیٹھ جاتے اور پورا ذکر سنتے اور دل درد سے بھر جاتا۔ ایک عجیب سی کیفیت ہوجاتی تھی۔ نیاز آتی تو افسردگی کی وجہ سے ذائقہ بھی ماتمی سا محسوس ہونے لگتا تھا۔

سہ پہر کے بعد مجلس اپنے اختتام کی طرف جاتی۔عزادار ایک جلوس کی شکل میں امام باڑے سے ماتم کرتے ہوئے نکل کر شہر کے مرکزی چوک پر آکر رک جاتے۔ ان کے ماتم کی” لے” پر سرائیکی نوحے پورے شہر کی فضا کو ماتمی سیاہ لبادہ اوڑھا دیتے۔ جلوس کے ارد گرد شہر کے لوگوں کا ہجوم ہوتا۔چوک پر نیزے اور چھریوں کے ساتھ ماتم دیکھ کر لوگوں کے دل دہل جاتے۔ بھاری بھرکم نیزے بلندی سے آکر سینے پر لگتے تو سبھی کے سینے سے درد کی ٹیس بلند ہونے لگتی۔ میرے کئی شیعہ دوست سینہ پیٹتے دکھائی دیتے۔ یہ جلوس رک رک کر چلتا رہتا۔ کچھ سنی اور ہندو پسینے سے شرابور عزاداروں کو پنکھا جھل کر ہوا دیتے رہتے۔

شہر اپنے آخری کنارے تک ایک چیخ میں تبدیل ہو جاتا تھا۔ سارے عزادار اس نہ سنائی دینے والی چیخ کی سرنگ میں سے گزرتے ہوئے کچھ کلو میٹر دور، ماڑی مٹھو فقیر ڈھیر (درگاہ ) کی طرف رواں دواں رہتے جہاں دس محرم کو مرکزی مجلس ہوتی تھی۔

ہر سال محرم آتا اور ہر سال اسی طرح شہر عزا خانے میں تبدیل ہو جاتا۔

ستر کی دہائی کے اولین برسوں میں باہر کہیں سے ایک مولوی صاحب آئے۔ بہت اچھے خطیب تھے۔ میں نے قرانی قاعدہ انھی سے پڑھا تھا۔ جمعے کو ان کا خطبہ سماں باندھ دیتا تھا مگر رفتہ رفتہ ان کے خطاب میں ایسے مسائل زیر بحث آنے لگے کہ ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے والے میرے دوستوں نے مسجد میں آنا بند کر دیا۔ نجانے کہاں سے گرم ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں۔ ہمیں کہا گیا نیاز مت کھاؤ۔ اس میں یہ شامل ہوتا ہے، وہ شامل ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ماحول تبدیل ہونے لگا۔ فاصلے بڑھنے لگے۔مجلس شروع ہوتی تو شہر کا شہر امام باڑے کے گرد ہمیشہ کی طرح کھڑا ہوجاتا مگر مسجد کا لاؤڈ اسپیکر بھی اسی وقت کھل جاتا۔ شہر کی زمین تانبے کی طرح تپنے لگی۔ اب تنفر کے نیزوں اور چھریوں کا ایک متوازی جلوس بھی نکلنے لگا جو دکھائی تو نہیں دیتا تھا مگر محسوس سبھی کو ہونے لگا۔

نجانے کیوں چند افراد ہی ہمیشہ اکثریت پر غالب رہتے ہیں۔ چند برس تناؤ کی یہ کیفیت قائم رہی مگر مخصوص افراد کے منظر سے ہٹتے ہی ماحول دوبارہ سے پرسکون ہونے لگا، مگر اب وہ پہلی سی بات نہیں رہی تھی۔ اب ایک فریکوئنسی پر سارے دل نہیں دھڑکتے تھے۔

میں کئی دہائیوں سے اب میرپورخاص میں رہتا ہوں، اپنے گاؤں نہیں جا پاتا کیوں کہ وہاں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ میں نہ جانے کیوں اب بھی تبدیل نہیں ہو پایا، اور ہر نویں محرم کو میرا دل صالح شاہ کا امام باڑا بن جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *