[blockquote style=”3″]
محمد برّادا1938ء میں رباط، مراکش، میں پیدا ہوے۔ انھوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے عربی کے مضمون میں ڈگری حاصل کی اور پیرس یونیورسٹی سے جدید ادبی تنقید کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔ ان کی بہت سی تنقیدی تحریریں شائع ہوئی ہیں اور انھوں نے فرانسیسی سے ترجمے بھی کیے ہیں۔ ان کی کہانیوں کا مجموعہ 1979ء میں بیروت سے شائع ہوا تھا۔ آج کل وہ رباط یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ہیں اور مراکشی ادیبوں کی انجمن کے صدر بھی ہیں۔
عطا صدیقی (پورا نام عطاء الرحمٰن صدیقی) 13 نومبر 1931 میں لکھنؤ میں پیدا ہوے، تقسیم کے بعد کراچی منتقل ہوے۔ کراچی یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بندر روڈ پر واقع ایک سکول میں پڑھانا شروع کیا اور وہیں سے ہیڈماسٹر کے طور پر ریٹائر ہوے۔ ایک پڑھنے والے اور ترجمہ کار کے طور پر ان کی ادب سے عمربھر گہری وابستگی رہی۔ ان کے کیے ہوے بہت سی عالمی کہانیوں کے ترجمے آج کراچی اور دیگر رسالوں میں شائع ہوتے رہے۔ انھوں نے امرتا پریتم کی کتاب ’’ایک تھی سارا‘‘ کا ہندی سے ترجمہ کیا۔ عطا صدیقی کی ترجمہ کی ہوئی کہانیوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہے۔ 13 اگست 2018 کو کراچی میں وفات پائی۔
عطا صدیقی کے تراجم لالٹین پر اجمل کمال کے تعاون سے پیش کیے جا رہے ہیں۔ اجمل کمال کراچی پاکستان سے شائع ہونے والے سہ ماہی ادبی جریدے “آج” کے بانی اور مدیر ہیں۔ آج کا پہلا شمارہ 1981 میں شائع ہو تھا۔ آج نے اردو قارئین کو تراجم کے ذریعے دیگر زبانوں کے معیاری ادب سے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اردو میں لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کے کام سے بھی متعارف کرایا۔ سہ ماہی آج کو سبسکرائب کرنے اور آج میں شائع ہونے والی تخلیقات کو کتابی صورت میں خریدنے کے لیے سٹی پریس بک شاپ یا عامر انصاری سے رابطہ کیا جا سکتا ہے:
عامر انصاری: 03003451649
[/blockquote]
تحریر: محمد برّادا (Mohammed Barrada)
انگریزی سے ترجمہ: عطا صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دیر سے جاگے اور بستر میں پڑے پڑے جماہیاں لیتے رہے۔ یوں لگتا تھا جیسے ہڈیوں کا جوڑ جوڑ الگ ہو جائے گا۔ یہ نظر آ رہا تھا کہ آج کا دن بھی پچھلے گزرے ہوے دنوں ہی کی طرح گزرے گا۔ ہم نے اپنا سر چوبی سرھانے پر ٹکا دیا۔ ہماری نظر دھندلی دھندلی ہورہی تھی اور بلاشبہ ہمارا چہرہ بھی پیلا پڑا ہوا تھا۔ ہم ڈاکٹر سے اس سلسلے میں رجوع کر چکے تھے۔ اس سے اپنی شکایت کہی تھی جس پر اس نے سیانوں کی طرح سر ہلا کر کہا تھا:
’’تم اکیلے نہیں ہو۔ تمھاری طرح کے وہ تمام افراد جو غوروفکر میں مبتلا رہتے ہیں اور خواب دیکھتے رہتے ہیں اور حال سے مطمئن نہیں ہوتے، اسی مرض کا شکار ہوتے ہیں۔‘‘
ہمیں یاد آیا، ایسا ہی جواب کسی ڈاکٹر نے— غالباً ہمارے ہی ڈاکٹر نے— ہمارے ایک دوست کو بھی دیا تھا جو اس کے پاس بدہضمی اور سینے کی جلن کی شکایت لے کر گیا تھا۔
’’کوئی علاج بھی ہے ڈاکٹر؟‘‘
’’میں تم کو چند گولیاں دے دیتا ہوں جن سے تمھیں افاقہ ہو گا۔ لیکن زیادہ خوش فہمی میں مت پڑنا۔ ہر صبح جیسے ہی آنکھ کھلے، ذہن پر زور دے کر کوئی ایسا دلچسپ قصہ یاد کرنا جس سے تم باچھیں پھاڑ کر مسکرا سکو، اور پھر بستر سے کودنا اور بلند آواز سے گانا۔ ایسے موقعے پر بےسُری آواز بھی چلے گی۔‘‘
ہم نے ڈاکٹر کے مشورے پر عمل کرنے کے ارادے سے اپنی یادداشت کے کونے کھدروں میں کسی ایسے قصے کو تلاش کیا جو ہمیں ایک دم لوٹ پوٹ ہو جانے پر مجبور کردے۔ ہماری ایک ولایتی پڑوسن اکثروبیشتر خوش وقتی کے لیے ٹیکسی پکڑ لیتی تھی، حالانکہ خود اس کے پاس کار تھی۔ سیر سپاٹے کے بعد جب ٹیکسی بلڈنگ کے دروازے پر رکتی تو وہ یہ ظاہر کرتی کہ پیسے تو گھر ہی پر رہ گئے۔ پھر وہ اتر کر پیسے لینے بلڈنگ میں چلی جاتی اور اوپر جا کر غائب ہو جاتی، اور وہ بےچارہ ٹیکسی والا ہارن بجاتا رہتا۔ بلڈنگ والے جھانک جھانک کر دیکھتے کہ اسے کیا ہو گیا۔ عورت کا گھر معلوم نہ ہونے کی وجہ سے وہ ٹاپتا رہ جاتا اور بک جھک کر چل دیتا۔ اور وہ عورت اپنے کمرے میں ہنس ہنس کر دوہری ہو جاتی۔ ہی ہی ہی ہی! ہا ہا ہا ہا! اس قصے کا یاد آنا تھا کہ ہم خوب ہی ہنسے اور دل ہی دل میں اپنی اس ہوشیار پڑوسن کے ممنون ہوے۔ پھر ہم اپنے بستر سے کودے اور گاتے ہوے اپنی طویل تعطیل کا ایک نیا دن شروع کیا۔
اپنے بھرے پُرے کتب خانے میں ہم دیر تک بےمقصد ٹہلتے رہے۔ ہم نے دیکھا کہ اس میں بیشتر کتابیں وہ ہیں جنھیں ہم نے بعد کے لیے اٹھا رکھا تھا کہ جب فرصت ملے گی تو ان کا مطالعہ کیا جائے گا۔ ہمارا ہاتھ ایک سرخ جلد کی طرف بڑھ گیا جس کا مصنف چالیس برس قبل مراکش کے مدینۃ الاحمر میں رہتا تھا۔ وہ کتاب محمد ابن عبداللہ المعقط کی ’’سفرنامۂ مراکش عرف افعالِ شنیعہ کا عصری عکس، المعروف بہ تارکِ سنت کے خلاف تیغِ بے نیام‘‘ تھی۔
— پھر شیخ عبدالہادی نے ارشاد کیا، ’’جس نے سوال کیا اور جس سے سوال کیا گیا، ہر دو فرد دسویں صدی کے لوگوں میں سے تھے۔ اب ذرا ہمارے اس زمانے کو قیاس کرو، جو مثل ایک طویل شبِ مظلمہ کے ہے، کہ بات کتنی نہ بڑھ چکی ہو گی! سردارانِ قوم کو لو تو انھوں نے رعیت کو ظلم کے سوا کیا دیا؟ گوشت انھوں نے نوچ لیا اور خون پی گئے۔ ہڈیوں کا گودا تک وہ چوس گئے اور دماغ چٹ کر گئے اور رعیت کے لیے نہ دنیا چھوڑی نہ دین۔ متاعِ دنیا کو لو تو انھوں نے سب کچھ سمیٹ لیا، کچھ نہ چھوڑا، اور دین کی پوچھو تو ان کا منھ اس سے موڑا۔ یہ سب ہمارے مشاہدے کی باتیں ہیں، فقط باتیں ہی باتیں نہیں۔۔۔۔‘‘
ابوزید نے سوال کیا، ’’اللہ آپ کو توفیق دے، کیا ایسے دیار میں قیام کرنا جائز ہے جہاں کوئی منکرات کی نہی کرنے پر قادر نہ ہو؟‘‘
ذہن کو مطالعے سے کوئی سکون نہیں ملتا۔ قدیم جدید نظر آتا ہے اور جدید قدیم، مگر دماغ اس کے ناممکن ہونے پر احتجاج کرتا ہے؛ وہ یہ مان کر ہی نہیں دیتا کہ ’’سورج نور سے عاری ہے۔‘‘ ہم نے خود سے کہا کہ شاید اس کا سبب بےزاری، تعلقات کی طوالت، گہرے رموز کا افشا، التباسات کی اصلیت کا کھل جانا، خوابوں کا بکھر جانا، آئندہ سے لگاؤ اور حال سے بےنیازی ہو۔ ہم کو چاہیے کہ نفس کو صبر کا خوگر بنائیں اور بار بار دُہرائے جانے والے معمولات کے ساتھ لمحۂ موجود کو بالتفصیل گزاریں۔
کھانے پر ہمارے مہمان ہمارے ایک عزیز تھے جو ساٹھ کے پیٹے میں تھے۔ انھوں نے اوائلِ عمر ہی میں قرآن حفظ کر لیا تھا، اس کے ایک ایک لفظ سے واقف تھے اور آخر کو موذن ہو گئے تھے۔ ایک برس قبل جب ان کی اہلیہ نے وفات پائی تو انھوں نے اپنی ایک اَور عزیزہ کو عقد کے لیے منتخب کر لیا، کہ موذن کو مجرّد رہنے کی اجازت نہیں، مگر انھوں نے یہ بہتر سمجھا کہ یہ فریضہ وہ حج سے واپسی کے بعد ادا کریں۔ ان کی غیرموجودگی میں خدائی فوجداروں نے مداخلت کی اور اس خاتون کا نکاح کسی اور سے کروا دیا۔ چنانچہ وہ اب بھی رشتے کی تلاش میں تھے۔
’’الحمداللہ کہ تم خیر سے ہو۔ بندے کو ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اور کیا حال ہیں؟ کاروبار کیسا چل رہا ہے؟ ٹھیک ٹھاک۔ ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔ اور صاحبزادے کس حال میں ہیں ؟ کام میں دل لگاتے ہیں؟‘‘
’’انھی سے پوچھیے، خود بتائیں گے۔ ہمیں تو کام چور دکھائی پڑتے ہیں۔‘‘
’’بڑے شرم کی بات ہے بیٹا! کاش تم اپنے چچا عبدالرحمٰن کے نقش قدم پر چلتے۔‘‘
ان کے الفاظ نے گویا ہمارے ذہن میں کسی بھولی بسری یاد کو بیدار کردیا۔ ہم نے پوچھا:
’’وہی جو غرق ہوکر مرے تھے؟‘‘
’’ہاں، اور شہید بھی کہلائے تھے۔ جان لو کہ حدیث شریف کی رو سے تین قسم کے مُردے شہید کا درجہ رکھتے ہیں : وہ جو آگ میں جل کر مرے، وہ جو پانی میں غرق ہوے، اور وہ جو کسی دیوار کے نیچے دب گئے۔‘‘
اب ان کا روے سخن صاحبزادے کی طرف ہوگیا۔ وہ ہر نوع اور ہر قسم کی ہدایتیں اور نصیحتیں سننے کا عادی تھا، اس لیے اس نے ذرا بھی ناگواری ظاہر نہیں کی۔
’’تمھارا چچا عبدالرحمٰن ابھی اٹھارہ برس کا تھا کہ جملہ علوم میں طاق ہوچکا تھا۔۔۔۔‘‘
مسکراتے ہوے صاحبزادے نے قطع کلام کیا:
’’میں تو ابھی سترہ برس کا بھی نہیں ہوا۔‘‘
ہم نے مناسب طور پر اسے سرزنش کی:
’’تمھارا کھوپڑا گدھے کے سر سے بھی زیادہ خالی ہے۔ جو ہم کہیں اسے گرہ میں باندھ رکھو۔ مستقبل تمھارا ہے۔ ہماری نصیحتوں پر عمل نہیں کرو گے تو آپ بھگتو گے۔ تمھارا کیا خیال ہے، روزی کمانا کچھ آسان کام ہے؟ کچھ کے سروں پر ٹیکا ہوتا ہے تو دوسروں کے سروں پر کام کا سربند۔‘‘
حاجی صاحب نے اپنی بات جاری رکھی:
’’عبدالرحمٰن— اللہ اسے اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے— جملہ علوم میں طاق تھا۔ اس کی خطاطی ازحد دیدہ زیب تھی۔ محکمۂ مالیات میں ملازم تھا اور کم عمری ہی سے جبہ اور عمامہ پہنتا تھا۔ مشاق پیراک اور ماہر شہسوار تھا۔ ایک مرتبہ ایک فقیہ، جو سُوس سے ہماری ملاقات کو آئے تھے، اس سے مل کر اس کی علمیت اور ذہانت سے بہت متاثر ہوے۔ انھوں نے اس خوف سے کہ کہیں اس کو جن وانس کی نظرِ بد نہ لگ جائے، ایک تعویذ، جو حرزالبحر اور دافعِ بلیات کہلاتا ہے، لکھ کر دیا کہ اپنے جبے پر پہنے رہے تاکہ بلیات سے محفوظ رہے۔‘‘
گفتگو میں اپنی دلچسپی ظاہر کرنے کے لیے، گو اوپری ہی سہی، ہم نے کہا:
’’اور اس تعویذ کے ہوتے ہوے وہ غرق ہو گئے؟‘‘
’’مشیت الہٰی! وہ رباط سے سالے آ رہا تھا۔ وادیِ ابو رقرق اس نے کشتی سے عبور کی تھی۔ پھر اس نے عمامہ اتار کر وضو کیا، ظہر کی نماز ادا کی۔ پھر وہاں سے روانہ ہو کر ابھی بیس قدم گیا ہو گا کہ اس کا پیرنے کو جی چاہا۔ بس وہ اسی مقام کو لوٹا، اپنا لباس اتارا اور پیرنے لگا…‘‘
حسب معمول مسکراتے ہوے صاحبزادے نے قطع کلام کیا:
’’کیا اس زمانے میں لوگ ننگے ہی پیرتے تھے؟‘‘
گو ہم کو یہ سوال معقول معلوم ہوا مگر یہ محل کسی اَور ردعمل کا متقاضی تھا۔ چنانچہ ہم نے صاحبزادے کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا اور بے بسی کے اظہار میں کف افسوس ملا اور پورا زور لگا دیا کہ کہیں ہماری ہنسی نہ چھوٹ جائے۔
’’نہیں، وہ لنگر باندھتے تھے۔ اُس دن اتفاق سے تعویذ دوسرے جبے میں رہ گیا تھا اور پانی میں اس کی مشاقی ذرا کام نہ آئی اور سمندر اب تک اس کو دبائے بیٹھا ہے۔‘‘
یوں عبدالرحمٰن تو اپنی جان سے گیا، رہ گئے دونوں جہان کے علم، تو اس میں سراسر نقصان میں ہم رہے۔
ابھی کھانا ختم نہیں ہوا تھا مگر باتیں ختم ہوگئی تھیں۔ ہم اپنے مہمان کو آرام سے نوالہ چباتے دیکھتے رہے۔ سوچتے رہے کہ اب کس موضوع گفتگو میں ان کو لگائیں۔ ہم کو چند واقعات اور اِدھر اُدھر کی باتیں یاد آئیں جو وہ اس سے پہلے ہمیں کئی مواقع پر سنا چکے تھے۔ بس یاد دلانے کی دیر تھی کہ وہ شروع ہو جاتے۔ مثلاً ہم کہہ سکتے تھے کہ: اگلے وقتوں کے لوگ جب یہ نعرہ لگاتے تھے کہ ’’عزت اور دولت سب مولاے عبدالعزیز کی‘‘ تو واللہ دل سے لگاتے تھے۔ ان کے لیے اتنا اشارہ کافی تھا؛ وہ سلطان مولاے عبدالعزیز اور آس پاس کے قبائل کی جنگ وجدال کے واقعات سلسلہ وار سنانا شروع کر دیتے یہاں تک کہ فرانسیسیوں کے ورود تک پہنچ جاتے۔ تاہم یہ سوچتے ہوے کہ یہ گفتگو اکتا دے گی، ہم نے مناسب سمجھا کہ خود انھی کے بارے میں بات چھیڑی جائے۔ اذان دینے اور نماز پڑھنے کے علاوہ باقی وقت کیونکر گزرتا ہے؟ حرمینِ شریفین سے واپسی کے بعد حشیش انھوں نے ترک کر دی تھی اور نئی اہلیہ کا بھی دور دور پتا نہیں تھا۔ آخر پھر وقت کس طرح کٹتا ہے؟ کیا وہ خود کو چلتی پھرتی لاش تصور کرتے ہیں؟ بظاہر اپنے اردگرد کی دنیا سے ان کا تعلق بہت محدود تھا۔ وہ بس ادھر ادھر کی باتیں سن سنا کر اپنی حاشیہ آرائی کے ساتھ سنا دیا کرتے تھے، اور بات ختم یوں کرتے تھے کہ اللہ نے اختیار یوں تو سب کو دے رکھا ہے مگر اصل اختیار اُسی کا ہے۔
صاحبزادہ کھانے پر ندیدوں کی طرح گرتا ہے۔ ممکن ہے اس وقت خالی الذہن ہو، مگر وہ آس پاس ہونے والی باتوں پر توجہ دیتا ہے، میکانیکی انداز ہی میں سہی۔ وہ سگریٹ کا مزہ، پڑوس کی لڑکیوں کا تعاقب اور فٹ بال کا چسکا بھی دریافت کر چکا ہے۔ تھوڑے سے استغراق کے بعد وہ گرما کی تعطیلات میں یوروپ کے سفر کی خواہش کا اظہار بھی کرتا ہے، چاہے اس کو وہاں پاپیادہ ہی کیوں نہ جانا پڑے، (جس سے اس کے سفر کے اخراجات میں اضافہ ہی ہو گا)۔
اور ہم؟ ہم بزرگوار اور صاحبزادے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ہم ان کے دل میں آنے والے خیالات کا اندازہ لگا رہے ہیں، ارد گرد کی دنیا سے ان کے رشتے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے بعد؟ قیلولہ۔ اور پھر؟ گھومیں پھریں گے، تازہ ہوا کھائیں گے۔ اور پھر؟ ہم اپنی رفیقہ کو ٹیلیفون کریں گے۔ کہیں ملیں گے، گپ لگائیں گے۔ ہماری حرارت بڑھے گی، جبلتیں کھل کھیلیں گی۔ پھر وہی بےزاری کا دور دورہ ہو گا۔ دونوں اپنی اپنی راہ لیں گے۔ پھر ہم اپنے دوستوں کے پاس جائیں گے۔ دنیا جہان کی باتیں کریں گے۔ کبھی مدح کریں گے کبھی ذم، اور یوں اپنے دل کا غبار نکالیں گے۔ مگر جب اپنی بےبسی کی انتہا کا اندازہ ہو گا تو سارا جوش بیٹھ جائے گا۔ ہم پھر سڑکوں پر نکل جائیں گے۔ عورتوں کے مدوّر اور بھرے بھرے جسموں کی جنبشیں دیکھ کر ہوس پھر سر اٹھائے گی۔ ہم اکثر اپنے متاہل احباب سے پوچھا کرتے ہیں، ’’تو گویا تمھاری اہلیہ اپنی صنف کی قائم مقام ہوتی ہے؟‘‘ ہم کو جواب یہ ملتا ہے، ’’ہرگز نہیں، بیوی سے محبت رکھنے کے باوجود بیوی والوں سے زیادہ کوئی دوسری عورت کا خواہاں نہیں ہوتا۔‘‘ ہم اس عقدے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، عقل کے مطابق توجیہہ کرتے ہیں۔ سبب اس کا سراسر اختلاطِ مردوزن، پُرکشش اشتہارات، میک اپ، اونچی ایڑی کی جوتی اور۔۔۔۔۔۔ اَور کیا ہے؟
ہم نے اس کو یہ بتایا تو اس نے سختی سے ٹوکا:
’’سب بکواس۔ محبت کی مدد سے ہم ہوس کو زیر کرسکتے ہیں۔‘‘
’’اور محبت ہے کہاں ؟‘‘
’’اچھا، تو تم بھی از قسمِ قنوطی ہو۔ مجھی کو لو۔‘‘ اس کی کہانی بھی عام قسم کی نکلی۔ وہ اسے کسی بوڑھے سے بیاہنا چاہتے تھے تو اس نے خودکشی کی دھمکی دی، اور ان دونوں نے تامرگ ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کے وعدے وعید کیے وغیرہ وغیرہ۔
وہ ہماری بات سمجھا ہی نہیں؛ اس کے سامنے فرائڈ کا قول دہرانے کا کیا فائدہ: ’’میں خود کو اس خیال کا خوگر بنانے کی کوشش کررہا ہوں کہ ہر وصل میں چار افراد شریک ہوتے ہیں۔‘‘
ہم غلو سے کام لیتے ہیں اور وہ لمحہ ہم کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ صرف بوالہوسی نہیں جو دہلاتی اور اکساتی ہے۔ ترغیب تو جرم میں، خودکشی میں، شراب میں اور انقلاب میں بھی ہوتی ہے، مگر یہ دوسری قسمیں ہمیں اتنا نہیں اکساتیں، کیونکہ ان سے مانوسیت کو کوئی ٹھیس نہیں لگتی۔ اور لکھنا؟
میں چپ تھا اور وہ جواب دینے پر مائل نہ تھے؛ بس تسبیح کے دانے گن رہے تھے۔ عبدالباسط نے عرض کیا: ’’میں ہمیشہ سے جانتا آیا ہوں کہ جناب کے مقال میں وہ تاثیر ہے کہ آپ کے روبرو بڑے بڑے لسان گنگ رہ جاتے ہیں اور ان کے دماغ لاجواب۔۔۔۔۔۔ آپ اپنے دلآویز ارشادات سے صبح شام ہمارے حوصلے کچھ یوں بلند کرتے ہیں کہ ان ارشادات کے خوش آئند نقوش ہمارے نفوس پر ثبت ہوجاتے ہیں۔ ہم نے تو جناب کو مُدام اسی حالت میں پایا۔ پھر اب کیا ہوا؟‘‘
شام کو ہمیں پھر وہی احساس ہوا کہ ہڈیاں بکھری جا رہی ہیں، اور ایک دلگیر اداسی بھی طاری ہو گئی۔ اس سے جان چھڑانے کے لیے ہم نے سوچا کہ ڈاکٹر کا وہی معروف نسخہ آزمایا جائے، مگر ہم کو تذبذب ہوا کہ ڈاکٹر نے وقت کا تعین کر دیا تھا: شام نہیں، صبح۔ تو کوچہ کوچہ آوارہ گردی کریں گے اور عوام الناس کے چہروں کو تاڑیں گے، شاید کوئی علاج سوجھ جائے۔ ہم کافی دیر گردش میں رہے۔ کیفے کھچاکھچ بھرے ہوے ہیں۔ بیئر کی بوتلیں چشم زدن میں خالی ہو رہی ہیں۔ قہقہے گونج رہے ہیں۔ ہر دم چلتی ہوئی رس نکالنے کی مشینیں کھڑکھڑا رہی ہیں۔ اس کے باوجود ہماری اداسی ہے کہ اَڑی کھڑی ہے، جانے کا نام ہی نہیں لیتی۔ کاریں تیزرفتاری سے گزرتی ہیں۔ بسیں سست اور ٹھساٹھس بھری ہوئی ہیں۔ سنیماؤں پر قدآور ہیرو اشتہار بنے کھڑے ہیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ ہمارے چاروں طرف ہر شخص بھاگا چلا جا رہا ہے۔ جی چاہا ان کو روکنے کے لیے چلّائیں، ’’تم بھاگے جا رہے ہو!‘‘ مگر یہ خیال احمقانہ اور بےجواز سا لگا۔ ہم نے دل سے پوچھا، ’’کسی شے کو ثبات بھی ہے؟‘‘ پھر ہم اس حیات کی کہانی قلمبند کرنے کے لیے جو ہم قسطوں میں جیتے ہیں، گھر لوٹ آئے۔
Image: Tyrone Hart
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔