[blockquote style=”3″]

راجکمار کیسوانی تقسیم ہند کے بعد سندھ سے ہجرت کر کے بھوپال میں سکونت اختیار کرنے والے ایک خاندان میں 26 نومبر 1950 کو پیدا ہوے۔ ان کی بنیادی پہچان صحافی کی ہے۔ 1968 میں کالج پہنچتے ہی یہ سفر ’’سپورٹس ٹائمز‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر شروع ہوا۔ ان کے لفظوں میں ’’پچھلے چالیس سال کے دوران اِدھر اُدھر بھاگنے کی کوششوں کے باوجود، جہاز کا یہ پنچھی دور دور تک اڑ کر صحیح جگہ لوٹتا رہا ہے۔‘‘ اس عرصے میں چھوٹے مقامی اخباروں سے لے کر بھارت کے قومی ہندی اور انگریزی اخباروں دِنمان، السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا، سنڈے، سنڈے آبزرور، انڈیا ٹوڈے، جَن ستّا، نوبھارت ٹائمز، ٹربیون، ایشین ایج وغیرہ اور پھر بین الاقوامی اخباروں (مثلاً نیویارک ٹائمز، انڈیپنڈنٹ) سے مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہے۔
2 اور 3 دسمبر 1984 کی درمیانی رات کو بھوپال میں دنیا کی تاریخ کا ہولناک ترین صنعتی حادثہ پیش آیا۔ کیڑےمار کیمیائی مادّے تیار کرنے والی یونین کاربائیڈ کمپنی کے پلانٹ سے لیک ہونے والی میتھائل آئسوسائنیٹ (MIC) نامی زہریلی گیس نے کم سے کم 3,787 افراد کو ہلاک اور اس سے کئی گنا بڑی تعداد میں لوگوں کو اندھا اور عمربھر کے لیے بیمار کر دیا۔ اس حادثے سے ڈھائی سال پہلے یہ گیس تھوڑی مقدار میں لیک ہوئی تھی جس میں دو افراد ہلاک ہوے تھے۔ راجکمار کیسوانی نے تب ہی تحقیق کر کے پتا لگایا کہ مذکورہ گیس نہایت زہریلی اور کمیت کے اعتبار سے ہوا سے بھاری ہے، اور کارخانے کے ناقص حفاظتی نظام کے پیش نظر اگر کبھی یہ گیس بڑی مقدار میں لیک ہوئی تو پورا بھوپال شہر بہت بڑی ابتلا کا شکار ہو جائے گا۔ انھوں نے اپنی اخباری رپورٹوں میں متواتر اس طرف توجہ دلانا جاری رکھا لیکن کمپنی کی سنگدلی اور حکام کی بےحسی کے نتیجے میں یہ بھیانک سانحہ ہو کر رہا۔ اس سے متاثر ہونے والوں کی طبی، قانونی اور انسانی امداد کے کام میں بھی کیسوانی نے سرگرم حصہ لیا جسے کئی بین الاقوامی ٹی وی چینلوں کی رپورٹنگ اور دستاویزی فلموں میں بھی سراہا گیا۔ 1998 سے 2003 تک راجکمار کیسوانی این ڈی ٹی وی کے مدھیہ پردیش چھتیس گڑھ بیورو کے سربراہ رہے اور 2003 کے بعد سے دینِک (روزنامہ) بھاسکر سے متعلق رہے۔ اب وہ اس اخبار میں ایک نہایت مقبول کالم لکھتے ہیں۔ انھیں بھارت کے سب سے بڑے صحافتی اعزاز بی ڈی گوئنکا ایوارڈ سمیت بہت سے اعزاز مل چکے ہیں۔
راجکمار کیسوانی ہندی کے ممتاز ادبی رسالے ’’پہل‘‘ کے ادارتی بورڈ میں شامل ہیں جو ہندی کے معروف ادیب گیان رنجن کی ادارت میں پچھلے چالیس برس سے زیادہ عرصے سے شائع ہو رہا ہے۔ 2006 میں کیسوانی کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’باقی بچے جو‘‘ اور اس کے اگلے سال دوسرا مجموعہ ’’ساتواں دروازہ‘‘ شائع ہوے۔ انھوں نے ’’جہانِ رومی‘‘ کے عنوان سے رومی کی منتخب شاعری کا ہندی ترجمہ بھی کیا ہے۔ کئی کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ ’’باجے والی گلی‘‘ ان کا پہلا ناول ہے جو ’’پہل‘‘ میں قسط وار شائع ہو رہا ہے۔
اس ناول کو اردو میں مصنف کی اجازت سے ’’لالٹین‘‘ پر ہفتہ وار قسطوں میں پیش کیا جائے گا۔ اس کا اردو روپ تیار کرنے کےعمل کو ترجمہ کہنا میرے لیے دشوار ہے، اس لیے کہ کہیں کہیں اکّادکّا لفظ بدلنے کے سوا اسے اردو رسم الخط میں جوں کا توں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بات آپ کی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ اسے ہندی میں پڑھنے والوں میں سے بعض نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ یہ دراصل ناگری رسم الخط میں اردو ہی کی تحریر ہے۔
تعارف اور پیشکش: اجمل کمال

[/blockquote]

اس گلی کا نام باجے والی گلی کب اور کیسے پڑا، یہ بات کسی اور کو بھلے معلوم ہو لیکن یہاں رہنے والوں میں سے یہ بات شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ سواے اس ایک بوڑھے بدّو میاں کے، جس کے پاس بدن پر ایک جوڑ میلے کپڑے اور قصے کہانیوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ چہرے کی جھرّیوں اور جسم پر موجود خستہ حال کپڑوں کی گواہی سے یوں معلوم ہوتا کہ یہ شخص شہر بھوپال سے بھی پرانا بھوپالی ہے۔ دیکھنے میں ہر دم اکیلا، لیکن اس اکیلے کے وجود میں اس شہر کی ہر زندہ مردہ داستان سمائی ہوئی ہے۔ بس ایک تار چھیڑنے بھر کی دیر ہے کہ فقیر کے سُر آبِ ہفت دریا کی طرح بہہ نکلتے ہیں اور ہر بار "رہے نام اللہ کا!” پر جا کر ہی رکتے ہیں۔

اس کے پاس رہنے کو دوسروں کی طرح گھر نہیں ہے۔ پوری کی پوری گلی ہے ۔۔ باجے والی گلی۔ یہاں پر ہر گھر کے باہر نکلے ہوئے پٹیوں پر آپ کبھی، کسی بھی پٹیے پر بدو میاں کو بیٹھے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ لیٹے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ کھانستے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ کبھی کبھی روتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ وہ کیوں روتے ہیں کسی کو پتا نہیں ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح یہاں رہنے والوں میں سے کسی کو یہ پتا نہیں ہے کہ اس گلی کا نام باجے والی گلی کیوں ہے، جو کہ بدو میاں کو معلوم ہے۔ ان کو تو اپنے رونے کی وجہ بھی معلوم ہے لیکن ان سے کبھی کسی نے پوچھا نہیں کہ وہ روتے کیوں ہیں اور انھوں نے بھی کسی کو بتایا نہیں کہ وہ روتے کیوں ہیں۔

ایک بار میں نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تھی۔ جواب میں انھوں نے پہلے مجھے خوب گھور کر دیکھا۔ کچھ دیر تک مسکراتے رہے۔ پھر ایک دم اپنی گردن اوپر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے، ’’کیوں خاں! بتا دوں؟‘‘ اور پھر زور کا ٹھہاکا لگا کر ہنسنے لگے۔ ایک بار پھر اوپر دیکھتے ہوئے کہنے لگے، ’’چل رین دیتے ہیں۔ ابھی بچہ ہے۔ زرا سا بڑا ہون دو۔ سب بتا دوں گا۔‘‘

میں عجب سے بھری آنکھوں سے کبھی ان کو اور کبھی آسمان کو دیکھنے لگا تھا۔ مجھے تو آسمان میں کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ آخر یہ بدو میاں بات کس سے کر رہے ہیں۔ سو میں نے سیدھے سوال ہی کر لیا، ’’کون ہے؟ کس سے بات کرے ہو؟‘‘

جواب تو مجھے نہیں ملا لیکن اس بار انھوں نے میرے دونوں گالوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں بھر لیا اور پھر سے رونے لگے۔ اس بار ان کے رونے سے میں ڈر گیا۔

میں تب بہت چھوٹا تھا۔ کچھ سال پہلے ہی اسی گلی میں سارے بچوں کی طرح اُواں اُواں کرتا پیدا ہوا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ آمد کی اس اذان کو بھی اس دنیا میں رونا کہا جاتا ہے۔

حقیقت میں رونے سے میری اصل پہچان ماں کے کارن ہی ہوئی۔ ماں بھی دن میں دوچار بار تو روتی ہی تھی۔ وہ بھی بنا آواز ۔ کبھی پتاجی سے جھگڑے کے نتیجے میں۔ کبھی حویلی کے اندر لگے اکلوتے نل پر حویلی کے آٹھ گھروں کی بھیڑ سے ہار کر اپنی خالی بالٹی کے ساتھ روتی تھی۔ کبھی کبھی اسی حویلی کے اندر کے دوسرے گھر میں رہنے والی اپنی ساس کی وجہ سے اور کبھی کسی ایسی بات پر جو میری سمجھ میں نہیں آتی تھی۔
مجھے ماں کا رونا ذرا بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ میں اس کے پاس جا کر اس سے رونے کی وجہ پوچھتا۔ ’’ماں، روتی کیوں ہیں؟‘‘ جواب میں وہ مجھے اپنی اور کھینچ کر سینے سے لگا لیتی اور پھر زور سے سُبکنے لگتی۔ کبھی کبھی صرف میرے گالوں کو ہاتھوں میں تھام لیتی اور بنا جواب دیے صرف مجھے چوم کر چھوڑ دیتی، کھیلنے کے لئے۔

اس وقت بدو میاں نے بھی میرے گال پکڑ لیے تھے اور جواب نہیں دیا تھا۔ بس پیار سے پچکارتے ہوے اتنا بھر کہا تھا، ’’میری جان! ذرا بڑے ہو جاؤ۔ سب بتا دوں گا۔ ابھی جاؤ اور جا کے کھیلو۔‘‘

میں چپ چاپ اٹھ کر چلا آیا تھا۔ گھر پہنچ کر ماں سے ضرور کہا تھا کہ بدو میاں آج پھر رو رہے تھے۔ ماں نے گھبرا کر مجھے پکڑ لیا اور پوچھا، ’’تو وہاں کیا کر رہا تھا؟ تجھے کتنی بار سمجھایا ہے کہ وہ پاگل ہے۔ تیری سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ تیرے پتاجی کو بتا دیا تو سمجھ لینا کیا ہوگا۔ سمجھے؟ پاگل آدمی سے دور ہی رہنا چاہیے۔ پتا نہیں کب کیا کر دے۔ سمجھ گئے نا؟‘‘

ٹھیک سے تو یاد نہیں کس عمر میں جا کر ان باتوں کو سمجھا کہ کسی کو پاگل کیوں قرار دے دیا جاتا ہے، لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ اُس گھڑی بھی میں نے ماں کے سامنے سہمتی میں گردن اس طرح ہلائی تھی مانو واقعی سب کچھ سمجھ گیا۔

٭٭٭٭٭٭

یوں تو ز مانے بھر کے تمام شہر اپنی شکل صورت، سڑک عمارت، مقامی لوگوں کے کھانے پہننے سے، اپنی زبان سے اور سب سے اوپر لوگوں کے کردار سے اپنی اپنی الگ پہچان پاتے ہیں۔ لیکن یہ شہر تو کچھ نرالا سا ہی ہے۔ نرالا بھی کیا، مستانہ سا شہر ہے۔ ایک دم پہلی نظر میں تو یہ دنیا کا سب سے پرانا شہر سا معلوم ہوتا ہے۔ مانو بابا آدم،اماں حوا کے ساتھ آسمان سے ٹپکے تو سیدھے یہیں آ کر دم لیا ہو۔

اُس گزرے دور میں جب کی میں کہانی کہتا ہوں، تب تو محل ہو کہ مٹی کا گھروندا، حالت دونوں کی یکساں تھی۔ چند ہنستی مسکراتی عمارتوں کے بیچ یہاں سے وہاں تک کے درو دیوار زخمی حالت میں کھڑے کھڑے، چراغِ سحر کی طرح بجھنے کو بیتاب دکھائی دیتے تھے۔ لیکن واہ رے خدا کی کرامت اور انسان کی حکمت، دونوں کی جُگل بندی نے اس شہر کو نہ جانے الہ دین کی کس غار میں باندھ چھوڑا تھا کہ نہ یہ چراغ پوری طرح بجھتے تھے اور نہ شہر کی اور نہ شہر کے باشندوں کی زندگی میں کوئی بڑا بدلاؤ آتا تھا۔

یوں نہیں کہ شہر بھر کی حالت ہی ایسی ہو۔ چند آسودہ اور خوش خرم لوگوں نے بڑے شوق سے دومنزلہ عمارتیں بھی تعمیر کی ہوئی تھیں، جو جگنوؤں کی روشنی کے مقابل آنکھوں کو چندھیاتی ٹیوب لائٹ کی روشنی سی نظر آتی تھیں۔ لیکن واہ رے اس شہر کے لوگ اور ان کا کردار۔ ان جگمگ عمارتوں پر اپنے ہنر کا مظاہرہ کرتے ہوے کوئلے اور اینٹ کے ڈھیلوں سے ایسے ایسے قیامت خیز جملے لکھ چھوڑے تھے کہ اس کے بعد نظر عمارت پر کم اور جملوں پر زیادہ ٹکتی تھی۔ مثلاً ایک ایسی ہی چمکدار عمارت کی دیوار پر لکھا ایک جملہ یاد آتا ہے: ’’او زُہرہ جمال / تیری چھوکری کمال!‘‘
جنھیں لکھنا نہ آتا ہو گا وہ دوچار آڑی کہ کھڑی لکیریں کھینچ کر اپنی ذمےداری نبھانے کی کوشش کرتے۔ اور جو ان دونوں نعمتوں سے محروم رہے تو انھوں نے پان کی پیک سے بننے والی قدرتی پینٹنگز بنا کر اپنا فرض پورا کر رکھا تھا۔ اور جو کچھ کسر باقی رہ جاتی تو کاروباری اشتہار لکھنے والے پوری کر جاتے۔
اب دیوار پر اتنی ساری جگہ گھِر جانے کے بعد جب کہیں کچھ اور لکھنے کی گنجائش نہ ہوتی تب صرف ایک ہی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ کاغذ پر چھپے اشتہار یا ننھے سے ہینڈبل ان سب کے اوپر کہیں بھی چپکا دیے جائیں۔ اور یہی ہوتا بھی تھا۔ سو دیوار پر ذرا نیچے کی طرف ’’جواں مردوں کی پسند – پہلوان چھاپ بیڑی‘‘ کا اشتہار لکھا ہے تو ٹھیک بیچ سے اس کو کاٹتا ہوا انھی جواں مردوں کی توجہ کا طلبگار تازہ تازہ لئی سے چپکا پوسٹر ہے: ’’اجمیر والے حکیم وِیرومل آریہ پریمی‘‘ کا جس پر مردانگی کے خفیہ مسئلوں کے علاج کی گارنٹی ہے: ’’ناامید نہ ہوں۔ حکیم صاحب پورے سات دن کے لیے یہاں سرائے سکندری میں ٹھہرے ہیں۔ آ کر ملیں۔‘‘ ملنے کا وقت تو لکھا ہوا لیکن فیس کا کوئی ذکر نہیں۔

اُدھر ایک دوسری گلی کی ایک دیوار پر کسی دل جلے نے دیوار کے سب سے اوپری حصے پر گویا سیڑھی لگا کر کوئلے سے خوب موٹے حروف میں لکھ چھوڑا ہے: ’’شبو کے دانت گندے ہیں۔‘‘ اسی کے نیچے بریکٹ میں ایک چنوتی بھی لکھی ہوئی ہے: ’’(اب مٹا کے بتاؤ۔)‘‘

اس سے آپ کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شبو اور ناراض مجنوں میاں یہیں کہیں رہتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ اس ناکام عاشق نے پہلے بھی اسی طرح کا کوئی جملہ یہیں کہیں لکھا تھا جسے شبو یا اس کے کسی ہمدرد نے مٹا دیا تھا۔ شاید اسی لیے اس بار اس کھُنّس کا اعلان اتنی اونچی جگہ پر لکھا گیا ہے کہ جہاں تک آسانی سے ہاتھ نہ پہنچ سکے۔ اس جملے کی بےداغ موجودگی ہی اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت تھی کہ شبو اور شبو کے ہمدردوں کے نہ تو ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ اتنے اوپر تک پہنچ سکیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی اونچی سیڑھی ہے۔ کل ملا کر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شبو غریب ہے، جسے کوئی سیڑھی کی اوقات والا لمڈا پریشان کر ریا ہے گا۔

اب آپ خدا کے واسطے مجھے اس بات پر نہ ٹوکیں کہ میں اچھی بھلی بات کرتے کرتے یہ رِیا پھِیا کیا کرنے لگا۔ اب جو زبان اپنی اوقات پر آ ہی گئی ہے تو میں کھل کے بتا ای دیتا ہوں کہ یہ اس شہر کی زبان ہے، جس میں دو ماترے والے حروف کی ایک ماترا حلق میں ای رے جاتی ہے اور جو ایک ماترا ہوئی تو سمجھو اس کا خدا حافظ۔ نتیجتاً گیہوں ذرا ہلکا ہو کر گہوں رہ جاتا ہے۔ چھوٹا اُو بچارا مڑ کر چھوٹا اِی رہ جاتا ہے، سو مُحلہ مِحلہ اور مُجھے مِجھے ہو جاتا ہے۔ اور ’’ہ‘‘ اس لیے گم ہو جاتا ہے گا کہ جاں بِنا وِسکے ای کام چل سکتا ہے تو پھر کائیکو اس بڑھاپے میں وِسے یہاں وہاں اَڑانا۔ اور آزادخیالی کا عالم یہ ہے کہ یہاں خان کا نون گم ہو کر غنّہ میں بدل کر خاں ہو جاتا ہے۔ جیسے اشرف خاں، مظہر خاں۔ سو حضور بھول چوک لینی دینی۔ اس قاعدے والی مادری زبان کے ساتھ بیچ بیچ میں یہ ‘پھادری‘ زبان تو آتی ریگی۔ اچھا، اس ‘پھادری’ کا پھنڈا بعد میں بتاؤں گا، پہلے ذرا بیچ میں لٹکی اس بیچاری شبو کی بات پوری کر لوں۔

تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ لگتا ہے کہ شبو بچاری غریب ہے اور صاحب، غریب کی پریشانی سے کسی کو کیا لینا اور کسی کا کیا دینا۔ الغرض نتیجہ یہ کہ شہر میں آپ کو ڈھیر سارے بےداغ لوگ بھلے مل جائیں لیکن بےداغ دیواریں ذرا کم کم ہی ہیں۔ اور ہاں، گھروں کے باہر پتھر کے خاصے چوڑے پٹیے ضرور دکھائی دے جاتے ہیں۔ ان پٹیوں کی چمک دیکھ کر ہی بڑی آسانی سے کوئی بھی جان سکتا ہے کہ ان کا استعمال اور دیکھ بھال خوب ہے۔ دن ڈھلتے ہی اس کے زندہ ثبوت بھی ملنے لگ جاتے ہیں۔ رات کی تیاری میں شام کو ہی محلے کا پکھالی (بھشتی) گلی میں موجود بمبے (نل) سے اپنا پکھال بھر کر حکم کے مطابق پٹیے پر پانی ڈال کر صاف کر دیتا ہے۔ مالک اگر زیادہ مالدار ہوا تو سڑک پر بھی چھڑکاؤ ہو جاتا ہے۔ اس گھڑی اُٹھتی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو آس پاس پھیل جاتی ہے۔
(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

Leave a Reply