گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

آٹو مین، آئی ایم سوری یار تمہیں اس وقت جگایا ہے۔۔۔ دراصل ایک کَٹا کُھل گیا ہے” غازی صاحب نے اُس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی دوستانہ انداز میں کہا۔ "کَٹا کُھلنے” کا محاورہ فوجی زبان کب استعمال ہوتا ہے، عثمان کو اس کا اندازہ تھا۔

 

"That’s OK sir”اُس نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ ابھی تک جاگ رہا تھا اور ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس نے کتاب بند کرکے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی اور پانی کی بوتل اُٹھا کے مُنہ سے لگا لی۔ غازی صاحب نے سائیڈ ٹیبل سے کتاب اُٹھا کے دیکھی۔

 

عجیب آدمی ہو یار، یہی بہت زیادہ کتابیں پڑھنے کی عادت نے تو تمہارا دماغ خراب کیا ہے”غازی صاحب نے بالکل ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
"کون سی کتاب پڑھ رہے ہو؟ Tragedy of Errors ۔۔۔ یہ وہی ہے ناں جو اکہتر کی شکست پہ لکھی ہے ایک جرنیل نے؟؟ کمال ۔۔۔متین الدین صاحب نے؟ عجیب آدمی ہو یار، یہی بہت زیادہ کتابیں پڑھنے کی عادت نے تو تمہارا دماغ خراب کیا ہے”غازی صاحب نے بالکل ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔ اسی اثناء میں عثمان نے پانی پی کر اپنے ٹریک سوٹ کا جمپر پہن لیا تھا۔

 

"عثمان بچے، چل، بابانیچے کھڑا ہے، تُم بھی چلو ایڈمرل سعید صاحب سے ملوانا ہے تمہیں” غازی صاحب نے آہستہ سے اُسے بتایا ۔

 

"ہیں؟” عثمان چونک گیا۔

 

"جی، وہ تمہیں دیکھنا چاہتے ہیں، وہ لیفٹیننٹ کمانڈر شہاب کو انکار کر کے تمہیں اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کا سوچ رہے ہیں” لیفٹیننٹ کمانڈر غازی نے مصنوعی ناگواری سے، ایک اصلی گھونسا عثمان کی پیٹھ پہ مارتے ہوئے کہا اور دونوں ہنس پڑے۔

 

"یار لگتا ہے تمہارا پتہ کٹ گیا ہے۔آج جو بھاشن تُم نے وہاں بَک دیئے ہیں ناں، چوتیے۔۔۔ کیا کہوں تمہیں، اپنے پاوں پہ کلہاڑی چلا دی ظالم۔۔۔”غازی صاحب نے سرگوشی سی کی۔

 

"مطلب۔۔۔ ” عثمان نے کہا تو غازی صاحب نے بات کاٹ دی۔

 

"یار چینج رہنے دو، بس بوٹ پہنو اور چلو۔۔۔ اب کے وہاں کوئی بکواس مت کرنا۔ شائد تُمہیں واحد آپشن دی جانے والی ہے اور اسے غنیمت جانو” غازی صاحب کہتے ہوئے دروازے میں آکھڑے ہوئے۔ عثمان کو اپنے جسم میں سوئیاں چبھتی محسوس ہوئیں۔ اس نے تیزی سے جوگر پہنے، اپنا بٹوہ اور موبائل فون اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔

 

"السلام علیکم سر” اُس نے ہلکی سی ایڑی اُٹھا کر دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر واہلہ صاحب کو سلام کیا۔

 

"والسلام، بیٹھو عثمان”کمانڈر واہلہ نے جواب دیا۔ وہ ڈارائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھ گیا، غازی صاحب پچھلی سیٹ پر کمانڈر واہلہ کے ساتھ بیٹھ گئے۔

 

ایڈمرل سعیداللہ کے بنگلے کا یہ وسیع بیڈ روم بہت سادگی سے سجایا گیا تھا۔ پنکھا آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ ڈرائینگ روم کا ایئر کنڈیشنر حال ہی میں اتروا دیا گیا تھا۔
"تُم سو گئے تھے؟”کمانڈر واہلہ نے پوچھا۔

 

"نہیں سر، جاگ رہا تھا”عثمان نے پیچھے مُڑ کر جواب دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں گاڑی شاہراہِ فیصل پر رواں دواں تھی۔ تمام سفر خاموشی سے گُزرا۔

 

"آو حنیف۔۔۔ یار چند منٹ پہلے ہی تمہارا نتظار کر کر کے میں نے بالآخر کافی پی ہی لی، اب میں ‘صُلاح’ تک نہیں ماروں گا”ایڈمرل سعیداللہ نے گرمجوشی سے کمانڈر حنیف واہلہ سے مصافحہ کرتے ہوئے مذاق کے انداز میں کہا تو دونوں افسران ہنس دیئے۔ عثمان بمشکل مسکرا سکا۔

 

ایڈمرل سعیداللہ کے بنگلے کا یہ وسیع بیڈ روم بہت سادگی سے سجایا گیا تھا۔ پنکھا آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ ڈرائینگ روم کا ایئر کنڈیشنر حال ہی میں اتروا دیا گیا تھا۔ حالیہ لوڈ شیڈنگ کے بحران کی وجہ سے ایڈمرل موصوف نے اپنے دفتر اور بنگلے کے نسبتاً غیر ضروری ایئر کنڈیشنر اُتروا دیئے تھے اور اپنے ماتحت کمانڈروں کو بھی یہی حکم دیا تھا کہ وہ بجلی بچائیں۔ وہ چاروں صوفوں پر بیٹھ گئے۔ ایڈمرل صاحب نے سر پر نماز کی ٹوپی پہن رکھی تھی جسے اُتار کر انہوں نے لپیٹا، میز پر رکھا اور لمبی سی سانس لی، ساتھ ہی کوئی دُعا پڑھی جسے کم از کم عثمان نہ سمجھ سکا۔

 

"لیفٹیننٹ عثمان۔۔۔؟” ایڈمرل صاحب نے عثمان کو مخاطب کیا۔

 

"سر۔۔۔ عثمان علی جدون۔۔۔ ” عثمان نے اپنا پورا نام بتایا۔

 

عثمان بیٹا، میرے پاس طویل مباحث کا وقت نہیں۔ تمہیں کچھ بتانا تھا۔ ملٹری جسٹس کی اصطلاح اتنی ہی بے تُکی ہے جتنی ملٹری میوزک کی۔
"عثمان بیٹا، میرے پاس طویل مباحث کا وقت نہیں۔ تمہیں کچھ بتانا تھا۔ ملٹری جسٹس کی اصطلاح اتنی ہی بے تُکی ہے جتنی ملٹری میوزک کی۔۔۔ لہٰذا یہ مت سمجھو کہ تم بورڈ آف انکوائری کی بجائے دفع تیس کے مجسٹریٹ کی بارگاہ میں پیش ہو رہے ہو۔ باقی احوال تمہارے سامنے ہیں اور مدعایہ ہے کہ تمہارا کورٹ مارشل ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ یا تمہاری آسانی کے لئے یہ کہ تمہارا کورٹ مارشل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔۔۔” ایڈمرل صاحب نے صاف آواز اور شستہ لہجے کی اُردومیں بات کا آغاز کیا۔ اسی اثناء میں اسٹیوارڈ کافی کے پانچ مگ لے کر آگیا اور ایڈمرل صاحب لحظہ بھر کو خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد کچھ دیر تک تو عثمان کو سمجھ نہ آئی کہ کمرے میں کیا باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کے کان ایک لمحے کا سائیں سائیں کرنے لگے۔ شائد کافی کے بارے میں کچھ باتیں ہو رہی تھیں۔

 

” تو بیٹا تُم فوجی افسر ہو، تمہیں ان باتوں کا خود اندازہ ہونا چاہیئے کہ اس سوسائٹی میں جرنیلوں اور کمانڈروں کی ماتحتی کے تقاضوں کا خیال رکھنا ہر شے پر مقدم ہوتا ہے۔۔۔ اس کے علاوہ جَٹ لینڈ اور مڈوے میں لڑنے والے نیول افسر مر گئے لہٰذا پوری فوج کو تمہارے رومانس کے مطابق ماحول میں نہیں ڈھالا جاسکتا۔ تمہارا روشن خیالی کا کیڑا اپنی جگہ لیکن برخوردار، ہم تیسری دُنیا کا ایک مُلک ہیں، جہاں لبرل سیکیولر دانشور اور یہ پیس ایکٹی وسٹ لوگ کچھ بھی چیختے رہیں، جنگیں ہوتی رہیں گی کہ یہ جرنیلوں اور سیاستدانوں کی ضرورت بھی ہیں اور معاش بھی، لہٰذا سپاہ کو لڑانے کے لئے ہمیں جو محرک مناسب لگے گا، ہم استعمال کریں گے۔ اب تُم ایڈمرل جیکی فشر کے نہیں ایڈمرل سعید اللہ کے ماتحت ہو اور ایڈمرل سعیداللہ کا کہنا ہے کہ تُم اُس کے ناپسندیدہ افسر ہو اور وہ تمہاری فائل بند کرکے ہیڈکوارٹر بھجوانا چاہتا ہے۔ عثمان، یہ فوج کی افسری ہے، یہاں انصاف اس طرح ہوتا ہے کہ تم نے ایک سیلر کی ڈاڑھی کا مذاق اُڑایا اور تُم بورڈ آف انکوائری کے سامنے کھڑے ہونے والے ہو۔ اور ناانصافی اس طرح ہوتی ہے کہ تمہارے نیول کیریئر کے ختم کرنے کا فیصلہ میرے ذہنِ رسا نے اسی بنیاد پر کر دیا ہے” ایڈمرل صاحب نے بڑی روانی سے کہا لیکن عثمان کو یوں لگا کہ وہ کوئی ناگوار خواب دیکھ رہا ہے۔

 

"سر آپ اپنا آخری جملہ دُہرائیں گے پلیز؟؟” عثمان نے بمشکل، تھوک نگلتے ہوئے کہا۔

 

"جی بیٹا، تُم جس صورت حال میں ہو، میں تمہارے اس سوال کا نسبتاًواضح الفاظ میں بھی دینے کو تیار ہوں۔۔۔ میں تم سے سب کچھ کھل کے کہوں گا” ایڈمرل صاحب نے پہلو بدلا۔

 

"عثمان، تمہارا کورٹ مارشل ہو گا اور میں اس کے نتائج کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس کا دوسرا مطلب ہے کہ تم اپنا resign پیش کر دو تو میں تُم سے وعدہ کرسکتا ہوں کہ تمہیں سروس سے باعزت چلے جانے کا موقع مل جائے گا اور یہ رسوم و رواج کی رو سے تمہارا حق بھی ہے”ایڈمرل صاحب نے کافی کا مگ چہرے کے قریب لا کر کہا۔ عثمان نے اپنا مگ میز پر رکھ دیا۔

 

عثمان سے اُنہوں نے باقاعدہ معانقہ کیا۔ اُن سے عطر کی خوشبو آرہی تھی جو عثمان کو بلاوجہ ناگوار لگی۔ واپس یونٹ تک کا سفر خاموشی- بلکہ گھمبیر خاموشی میں گزرا۔
"You are a hard man sir…merely politician”عثمان دھیمی سی آواز میں منمنایا جسے کوئی سمجھ نہ سکا۔ لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی اور کمانڈر واہلہ نے اس کی طرف متجسس نظروں سے دیکھا۔

 

"Affirmative Sir” عثمان نے واضح آواز میں، فیصلہ کن انداز میں کہا۔ اُسے اپنے اندرسے چھناکے کی آواز سے آئی جیسے وہ اندر سے ٹوٹ گیا ہو۔ اس کے بعد کچھ دیر تک کمرے میں خاموشی رہی۔

 

"عثمان” ایڈمرل صاحب نے خاموشی توڑی۔
A soldier comes across such ironies in his life, so compose yourself and keep your pecker up!

اُنہوں نے کافی کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے بہت مصنوعی انداز میں کہا۔ اس کے بعد پھر خاموشی سی چھا گئی۔
"ویل جنٹلمین، فی امان اللہ۔۔۔اور۔۔۔” ایڈمرل صاحب نے اُٹھ کر ایک نامکمل سا جملہ بولا اور کمانڈر حنیف واہلہ کی طرف مصافحے کا ہاتھ بڑھا دیا۔

 

پھر عدیل غازی صاحب اور پھر لیفٹیننٹ کمانڈر خان بیگ سے ہاتھ ملایا۔ عثمان سے اُنہوں نے باقاعدہ معانقہ کیا۔ اُن سے عطر کی خوشبو آرہی تھی جو عثمان کو بلاوجہ ناگوار لگی۔ واپس یونٹ تک کا سفر خاموشی- بلکہ گھمبیر خاموشی میں گزرا۔ اُس رات وہ سحردم تک جاگا۔ کبھی اُس کا ذہن بالکل خالی ہو چکا ہوتا تو کسی لمحے اچانک سوچوں کی یلغار ہوتی۔اسی کشمکش میں اس کی آنکھ لگ گئی۔

 

چند روز بعد بورڈ آف انکوائری کے نتائج (Findings) سامنے لائے گئے جن میں عثمان کے خلاف پیشہ ورانہ غفلت کا الزام بھی تھا اور اس کے غیر معاشرتی یا "Antisocial”رویّوں کی شکایات بھی باتفصیل تھیں۔ ساتھ ہی عثمان نے اپنا استعفیٰ نیول سیکرٹری کو بھجوا دیا۔ ادھر پیٹی افسر خان زمان کے لئے چیف آف نیول اسٹاف کی تعریفی سند، پیٹی افسر سلیم اللہ مروت کے لئے تمغہء بسالت اور گلفام مسیح کے نام سے یونٹ سے شاہراہِ فیصل تک جانے والی سڑک کا نام منسوب کرنے کی سفارشات بھی مرتب ہو گئیں۔ نیول سیکرٹری کی طرف سے استعفے کی منظوری کے احکامات آئے تو چند روز میں ہی عثمان نے وردی اُتار دی اوروہ چند روز انتہائی غیر متوقع طور پر خاموشی سے گزر گئے۔ یونٹ کے اکثر چیف پیٹی افسران اور تمام افسران اسے فرداً فرداً ملے اور سب نے اس کے کیرئیر کے اس اختتام پر ہمدردی کا اظہار کیا لیکن اُسے اس سے کیا فرق پڑ سکتا تھا۔ سب لیفٹیننٹ شہلا حسن چھُٹی پر تھی اور اُس کی طرف سے باوجود شدید انتظار کے تسلّی و تشفی کا کوئی فون تک نہ آیا۔ الوداعی پارٹی بھی آفیسرز میس کے لان میں ہوئی لیکن ازحد بے رنگ اور اداس کردینے والی۔

 

ادھر پیٹی افسر خان زمان کے لئے چیف آف نیول اسٹاف کی تعریفی سند، پیٹی افسر سلیم اللہ مروت کے لئے تمغہء بسالت اور گلفام مسیح کے نام سے یونٹ سے شاہراہِ فیصل تک جانے والی سڑک کا نام منسوب کرنے کی سفارشات بھی مرتب ہو گئیں۔
"اوٹومین، بچے یہ مُلّا لوگ اپنے نظریات اور موقف میں بہت واضح اور کلیئر ہیں، میں غلطی پر تھا، یہ لوگ کنفیوز نہیں ہیں” اس تقریب میں اس موضوع پر لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل کے اس بالواسطہ تبصرے کے علاوہ کسی نے اس حوالے سے کوئی بات نہ کی۔۔۔

 

اتوار کا دن تھا۔ آفیسرز میس کے سامنے ایئر فورس کی گہری نیلے رنگ کی ڈبل کیبن گاڑی کھڑی تھی جس میں ایک سیلر نے عثمان کے کپڑوں کا بیگ اور بریف کیس رکھے جبکہ احسان نے اُس کی تمام کتابیں بھی کیبن سے پیچھے ڈال دی تھیں۔ گاڑی کے گرد کھڑے چند لفٹینوں نے الوداعیہ اشارے میں ہاتھ ہلائے اور عثمان، جو سفید شلوار قمیص اور سیاہ پشاوری کھیڑی پہنے شائد آخری بار اپنے باوردی ساتھیوں کو دیکھ رہا تھا، اندر سے اس اشارے سے چھلنی سا ہو گیا لیکن اس نے مسکرا کر ان کے سلام کا جواب دیا اور گاڑی چل پڑی۔ سب لیفٹیننٹ اسد اورلیفٹیننٹ سروش اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے تھے۔ احسان،جو ہمیشہ کی طرح اس کا حوصلہ بڑھانے کے لئے اُس کے ساتھ ہنس ہنس کے باتیں کر رہا

 

تھا، اس لمحے اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکا تو اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اُس نے فوراً دوسری طرف مُنہ پھیر لیا۔ گاڑی گارڈ روم پہ آ رُکی جہاں سے ائر فورس کے گن مین نے آبیٹھنا تھا۔ عثمان نے آخری بار مُڑ کر اپنے یونٹ کی طرف دیکھا۔ مسجد سے سیلرز اور چیف پیٹی افسرز میس کی طرف جانے والے فُٹ پاتھ پر چند لوگ ظہر کی نماز پڑھ کر آپس میں باتیں کرتے چلے جا رہے تھے۔ ایک دوسیلرز نے مُڑ کر اس کی طرف دیکھا بھی۔ حافظ ناصر اور چیف خطیب صبور بھی مسجد سے نکل کر فُٹ پاتھ پر آئے تو نجانے کیوں عثمان کی نظر ان کے پَیروں میں پہنی قینچی چپلوں کی طرف گئی۔۔۔

 

"بھیّا، اس قوم کو ایک دن جوتے پڑیں گے وقت کے ہاتھوں۔۔۔”اس نے احسان کو کہنی چبھوتے ہوئے کہا "جوتے پڑیں گے اور وہ بھی قینچی چپل۔۔۔” عثمان نے آنکھوں سے اُن کی طرف اشارہ کرکے کہا تو احسان، خُدا جانے مصنوعی یا حقیقی قہقہہ لگا کر ہنس پڑا اور اُس کی گرد کے گرد اپنا دایاں بازو حمائل کر لیا۔

 

"اوٹومین۔۔۔ یار بس، ختم کر اس قوم کے جھنجھٹ۔۔۔ چل تُجھے گُل بائی سے ایسا کمال دودھ سوڈا پلاوں کہ تو سب کچھ بھوُل جائے گا۔۔۔” اور ساتھ ہی احسان کے اشارے پر ائر فورس کی نیلی گاڑی چل پڑی۔

Leave a Reply