گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
آج شام کے کھانے کے وقت سے پہلے ہی عثمان کمرے سے نکلا اور میس کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں اُس کے جی میں آئی کہ گارڈ روم کے سنتریوں سے چند باتیں ہی کر لے۔ وہ فکرمند تھا کہ کہیں سچ مچ جوان اس سے بدگمان تو نہیں ہو گئے۔ ابھی گارڈ روم پہنچا ہی تھا کہ احسان کا فون آ گیا۔ "عثمان، تُم وہیں رُکو، میں آتا ہوں تو پھر اکٹھے کھانا کھائیں گے، باہر کہیں، کسی ہوٹل میں”احسان بڑے اچھے موڈ میں تھا اور اسے ابھی تک عثمان نے نہیں بتایا تھا کہ آج اُس کے ساتھ کیا سلوک ہوا تھا۔ وہ وہیں رُک کے مشین گن پکٹ سنتری سے باتیں کرنے لگا ۔روائتی افسرانہ احوال پُرسی۔ ‘کیسے ہو بھئی، ڈیوٹی کیسی جا رہی ہے، گھر بار سب خیریت ہے؟، ڈیوٹی میں کوئی مسئلہ، کوئی اُلجھن؟”وہ پوچھے جا رہا تھا اور نوجوان سیلر بڑی نیازمندی سے باچھیں کھلائے "سب اچھا سر” "الحمدللہ سر” کی رٹ لگائے جا رہا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ دعا بندے اور رب کے درمیان ایک رابطہ ضرور ہے لیکن یہ ‘بم پروف دعا’ مجھے تھوڑی عجیب ہی بات لگی ہے” وہ بولا تو احسان بلند آواز میں ہنسا۔
"تُم نے بُلٹ پروف جیکٹ کیوں نہیں پہنا؟”اُس نے تحکمانہ انداز میں پوچھا۔
"سر ابھی یونٹ میں کمی ہے جیکٹوں کی، صرف چند اہم سنتریوں کو دیئے گئے ہیں”سیلر نے بڑے ادب سے جواب دیا۔
"ارے ، یہ کیا ہے؟”عثمان نے سیلر کی مشین گن سے لٹکے ایک سفید ملفوف کارڈ کو دیکھ کر قدرے تجسس سے پوچھا تو کارڈ کی تحریر کے عنوان نے ہی بتا دیا جس میں لکھا تھا "آگ کے عذاب سے بچنے کی مسنون دعا؛ صحابہ نے یہ دعا آگ سے متعلقہ حوادث سے بچنے کے لئے تجویز فرمائی ” ساتھ ہی حدیث کا حوالہ بھی تھا۔
"ارے ، یہ کیا ہے؟”عثمان نے سیلر کی مشین گن سے لٹکے ایک سفید ملفوف کارڈ کو دیکھ کر قدرے تجسس سے پوچھا تو کارڈ کی تحریر کے عنوان نے ہی بتا دیا جس میں لکھا تھا "آگ کے عذاب سے بچنے کی مسنون دعا؛ صحابہ نے یہ دعا آگ سے متعلقہ حوادث سے بچنے کے لئے تجویز فرمائی ” ساتھ ہی حدیث کا حوالہ بھی تھا۔
"سر یہ آج سی او صاحب کے حُکم سے تمام سنتریوں کو پاس رکھنے کی ہدایت ملی ہے”عثمان وہ کارڈ لے کر اس سے وہ دعا پڑھنے لگا۔
اسی اثناء میں اس کا موبائل فون بج اُٹھا تو پتہ چلا کہ احسان بھی آپہنچا تھا۔ احسان کو گارڈ روم سے اندر آتا دیکھ کر وہ ایک لمحے کو تمام ناگواری بھول کر آگے بڑھا اور دونوں بھائی گلے ملے۔ رسمی احوال پرسی کے بعد عثمان نے اس کا ہاتھ تھاما اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑا۔ وہ ابھی تک احسان کو پرسوں کی روداد نہیں بتانا چاہ رہا تھا لہٰذا اس نے سرراہے اسی دعا والے کارڈ کا ذکر چھیڑ دیا جو وہ ابھی مشین گن سنتری کے پاس دیکھ آیا تھا۔
"بھائی آپ کا کیا خیال ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ دعا بندے اور رب کے درمیان ایک رابطہ ضرور ہے لیکن یہ ‘بم پروف دعا’ مجھے تھوڑی عجیب ہی بات لگی ہے” وہ بولا تو احسان بلند آواز میں ہنسا۔
"بھائی آپ کا کیا خیال ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ دعا بندے اور رب کے درمیان ایک رابطہ ضرور ہے لیکن یہ ‘بم پروف دعا’ مجھے تھوڑی عجیب ہی بات لگی ہے” وہ بولا تو احسان بلند آواز میں ہنسا۔
"ارے سچ یار؟؟؟ یہ تمہارے سی او نے اسلامی ٹوٹکا استعمال کیا ہے؟”احسان نے ہنستے ہوئے کہا توعثمان کو تھوڑی ناگوار حیرت تو ہوئی لیکن اسے اندازہ ہو گیا کہ بھائی صاحب آج اچھے موڈ میں تھے۔
"یار عثمان، تمہیں ایک اور لطیفہ سُناوں۔۔۔” اس نے عثمان کے شانے پر تھپکی دی۔
"سلطنتِ عثمانیہ میں جب پہلی بار جب بخارات پہ چلنے والے بحری جہاز عثمانی فلیٹ میں شامل ہوئے تھے تو۔۔۔شائد ایڈمرل حُسین کوچک کا دور تھا۔۔۔ نہیں۔۔۔ خیر، چھوڑو جس کا بھی دور تھا۔،بحری جہازوں کے افتتاح کے دن خلیفہ نے حکم دیا کہ ان جہازوں کی بہتر کارکردگی اور سلامتی کے لئے صحیح بخاری کا ختم شریف کروایا جائے۔ تو پتہ ہے جواب میں ایڈمرل نے کیا کہا؟” آج شائد احسان کافی بولنے کا موڈ لے کر آیا تھا۔
"ایڈمرل نے کہا، ‘جنابِ والا، بحری جہاز بخارات سے چلتے ہیں، بخاری سے نہیں’۔۔”احسان نے بات مکمل کی تو دونوں بھائی قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔پھر کافی دیر تک ہنستے رہے۔
بحری جہازوں کے افتتاح کے دن خلیفہ نے حکم دیا کہ ان جہازوں کی بہتر کارکردگی اور سلامتی کے لئے صحیح بخاری کا ختم شریف کروایا جائے۔
"یار سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس طرزِ فکر نے ہمیشہ مروایا ہے ۔وہ کون سے خلفاء تھے جن کے دور میں نپولین نے مصر پہ حملہ کیا تھا”احسان اب نسبتاً سنجیدہ ہو گیا۔
"اُنہیں بھی جب پتہ چلا کہ نپولین فوج لے کر آنے والا ہے تو ساری اُوت قوم بھاگے، قرآن پاک کا ختم شریف کرنے، لیکن اس سے پہلے کے قرآن پاک کا ختم پورا ہوتا، نپولین نے آکر بسم اللہ کردی” احسان ہلکا سا ہنسا۔
"خُدارا بھیّا، رہنے دیجئے، فی البدیہہ تاریخ گھڑتے ہو آپ بھی” عثمان نے مصنوعی ناگواری سے کہا۔
"ناں یار، قسم سے، مولانا وحیدالدین خاں نے لکھا ہے۔۔۔” احسان نے کرسی پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔
"بس کریں بھائی، حد ہی کرتے ہیں۔ پتہ ہے، آج ایسی ہی باتوں کی وجہ سے آج سی او صاحب نے میری ایسی لی ہے کہ کیا بتاوں”عثمان نے بیڈ پہ نیم دراز ہوتے ہوئے کہا تو احسان چونکا۔عثمان نے فیصلہ کیا کہ کھانا کمرے میں ہی کھا لیا جائے اور کچن میں فون کردیا۔ اس کے بعد کھانا آنے تک اس نےدودن قبل کی ساری روداد سُنا ہی ڈالی۔ اس کے بعد احسان کا ایک طویل "بھاشن” شروع ہو گیا۔ یہاں اُس نے چند پیش گوئیاں بھی کیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ یہ بلنڈر عثمان کے کیرئیر کے لئے خطرناک بھی ہو سکتا ہے جسے عثمان نے "ایک دم فضول” کہہ کر جھٹک دیا۔
احسان کی اس پیشن گوئی کو درست ثابت ہونے میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگا۔ اگلے ہی روز نیول سیکریٹیریٹ اور کمانڈر کراچی سے خبریں ملیں کہ کمانڈر حنیف واہلہ اور لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی سے فرداً فرداً وقوعہ کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عثمان کو ایک طویل عرصے تک دامن بچا کر وقت گزارنا تھا۔خود یونٹ میں سی او صاحب کے غیض و غضب سے بچ کر رہنا بھی بڑا مشکل تھا۔اب متوقع تھا کہ ہفتے بھر میں بورڈ آف انکوائری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سی او صاحب نے آج مغرب کی نماز کے بعد مسجد فرقان میں تبلیغی بیان سُننے کے لئے تمام افسران کو نماز کی جماعت میں آنے کی ہدایت کی تھی لہٰذا عثمان کو بھی نماز مغرب کے بعد ناصرف بیان سُننا پڑا بلکہ افسران کی سوالیہ اور قہرمانہ نظروں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اگرچہ جمعے کے خطبات کا موضوع نیول ہیڈکوارٹر کے نظامتِ تعلیماتِ اسلامی کے ڈائریکٹر کی طرف سے منتخب ہوتا تھا لیکن "بیان” میں عموماً خطیب صاحبان کو آزادی ہوتی تھی اور صبور صاحب اور ان کے ہم خیال خطیب صاحبان تو اکثر "لادین حکمرانوں” کو لعن طعن کا نشانہ بناتے تھے۔ آج کے بیان کے بعد مسجد کے باہر افسران کچھ دیر کے لئے ٹولیوں اور گروہوں میں باہمی دلچسپی کےموضوعات پر باتیں کر رہے تھے تو عثمان بھی ایک ٹولی میں ہو لیا جس میں دو رینکر افسر اور سب لیفٹیننٹ اسد، چیف صبور صاحب کے فرامین سُن رہے تھے۔
اگرچہ جمعے کے خطبات کا موضوع نیول ہیڈکوارٹر کے نظامتِ تعلیماتِ اسلامی کے ڈائریکٹر کی طرف سے منتخب ہوتا تھا لیکن "بیان” میں عموماً خطیب صاحبان کو آزادی ہوتی تھی
"سر یہ سب کفار کی سازشیں ہیں کہ مسلمانوں کو باہم لڑاو، ورنہ ہمیں جن لوگوں کے خلاف لڑایا جا رہا ہے، یہ وہی قبائلی نہیں ہیں جن کے جذبہء حُب الوطنی کے پیشِ نظر ایک عرصہ تک افغان سرحد کے دفاع کی ہمیں فکر تک نہیں ہوتی تھی؟۔۔۔ سر، اُن کے ساتھ پوری دُنیا سے ہمارے مسلمان بھائی اپنے گھر بار ، کاروبار چھوڑ کر اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے جہاد میں شامل ہیں اور بحمداللہ وہ ہمارے بھائی ہیں اور وہ افغانستان میں امریکی استعمار کے خلاف جہاد کر رہے ہیں، اُنہیں ہم سے کوئی دُشمنی نہیں ہے، ہماری سرزمین تو ان کو پناہ فراہم کر رہی ہے جو کہ کفار کو گوارا نہیں ہے۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو عقل دے کہ وہ امریکا سے ڈالر لے کر ہمارے مسلمان بھائیوں سے نہ لڑیں” صبور صاحب بڑی رازداری سے کہہ رہے تھے۔
"چیف صاحب، کیوں ناں ہم بھی ان نادان حکمرانوں کی پہنائی ہوئی وردیاں اُتار کر اللہ کی راہ میں پہاڑوں میں نکل جائیں کلاشنکوف اُٹھا کر۔۔۔۔” عثمان نے ناگواری سے کہا تو ایک بار ان سب پر خاموشی چھا گئی لیکن اسد نے جلدی سے موضوع بدل دیا جس کے بعد چند منٹوں میں یہ ٹولی منتشر ہو گئی۔
چیف خطیب صبور کی اضافی ڈیوٹی یہ بھی تھی کہ ہر ہفتے کی شام ایڈمرل سعیداللہ کے بنگلے پر جا کر ان کی اہلیہ اور صاحبزادی کو درسِ قرآن کے حوالے سے سبق دے آئیں۔ آج کے درس کے بعد حسبِ معمول چائے کے کپ پر ادھر اُدھر کی "دین کی باتیں” ہونے لگیں تو خطیب صاحب اپنے مافی الضمیر پر آئے۔
"دیکیھیں باجی، اللہ معاف کرے، ایڈمرل صاحب، سعیداللہ صاحب جیسے خُدا رسیدہ جرنیل تو اب کم ہی کہیں نظر آتے ہیں ورنہ جو بے دینی پھیل گئی ہے افسران میں، کیا بتاوں۔ نوجوان افسر شاموں کو گٹار اور وائلن لے کر میسوں کے کمروں میں شیطانی ناچ گانے سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ کچھ افسران میں تو دُنیا داری اور غرور کا یہ عالم ہے کہ آخرت کی فکر نہیں ہے، بات کرتے ہیں تو دین کی آبرو دیکھتے ہیں نہ کسی سُنّت کا لحاظ۔۔۔” اور یوں بات بآسانی لیفٹیننٹ عثمان اور حافظ ناصر کے واقعے کی طرف چلی گئی۔ حمید رائٹر کے بطورِ سزا تبادلے کا قصہ بھی اسی داستان کی ایک کڑی تھی۔
"خطیب صاحب ۔۔۔ آپ کے یونٹ میں بھی ایسا ہو تا ہے، آپ کچھ کہتے نہیں ہیں کسی کو؟؟” ایڈمرل صاحب کی اہلیہ نے حیرت سے کہا۔
"نہیں باجی، ہم کسی کو کیا کہہ سکتے ہیں۔ دین کی بات ہے، جو مان لے، جو نہ مانے، کسی پہ جبر نہیں ہے۔۔۔” خطیب صاحب نے کمال عاجزی کا اظہار کیا تو مسز سعید اللہ نے اُنہیں شہہ دی کہ فوراً ایڈمرل صاحب سے بات کریں اور اُنہیں حالات سے آگاہ کریں۔ خطیب صاحب کی بن آئی کہ اسی دوران ایڈمرل صاحب بھی ڈرائینگ روم میں وارد ہو چکے تھے۔
"میں آج ہی واہلہ سے بات کرتا ہوں۔۔۔ کمال ہے، اُس نے مجھے بتایا ہی نہیں ان واقعات کا۔۔۔ میں اپنی کمانڈ کے کسی یونٹ میں ایسی حرکت برداشت نہیں کر سکتا” ایڈمرل سعید اللہ نے ایک لمحے کے لئے اپنی برقی تسبیح سے اُنگلی اُٹھا کے زور زور سے ہلاتے ہوئے کہا۔
"میں آج ہی واہلہ سے بات کرتا ہوں۔۔۔ کمال ہے، اُس نے مجھے بتایا ہی نہیں ان واقعات کا۔۔۔ میں اپنی کمانڈ کے کسی یونٹ میں ایسی حرکت برداشت نہیں کر سکتا” ایڈمرل سعید اللہ نے ایک لمحے کے لئے اپنی برقی تسبیح سے اُنگلی اُٹھا کے زور زور سے ہلاتے ہوئے کہا۔
وہ ابھی میس کے دروازے پر ہی تھا کہ گارڈروم سے، جو کہ ایک سو گز کے فاصلے پر ہو گا، ایک فلک شگاف دھماکے کی آواز آئی اور ساتھ ہی اسے اتنی قوت سے گرم ہوا کا تھپیڑا لگا کہ وہ گرتے گرتے بچا۔
اگلے دو تین دروسِ قرآن تک غازی صاحب کے حکم سے بلوچستان بھیجے جانے والے سیلرعبدالحمید کا تبادلہ خصوصی احکامات کے ذریعے اس کے آبائی علاقے سکھر کے نیول سلیکشن سنٹر ہو چکا تھا۔
اتوار کا دن ایک بار پھر آیا لیکن آج عثمان کو معمول سے بدیر سہی لیکن اتوار کے معمول سے پہلے ہی جاگنا پڑ گیا کہ آج اس کو آفیسر آف دا ڈے کے طور پر ڈیوٹی کرنا تھی۔ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب وہ وردی پہن کر گارڈ روم پہنچا اور معمول کے چند کاغذات دیکھ کر دفتر میں بیٹھ گیا۔ چھُٹی کے روز آفیسر آف دا ڈے کے ذمہ کچھ زیادہ کام کاج نہیں ہوتے لہٰذا وہ اپنے ساتھ مارکیز کا ایک چھوٹا سا ناول لے آیا تھا جس میں کولمبیا کی بحریہ کے ایک سیلر کے دس دن سمندر میں تن تنہا ایک لائف بوٹ میں گزارنے کی روداد ہے۔ دوپہر کے کھانے سے پہلے تک وہ اسے پڑھ چکا تھا۔ کھانے کے لئے جانے سے پہلے وہ گارڈروم کے تمام سنتریوں سے ملا اور اُس نے سب سے فرداً فرداً اُن کے مورال اور دستیاب سامان کے بارے میں پوچھا۔ انہیں معمول کی ہدایات دے کر وہ واپس لوٹا۔ وہ ابھی میس کے دروازے پر ہی تھا کہ گارڈروم سے، جو کہ ایک سو گز کے فاصلے پر ہو گا، ایک فلک شگاف دھماکے کی آواز آئی اور ساتھ ہی اسے اتنی قوت سے گرم ہوا کا تھپیڑا لگا کہ وہ گرتے گرتے بچا۔
"Feck!!!!” گھبراہٹ میں وہ بڑبڑایا اور سر پر پاوں رکھ کر گارڈروم کی طرف بھاگا جہاں دھوئیں، آگ، سنتریوں کے چلّانے کی آوازوں کا عجیب سا بے ہودہ ملغوبہ تھا۔ ساتھ ہی رائفل جی تھری کے فائر کی دھاڑ دھاڑ بلند ہوئی۔ گارڈ روم کی عمارت دھوئیں میں دھندلی نظر آرہی تھی اور ہیولے ادھر اُدھر دوڑتے نظر آ رہے تھے۔ خان زمان واحد شخص تھا جسے وہ فوری طور پر پہچان سکا۔ خان زمان نے دھڑا م سے مین گیٹ بند کیا تو دھوئیں کے بہت سے مرغولے ہوا میں بلند ہو چکے تھے، گرد اور مٹی کا طوفان بیٹھ رہا تھا اور آس پاس کی کچھ آتش گیر چیزیں جل رہی تھیں۔
"سر پلیز آپ وہیں رُکیں، ہم سب ٹھیک ہیں” خان زمان کی آواز ہی اُسے چلّانے کی دیگر آوازوں میں سمجھ آسکی۔ اسی اثناء میں پیچھے سے یونٹ کے چند اور باوردی اور سفید پوش لوگ دوڑے چلے آئے تو عثمان نے انہیں چلّا کر واپس بھیج دیا۔
"سر پلیز آپ وہیں رُکیں، ہم سب ٹھیک ہیں” خان زمان کی آواز ہی اُسے چلّانے کی دیگر آوازوں میں سمجھ آسکی۔ اسی اثناء میں پیچھے سے یونٹ کے چند اور باوردی اور سفید پوش لوگ دوڑے چلے آئے تو عثمان نے انہیں چلّا کر واپس بھیج دیا۔
"خان زمان، دروازہ کھولو۔۔۔” وہ چلّایا لیکن خان نے سُنی ان سُنی کردی۔ اسی لمحے عثمان نے غور سے دیکھا تو خان زمان کے چہرے کی جلد ایک طرف سے اُڑ چُکی تھی اور ووہ خون میں لت پت تھا۔ عثمان نے لپک کر گیٹ کھولا تو دوسری جانب ایک ہجوم دیکھا۔وہ لوگ ایک زخمی کو اُٹھا کر اندر کی طرف بھاگے آرہے تھے۔زخمی کے جسم پر تار تار، خون آلود وردی تھی اور اس کے چہرے کی شناخت ممکن نہ تھی۔ اسی لمحے عثمان کا سر چکرانے لگا اور وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ ادھر اُدھر بھاگتے ہوئے افسرو جوان اور دھماکے سے چھلنی درخت اور عمارتیں اس کے گرد گھومنے لگیں۔ اُس نے خود کو بمشکل سنبھالا۔
عثمان نے لپک کر گیٹ کھولا تو دوسری جانب ایک ہجوم دیکھا۔وہ لوگ ایک زخمی کو اُٹھا کر اندر کی طرف بھاگے آرہے تھے۔زخمی کے جسم پر تار تار، خون آلود وردی تھی اور اس کے چہرے کی شناخت ممکن نہ تھی۔
"چیف صاحب۔۔”وہ ڈیوٹی پیٹی افسر پر چلّایا لیکن ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کے انجن کے شور کی آواز میں اس کی آواز دب گئی۔ دوبارہ چیخ کر آواز دینے پر پیٹی افسر سلیم اللہ قریب آیا۔ وہ بھی معمولی زخمی تھا۔
"سر خود کش حملہ تھا، تین لوگ زخمی ہیں، سب کچھ کنٹرول میں ہے "وہ اونچا اونچا بول رہا تھا اور اپنے ہاتھ میں پسٹل کارل والتھر لہرا رہا تھا جو کہ بحریہ کے افسروں کا Side Arm ہے۔ "سلیم اللہ، جلدی سے زخمیوں کو ہسپتال پہنچاو۔۔۔”عثمان نے زخمی پیٹی افسر کو حکم دیا۔
"خان زمان۔۔” پھر اُس نے پوری قوت سے خان زمان کو آواز دی تو جواباًایک کراہتی ہوئی "سر۔۔۔” کی آواز آئی۔
"جلدی سے زخمیوں کو ایمبولینس میں ڈالو اور خود بھی بیٹھو۔۔۔ جاو، پی این ایس راحت” اُس نے حُکم دیا۔ پی این ایس راحت یہاں سے قریب ترین نیول ہسپتال تھا۔ اس کے بعد وہ سب سے اگلی مشین گن پکٹ کی طرف بھاگا جو کہ مشین گن سنتری کے زخمی ہونے کی وجہ سے خالی پڑی تھی۔ اُس نے لپک کر مشین گن اُٹھا لی اور یونٹ کی طرف جانے والے راستے کی طرف بھاگا۔
"جلدی سے زخمیوں کو ایمبولینس میں ڈالو اور خود بھی بیٹھو۔۔۔ جاو، پی این ایس راحت” اُس نے حُکم دیا۔ پی این ایس راحت یہاں سے قریب ترین نیول ہسپتال تھا۔ اس کے بعد وہ سب سے اگلی مشین گن پکٹ کی طرف بھاگا جو کہ مشین گن سنتری کے زخمی ہونے کی وجہ سے خالی پڑی تھی۔ اُس نے لپک کر مشین گن اُٹھا لی اور یونٹ کی طرف جانے والے راستے کی طرف بھاگا۔
"خبردار، کوئی اس طرف نہ آئے۔۔۔” اُس نے سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر باہر کی طرف سے آنے والے لوگوں کو روک لیا۔ کچھ دیر میں ایک سیلر نے آگے بڑھ کر اُس سےمشین گن لے لی اور نیول پولیس نے تمام علاقے کا گھیراو کر لیا ساتھ ہی سی او صاحب اپنی نیلی ٹویوٹا جیپ پر آدھمکے۔ وہ سفید شلوار قمیص میں تھے، سر پر نماز کی سفید ٹوپی تھی اور ایک ہاتھ میں ڈیجیٹل تسبیح جبکہ دوسرے ہاتھ میں موبائل فون تھامے ہوئے تھے۔پھر کیا تھا، کچھ دیر کو کمانڈر کراچی کے سٹاف افسران، نیول پرووسٹ مارشل، مقامی ڈائریکٹر نیول انٹیلی جنس اور نجانے کون کون سے افسر وہاں آدھمکے۔ میرینز کے جوانوں کا ایک دستہ مختلف پوزیشنوں میں جائے وقوعہ پر ڈیپلائی ہو گیا۔
رات کو پریڈ گراونڈ میں سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ایک تابوت لایا گیا جس میں لیڈنگ میوزیشن گلفام مسیح کا جسدِ خاکی رکھا گیا تھا۔ اسے ایمبولینس سے اُتار لیا گیا۔ گلفام مشین گن سنتری تھا اور شدید زخمی ہونے کے بعد پی این ایس راحت میں دم توڑ گیا تھا۔ افسر اور جوان ایک قطار میں کھڑے باری باری تابوت کے پاس آتے، فلڈ لائٹ کی روشنی میں اس کا دیدار کرتے، شہید کوسلیوٹ کرتے اور آگے بڑھ جاتے۔ ایڈمرل سعید اللہ کا انتظار کیا جارہا تھا جنہوں نے ابھی شہید کا دیدار کرنا تھا۔ چیف صبور بھی یہاں موجود تھے اور لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی کی جو شامت آئی تو اُنہوں نے سی او صاحب کو مشورہ دیا کہ چیف صبور سے کہیں کہ جب تک ایڈمرل صاحب آتے ہیں، خطیب صاحب فلسفہء شہادت پر قرآن و حدیث کی روشنی میں جوانوں سے خطاب کریں۔ اس سے بھی بُرا یہ ہوا کہ لیفٹیننٹ عثمان نے ،جو ساتھ ہی کھڑا تھا، اس کی تائید کردی۔”شٹ اَپ۔۔۔” عثمان کو تو واضح سا جواب مل گیا لیکن غازی صاحب کو دھیمی آواز میں خوب سُنائی گئیں۔
"سرایک غیر مُسلم کی میت پہ یہ خُطبہ دلوانے کا سوچ رہے ہیں آپ؟ کہیئے تو نمازِ جنازہ بھی پڑھوا دوں؟؟” سی او صاحب بہت بُرے موڈ میں تھے۔
سر پھر میرا مشورہ یہ ہے کہ مرحوم لیڈنگ کے لئے شہید کا لفظ بھی استعمال نہ ہونے دیں۔۔۔” غازی صاحب نے سخت ناگواری سے لیکن بہت دھیمی آواز میں کہا۔
"اور عثمان صاحب کا کیا ہے، اُسے تو شوق ہے کہ شعائرِ اسلام کا مذاق اُڑایا جائے” سی او صاحب نے الفاظ چباتے ہوئے کہا تو غازی صاحب کو بہت بُرا لگا۔
"سر پھر میرا مشورہ یہ ہے کہ مرحوم لیڈنگ کے لئے شہید کا لفظ بھی استعمال نہ ہونے دیں۔۔۔” غازی صاحب نے سخت ناگواری سے لیکن بہت دھیمی آواز میں کہا۔اس سے پہلے کہ کمانڈر حنیف واہلہ اُنہیں کوئی جواب دیتے، افسروں کے مجمعے میں ہلچل ہوئی اور ایک افسر نے بڑھ کر انہیں ایڈمرل سعیداللہ کی آمد کی خبر دی۔ ایڈمرل سعیداللہ وردی میں تھے۔ چھوٹی قامت اور دھان پان سی جسامت کے۔ ان کی ڈاڑھی سفید اور اتنی بڑھی ہوئی کہ ان کی ظاہری شخصیت کا نمایاں ترین حصہ لگ رہی تھی۔ کمانڈر واہلہ نے آگے بڑھ کر اُنہیں سلیوٹ کیا اور پھر بہت نیازمندی سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔ پھر ایڈمرل صاحب ، اپنے مصاحبوں، ذاتی محافطوں اور دیگر افسران کے جلو میں شہید سیلر کے تابوت کی طرف بڑھے۔ قومی پرچم کا پلّو ہٹایا گیا جس کے نیچے شہید کا سانولا چہرہ سفید چادر اور سفید پٹیوں میں ٹھیک طرح سے نظر نہیں آرہا تھا۔ ایڈمرل صاحب نے ایک چُست سا سلیوٹ کیا اور اپنے ہاتھ سے پرچم کا پلّو دوبارہ شہید کے چہرے پر ڈال دیا۔ ساتھ ہی شہید کا بھائی ،جو سندھ پولیس کی وردی میں ملبوس پاس کھڑا تھا، آگے بڑھا اور اُسے ایڈمرل صاحب سے تعارف کروایا گیا۔
"اے ۔ایس ۔آئی شبّیر کھوکھر، سندھ پولیس، سر”لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی نے اُس کا نام پُکارا تو اُس نے ایڈمرل صاحب کو سلیوٹ کیا۔
"شبّیر بیٹا، تُم بھی اس مُلک کے سپاہی ہو، اپنا حوصلہ بُلند رکھو۔۔۔ یہ بڑی عظیم قُربانی ہے جو تُم نے دی ہے اس مُلک کے لئے۔۔۔” ایڈمرل صاحب نے اس کا شانہ تھپتھپایا تو وہ سسکیاں لے کر رونے لگا۔ لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے اُسے اپنی طرف کھینچ کر گلے لگا لیا۔ غازی صاحب اسے دلاسہ دیتے جا رہے تھے اور وہ ہچکیاں لے لے کر روئے جارہا تھا۔
اگلے چند روز عثمان کے لئے بہت کڑے ثابت ہوئے۔ ایک تو اس واقعے کے نتیجے میں شدید صدمے کی حالت نے اُس کی نیندیں اُڑا رکھی تھیں پھر بورڈ آف انکوائری کے سوالوں کا سامنا اور بھی مشکل تھا، جس کا اہتمام کمانڈر کراچی ہیڈکوارٹرز میں تھا۔ وہ ہر رات دیر سے تھکا ہارا بستر پہ آ گرتا تو تھکن اور نیند کے درمیان از حد کربناک لمحوں کا فاصلہ ہوتا تھا۔
اگلے چند روز عثمان کے لئے بہت کڑے ثابت ہوئے۔ ایک تو اس واقعے کے نتیجے میں شدید صدمے کی حالت نے اُس کی نیندیں اُڑا رکھی تھیں پھر بورڈ آف انکوائری کے سوالوں کا سامنا اور بھی مشکل تھا
"تم نے اس واقعہ سے ایک ہفتہ قبل ملنے والا ‘Threat Warning’ کا مراسلہ پڑھا؟ اگر پڑھا تو کیا اقدامات کیے یا کن اقدامات کی سفارش کی؟ واقعے کے روز صبح تم نے ڈیوٹی سنبھالنے سے پہلے موجودہ سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا؟ اگر لیا تو کیا اقدامات کیے؟” وغیرہ جیسے سوالات، بلکہ لیفٹیننٹ کمانڈر غازی کے الفاظ میں "چوتیا سے سوالات” کا سامنا کر کے اسے یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید وہ اس واقعے میں خودکش بمبار سے بھی بڑا مجرم تھا۔ آگے بڑھتے ہوئے خودکش حملہ آور کو گولی مار کراُڑانے والا ڈیوٹی پیٹی افسر اور مشکوک حملہ آور کی نشاندہی کرنے والا پیٹی افسر خان زمان اسپتال میں پڑے تقریباً اسی طرح کے سوالات کا سامنا کر رہے تھے۔ انکوائری میں تیس کے قریب شاہدین تھے جن میں حافظ ناصر بھی شامل تھا۔
"عثمان! تم انٹیلی جنس کی شدید نگرانی میں ہو لہذا میں تم سے لمبی بات نہیں کرسکوں گا البتہ ایک اہم اطلاع تمہیں دینا ہے، آس پاس رہنا” لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی آج صرف اتنی بات کہنے کے لیے بالخصوص آفیسرز میس میں چائے پینے، چائے کے وقفے میں آئے تھے۔
عثمان اپنے دفتر اور کمرے کی حد تک محدود ہو گیا تھا اور وہ جہاں کہیں بھی جاتا، کوئی نیول انٹیلی جنس والا اس کے آگے پیچھے سائے کی طرح منڈلاتا رہتا تھا۔ ڈھائی تین بجے کا عمل ہو گا جب اسے ایک سفید چٹ ملی جو ایک سیلر نے اس کی میز پر رکھ چھوڑی تھی۔
“Cleansing Station” لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی کے ہاتھ سے لکھا ہوا پڑھ کر اسے سمجھ آ گئی۔ وہ تیزی سے اٹھا اور آفیسرز کے واش رومز کی طرف بڑھا۔ اندر آئینے کے سامنے لیفٹیننٹ کمانڈر غازی کھڑے سگریٹ پی رہے تھے۔
"
"
اوٹومین” انہوں نے اسے دیکھتے ہی آہستہ سے کہا۔
"کمانڈر کراچی کو گورنمنٹ اور نیول چیف کی طرف سے ڈنڈا آیا ہوا ہے کیونکہ سامنے والے پلازے کے سی سی ٹی وی کیمرا میں بم دھماکے کی ویڈیو آ گئی تھی اورایک ٹی وی چینل نے اس روز کوئی پچاس بار دکھا دی تھی۔ اب کمانڈ کو قربانی کا بکرا چاہیے، اور شاید سی او صاحب بھی تمہاری پتلون بچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کریں گے” ساتھ ہی انہوں نے سگریٹ پھینکی اور اسے بوٹ کی نوک سے مسل کر باہر نکل گئے۔
عثمان تھوڑی دیر بعد نکلا اور دفتر میں جا بیٹھا۔ انٹیلی جنس کا آدمی کچھ فاصلے پر واقع ماسٹر ایٹ آرمز کے دفتر میں بیٹھا تھا اور شاید اس کے واش روم کے دورے سے بے خبر تھا۔ اگلے ایک گھنٹے تک وہ مسلسل سگریٹ پیتا رہا اور شدید غصے کے عالم میں خودکلامی کرتا رہا۔
عثمان تھوڑی دیر بعد نکلا اور دفتر میں جا بیٹھا۔ انٹیلی جنس کا آدمی کچھ فاصلے پر واقع ماسٹر ایٹ آرمز کے دفتر میں بیٹھا تھا اور شاید اس کے واش روم کے دورے سے بے خبر تھا۔
"لیفٹیننٹ عثمان! کیا یہ انٹیلی جنس رپورٹ غلط ہے کہ سیلرز تمہاری لیڈرشپ سے خوش نہیں تھے؟! تمہارے خلاف توہین مذہب کی بنیاد پر درخواست بھی نیول انٹیلی جنس کو دی گئی تھی؟!”
اگلے روز جب بورڈ آف انکوائری نے یہ سوال داغا تو ایک بار تو وہ جل کر رہ گیا۔
"سر کچھ ایسا نہیں تھا، ایک سیلر کو شکایت تھی جو بعد میں رفع کر دی گئی” عثمان نے ٹالنے کے انداز میں کہا۔
"کیا تم بتاؤ گے کہ کیا شکایت تھی؟” ایک خضر صورت بزرگ افسر نے نرمی سے پوچھا۔
"کیا تم بتاؤ گے کہ کیا شکایت تھی؟” ایک خضر صورت بزرگ افسر نے نرمی سے پوچھا۔
"شکایت۔۔۔” عثمان نے آہستگی سے کہا لیکن اسے لگا کہ غصے سے اس کا دماغ شاید ابل پڑے گا۔ دراصل گزشتہ چند روز سے وہ جس صدمے کی حالت میں تھا، وہ کسی سے اس کا اظہار بھی کرنے سے کترا رہا تھا کہ مبادا اسے بزدلی سے تعبیر کر لیا جائے۔
"سر، میں نے اسے میس ڈسپلن توڑنے پر کچھ بارکنگ دی تھی، جس کا اس نے غلط مطلب لے لیا اور خطیب صاحب سے شکایت کر دی” عثمان نے کمال ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا۔
"عثمان صاحب، معاملات انٹیلی جنس تک یونہی نہیں پہنچتے” نیول انٹیلی جنس کے ایک افسر نے طنزیہ اور ترش لہجے میں کہا تو عثمان کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا۔
"کیا پہنچتا ہے نیول انٹیلی جنس تک؟! خوب جانتا ہوں صاحب، بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں اس وقت اپنی یونٹ کے شہیدوں کے سوگ کی حالت میں ہوں اور آپ کو یہ فکر ہے کہ میں نے ایک سیلر کو گانڈو چپل پہننے پہ کیوں ڈانٹا؟” عثمان کی آواز واضح طور پر بلند اور لہجہ تلخ ہو گیا جس پر تمام افسران چونکے۔
"دہشت گردی کی جنگ ہمارے گارڈ روم تک پہنچ چکی ہے، اور تم ابھی تک سبق سیکھنے کی بجائے چوتیا قسم کی الجھنوں سے انٹیلی جنس رپورٹیں بھر رہے ہو!! فلاں لفٹین نے فلاں مولوی کو بل شٹ ماری ہے، فلاں چیف بوسن میٹ جہاز سے پینٹ کا ڈبہ اٹھا کر لے گیا اور بیٹے کی سائیکل رنگ کر دی، فلاں پیٹی افسر لونڈے باز ہے اور فلاں لیڈنگ صاحب کی شاعری اخبار میں چھپی ہے! یہ باتیں پہنچتی ہیں نیول انٹیلی جنس تک؟؟؟ ۔۔۔” اب تو غصے سے اس کے منہ سے جھاگ بہنے لگی تھی۔
"شٹ اپ!!” انٹیلی جنس افسر خان بیگ نے اسے بکواس بند رکھنے کا حکم دیا لیکن عثمان نے ہاتھ لہرا کر یہ حکم مسترد کر دیا۔
"نیول انٹیلی جنس صاحب! ہمارے جوان مر رہے ہیں، اور ہم جنگ کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ اس لیے کہ ہم کنفیوز ہیں۔ ہمارے درمیان جو لوگ اپنے دشمن کی محبت میں مبتلا ہیں، ہمیں ان کی شناخت نہیں ہے۔ جنگ میں لیفٹننٹ عثمان جیسے بدنظم افسر نقصان کا باعث ہوتے ہیں یا وہ لوگ جو سپاہیوں کو بلٹ پروف جیکٹ پہنانے کی بجائے ایک دعا لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے ہیں کہ اب وہ بچ جائیں گے؟؟ اور جب کوئی کرسچن سپاہی حسب حکم وہ تعویز گلے میں ڈال کر بھی مارا جاتا ہے تو وہ لوگ اسے شہید تک نہیں سمجھتے کہ وہ اس دعا پہ یقین نہیں رکھتا تھا” عثمان نے یہ کہا تو افسران کے چہروں پر واضح طور پر شدید بے چینی کے تاثرات تھے کہ وہ اس بات کا پس منظر اچھی طرح جانتے تھے۔
نیول انٹیلی جنس صاحب! ہمارے جوان مر رہے ہیں، اور ہم جنگ کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ اس لیے کہ ہم کنفیوز ہیں۔ ہمارے درمیان جو لوگ اپنے دشمن کی محبت میں مبتلا ہیں، ہمیں ان کی شناخت نہیں ہے۔
"عثمان، بکواس بند کرو” لیفٹیننٹ کمانڈر غازی جو آج کسی انتظامی معاملے میں بورڈ کی میٹنگ میں شریک تھے اور کافی دیر سے چپ بیٹھے اسے آنکھوں کے اشاروں سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے تھے، پھٹ پڑے۔
"کیا بک بک لگا رکھی ہے تم نے، جو بات پوچھی جائے، اسی کا جواب دو” غازی صاحب نے کافی اونچی آواز میں کہا تو سینئر ترین بورڈ ممبر نے اُنہیں ہاتھ کے اشارے سے خاموش کرا دیا۔
"Carry on Osman!”سینئیر ترین بورڈ ممبر نے کہا لیکن عثمان چُپ سادھ چکا تھا۔ تمام ممبران نے ہاتھوں سے قلم رکھ دئیے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ عثمان کی نظریں میز پر گڑ ی تھیں۔کچھ دیر تک ہال پہ خموشی چھائی رہی اور یہی خاموشی اصل طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
"لیفٹیننٹ عثمان، دُشمن سے محبت میں مبتلا لوگوں سے مُراد کون لوگ ہیں؟؟ آپ کے مطابق اس واقعے میں کیا انٹیلی جنس فیلیور تھی؟ آپ کے خلاف سروس افیئر کی درخواست کا کیا ہوا؟ سپاہیوں کے گلے میں دُعائیں لکھ کر لٹکانے والا کیا قصہ ہے؟؟” اور اس طرح کے کئی سوالات اُس سے پوچھے گئے۔لیکن انکوائری کا رُخ اب واضح سمت کو مُڑ گیا تھا۔
آخری میٹیریل گواہی جو آج کی بورڈ میٹنگ میں پیش ہوئی وہ اسلحہ خانے کا وہ رجسٹر تھا جس کے مطابق وقوعہ کے روز عثمان نے اپنا پستول نہیں لیا تھا جو کہ ضابطے کے مطابق اُسی کے پاس ہونا چاہیئے تھا۔
آخری میٹیریل گواہی جو آج کی بورڈ میٹنگ میں پیش ہوئی وہ اسلحہ خانے کا وہ رجسٹر تھا جس کے مطابق وقوعہ کے روز عثمان نے اپنا پستول نہیں لیا تھا جو کہ ضابطے کے مطابق اُسی کے پاس ہونا چاہیئے تھا۔
اس سے اگلے روزسروس افئیر کی درخواست کی انکوائری آغاز کرنے کا حُکم بھی منگوا لیا گیا جس کے لئے اگلے روز حافظ ناصر کو بھی حاضر کرنے کا سگنل عثمان کے یونٹ کو بھجوا دیا گیا۔
آج شام جو ایک چیز خلافِ معمول ہوئی، وہ یہ تھی کہ انٹیلی جنس کے ایک اہلکار کے علاوہ آفیسرز میس کے باہر نیول پولیس کا ایک سنتری بھی تعینات ہو گیا تھا۔ رات کے دس بجے عمومی طور پر تمام بارکوں اور رہائشی عمارتوں کی بتیاں گُل کردی جاتی ہیں اور تمام معمول کی سر گرمیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ اسے اصطلاحاً پائپ ڈاون کہا جاتا ہے۔ رات گئے جب پائپ ڈاون ہوئے کافی وقت بیت چُکا تھا، لیفٹیننٹ کمانڈر عدیل غازی اور کمانڈر حنیف واہلہ ایک پرائیویٹ نمبر پلیٹ والی ڈبل کیبن گاڑی میں آفیسرز میس پہنچے۔ ڈرائیونگ سیٹ پر انٹیلی جنس افسر خان بیگ سول کپڑوں میں بیٹھا تھا۔ لیفٹیننٹ کمانڈر غازی نے نیول پولیس کے سنتری کے سلیوٹ کے جواب میں اس سے مصافحہ کیا۔
"لیفٹیننٹ عثمان کا کمرہ کون سا ہے؟”اُنہوں نے پوچھا۔
"سات نمبر سر۔۔۔” سنتری نے مودب جواب دیا اور عدیل صاحب اوپر چلے گئے جبکہ کمانڈر واہلہ اور لیفٹیننٹ کمانڈر خان بیگ گاڑی سے نہیں نکلے۔ اسی دوران ڈیوٹی افسر لیفٹیننٹ تنولی بھی تیز قدموں سے چلتا ہوا میس سے نکلا۔
(جاری ہے)
Leave a Reply