یہ بات تو سچ ہے کہ کسی کی موت کی خبر کوئی واقعہ نہیں ہے۔ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور اپنی عملی زندگی میں اس کا نمونہ بھی خوب دیکھا ہے۔ ہزاروں موتیں ایسی ہیں جن کی خبر سن کر یہ خیال آیا ہے کہ ارے یہ شخص اتنی جلدی کیسے چلا گیا، پھر خود کو سمجھا بھی لیا ہے کہ جانے والے کو کون روک سکتا ہے۔ عزیز دوست چلے گئے، بھائی چلے گئے، خاندان والے چلے گئے، آخر ہم نے کیا کر لیا۔لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کی موت کی خبر ایک واقعہ بن کر آئی اور ایک کہانی بن کر زندگی کے معمولات میں گھل گئی۔ مثلاً مولانا اسید الحق کی موت کی خبر یاروف بھائی کے انتقال کی بات، آصف فرخی کے انتقال کی خبر بھی ایسی ہی ہے کہ یہ میری زندگی کے معمولات میں شامل ہو گئی ہے۔ کس طرح میں اس کی وضاحت کرتا ہوں۔ میں نے جن دوستوں اورعزیزوں کو کھویا ان سے میرا قلبی تعلق تھا اور وہ میرے نجی مسائل میں زندہ ہیں، جب ان کی ٹوکری کھلتی ہے تو وہ بھی ایک ایک کر کے سامنے آنے لگتے ہیں۔ اسی طرح خاندان والوں کا معاملہ ہے۔ لیکن علم و ادب میں دن رات غرق رہنے والی وہ عظیم ہستیاں جن کا تعلق میری کل وقتی فکر سے ہے، میں ان سے کسی لمحہ الگ ہو ہی نہیں پاتا، سوائے ان لوگوں کے جو ابھی با حیات ہیں۔ ان کے تعلق سے مجھے یہ محسوس ہوتا رہتا ہے کہ ان کا ہونا ہی ایک ایسی حقیقت ہے جو مجھے کسی پیچیدگی کا شکار نہیں ہونے دے گی۔ مثلاً اگر میں شمس الرحمن فاروقی کے متن کے ساتھ ہوں تو وہ مجھے نہیں الجھائے گا، کیوں کہ اس کے سلجھنے یا منشا و معیار کی تکنیک کو تراشنے والا ابھی بقید حیات ہے، لیکن اگر اسید صاحب کی کوئی تحریر ایسی ہوئی جس میں میں پھنس گیا تو وہ بالکل میرے سامنے آ کر کھڑے ہو جائیں گے اور میں بے بسی سے بس ان کا منہ تکا کروں گا کہ تا ویل کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہیں۔ اب یہ ہی معاملہ آصف فرخی کے ساتھ بھی ہے۔ میں بہت اطمینان میں تھا کہ میں نے آصف فرخی کو ابھی چند برسوں قبل دریافت کیا ہے۔ اسلم صاحب ابھی زندہ تھے، کچھ دنوں پہلے ہی ان کا ہاتھ چھوٹا ہے۔ لہذا آصف صاحب اپنی تحریروں کے ساتھ مجھ میں اتر رہے ہیں اور میں ان کے وجود کی گتھیوں کو خود میں گھلتا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔ اس میں کیا مظائقہ ہے کہ جہاں کوئی گانٹھ سخت ہوئی دو ہاتھ بھر کے فاصلے پہ ادیب اسے سلجھانے کے لیے موجود ہے۔ یہ کسی بھی شخص سے میرے بنیادی تعلق کی کڑی ہوتی ہے۔ پھر آصف صاحب کے ذیل میں اگلے عوامل بھی رو نما ہو رہے تھے۔ وہ اپنے افسانوں، مضامینوں، مکالموں کے ذریعے میرے دل کے نہاں خانے تک اتر رہے تھے۔ شناسائی تو اسی کا نام ہے کہ کوئی انجان راستے سے آئے اورآپ کے دل کی گہرائیوں میں اترتا چلا جائے، وہ شناسائی بھی کیا کہ بغل میں آباد ہیں اور سلام کلام تک کا مرحلہ ہے۔ آصف صاحب مجھ میں روشن ہونے کے عمل میں تھے۔ ان کی باتیں مجھے بہت حد تک مرزا حامد بیگ کی تحریریں بھی سمجھا دیا کرتی تھیں، یا وارث علوی کے خیالات۔ ایک لمبی ادیبوں کی فہرست ہے جن کے بازوں میں بازو جکڑائے وہ میرے وجود میں تحلیل ہوتے جاتے تھے۔
پھر وہ دن بھی آ گیا کہ جب ان سے ملاقات ہو گئی۔ سید کاشف رضا کو یاد ہے، جس برس وہ ہندوستان آئے تھے آصف فرخی بھی جشن ریختہ میں تھے۔ میں ان سے ملا ان کا چہرا کا فی دیر تک تکتا رہا جیسے میرے سامنے کی کرسی پر کوئی اور نہیں میرا اپنا ہی عکس ہو، جو شخصی اعتبار سے مجھ سے سر بلند ہو، جو میرے ہی خیال کا حصہ ہو کر مجھی پہ چھا رہا ہو۔ بھائی صاحب ساتھ تھے۔ ان سے بات چیت شروع ہوئی تو شروعات میں کچھ اکھڑے اکھڑے مزاج کے لگے، کچھ شہانہ انداز کہ بس انتظار حسین کی بات کا پورا جواب دیتے ہیں اور علی اکبر ناطق، اسد محمد خاں، بھائی صاحب اور مجھ پہ طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ ان کا وہ انداز نہیں بھولتا، پھر خالد اشرف بھی آگئے، وہ بڑھ بڑھ کر آصف صاحب کی موجودگی کو غنیمت جانتے ہوئے ان سے سوالات کرتے اور وہ اسی انداز میں جس سے ظاہراً بے رخی جھلکتی تھی جواب دیتے اور فوراً خاموش ہو کر کھڑکی کے باہر جھانکنے لگتے۔ تصنیف نے میرا تعارف کروایا تو کہنے لگے میں انہیں جانتا ہوں۔ میں نے آہستگی سے ان سے بات کرنا شروع کی دو ایک باتیں جس کا انہوں نے اسی طرح بے رخی سے جواب دیا اور خاموش ہو گئے۔ یہ بے رخی کیا تھی یہ اول ملاقات میں کیسے معلوم ہوتا۔ کیوں کہ یہ تو آصف فرخی کی ذات تھی۔ بعد اور بعداور ا س کے بھی بعد جب چار پانچ ملاقاتیں ہو گئیں، پھر فیس بک پہ اور کال پہ بات ہوئی تب معلوم ہوا کہ یہ شخص جو اپنی تحریروں میں بھی آہستہ آہستہ سلجھتا ہے اور اپنا مافی الضمیر دیر میں کھولتا ہے وہ اصل زندگی میں بھی ویسا ہی ہے۔
تقسیم کا نقصان کچھ کم نہیں اور اردو والوں کے لیے تو یہ غم آج بھی تازہ ہے۔ وہ تو بھلا ہو ریختہ کا کہ ہم نے آصف فرخی کی آنکھیں دیکھ لیں۔ تیسرے روز جب ادیبوں کے خاص پنڈال سے نکل رہے تھے تو میں باہر ہی ٹکرا گیا جلدی میں کہیں جا رہے تھے، مجھے دیکھا تو میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کہ بولے آپ کے والد ابھی یہیں تھے آپ کہا گھوم رہے ہیں۔ میرے جواب کی کیا اہمیت وہ تو بس آگے بڑھ گئے۔ پھر میں پنڈال میں داخل ہوا تو جشن ریختہ کے لیے دل سے دعا نکلنے لگی۔ چاروں طرف بڑے بڑے اردو، ہندی اور انگریزی زبان کے ادیب بیٹھے ہوئے تھے۔ ملک اور بیرون ملک کے۔ میں نے سب کو باری باری دیکھا جیسے وہ سب کوئی اور نہیں بلکہ میرے ہی وجود کے سائے ہوں، کہیں فاروقی، کہیں نارنگ، کہیں شمیم حنفی، کہیں خالد جاوید، کہیں گلزار اور کہیں واجپائی صاحب ان کے بالوں، کپڑوں اور بول چال نے مجھے چونکا دیا، منظر دھیرے دھیرے کشادہ ہوا تو محمد حمید شاہد، سید کاشف رضا اور دیگر ادیب بھی نظر آئے، اسی دوران ہمارا عظیم افسانہ نگار اور مدیر آصف فرخی پنڈال میں داخل ہوا اور ایسا لگا جیسے پنڈال مہکنے لگا ہو۔ مجھے وہ لمحہ نہیں بھولتا اور شاید زندگی بھر نہ بھولے۔
آصف فرخی ایک جادو کی طرح مجھ میں پائے جاتے تھے ایک انجانہ طلسم جو کاغذی پیراہن لیے ہوئے تھا اور اب وہ تصویر اور اوراق سے باہر زندہ بولتے چالتے میری آنکھوں کے سامنے تھے، مجھے لگا کہ شاید یہ شخص اپنی تحریر کا زینہ بنا کر میرے اندر اتر گیا ہے اسی لیے برسوں کا شناسا محسوس ہوتا ہے۔ وہ خواہ میری طرف بے رخی سے دیکھے اور خواہ سب سے روٹھا ہوا معلوم ہو، پھر بھی مجھ میں مسکرا رہا ہے۔ میرے لہو میں دوڑ رہا ہے اور شاید ہمیشہ جب جب میں افسانے کی بساط کھولوں گا یہ اسی طرح میرے سامنے آ موجود ہوگا اور شاید ان افسانوں کی بساط سے اس کا تعلق ہے جس کے ٹکڑے کو میں نے کبھی لپیٹا ہی نہیں۔ وہ میرے رو برو ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
پھر آصف فرخی پاکستان گئے اور دوبارہ ورچیول دنیا میں ان کا اور میرا رشتہ استوار ہو گیا۔ میں کوئی تحریر لکھتا تو انہیں ٹیگ کرتا کوئی کتاب آتی تو انہیں خبر دیتا۔ خواجہ میر درد والی کتاب کے ابتدایئے میں ان کے والد کے دو اقتباسات رکھنے کے لیے ان سے اجازت مانگی تو بہت خوش ہوئے۔ انہیں اپنی مضامین کی کتاب کا کور بھیجا تو شاباشی دی۔ ایسے خوش ہو کر میسج کیا گویا کوئی سر پرست پیٹھ ٹھونک رہا ہو۔ پھر وہ لمحہ بھی آ گیا جب میں نے اپنی چوتھی کتاب کے بیک کور کے لیے ان سے رائے کی التجا کی تو ان کا جواب آیا کہ بہت شکریہ میرے دوست مگر میں ان دنوں بیمار ہوں اس لیے لکھ نہیں سکوں گا۔ان کا یہ جواب ایک ماہ پرانا تھا میں نے ان کی صحت کے لیے دعا کی۔ مگر وہ دعا رنگ نہ لائی اور ایک ایسی خبر آئی جو میرے لیے نہ صرف واقعہ تھی، بلکہ انتہا درجے کی مایوس کہانی جو اس بار بھی آصف فرخی نے ہی لکھی تھی۔ وہ نہیں رہے۔ ان کے انتقال کی خبر مجھ پہ بجلی بن کر گری اور وہ بجلی میں بدن میں ہی کہیں ٹھہر گئی۔ میں جذباتی ہو گیا۔ ان کا خیال ذہن میں ابھرتا اور ان کی موت کے لمحوں کو روشن کر دیتا۔
آج جب وہ نہیں ہیں تو ان کا وجود مجھ میں سانس لینے کو تڑپ رہا ہے۔ میں اپنے اندر ہی ان کو تلاش کر تا ہوں، ان کی کتابیں کھولتا ہوں ان کے مضامین ٹٹولتا ہوں اور ان کے قائم بالذات ہونے کی دلیل تلاش کرتا ہوں، مگر وہ کہیں نہیں ملتے بس نظر آتا ہے تو اپنا ہی وہ سایا جیسے اس روزز جشن ریختہ میں بے رخی سے کھڑکی کے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا تھا۔