پھول تمہیں دیکھنے کو کھلتے ہیں
اپنے اپنے موسموں میں
اپنے اپنے ملکوں میں
سرحدوں پہ تعینات فوجیوں پر امام کی تقریریں بے اثر جاتی ہیں
وطن سے محبت اور شہید کا رتبہ
تمہارے خطوں سے افضل نہیں ہو سکتا
تمہارے خط
کچی مہندی اور کنواری رانوں کے مدھ بھرے سندیسے
امیدوں بھری صبحوں کی انگڑایوں اور بدن کاٹتی راتوں کی کروٹوں کے ملبے
نور محمد کو سونے نہیں دیتے
نور محمد
ایک فرض شناس ڈاکیہ
جو لفافوں کو تھوک اور انسانوں کو ملاوٹ سے پہچانتا ہے
جس کی رسوئی میں اناج کی بوریاں گل جاتی ہیں ختم نہیں ہوتی
سو نہیں سکتا
سنتالیس برسوں سے
چھتیس گاؤں اس کی ایمانداری اور نیک سیرتی کی قسمیں کھاتے آئے ہیں
روایتوں میں آتا ہے
نور محمد آخری کنوارہ ڈاکیہ تھا
جسے سلانے کو خود فرشتے آئے
جوابی حملوں میں جوانوں نے اپنے دل داغے
اور کفن میں پرچم کی جگہ تمہاری خوشبو پسند کی
Leave a Reply