• بظاہر ہم بہت سی باتوں کے متعلق محسوس کرتے ہیں کہ یہ ہی ہمارا جذبہ صادق ہے، لیکن کسی ایک خاص حالت میں پہنچنے کے بعد اس کے ابطال کا اندازہ ہمیں ہو جاتا ہے۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ انسان خود سے بے انتہا جھوٹ بولتا ہے، یا پھر اس با ت کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ انسان کی مختلف حالتوں کا سچ مختلف ہے۔ محبت کے معاملےمیں ایسا بہت ہوتا ہے اور اس کا علم ہمیں محبت کی مختلف کہانیوں سے ہی ہوپاتا ہے۔ اتالوکلوینو(Italo Calvino)جو اطالوی زبان کے ایک مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں ان کی کہانی چاند کی دوری اس کی اچھی مثال ہے۔اجمل کمال یا زینت حسام ان دونوں میں سے جس نے بھی ان کی کہانی سے قبل ان کے تعارف کے طور پر چند جملے لکھتے وقت اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ان کی افسانوی تحریروں میں قاری کی ملاقات ایک بے حد فراواں تخیل اور بیان پر بے پناہ گرفت سے ہوتی ہے ۔ اس سے مجھے مکمل اتفاق ہے۔ (بیان پر قدرت کی شدت اتنی تھی کہ وہ ترجمے کی صورت میں بھی زائل نہیں ہوئی۔)اس کہانی میں اتالو کلوینو نے محبت کے دو مختلف احساسات کو نہایت خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے۔ حالاں کہ ان دو محبتوں کے درمیان بھی مختلف النوع محبتیں پائی جاتی ہے۔ مثلاً مسز وحد وحد کا گونگے عم زادکو چاہنا، گونگے کاچاند کو چاہنا ، کشتی والوں کا پنیر یا دودھ کے ٹکڑوں کو چاہنا ، بوڑھے قفوفق کو کپتان کی بیوی، اس کے پستانوں ، کولہوں، بدن کی گدازی اور چاند کے ایک ماہ کے سفر (جو کہ مسز وحد وحد کے ساتھ مطلوب ہے) ان سب کو چاہتے ہوئے زمین کو چاہنا اور اپنے زمینی احساسات کے ادراک کو چاہنا۔ ان تمام چاہتوں سے اتالو کلووینو نے کشمکش سی بھری ہوئی انسانی نفسیات کی پیچیدہ گتھیوں کو دلچسپ کہانی کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ پھر احساسات کو پیش کرنے کے لیے چاند کے ان تاریخی دنوں کی کہانی گڑھنا بھی خوب ہے کہ جب چاند زمین سے بالکل ایسا لگا ہوا تھا جیسے ہمارے سروں پر گھر کی چھت۔ گونگا اور مسز وحد وحد اور قفوفق تواس کہانی کے جاندار کردار ہیں ہی ساتھ ہی کپتان کی وہ صورت حال بھی قابل توجہ ہے جس کے تحت وہ اپنی بیوی سے لا تعلق سا نظر آتا ہے۔ وہی مسز وحد وحد جن کے لمس کی حرارت کے لیے قفوفق اپنے عم زاد گونگے سے حسد کر رہا ہے اور اس کے پستانوں کی گھلاوٹ پہ مرا جا رہا ہے، اسی سے کپتان لا تعلق ہے۔ اس کے علاوہ کہانی کے مختلف موڑ بھی قابل توجہ ہیں جس کے تحت کہانی چاند سے شروع ہو کر محبت کے ایک نازک احساس پر ختم ہوتی ہے۔۔کہانی کا بنیادی خیال یعنی چاند کی زمین سے قربت اور اس کے بعد بتدیج دوری اتالوکلوینو کو سر جارج ایچ ڈارون George Howard Darwinجو چارلس ڈارون Charles Darwinکے بیٹے تھے ان کی تھیوری کے مطالعے سے آیا۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک زمانے میں چاند زمین سے بے حد قریب ہوا کرتا تھا، پھرسمندر کی لہروں نے اسے دور دھکیل دیا۔ حالاں کہ یہ ایک سائنسی اور تحقیق نکتہ ہے اور یقیناً اس برطانوی Astronomerکا اتا کلوینو کے عہد میں اٹلی میں چرچا شباب پر ہوگا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اتالو کلوینو نے ایک فلکیاتی مقدمے کو بیناد بنا کر کس خوبصورتی سے ادبی متن تراش لیا۔ایک ادیب واقعتاً ایسا ہی ہوتا ہے۔

• عام زن جرکسی امین مالوف کے مشہور ناول (Leo Africanus) کی تیسری کتاب کا دوسرا باب ہے۔ جس کا اردو ترجمہ محمد عمر میمن نے کیا ہے، عمر میمن نے اس ترجمے کی شروعات میں ایک مختصر سا تبصرہ اس کہانی کے متعلق کیا ہے جو عام زن جرکسی میں بیان کی گئی ہے۔ کہانی کے ترجمے سے قبل انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ جرکس شمال غربی قفقاض کے وہ قبائل تھے جو ہجرت کر کے ترکی شام اور اردن میں آباد ہو گئے۔قفقاض کا املا زیادہ تر قفقاز دیکھنے میں آیا ہے ،اسے انگریزی میں Caucasusکہتے ہیں۔(بشکریہ سید کاشف رضا) اسی قوم کی ایک حسین عورت کی کہانی اس ترجمے میں بیان کی گئی ہے۔ جس کا حسن نایاب ہے۔ حسن الوزان وہ جغرافیہ داں ہےجس کی آپ بیتی یہ ناول ہے۔ وہ اس جرکسی عورت سے اتفاقاً ملتا ہے، پھر ان دونوں میں دوستی ہو جاتی ہے۔ باب بہت مختصر ہے اس لیے عشق کے تمام مراحل بہت جلد طے ہوتے دکھائے ہیں ، جس سے بعض مقامات پر کہانی کے تاثر پر حرف آتا ہے ۔ناول کا بیانیہ الف لیلوی داستانوں جیساہے، کہانی میں عشقیہ داستان کے علاوہ جو قصے ہیں وہ بھی مشرقی داستانوں سے ملتے جلتے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امین مالوف نے عربی داستانوں سے استفادہ کر کے اس رنگ کو وضع کرنے کی کوشش کی ہے یا ممکن ہے کہ مترجم نے ترجمے میں اپنے حافظے کو داخل کیا ہو۔ کہانی پر مترجم نے نہایت عمدہ تبصرہ کیا ہے جس کے بعد اس کے عشقیہ تاثر پر کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔بقول عمر صاحب:

اس کہانی میں حسن نہ اپنے تغافل میں جرات آزما ہے ، نہ جسم و جاں کے تقاضوں کے اظہار میں مظاہراتی۔ دوسری طرف عشق اپنی بر انگیختگی میں توانا سہی ، بے وقار نہیں ۔ یہ توازن ہی اس کہانی کی جان ہے ۔ ایک دھیما پن ! ایک قابل برداشت اور اتنی ہی دل نواز حسرت زندگی کا حزنیہ احساس جو دشنام طرازی کی ادنا ترین کوشش کا بھی سزاوار نہیں ، عورت کی خود آگاہ سپردگی ! مرد کی بے وقار بے تابی ! زبان کی تلمیحی وسعت ، جس سے پیدا شدہ نت نئے تلازمے احساس کی رگ رگ میں ایک جاندار لمس کو جگا دیتے ہیں ! اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہاں تعلق خاطر یک طرفہ نہیں اور نہ ہی اس میں انائے بے جا کا گھمس ہے! بلکہ اس کی پرورش باھمی پاس داری کے ارفع ترین اصولوں پر ہوئی ہے۔ یہاں مرد عورت کو استعمال نہیں کر رہا، بلکہ جسم بڑی صحت مند بے قراری کے ساتھ اپنے ہم نفس کا جویا ہے۔ آخراً یہ زندگی کا اس کی تمام مہجوریو کا باوصف جشن ہے۔(ص:20، عمر میمن، آج :شمارہ نمبر 3۔)

کہانی میں صرف ایک مقام ایسا آتا ہے جب مصر کے اہراموں کی طرف سفر کرتے ہوئے ابن بطوطہ کے تذکرے پر جرکسی خاتون جس طرح قہقہہ لگاتی ہے وہاں کہانی کا عشقیہ تاثر متاثر ہوتا ہے اورایک نوع کی بے لاگ اور غارت گر ہنسی سے جرکسی خاتون کا تصور کہانی کے تسلسل سے الگ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ابن بطوطہ پر اس کی رائے سے اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ وہ جرکسی خاتون نہیں بلکہ حسن الوزان ایک جغرافیہ داں کی حیثیت سے ابن بطوطہ پر تنقید کر رہا ہے۔

ترجمے میں کہیں کہیں جملے ادھورے رہ گئے ہیں یا انہیں انشا یا پروف کی غلطی بھی کہا جا سکتا ہے۔ مثلاً:
وہ اس سیر سے کافی متاثر ہوتی تھی ، گو اس کی وجہ میری سمجھ نہ آسکی۔(ص:28)
صفحہ 27 پر بلسان کا ذکر آیا ہے جو ایک درخت کا نام ہے ، لیکن اس جگہ یہ بھی جملہ لکھا ہے کہ: وہ واحد درخت جس سے بلسان پیدا ہوتا ہے۔ گویا اس سےیہ بات واضح نہیں ہوتی کہ بلسان کوئی پھل ، پھول یا اسی طرح کی کوئی اور شئے ہے یا خود درخت ہے۔ حالاں کہ لغت کی رو سے بلسان ایک درخت ہوتا ہے جس سے ایک مخصوص روغن نکلتا ہے۔ جسے حکیم نفس کو موٹا اور لمبا کرنے کے لیے تجویز کرتے ہیں۔

• اس شمارے میں موجود محمدعمر میمن کا مضمون یا وہ جو بھی ہے جس کا عنوان”کولاژ،مونتاژ،اسمبلاژاور سبوتاژ” ہے ، میری سمجھ سے باہر ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ شمیم حنفی، شمس الرحمن فاروقی، وارث علوی یا ان کی نسل کے دیگر لوگوں کے لیے ہی لکھا گیا ہو۔ اس لیے غور کرنے کے با وجود کہ آخر یہ مجذوبا نہ باتیں ہیں کیا ، میرے پلے کچھ نہیں پڑا۔

• محمد سلیم الرحمن کی تحریر ایک نا مکمل ناول کے اوراق اگر آج میں شائع نہ ہوتے تو غالباً کسی اور پرچے میں بھی جگہ نہ پاتے۔ یہ میرا خیال ہے کہ آج میں اس نےاپنا صحیح مقام حاصل کیا۔ تنہا بھی اسے نہیں شائع کیا جا سکتا تھا کیوں کہ یہ کوئی باقاعدہ ناول نہیں ۔ جتنا اس وقت میرے پیش نظر ہے اتنا تو ہرگز نہیں ۔ لیکن یہ اس تحریر کا کمال ہے کہ اس کے مطالعے سے ایک مکمل ناول کا تاثر حاصل ہے۔ میں نے سلیم الرحمن کی چند ایک تحریریں اس ناول سے قبل بھی پڑھی ہیں ، لیکن ان کا اس طرح کا بیانیہ ان میں نہ تھا۔ نہایت دل گرفتہ ۔بلا کی منظر کشی جس کو پڑھتے ہوئے دل پر وہ کیفیت گزرتی ہے جس کا اظہار وہ اپنے منظر میں کرتے ہیں ۔ یہ تحریر کیا ہے اچھا خاصا ایک سفر ہے جس پر قاری مشیر کے ہمراہ نکل سکتا ہے۔ کبھی دھوپ، کبھی چھاوں ، کبھی جنگل ، شہر ندیا ں تو کبھی اوبڑ کھابڑ راستے۔ ہر طرف ایک گہری فکر کے ساتھ موسم اور ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سفر جاری رہتا ہے۔ کبھی ذہن ان حالات میں گھر کر مشیر کی طرح سوچنے لگتا ہے اور دنیا جہان کی باتیں ذہن میں آنے لگتی ہیں ۔ کبھی ایک عجیب سی مایوسی دل پر چھا جاتی ہے جس کا لطف متن سے جڑنے والا قاری ہی محسوس کر سکتا ہے۔ ناول کے واقعات کبھی اتنے حقیقی ہو جاتے ہیں کہ ان پر اصل زندگی کا گمان ہونے لگتا ہے اور کبھی ایسے پیچیدہ کے ان کی گتھیوں کو سمجھنا اور سمجھانا ناممکن محسوس ہونے لگتا ہے۔ نہایت گہری بصیرت کے ساتھ مشیر کے ساتھ چلتے چلتے مجید کی اٹکھیلیاں اکتادینے والی معلوم ہوتی ہیں ۔ مگر زندگی سے بھر پور اس کا قہقہہ ہمیں زیست کی دوسری سچائیوں سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ واجدہ کا کردار بھی سلیم الرحمن نے خوب نکالا ہے ، جس سے ناول میں ایک جمالیاتی رنگ پیدا ہو گیا ہے۔ پورے ناول میں ان کا ایک جملہ کہ جب واجدہ چائے کا ایک گھونٹ لیتی ہے اور مشیر اس کے چمکتے ہوئے ہونٹوں کو للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھ کر اپنا چہرا دوسری طرف گھما لیتا ہے کہانی کو رومانی رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ ناول کی زبان اس کا بیانیہ اور اس کے کردار تینوں لا جواب اور دلچسپ ہیں۔ ایسا مختصر ناول اردو کے ان ہزار ہا ضخیم ناولوں پر بھاری ہے جن میں نہ کہانی ہوتی ہے نہ بیایانیہ۔

• محمد انور خالد انگریزی زبان کے استاد اور اردو کے نظم گو ، ان کی اس شمارے میں موجود چھ نظمیں اردو کی نئی شاعری کی پرتیک ہیں ۔ ان کی نظموں کی زبان صاف اور سرل ہے۔ کہیں کہیں تراکیب کی ژولیدگی نظر آتی ہے ، مگر اکثر مقامات پر سیدھے اور سامنے کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ نظمو ں کا معنیاتی نظام پیچیدہ سہی مگر شاعرانہ اور پر لطف ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں مشرقی استعاروں کا استعمال کثرت سے کیا ہے۔ جو اردو کلاسکل شاعری میں بہت ملتے ہیں ۔ نظمیں طویل نہیں ہے، اس لیے قاری کو پڑھنے میں الجھن نہیں ہوتی۔ ایک ستھرا ادبی ذوق رکھنے والا قاری جو نئی نظم کو غیر مربوط اور آزادانہ اظہار کی طرح قبول کرتا ہے اس کے لیے نظموں میں گہرے راز چھپے ہیں جن سے داستانی رنگ کی کہانیاں مترشح ہوتی ہیں ۔ اسلوب کی سادگی نے شاعری کو مزید بلیغ بناا دیا ہے۔ کہیں کہیں کوئی ترکیب بوجھل لگتی ہے اور کہیں کہیں کوئی استعارہ یا تلمیح خاصی مشکل ہو گئی ہے۔ اس کے باوجود ہر نظم میں ایسے چار سے آٹھ مقام ہیں جن پر بے ساختہ دل سے آہ نکلتی ہے۔ محمد انور خالد کی نظموں میں رومان بھی ہے اور زندگی کی پیچیدہ حقیقتیں بھی۔ ان کے یہاں معنی کا ٹھہراو بھی ہے اور تحرک بھی۔ مجھے ذاتی طور پر ان کی نظم "یخ زدہ انگلیاں ” اور "آسماں خاکداں”خاصی دلچسپ لگیں۔

• محمد انور خالد کے بعد زیبا الیاس کی آٹھ نظمیں دی گئی ہیں ۔ ان میں زیادہ تر جذباتی نوعیت کی نظمیں ہیں جن میں رشتوں، لمحوں اور یادوں کے جذبات کام کررہے ہیں ۔ کہیں کہیں سیاسی نوعیت کے مصرعے بھی ہیں ۔ان کی نظموں میں عورت کے احساسات کا بیان کثرت سے کیا گیا ہے۔ نظمیں اتنی زیادہ متاثر کن نہیں ۔ کچھ کچھ” تعفن "کو چھوڑ کر۔

• اس شمارے میں شامل جیک لنڈن کی کہانی الاو انگریزی زبان سے ترجمہ کی گئی ہے۔ جس کا ترجمہ صغیر ملال نے کیا ہے۔ جیک لنڈن ایک مشہور امیریکی ناول نگار تھے جن کی پیدائش 12 جنوری 1876 میں سن فرانسسکو ، کیلی فورنیا میں ہوئی تھی۔ بنیادی طور پر وہ ایک صحافی اور سماجی کارکن تھے لیکن ان کی ادبی حیثیت بھی مثلم ہے۔ ان کی کہانی To Build of Fire (الاو)بہت مشہور ہوئی ۔ اس کا کئی مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔ اردو میں صغیر ملال نے اس کا ترجمہ بہت آسان زبان میں کیا ہے۔ اس کہانی میں ایک مسافر کی داستان بیان کی گئی ہے جو برفیلے علاقوں کا سفر کرتا ہے اور اپنے احباب کو ان اسفار کے قصے سناتا ہے۔ برفیلے علاقوں میں سفر کرنا اس کی ہابی ہے۔ لیکن اپنے تیسرے سفر میں وہ ایک ایسے خطر ناک برفیلے علاقے میں چلا جاتا ہے جہاں کا درجہ حرارت صفر سے ستر درجے نیچے چلا جاتا ہے۔ اس سفر میں اس پر کیا گزرتی ہے اور کس طرح وہ اپنے پالتو کتے کے ساتھ اس برفیلے علاقے کے شدائد برداشت کرتا ہے۔ ان واقعات کا بیان نہایت دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے۔ کہانی کی جان وہ حصہ ہے جب اس کہانی کا مین کردار الاو جلانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا کتا اس کوشش میں اس کی حوصلہ افزائی کرتا نظر آتا۔ جانور اور انسان کا رشتہ، جانور کی جبلت، انسان کی خطرات سے لڑنے کی فطرت اور ڈر کے غلبے سے نجات پانے کی صورت حال کو اس کہانی میں متاثر کن انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ جیک لنڈن نے ایک انسان اور کتے کے کردارسے کہانی کی نفسیاتی فضا کو تشکیل دیا ہے۔ کہانی میں ایک مقام اور بھی بہت اہم ہے جہاں کہانی کا مین کردار ٹھنڈ کی شدت سے نجات پانے کے لیے اپنے پالتوکتے کو مارنے کی کوشش کرتا ہے اور کتا کسی انجانی قوت سے اس خطرے کو بھانپ لیتا ہے ۔اس کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیک لنڈن کو جانوروں کی نفسیات کا بہت گہرا علم تھا۔

• تادیوش روزے وچ(Tadeusz Rozewicz)پولینڈ کا ایک مشہور شاعر جس کی چند نظمیں اس شمارے میں دیگر تین پولینڈ کے شعرا کے ساتھ دی گئی ہیں ۔ تادوش روزے وچ انیسویں صدی کے شاعر ہیں جنہوں نے پولینڈ میں اس زمانے میں ہوش سنبھالا جب وہاں کے سیاسی حالات بہت خراب تھے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ ایک اچھے اور بڑے شاعر ہیں ، جن کی نظموں میں سیاسی ہنگامہ آرائی کے علاوہ بھی بہت کچھ نظر آتا ہے ،لیکن بیسویں صدی کے یورپی سیاسی حالات کے سیاق میں ان کی شاعری زیادہ معنی خیز معلوم ہوتی ہے۔ اس شمارے میں افضال احمد سید، اجمل کمال اور آصف فرخی کی ترجمہ شدہ نظموں کا مطالعہ کر کے ان کے بارے میں کوئی حتمی رائے تو نہیں قائم کی جاسکتی ۔ لیکن غالب رجحان یہ بنتا ہے کہ وہ اپنی آس پاس کی دنیا سے اتنے متاثر تھے کے ان کی شاعر میں اپنے ماحول کی زمینی حقیقتیں کثرت سے شامل ہو گئیں (اس کی ایک وجہ ان کا پولینڈ کی مزاحمتی تحریک سے وابستہ ہونا بھی ہے)۔ ان کی نظم پونی ٹیل اس کی ایک اچھی مثال ہے جس میں ہالوکوسٹ کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ تادیوش کی نظموں کو ایک اردو طالب علم کی حیثیت سے پڑھنے کے بعد ان کی نظموں کے تاثر کو بیان کرنا بھی ذرا مشکل کام ہے۔ ان کی نظمیں بہت الگ نہیں ہے ، لیکن ان کا لہجہ بتاتا ہے کہ وہ اردو شاعری سے ملتی ہوئی بھی نہیں ۔ حالاں کہ بیسویں صدی کے عالمی حقائق پوری دنیا میں خاصے ملتے جلتے تھے، جن میں سیاسی اور سماجی افراتفری ، شخصی آزادی، سرحدی اور مذہبی منافرت اس کا پر تو ہر جگہ نظر آتا ہے ۔ اس کے باوجود آپ ان کی نظموں کو فیض یا جوش یا اسی قبیل کے اردو کے کسی اور شاعر سے مشابہ قرار نہیں دے سکتے۔ ان کی شاعری میں ایک نوع کی اجنبیت ہے جو ملکی یا جغرافیائی اظہار کی حالت سے پیدا ہوئی ہے۔ ان کے یہاں جرات اور اظہار کرب ہے، سماجی مظلومیت ہے اور باطنی خلش بھی،لیکن ایک نئی تشبیہ اور استعارے کے ساتھ۔ تادیوش کی شاعری میں کھردراہٹ نہیں ہے ایک طرح کی لطیف جاذبیت ہے جو قاری کو ان مسائل کے قریب لے جاتی ہے جو ان کے ملک کے ہیں اوران کی شاعری پڑھتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کے مسائل و معاملات کو شاعرانہ زبان دے کر انسانیت کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ مجھے ان کی دو تین نظموں نے ذاتی طور پر خاصہ متاثر کیا جن میں سبک دوشی پونی ٹیل، محبت 1944،ایک ملاقات، سیب اورضروری کاموں میں مصروف شامل ہیں۔تادیوش کا تعارف اجمل صاحب نے اپنے اس انتخاب کی ابتدا میں دیا ہے جس میں مجھے ایک صفائی نظر نہیں آئی کہ تادیوش نے اپنی تعلیم کراکو یونیورسٹی سے مکمل کی تھی لیکن اس یونیورسٹی کا اصل نام Jagiellonian Universityہے جسے عرف عام میں Krakow Universityبھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ کراکو میں واقع ہے۔

• تادیوش کے بعد زبگنیو ہربرٹ کی نظمیں پیش کی گئی ہیں ۔ زبگنیو بھی پولینڈ کے اسی عہد کے شاعر ہیں جس عہد کے تادیوش ہیں ۔ ان کی نظموں کے عناوین تاریخی واقعات اور اساطیری کرداروں سے ماخوذ ہیں جن کا مطالعہ کرنے سے ان کی شاعری میں تلمیحاتی عناصر کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ زبگنیو کی 20 نظمیں اس انتخاب میں شامل ہیں ۔ جن میں سے بعض نظموں کو نثریئے بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان 20 نظموں کا ترجمہ انگریزی سے افضال احمد سید اور آصف فرخی نے کیا ہے۔ نظموں کے عناویں سے ہی ان کی دلچسپی کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً فورٹن براس کا مرثیہ(فورٹن براس شکسپیر کے مشہور ڈرامے ہیملٹ کا کردار)،سلطنت روم کے ایک صوبے دار کی واپسی، وادی کے دروازے پر، آنسووں کی صنعت،واں کے نکالے ہوئے،بادشاہ کا خواب،زبان یار ، کتب خانے میں ایک سانحہ اور بادشاہت کا خاتمہ وغیرہ۔ان میں کچھ نظمیں طویل ہیں اور کچھ مختصر، ان نظموں کو اردو زبان میں پڑھتے ہوئے اس وقت تک کچھ خاص لطف نہیں ملتا جب تک ہم شاعر کی تہذیب اور اس کے تاریخی سیاق کو اچھی طرح سمجھ نہ لیں ۔ کچھ ادھورے سے واقعات کا تاثر ذہن پر مرتسم ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم شاعر سے ذہنی ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں تو ان نظموں کا اصل جوہر سامنے آتا ہے۔ فورٹن براس کے مرثیے کا مطالعہ کرنے کے لیے ہیملٹ کا مطالعہ بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ان کی تین نظموں بارش ، آنسووں کی صنعت اور مرغی نے متاثر کیا۔ نظم بارش ایک بھر پور المیہ ہے جس میں تاریخی حالات، جنگی اور خونی حادثات کے ساتھ ساتھ جذباتی اشتعال کو جذب کیا گیا ہے۔ اس میں شاعر نے زندگی کی گہری سچائیوں کو مختلف استعاروں سے بیان کیا ہے۔ نظم کا پہلا تاثر پر لطف ہے ۔ دوسرا گہرا اور تیسرا تفکر آمیز۔ ایک بھر پور نظم جس میں احساسات کی برستی بوندوں کا منظر دکھایا گیا ہے۔ آنسووں کی صنعت میں ایک نوع کی ٹیس ہے ۔ ایک طنز بھی اور نئی تہذیب کا المیہ بھی۔ مرغی ایک لاجواب تشبیہاتی نظم ہیں ۔ اس میں انسانی رویوں کی تشبیہات ہیں ۔شاعر کا یہ کمال ہے کہ اس نے مرغی کے اعمال اور प्रभावکو حکایت بنا کر پیش کیا ہے جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ اس نظم کا ترجمہ آصف فرخی نے کیا ہے۔

• وسلاواشمبورسکا(Wislawa Symborska) کی ایک نظم یاسلوکے قریب فاقہ کیمپ اس شمارے کی زینت ہے۔ مصنفہ پولینڈ کی بہت مشہور خاتون ہیں۔ان کو 1996 میں نوبل انعام بھی مل چلا ہے۔ انہوں فرانسسی زبان سے پولش زبان میں کئی کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ہے اور 2012 میں ان کی موت 88 برس کی عمر میں کراکو، پولینڈ میں ہوئی۔ وسلاوا کی نظم کا عنوان یاسلو کے قریب فاقہ کیمپ ہے ۔ یہ لفظ یاسلو دراصل یسوو ہے جس کو انگریزی میں Jasloلکھا جاتا ہے۔ اس کا پولش تلفظ بھی یسوو ہی ہے ۔ یہ ایک قصبے کا نام ہے جو پولینڈ کے جنوب مشرقی علاقے میں ہے۔خاصہ خوبصورت اور مجلا ومصفا۔ نظم کا عنوان چونکہ فاقہ کیمپ ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظم میں ایک نوع کے طنزیہ لہجے کو روا رکھا گیا ہے کیوں کہ وہ یسوو کے قریب آباد ہے۔اس نظم میں ایک فاقہ زدہ کیمپ کی ابتری کو استعاراتی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک گہرے المیہ کی صورت۔ جس سےانسانی ابتری اور زندگی کی بے مائیگی کا احساس ہوتا ہے۔ ایک شکستہ خیال جس میں بار بار تاریخی زندہ حقیقتوں پر سوال قائم کیے گئے ہیں اور انسانی رویوں کی تغلیب کو بیان کیا گیا ہے۔

• الیگزانڈر واٹ(Aleksander Wat) کی صرف تین نظمیں اس انتخاب میں شامل ہیں ۔ پہلی بہ عنوان نظم دوسری عہد نامہ عتیق کے ایک باب کی تفسیر اور تیسری یکے از حکایات فارسی۔ ان تنیوں نظموں میں قدر مشترک یہ ہے کہ ان میں ایک الہامی کیفیت نظر آتی ہے۔ نظم کا بیانیہ مترجم کا تراشا ہوا ہے مگر متاثر کن ہے ، شاعر کے اصل اسلوب کا علم نہیں مگر نظم ترجمے کی صورت میں مختلف طرز کی معلوم ہوتی ہے۔ پولینڈ میں ایسی شاعری اللہ جانے کتنے لوگوں نے کی ہے۔ لیکن ان چار شاعروں میں یہ لہجہ ذرا الگ ہے۔ عہد نامہ عتیق کی تفسیر بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان نظموں کا ترجمہ افضال احمد سید(پہلی اور دوسری) اور آصف فرخی(تیسری) نے کیا ہے۔

Leave a Reply