Laaltain

ناشتہ، نہر، معاشی تفاوت اور ڈبل روٹی (ایک یادداشتی نوٹ) – قیصر نذیر خاورؔ

28 جولائی، 2020
Picture of قیصر نذیر خاور

قیصر نذیر خاور

میرے بچپن میں ناشتے ویسے نہیں ہوتے تھے جیسے اب ہیں؛ تب برنچ بھی نہیں ہوتے تھے۔ گرمیوں میں دہی کلچہ یا لسی کلچہ عام تھا؛ صبح سویرے گلی کے ہر گھر سے ایک نہ ایک فرد ڈول اور تھیلا لیے، دہی، تِلوں والے کلچے اور برف لینے باہر نکلتا؛ واپسی پر اس کے ایک ہاتھ میں تھیلے میں کلچے دہی بھرا ڈول اور دوسرے میں سُتلی سے بندھا برف کا ٹکڑا لٹک رہا ہوتا۔ اس کی واپسی کے کچھ ہی دیر بعد تقریباً ہر گھر سے مدھانی کی آواز گونجنے لگتی؛ مدھانی جب برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے ڈول یا گڈوے میں ٹکراتی تو ایک خاص طرح کا ترنم پیدا ہوتا جیسے کسی آرکسٹرا کے چھوٹے بڑے ڈرم بج رہے ہوں؛ ایسے سمے میں جب آپ تنگ گلی میں سے گزر رہے ہوں تو آپ اس ترنم سے اندازہ لگا سکتے تھے کہ کس گھر میں کتنے لوگوں کے لیے لسی بن رہی ہوتی تھی۔ گرمیوں میں کسی کسی روز، عموماً اتوار یا چھٹی کے روز، البتہ، منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ایک اور ہی طرح کا ناشتہ کیا جاتا۔ یہ شربت اور مربوں پر مشتمل ہوتا؛ مجھے یاد ہے کہ انارکلی کے ساتھ والے ‘ پیسہ اخبار’ بازار میں دو تین حکیموں کی دکانیں تھیں جن کے ہاں ہر طرح کے مربے اور طرح طرح کے شربت ملا کرتے تھے؛ صبح کے وقت ان حکیموں کا کاروبار انہیں دو اشیاء کی بِکری پر ہوتا تھا؛ کوئی چاندی کے ورق لگا سیب کا مربہ کھا کر صندل کا شربت پیتا اور اپنی راہ لیتا تو کوئی گاجر کا مربہ کھاتا اور اس پر بزوری شربت پی کر چل دیتا، کوئی غریب قطیرہ گوند، تخم ملنگاں اور شکر کے شربت کے ایک گلاس پر ہی اکتفا کرتا۔ میں اپنے گھر کی بات کروں تو میری والدہ کا پسندیدہ مربہ ‘آملوں ‘ کا ہوتا تھا اور شربت میں انہیں انار کا شربت سب سے زیادہ پسند تھا۔ اسی طرح میری بہنوں کی بھی اپنی اپنی پسند تھی۔ میرا بڑا بھائی دہی کلچے یا لسی کلچے کا ناشتہ نہیں کرتا تھا؛ وہ گرمیوں میں ہر روز رات کو کچھ بادام، چاروں مغز اور کچھ خشخاس پانی میں بھگوتا اور صبح اٹھ کر ورزش کرکے دودھ میں سردائی گھوٹتا اور اس کے دو گلاس پیتا؛ اسے باڈی بلڈنگ کا شوق تھا اور جب وہ کام پر نکتا تو محلے کی لڑکیاں اسے بانسی سِرکیوں کی اوٹ سے دیکھا کرتی تھیں۔ جس روز مربے اور شربت کی باری ہوتی تو میں بھی اس سے ایک گلاس سردائی کا مانگتا اور اسی پر گزارا کرتا؛ مجھے ’ شربت اور مربے ‘ والا ناشتہ کبھی پسند نہ آیا تھا۔

سردیوں میں اس کے برعکس انڈا پراٹھا یا رات کے بچے سالن کے ساتھ پراٹھا سب سے زیادہ عام تھا۔ کشمیری گھرانہ ہونے کے سبب ہمارے ہاں کالی چائے نہیں بنتی تھی، بلکہ سبز یعنی کشمیری چائے بنتی، جس کا قہوہ بنانے کے لیے ہماری ماں سونے سے پہلے پانی میں سبز چائے کی کچھ پتیاں ڈال کر رکھ دیتی تھیں اور صبح صبح اٹھ کر اسے ابالتے ہوئے اس میں ٹھنڈا پانی ملاتی جاتیں اور خوب پھینٹا لگاتیں۔ یہ چائے چونکہ نمکین ہوتی تھی اس لیے مجھے یہ پسند نہ تھی۔ میری ماں اسی لیے گلاس بھر چائے نمک ڈالنے سے پہلے الگ کر دیتیں تاکہ میں اس میں چینی گھول کر پی سکوں؛ چینی سے مجھے یاد آیا، یہ وہ زمانہ تھا جب یہ ہم جیسے لوئر مڈل کلاسیوں اور غریب عوام کو راشن ڈپوئوں سے ملا کرتی تھی اور اسے کم کم ہی استعمال میں لایا جاتا تھا؛ ویسے تو یہ راشننگ سسٹم دوسری جنگ عظیم اور قحط ِ بنگال سے جڑا تھا لیکن 1960 ء کی دہائی کے اوائل میں اسے دوبارہ رائج کر دیا گیا تھا؛ پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کے موڈ میں تھے۔ چینی کے علاوہ آٹا بھی راشن ڈپو پر ملا کرتا تھا؛ پھر یوں ہوا کہ دیسی گندم کم پڑ گئی تھی اور امریکی گندم ‘ پی ایل۔ 480 ‘ کے تحت آنے لگی اور اس کا آٹا ان ڈپوؤں پر ملنے لگا؛ اس کی روٹی اس رنگ کی بنتی جیسے ٹرمپ کے بال ہیں؛ لوگوں نے آٹا لینا چھوڑ دیا۔ اسی طرح جب چیکوسلواکیہ کی چقندر سے بنی چینی آنے لگی تو لوگوں نے یہ بھی لینا بند کر دی؛ یہ چینی گنے کے رس سے بنی چینی کے مقابلے میں کم میٹھی ہوتی تھی اور ایک چمچ کی بجائے دو چمچ ڈالنی پڑتی تھی۔ ان ڈپوؤں پر ملنے والے چاول بھی موٹے اور گھٹیا کوالٹی کے ہوتے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب دودھ کی بھی قلت ہوئی تھی اور امریکی امداد کے تحت آیا خشک دودھ بھی ان راشن ڈپوؤں پر ملتا تھا۔

کبھی کبھار انڈے پراٹھے کی جگہ چائے میں باقر خانی، کھنڈ کلچہ، بَن یا دو تین رس ( پنجابی رسوں کو پاپے کہتے تھے ) ڈبو کر کھانا بھی ناشتے کا کام دیتا۔

سردیاں ہوں یا گرمیاں ایک اور خصوصی ناشتہ ‘پوری حلوے’ کا ہوتا تھا جو کسی کسی اتوار یا چھٹی کے روز ہی ہمیں ملتا؛ ہمارے گھر کے پاس پوریاں بنانے والے دو طرح کے تھے؛ ایک جو میدے کی پوریاں تلتے تھے دوسرے وہ جو آٹے کی پوریاں بناتے تھے؛ لاہورئیے میدے والی پوریاں کھاتے تھے جبکہ بٹوارے کے بعد مہاجر ہو کر آئے، اردو بولنے والے آٹے کی پوری کو ترجیح دیتے۔ ان دو طرح کی پوری بنانے والوں کی بھاجی* میں فرق ہوتا اور حلوے میں بھی۔ لیکن یہ دونوں ہی بھاجی اور حلوہ الگ الگ ‘ دَونوں ‘** میں دیا کرتے۔ میدے کی پوری والے آلو اور چنوں کی بھاجی ملا کر بناتے تھے اور ان کے حلوے کا رنگ سوجی جیسا ہی ہوتا جبکہ آٹے کی پوری بنانے والے آلو کی بھاجی اور چنوں کی الگ الگ بناتے، ان کا حلوہ بھی زردے کے رنگ جیسا ہوتا، اس کے علاوہ وہ ایک دَونے میں الگ سے سبزیوں کا کچا پکا اچار بھی دیتے۔

دو ناشتے اور بھی ہوتے تھے جو ہمارے گھر میں کبھی بھی کھائے نہیں گئے؛ ایک، لاہوریوں کے سری پائے، کھد*** اور مغز کے سالن کے ساتھ کلچے یا نان کا ناشتہ اور دوسرا، اردو بولنے والوں کا نہاری اور خمیری روٹی کا ناشتہ، اس میں خمیری روٹی کا متبادل ’ لال روٹی ‘ **** بھی ہوا کرتی تھی۔

ڈبل روٹی کا رواج نہ تو ہمارے گھر میں تھا اور نہ ہی ہماری گلی اور آس پڑوس میں۔ یہ کہنا، بلکہ زیادہ مناسب ہو گا کہ میں نے میڑک تک اپنے گھر میں ناشتے کے لیے ڈبل روٹی آتے نہ دیکھی تھی، ہاں یہ تب ضرور آتی جب گھر میں کوئی بیمار ہوتا اور ہمارے معالج حکیم نیر واسطی مرحوم یا ڈاکٹر دلاور حسین ( ڈاکٹر انور سجاد کے والد مرحوم ) دوائی کے ساتھ زود ہضم غذا تجویز کرتے؛ زود ہضم غذاؤں میں دودھ ڈبل روٹی، دلیہ اور کسی حد تک ساگودانہ تجویز ہوا کرتے تھے؛ یہ ڈبل روٹی ہمارے والد کے دوست محکم دین کی بیکری سے آیا کرتی تھی۔ یہ نیلا گنبد کے پاس اب بھی ہے اور لاہور کی قدیم ترین بیکریوں میں سے ایک ہے۔

میں جب میڑک کرکے کالج میں داخل ہوا اور میرے کئی پر نکلے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ناشتے میں انڈا پراٹھا یا رات کا بچا سالن و پراٹھا کھانے کی بجائے انڈوں کے ساتھ ڈبل روٹی کے سلائس کھائے جائیں؛ فرائی، سکریمبلڈ اور یا پھر آملیٹ اور ڈبل روٹی، دودھ اور انڈے میں تلے میٹھے فرنچ توس، چینی میں تلے خستہ اور کرارے توس اور ان کے ساتھ کالی چائے؛ میری ماں کو اب گلاس بھر کشمیری چائے الگ نہیں کرنی پڑتی بلکہ انہیں ایک کیتلی خریدنا پڑی جس میں وہ میرے لیے کالی چائے کا قہوہ ابال سکیں۔ یوں ہمارے گھر میں ڈبل روٹی تو آئی ساتھ میں کالی چائے بھی در آئی اور ٹی سیٹ، چینی سرامک کے کپ، ٹی کوزی بھی الماری کی زینت بنے؛ کالی چائے جسے انگریز کبھی گلیوں میں مفت بانٹا کرتے تھے؛ ہمارے والد کے بقول صبح سویرے ‘ٹم ٹمیں’ گلی گلی کوچہ کوچہ گھومتیں، ان پر لکڑیوں کی آگ پر بڑے بڑے حمام دھرے ہوتے جن میں کالی چائے کا قہوہ ابل رہا ہوتا، ان ٹم ٹموں پر بیٹھے میونسپلٹی کے کارندے گھنٹی بجاتے، بھونپو پر کالی چائے کی تعریفیں کرتے اور لوگوں کو دعوت دیتے کہ وہ برتن لے کر آئیں اور کالی چائے کا قہوہ مفت لے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شروع شروع میں تو وہ دودھ اور چینی ملا کر ‘ تیار ‘ چائے بانٹا کرتے تھے۔

کالج کے اوائلی زمانے میں مجھے ڈبل روٹی کی شناخت دو طرح سے ہی ہوئی تھی؛ چھوٹی اور بڑی؛ میں، چونکہ گھر میں ڈبل روٹی کا واحد شیدائی بنا تھا اس لیے ایک چھوٹی ڈبل روٹی خریدی جاتی جو سردیاں ہونے کے باعث دو یا بعض اوقات تین دن تک چل جاتی۔ گرمیوں میں، البتہ، میرے ناشتے کے معمول میں کوئی خاص فرق نہ آیا؛ دہی کی لسی میں پانی کی بجائے، البتہ، آدھا دودھ ہوتا۔
وقت کے ساتھ ساتھ مجھے بریڈ ( ڈبل روٹی ) کی دیگر اقسام کا بھی پتہ چلتا گیا؛ سادہ، مِلکی، میڈیم بران، فُل بران، فرانسیسی ‘ کریسوں’ وغیرہ وغیرہ۔

چھوٹی بڑی کا تصور بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا البتہ فرانسیسی ‘کریسوں’ کا سائز ایک سا ہی رہا؛ کریسوں سے مجھے یاد آیا کہ یہ میرے استاد زِم ( ZIM ) بہادر ( ظفر اقبال مرزا مرحوم ) کی پسندیدہ بریڈ تھی جسے وہ نمکین مکھن کے ساتھ بہت شوق سے کھایا کرتے تھے، جس کے ہر لقمے کے بعد وہ چائے کی چسکی نہیں وہسکی کا گھونٹ بھرا کرتے۔ چند سال پہلے مجھے ڈبل روٹی کی ایک اور قسم کے بارے میں بھی جاننے کا اتفاق ہوا۔

اس سے پہلے کہ میں یہ قصہ بیان کروں آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ جس طرح دریائے تھیمز لندن کو دو حصوں میں منقسم کرتا ہے اور چیلسی کو بقیہ لندن سے ممتاز کرتا ہے اسی طرح ‘بمباوالی۔ راوی۔ بیدیاں’ کی برانچ نہر لاہور میں سے گزرتے ہوئے اس شہر کو بھی دو حصوں میں بانٹتی ہے؛ یوں تو ‘بمباوالی۔ راوی۔ بیدیاں’ نہر مغلوں کے زمانے سے موجود تھی لیکن جب 1837/1838 ء کا بڑا قحط پڑا تو اس کے بعد شاید پنجاب کو اپنی عملداری میں لینے پر انگریزوں نے اس کی ایک برانچ نہر لاہور میں سے گزاری جو ‘ رائے ونڈ’ گاؤں تک جاتی تھی، اب تو رائے ونڈ ایک شہر کی شکل اختیار کر گیا ہے اور ‘ تبلیغیوں’ کا ایک گڑھ ہے۔ اس نہر کے مشرق میں وہ علاقے ہیں جن میں امراء اور ان لوگوں کے گھر بنگلے اور کوٹھیاں ہیں جو مالی لحاظ سے ‘کھاتے پیتے’ کہلاتے ہیں؛ دوسرے لفظوں میں یہ کینٹ ( چھاؤنی )، ماڈل ٹائون، گارڈن ٹائون، گلبرگ، ڈیفنس جیسے پوش علاقے ہیں جبکہ اس نہر کے دوسری طرف وہ علاقے ہیں جو پوش نہیں گو وہاں بھی کئی ‘کھاتے پیتے’ لوگ بستے ہیں؛ گرمیوں میں یہ نہر بہت کھل کر معاشی تفاوت کی تصویر پیش کرتی ہے جب اس میں مغربی آبادیوں کے ہزاروں بچے اس کا استعمال ‘ سوئمنگ پول ‘ کے طور پر کرتے ہیں اور پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے دسیوں بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

میں نے اپنا بچپن اور جوانی کا کچھ حصہ انارکلی میں گزارا، پھر چند سال کرشن نگر ( جسے مذہبی انتہا پسندوں نے اب اسلام پورہ کا نام دے رکھا ہے۔ ) میں رہا؛ یہ دونوں نہر کے مغربی علاقے میں تھے اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ میں نے نہر کی حد پار کی اور اس کے مشرقی حصے میں آن بسا؛ ایسا کیونکر ہوا، یہ ایک الگ کہانی ہے۔

آئیے اب واپس چلتے ہیں ڈبل روٹی کے قصے کی طرف۔ ہوا یوں کہ چند برس پہلے میری زندگی میں ایک ایسی عورت آئی؛ وہ کیونکر آئی اور گئی، یہ ایک الگ قصہ ہے۔ وہ نوکری تو مشرقی حصے میں کرتی لیکن رہتی مغربی حصے کی ایک دور دراز کی بے ترتیب گنجان آبادی میں تھی؛ وہ اپنے گھر کی واحد کفیل تھی؛ اس کی چھوٹی بہن شادی شدہ تھی جبکہ اس کا چھوٹا بھائی کالج کے زمانے میں ہی موٹر سائیکل کے حادثے میں فوت ہو چکا تھا، بیاہی تو وہ بھی گئی تھی لیکن بوجوہ طلاق کے بعد ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی۔ اس نے ایف اے کے بعد کی پڑھائی پرائیویٹ طور پر کی تھی اور انگریزی میں ایم اے کیا ہوا تھا۔ وہ ایک نجی سکول کی ہیڈ مسٹریس تھی؛ اس کے والد سے ملاقاتوں پر مجھے اندازہ ہوا تھا کہ انہیں انگریزی ادب کا خاصا ذوق تھا اور وہ بات بات میں کبھی چارلس ڈکنز، ڈی ایچ لارنس، ایچ جی ویلز یا کسی اور انگریز ادیب کا حوالہ دیتے؛ انہیں آرتھر کونان ڈوئل اور اس کے کردار شرلاک ہومز و ڈاکٹر واٹسن بہت پسند تھے۔ مجھے تبھی یہ سمجھ آیا تھا کہ خاتون نے انہیں کے زور دینے پر انگریزی میں ایم اے کیا ہو گا، گو اسے انگریزی پر کچھ خاص عبور نہ تھا۔

وہ جس گلی میں رہتی تھی، اس میں سوزوکی مہران بھی بمشکل جاتی جبکہ بڑی گاڑی کے جانے کا تو سوال ہی نہ اٹھتا تھا۔ راہ و رسم بڑھی تو میرا اس کے گھر بھی آنا جانا ہو گیا۔ مجھے جب بھی اس کے گھر جانا ہوتا تو مجھے اپنی گاڑی گلی کے باہر چوڑی سڑک کے کنارے کھڑی کرنا پڑتی یا میں اس کی ہی ‘مہران’ پر جاتا اور وہ واپسی پر مجھے ایسی جگہ اتار دیتی جہاں سے میں پبلک ٹرانسپورٹ پکڑتا اور اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتا؛ یہ ‘اوبر’ یا ‘ کریم ‘ کی اون لائن سروس شروع ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی سروسز اب بھی اس علاقے میں ناپید ہیں اور موبائل پر ان آبادیوں کے نقشے دھندلے پڑ جاتے ہیں۔

اُس برس جون کا مہینہ تھا اور سخت گرمی تھی اور ایسے میں اس کے والد کی 75 ویں سالگرہ آ گئی؛ پلاٹینیم جوبلی سالگرہ جس کے حوالے سے اس نے اپنے گھر میں ایک ڈنر کا اہتمام کر رکھا تھا۔ میں بھی مدعو تھا۔ وہ جب شام پانچ بجے اپنے دفتر سے فارغ ہوئی تو میرے دفتر آئی اور مجھے ساتھ لیے گھر کی طرف روانہ ہوئی؛ ویسے تو میرا دفتر بھی پانچ بجے بند ہو جاتا تھا لیکن میں دیر تک بیٹھا اپنے لکھنے پڑھنے کا کام کرتا رہتا اور گھر کا رُخ تبھی کرتا جب مجھے بھوک اور نیند کی طلب ہوتی۔ ہم جب راستے میں سے کیک اور کچھ دیگر لوازمات لے کر، اس کے گھر پہنچے تو گھڑی آٹھ بجا رہی تھی؛ کیک پر اس کے والد کے نام کے ہجے غلط تھے جن کو درست کرانے میں ہی گھنٹہ لگ گیا تھا۔ مدعوین کو، گو، ساڑھے آٹھ بجے کا وقت دیا گیا تھا لیکن انہوں نے آتے آتے دیر لگائی اور جب بزرگوار نے کیک کاٹا تو دیوار پر لگا کلاک دس بجانے کی تیاری کر رہا تھا۔ کھانا کھاتے گیارہ کا وقت ہو گیا اور جب باقی سب مہمان رخصت ہوئے تو بارہ بج رہے تھے؛ ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس نے نہر کے پار ان آبادیوں میں جانا تھا، جن میں سے ایک میں، میں رہتا تھا، ورنہ میں اس سے لفٹ لے کر اپنے ٹھکانے پر پہنچ سکتا تھا۔ مجھے اندازہ تھا اور اسے بھی کہ اس وقت مجھے کسی طرح کی پبلک ٹرانسپورٹ دور دور تک نہ ملنی تھی۔ میں نے اس کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے اپنے والد کے کان میں کچھ کھسر پھسر کی۔ جنہوں نے مجھے رات وہیں، ان کے گھر، بسر کرنے کا بولا۔

“تم میری سٹڈی میں سو سکتے ہو۔ “، انہوں نے کہا، وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے اور انہوں نے گھر کے باہر والے کمرے میں اپنا دفتر بنا رکھا تھا، جس میں الماریاں وکالت کی کتابوں سے بھری تھیں اور دیگر فرنیچر کے علاوہ وہاں ایک ‘ بیڈ کم صوفہ’ بھی تھا؛ میں جب بھی اس گھر میں گیا مجھے ان کے اس کمرے میں کوئی مؤکل بیٹھا نظر نہ آیا تھا۔

“ڈیڈی ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔ آپ یہیں سو جائیں۔۔۔ میں صبح دفتر جاتے ہوئے آپ کو ڈراپ کر دوں گی۔ “، خاتون نے کہا۔

اجنبی جگہ پر رات بسر کرنا میرے لیے مشکل ہوتا ہے لیکن اس سمے مجھے اور کوئی چارہ نظر نہ آیا اور میں وہیں رُک گیا۔ خاتون کے والد خاصے انگریز قسم کے انسان تھے، رات میں دھاری دار سلیپنگ سوٹ پہن کر سوتے؛ ویسا ہی جیسا میں نے بچپن میں راک ہڈسن کو فلم ‘ پِلو ٹاک ‘ میں پہنے دیکھا تھا۔ اور تو اور جب خاتون مجھے سٹڈی میں، سلیپنگ سوٹ تھمانے آئی تو وہ خود بھی نائٹ سوٹ میں نظر آئی جس پر اس نے گاؤن پہن رکھا تھا؛ سلیپنگ سوٹ مجھے قدرے چھوٹا تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ پھنس کر آئے؛ میں سوٹ لیے ملحقہ باتھ روم میں گھس گیا اور جب واپس کمرے میں آیا تو صوفہ بستر میں بدلا ہوا تھا اور اس پر سفید چادر بچھی ہوئی تھی، ساتھ پڑی تپائی پر پانی سے بھرا ایک گلاس پڑا تھا جو کروشیے کے ایک چھوٹے سے رومال سے ڈھکا تھا۔

سوتے جاگتے میں رات کا باقی ماندہ وقت کٹا اور صبح ہونے پر جب مجھے لگا کہ کچن میں برتن کھڑکنے لگے تھے تو میں نے بستر چھوڑا اور منہ پر پانی کے دو چھینٹے مارے، بستر کو واپس صوفے میں بدلا سفید چادر تہہ کرکے اس پر رکھی اور کپڑے بدل کر اس کمرے میں گیا جہاں ڈائننگ ٹیبل لگی تھی اور ایک کونے میں ٹی وی رکھا تھا؛ رات منائی گئی سالگرہ کے آثار بھی موجود تھے نیلی پیلی لال گلابی کریپ پیپر کی پٹیاں پنکھے کی ہوا میں پھڑپھڑا رہیں تھی اور غبارے ہوا کم ہو جانے کی سے سکڑے ہوئے تھے، ایک کونے میں بند تحائف کا انبار تھا جنہیں بزرگوار نے ابھی کھولا نہ تھا۔ خاتون کی والدہ اور والد کرسیوں پر بیٹھے اخبار دیکھ رہے تھے۔ سلام کے بعد میں نے بھی ایک کرسی سنبھال لی۔ کچھ ہی دیر میں خاتون کچن سے ناشتے کی ٹرے لیے باہر آئیں اور سب کے سامنے ایک ایک پلیٹ میں آملیٹ کے ٹکڑے اور دوسری پلیٹ میں سلائس رکھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ ان سلائسوں پر سیلوفین چڑھا ہوا تھا اور اس سیلوفین پر کسی مروجہ کمپنی کا برانڈ نہ لکھا تھا۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اس نے جو سلائس اپنی والدہ، والد اور میرے سامنے رکھے وہ دو دو کی پیکنگ میں تھے جبکہ اس کی اپنی پلیٹ میں رکھی پیکنگ میں چار سلائس تھے۔ اس نے چائے دانی کے پاس بچے ہوئے آملیٹ والی پلیٹ اور دو دو کی پیکنگ والے سلائسوں کے دو پیکٹ رکھتے ہوئے کہا؛
“اگر آپ کو اور چاہیے ہوں تو آپ ان میں سے لے سکتے ہیں۔”، اس نے اپنا پیکٹ کھولا اور دو سلائسوں میں آملیٹ رکھتے ہوئے مزید کہا، ” ویسے مجھے پتہ ہے کہ آپ صبح بس چائے ہی پیتے ہیں۔”

ان سلائسوں کا رنگ کچھ ویسا ہی تھا جیسا کہ آٹے کی پوریاں بنانے والے کے حلوے کا ہوتا تھا؛ ڈبل روٹی کی یہ دو اور چار سلائس والی یہ مِنی پیکنگز میرے لیے نئی تھیں جو نہر کے پار ان علاقوں میں نہیں ملتی تھیں، جن میں سے ایک میں، میں رہتا تھا۔ میں نے بھی پیکٹ کھولا اور سلائس کے ساتھ آملیٹ کھانے لگا؛ یہ سلائس عجیب طرح سے بے ذائقہ تھے۔ ناشتے کے بعد خاتون کچھ دیر غائب رہیں اور جب لوٹیں تو کام پر جانے کے لیے تیار تھیں۔

میں، جب، اس کی مہران میں بیٹھا اپنے ٹھکانے کی طرف جا رہا تھا تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ وقت کتنا بدل گیا تھا، گرمیوں اور سردیوں کے ناشتوں میں کوئی تخصیص نہ رہی تھی، ہر طرف کالی چائے کا راج تھا؛ اور ڈبل روٹی نہر کے دونوں طرف عام تھی یہ الگ بات کہ ایک طرف کی ڈبل روٹی دوسری طرف ملنے والی ڈبل روٹی سے ویسے ہی فرق تھی جیسے پوش علاقوں اور دوسرے علاقوں میں فرق تھا؛ ایک طرف یہ برانڈڈ تھی اور بس چھوٹی اور بڑی تھی جبکہ دوسری طرف شاید یہ انہیں مِنی پیکنگز میں تھی اور اس کا کوئی ‘برانڈ’ نیم بھی نہ تھا۔ خاتون، البتہ، سٹیرنگ پر ہاتھ جمائے، مسلسل بولے جا رہی تھی، کیا ؟ میں یہ صحیح طور سن نہ سکا، ہاں میں اتنا ضرور جان گیا کہ وہ مجھ میں اپنا خاوند تلاش کر رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*’بھاجی’ کم شوربے یا کم گریوی والا سالن
** ‘دَونوں’ دَونا ببول کے پتوں کو دھو اور سکھا کر اسی درخت کے کانٹوں سے تہہ در تہہ ٹانک کر پیالے کی شکل میں اس طرح بنایا جاتا تھا کہ اس میں ڈالی گئی شے رِس کر باہر نہ نکلے؛ یہ اپنے زمانے کا ڈسپوزیبل ہوا کرتا تھا۔
*** ‘کھد ‘بکرے، دُنبے یا کسی بھی بڑے جانور کے کّلوں اور زبان کا گوشت
****’لال روٹی ‘ دودھ میں گندھے میدے کی روٹی جو آہنی تندور میں لگتی تھی۔ اب اسے تندوری شیرمال بھی کہا جاتا ہے۔
نوٹ؛ اس یادداشتی نوٹ میں نہر کی جو تصویر استعمال کی گئی ہے وہ 1915 ء کی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *