مسعود دانیال : دانیال طریر
۲۴ فروری ۱۹۸۰ء۔۔۔۳۱ جولائی۲۰۱۵ء
( ۳۵ سال ۵ ماہ ۷ دن )
اردو ادب میں ایم۔اے کیا اور جامعہ بلوچستان کوئٹہ میں تدریس کے فرائض سرا نجام دیتے رہے۔
۲۰۰۵ء آد ھی آتما
۲۰۰۹ء بلوچستانی شعریات کی تلاش(جلد اول)
۲۰۱۲ء معنی فانی
۲۰۱۲ء معاصر تھیوری اور تعینِ قدر
۲۰۱۳ء جدیدیت، مابعد جدیدیت اور غالب
۲۰۱۳ء خواب کمخواب
۲۰۱۳ء خدا مری نظم کیوں پڑھے گا (طویل نظم)
زمین پر ہر کھلنے والا پھول ہمیں امید، خوشی اور تازگی کے احساس سے ہم کنار کرتا ہے ایسے ہی شاعری بھی۔۔۔ لیکن غضب ہوا کہ ہم نے شاعری کو ایسے کھردرے لفظوں سے بھر دیا جنھوں نے گلستان ِ سخن میں کانٹوں کا مقا م جا سنبھالا۔ یقیناً شعروں کے پھول بھی حفاظت کے متقاضی ہوں گے۔
جڑواں شہروں میں آئے دوسال ہوگئے۔ برادر رفاقت راضی اکادمی ادبیات اور تمام دوستوں سے فرداََ فرداََ ملواتے پھرے۔ اکادمی میں جب بھی گیا اور حامد محبوب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے ہمیشہ کہا کہ آپ کا نام ذہن میں دانیال ہی آتا ہے۔ معلوم ہوا کہ دانیال طریر ایک عرصہ ان شہروں میں رہے۔ مئی ۲۰۱۴ء میں ہی دانیال سے ملاقات ہوئی۔ ماشااللہ ہوٹل اسلام آباد میں جو ایک چھپر ہوٹل ہے اور ہر شام اختر عثمان صاحب کے دم سے وہاں شاعروں ادیبوں کی محفل جمتی ہے۔ دانیال اور میں اتنے شاعروں میں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کے یوں مسکراتے رہے ’’جوں گفتگو کرتا ہے ستارے سے ستارہ‘‘۔ دانیال سے ملاقات کی سرشاری ابھی تک رگ و پے میں ہے۔ سو ایسے میں دانیال پہ لکھنا ایسے ہی جیسے کوئی اپنے ہی بارے میں لکھے۔
’’ آدھی آتما‘‘ دانیال طریر کی شاعری کا اولین مجموعہ تھا جو آدھا بارش میں بھیگاہوا حماد نیاز ی نے مرے سپرد کیا۔ کتاب پڑھ کے شک ہوا کہ شاید بارش نہیں آنسوؤں سے بھیگا ہوگا۔ اور پھر حماد نیازی کی دانیال طریر کے لیے آنسوؤں میں بھیگی نظم فیس بک پر پڑھی۔ اس کتاب نے ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا۔ اجنبیت اور غرابت کا احساس تھا جو ’’معنی فانی‘‘ اور’’ خواب کمخواب‘‘ نے بدل دیا۔ ’’ خدا مری نظم کیوں پڑھے گا‘‘نے تو سارا منظر نامہ ہی تبدیل کر دیا۔ وہ جسے اجنبیت پہ محمول ٹھہرا رہا تھا وہ تو اپنے مفہوم کے ساتھ یوں در وا کرتا چلا گیا کہ خو د کو بمشکل شعر کہنے سے روکا۔ شعر کہنے والے جانتے ہیں کہ اہم شاعر وہ ہوتا ہے جسے سن کے یا پڑھ کے خود بھی شعر کہنے کو دل چاہنے لگے۔ دانیال طریر کی خوبی بھی یہی ہے کہ اسے پڑھ کے لکھنے کو دل چاہتا ہے۔
’’خد امری نظم کیوں پڑھے گا‘‘ نظم کا عنوان ایک بار تو ہم میں موجود مردِ مومن کو ہلا کے رکھ دیتا ہے کہ یہ کیا؟؟ اپنی مرضی سے بیان پیش کرکے فتوی صادر کرنے کی بجائے نظم کے پہلے حصے کی آخری تین لائنیں دیکھتے ہیں۔
’’یہ نظم کا من گھڑت فسانہ
وہ اس سے بہتر ہزار قصے پلک جھپک وقت میں گھڑے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا۔‘‘
یہ نظم خدا کے لیے نہیں لکھی گئی بلکہ اس کے مخاطب زمین کے ہی لوگ ہیں۔یہ عنوان اپنے اندر ایک شدید طنز لیے ہے۔ بلوچستان ہی کے ایک شاعر کی طویل نظم میں دو لائنوں نے اس احساس کو مزید ابھارا کہ ہم بغیر پڑھے یا صرف عنوان دیکھ کر ہی اپنے اپنے فتووں کی پٹاریاں کھول لیتے ہیں۔
’’خدا کو نظمیں پڑھانے والو
زمین کا مسئلہ تو سمجھو‘‘
شاعر کا یہ اعتراض دانیال کے علاوہ اور کس کی طرف ہو سکتا ہے۔ لازم ہے کہ دانیال کی نظم کے عنوان کو ہی اگر سمجھ لیا جائے تو ایسے مغالطے پیدا نہ ہوں۔اس نظم کوپڑھنے کے لیے دانیال زمین کے لوگوں سے ہی شاکی تھے۔یہ نظم انھی کے لیے ہی تو لکھی گئی ہے، خداسے گفتگو کے لیے تو ہمارا شاعر خود جا چکا ہے۔ نظم کے مختلف حصوں میں سے بالترتیب کچھ لائنیں نظم کے مخاطب کا تعین کرنے کے لیے۔۔۔
’’زمیں کی مخلوقِ بے خبر کو جمال اورجنس کے علومِ ہزار در کا سبق پڑھانے، ؍ہوا کو طرزِ جنوں سکھانے، یہ روشنی اوڑھ کر نہانے۔۔؍مگر زمیں زادگاں نے اس کو نہ اسم جانا نہ جسم سمجھا؍اسے کسی دیو کے صلاح کار سامری کا طلسم سمجھا‘‘
’’بانسری کون بجا رہا ہے؍وہ تمام بھیدوں کی طرح یہ بھید بھی جانتا ہے؍اس لیے وہ میرے ساتھ اسے تلاش نہیں کرے گا ؍خدا مری نظم کیوں پڑھے گا؟‘‘
اس کے پاس شاید ایک دن ہی تھا۔ جوانی میں ہی ہر لمحہ اپنی طرف بڑھتی ہوئی موت کی آہٹ مسلسل اس کے کانوں میں تھی اور زمین پاؤں کے نیچے پیہم کسی زلزلے کی زد میں محسوس ہو رہی تھی۔ ایسے میں زندگی کا ایک دن،ایک صبح سے اگلی صبح تک یا ایک رات سے اگلی رات تک۔ اردو شعراء کی اکثریت نے اس ایک دن کی زندگی کو رات سے شروع ہو کر رات میں ہی بدلتے ہوئے دیکھا او ر دکھایا ہے۔داغ داغ اجالہ ہو یا شب گزیدہ سحر اور رات کے گزرنے پر رات ہی جنم لے گی کا اعلان اور ایسے ہی یاسیت اور قنوطیت پسندی کے رجحانات ہمیں اپنی شاعری میں ڈھونڈنے کے لیے بہت تگ و دو کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ رویہ ہی ہمارے درد و غم جمع کر کے دیوان بنانے کی خواہشات کا ترجمان ہے۔ دانیال طریر کی یہ طویل نظم اسی ایک دن کے چوبیس گھنٹو ں کی طرح چوبیس حصوں پر مشتمل ہے لیکن ہمارے مذکورہ رجحان کے برعکس موت کے درندے کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر بھی دانیال نے امید پسندی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
میں مر جاؤں گا
اور دنیا لفظوں سے نہیں بھر سکوں گا
لیکن جس طرح میں اپنے ابو کا ادھورا کام پورا کر رہا ہوں
بالکل اسی طرح
میرا ادھورا کام میرے طالب علم پورا کریں گے
جو نظمیں میں نہ لکھ سکا میری اولاد لکھے گی
دنیا کو لفظوں سے میری جذبیہ بھرے گی
دنیا کو لفظوں سے میرا جذلان بھرے گا
خدا مری نظم کیوں پڑھے گا
خدا کے اس کارخانے میں یہ نظم دنیا کو بارود سے بھرتے ہوئے لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے۔ وہ جنھوں نے عورت کو انسان نہیں رہنے دیا بلکہ مرد کی مخالف بنا کر اسے بازار کی زینت بنا دیا۔ نظم کا اکیسواں حصہ اسی مادی سوچ پر گہرا طنز ہے۔ دنیا کو بازار بنا دینے اور اس بازار کو گھروں کا حصہ بنا کر ہمارے ہاتھوں میں ہر دم تھما دینے کی اذیت کونظم کا یہ حصہ ہم پر آشکار کر تا ہے۔جب نظم کو بھی بازار کی زینت بنا دیا گیا۔ یہ نظم دراصل ہمارے تہذیبی انحطاط اور لفظوں سے دوری کے کرب پر لکھی گئی جدید زندگی کی کتھا ہے۔ یہ زندگی جس میں ہر سمت صرف بارود کی بو ہے۔ جس میں سے پھولوں کی خوشبو اور لفظوں کی مہک چھین لی گئی ہے۔اس مصنوعی پن نے تو کاغذی پھولوں یا کاغذی پیرہن سے آگے کی نارسائی اور المیے کو جنم دیا ہے۔ برقی رابطے کے منقطع ہوتے ہی ساری دنیا سے کٹ جانے والا فرد جو ابھی اپنے سامعہ اور باصرہ سے ہی لامسہ، شامہ اور ذائقہ کو بھی تسکین دے رہا تھا فوراََ ہی بالکل بے دست و پا ہو جاتاہے۔اگرچہ لمس، باس اور پیاس تینوں کی پیاس محض ایک التباس تھی جوبرقی آواز اور لباس کے محو ہوتے ہی زیادہ شدت سے بھڑک اٹھتی ہے اور جدید معاشرت کا جدید ترین فرد اپنے کانپتے ہاتھوں اور دھندلائی آنکھوں کے ساتھ سامنے کا منظر دیکھنے اور قریب کی آواز سننے کی صلاحیت بحال ہونے میں بھی چند ثانیوں تک بے حس رہتا ہے۔ اسی بے حسی کی کیفیت کے مسلسل طاری ہوجانے کا المیہ اس نظم کے عنوان میں پوشیدہ ہے۔دانیال ہماری اجتماعی ناخواندگی کے گلہ گزار بھی ہوئے اور نظر انداز کر دینے کے تجاہلِ عارفانہ کی وجہ سے دکھی بھی۔
’’مجھے نظم لکھنے سے پہلے ہی سوچنا چاہیے تھا ؍کہ نا خواندگی واقعہ ہی نہیں المیہ بھی ہے‘‘
۔۔۔ ’ علینہ ‘ بھی جب وہا ں ابھی زیرِ التوا ہے؍تو پھر مری نظم پر کوئی غور کیا کرے گا؍خدا مری نظم کیوں پڑھے گا‘‘
زمین والوں کے توکئی تعصبات اوربہت مصروفیات ہیں۔ مجید امجد کی پنواڑی، کنواں چل رہا ہے اور بندہ جیسی نظموں کے حوالے دینے والوں کو اس بات سے دکھی نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ تو’ کنگن ‘نامی نظموں کو یادکرتے اور ان کے لکھنے والوںکو شاعر جانتے ہیں۔ایسے میں دانیال کی یا ان سے پہلے والوں میں سے علی محمد فرشی کی ’’علینہ‘‘ اور انوار فطرت کی ’’آبِ قدیم کے ساحلوں پر‘‘ کو پڑھنے کے لیے ہماری مصروف زندگی میں کیاکوئی پل ہیں؟یہ دانیال طریر کا رقم کیا گیا استغاثہ ہے۔ وہ نظم کے ابتدائیے میں ہی اپنی میراث کو میرو غالب، نظیر و اقبال اور ان کے بعد میرا جی، ن۔ م راشد، مجید امجد، فیض احمد فیض، منیر نیازی اور آفتاب اقبال شمیم سے موسوم کرتے ہیں۔ نظم کے اخیر میں اپنے ان پیش روؤں کی شاعری کو خراجِ پیش کرتے ہوئے وہ ان جیسی کوئی ایک نظم لکھنے کے لیے اپنی کم مائیگی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ظرف کی بات ہے جس میں شاعر اپنے ماضی کی شاندار تخلیقات سے اپنی نظم کے سلسلے کو بھی جوڑ رہا ہے اور اپنے سینئرز کے کام کو بھی اسی منظر نامے کا حصہ بناتا ہے۔
ن۔ م۔ راشد کی ’ حسن کوزہ گر ‘ نے اردو نظم نگار وں کو طویل نظم لکھنے کی تحریک دی۔ راشد کے ہم عصر میرا جی اور مجید امجد کی نظموں نے آزاد نظم لکھنے والوں کے لیے راستے آسان کر دیے۔آفتاب اقبال شمیم کی زید سے مکالمہ، احمد شمیم کی اجنبی موسم میں ابابیل، افضال احمد سید کی نوجوبنا اور ثوبیہ،انوار فطرت کی آب ِ قدیم کے ساحلوں پر، علی محمد فرشی کی علینہ کے ساتھ ساتھ اور بہت سے شاعروں نے طویل نظم لکھنے کی کامیاب مثالیں پیش کیں۔ شہزاد نیر نے برفاب اور نوحہ گر، عامر سہیل نے مشہدِ عشق، احمد فواد نے’یہ کوئی کتاب نہیں ‘ اور دل ورق ورق تیرا ‘ میں طویل نظمیں لکھیں۔
مری طرف سے یہ چند لفظ صرف خود کو یاد دہانی ہیں کہ ابھی بے انتہا پڑھنا اور بہت سا لکھنا رہتا ہے اور پھر دانیال نے بالکل سچ ہی تو کہا کہ
’دنیا وہ گھاؤ ہے جسے کسی ایک شاعر کے لفظ نہیں بھر سکتے۔‘