ٹرانسکرپشن: خضر حیات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: عارف وقار کے ساتھ انٹرویو میں آپ نے بتایا تھا کہ آپ نے اس کائنات کی ٹوٹیلٹی(Totality) کو وٹگن سٹائن کے انداز میں تخلیقی سینتھیسس (Synthesis)کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا کوئی بھی تخلیقی اظہار کسی بھی امیجی نیشن(Imagination) یا ریالٹی (Reality)کا اظہار ہو سکتا ہے یا کیا وہ حقیقت کی نمائندگی مکمل طور پر کر سکتا ہے؟ خواہ وہ ناول ہو یا کچھ بھی ہو۔
مرزا اطہر بیگ: وہ ایک کوشش ہی ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا یا اس سے یہ طے نہیں ہو جاتا کہ جی اس نے ریالٹی کو پورا Capture کر لیا ہے۔ یہ ایک Impulse ہے، ایک Inner Driveاور ایک Questہے جو چلتی رہتی ہے۔ اور یہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ تو جہاں تک اس میں یہ ریمارک ہے وہ پتہ نہیں عارف وقار نے کب لیا ہے۔ مجھے نہیں پتہ میں نے کب وٹگن سٹائن والی بات کی ہے کیونکہ وٹگن سٹائن مکمل طور پر ایک مختلف سلسلے کی بات کرتا ہے۔
سوال: میں جو سمجھا تھا وہ ایک سٹیٹ آف افیئیرز تھی اور وٹگن سٹائن بھی ایک موقع پر زبان کے حوالے سے سٹیٹ آف افئیرز کی بات تو کرتا ہی ہے کہ زبان سٹیٹ آف افئیرز کا ہی بیان ہے۔ تو اس حوالے سے جو آپ حسن کی صورت حال میں سٹیٹ آف افئیرز بیان کر رہے ہیں۔
مرزا اطہر بیگ: اچھا حسن کی صورت حال کے شروع میں سٹیٹ آف افئیرز کا جو سلسلہ آتا ہے آپ اس کی بات کر رہے ہیں۔ حسن کی صورت حال کا ترجمہ تو سٹیٹ آف افئیر ہو سکتا ہے مگر اس میں کئی سٹیٹس آف افئیرز ہیں اور ایک سطح پر اس کی اپروچ ایک فریگمنٹری ہے مگر بہرحال اس کا کوہیژن ٹوٹل بنتا ہے۔
سوال: ایک اصطلاح جو آپ کے کام کے حوالے سے استعمال ہوتی ہے وہ کومک رئیلزم (Comic Realism)کی ہے۔ میں نے دو تین جگہوں پہ دیکھا ہے کہ لوگ آپ کے کام کو کومک رئیلزم کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ آپ اس اصطلاح کو اپنے کام کے ساتھ کس حد تک جڑتا ہوا محسوس کرتے ہیں؟
مرزا اطہر بیگ: چونکہ میجک رئیلزم ایک چل رہا ہے تو ہم نے سوچا کہ یہ بھی بنا دیتے ہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ کیونکہ Terms تو عموماً باہر سے بن کر آتی ہیں، ہمارا تو اس پہ کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہم سے توقع نہیں کی جاتی کہ ہم بنائیں گے۔ حالانکہ میں اپنے طلبہ پر زور دیتا رہتا ہوں کہ وہ نئے تصورات بنائیں چاہے وہ جتنے بھی عجیب لگیں۔ خیر یہ کومک رئیلزم کا سلسلہ کسی گفتگو میں اس طرح شروع ہوا کہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ میری تحریر میں ہیومر کا ایک سلسلہ گہرائی کے ساتھ ساتھ چلتا نظر آتا ہے لیکن اس کا بنیادی مقصد مزاحیہ تحریر لکھنا نہیں ہوتا بلکہ سیچوئشن (Situation)سے یا بعض کرداروں کی گفتگو سے اس میں مزاح آ جاتا ہے تو اس سے یہ تصور بنا تھا کہ اسےکومک رئیلزم اس کو کہہ سکتے ہیں ۔ یعنی رئیلزم کی ایک سطح برقرار ہے لیکن ایک سچوئشن ایک ایسی وٹ یا ہیومر(Wit or Humor) کی ہے جو کہ ارادی طور پر (مزاح پیدا کرنے کے ) بنیادی مقصد کیلئے نہیں شامل کی گئی۔ تو اس لئے اسے کومک رئیلزم کہا گیا۔ اور ایسا نہیں کہ ساری کی ساری رائٹنگ پہ وہ چھایا ہوا ہے، درمیان میں کسی کسی جگہ کوئی ایسی بات ہوتی ہے کہ وہ شامل ہو جاتا ہے۔
سوال: میں نے آپ کے تینوں ناول آگے پیچھے ہی پڑھے ہیں ، اور میرا ذاتی امپریشن ی یہ ہے کہ تمام چیزیں تین سطحوں پر یا تین پرتوں میں موجود ہیں۔ ایک سطح چیزوں یا واقعات کی ترتیب کی ہے جو کرداروں کے ساتھ موجود ہیں۔ دوسری یہ ہے کہ ہمیں ناول میں موجود ایک مصنف یا لکھاری ان واقعات سے متاثر ہو کر ان واقعات سے متعلق اپنا ایک علیحدہ بیان دے رہا ہے جو کسی لگی لپٹی کے بغیر ہے خواہ وہ گھسیٹا کاری کی صورت میں ہو یا نیلے رجسٹر کی صورت میں اور سب سے اوپر تیسری سطح پر آپ ان چیزوں کو دیکھ رہے ہیں ۔چاہے وہ فکشن کا خدا ہو یا حیرت کی ادارت کرنے والا ۔۔۔۔تیسری سطح پر وہ ان چیزوں کو تشکیل دے رہا ہے۔ تو آپ اس تاثر کے ساتھ کس حد تک اتفاق کرتے ہیں؟
مرزا اطہر بیگ: ہاں میں بالکل اس سے اتفاق کرتا ہوں کیونکہ میری تمام رائٹنگ کی یہ ایک خصوصیت یا تخلیقی مسئلہ ہے کہ ریفلیکسی ویٹی(Reflexivity) یا ٹرننگ بیک آن دی پروسیس اٹ سیلف(Turning back on the process itself) یا جسے سیلف ریفرینشیالٹی(Self Referentiality) بھی بعض اوقات کہتے ہیں وہ ہمیشہ مجھے فیسی نیٹ کرتی ہے ۔ یہ غلام باغ میں بھی ہے، اس کا تناسب صفر سے ایک تک میں تھوڑا کم ہے اور حسن کی صورت حال میں کافی زیادہ ہے۔ تو جسے آپ رائٹنگ آن رائئنگ یا رائٹنگ اباؤٹ رائٹنگ کہیں گے تو یہ ایک خصوصیت ہے جو میری تمام تحریروں میں نظر آتی ہے۔ حتی کہ وہ اسّی صفحے کا افسانہ بے افسانہ ہو، اس میں بھی یہ سطح بہت explicitly آتی ہے۔ یہ ایک فارمل پرابلم ہے جس سے میں ڈیل کرتا ہوں ، چونکہ یہ چیز مجھے فیسی نیٹ کرتی ہے اس لیے جو تخلیق ہے وہ اپنی ہی ذات پر پلٹتی ہے اور اسے بھی سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس لحاظ سے اس کی کئی سٹرین بنتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ میں پراڈکٹ اور پروسیس کی تمیز کو میں ختم کر دیتا ہوں۔ کیونکہ فکشن میں جو چیز بن رہی ہے اور جس طرح سے بن رہی ہے یہ دونوں یکجا ہوتے نظر آتے ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ جو کہا جاتا ہے وہ اصل میں بہت سے متبادلات میں سے ایک ہوتا ہے جو کہ ہم لاتے ہیں اور باقی ‘ان کہا’ ہی رہ جاتا ہے۔ تو یہ بات بھی میرے ذہن میں آتی تھی کہ وہ جو ‘ان کہا’ ہے جسے ہم نہیں کہتے اس کو بھی کسی طرح بیانیے میں شامل کیا جائے۔ اگرچہ اس میں واضح پیراڈوکسیس(Paradoxes) ہیں۔
مطلب میری یہ بات تین سطح پر چلتی ہے ایک تو ورڈ پلے ہے، ایک کیریکٹر پلے ہے اور تیسرا واقعات کا پلے ہے۔ تو اس کے اسٹرکچر میں جب وہ پورا ڈویلپ ہو جاتا ہے تو یہ تین لیول کا پلے آتا ہے۔
سوال: حسن کی صورت حال میں آپ بار بار ایک تکنیک سے دوسری تکنیک میں شفٹ ہو رہے ہیں تو کیا اسے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ایک شخص، واقعے یا شے تک پہنچنے کیلئے کوئی ایک ہی راستہ یا کوئی ایک ہی بیانیہ کافی نہیں ہوتا، آپ کو بہت ساری سطحوں پر اس کو دیکھنا پڑے گا یا کہانی کو کئی کئی طرح سے دیکھنا ہوگا؟
جواب: نہیں ۔ یہ رائٹر کا چوائس ہے اور اس سے قطعاً یہ مراد نہیں ہے کہ جو طریقہ میں استعمال کر رہا ہوں وہ دوسروں سے کوئی افضل طریقہ ہے یا بہت اعلیٰ ہے۔ مجھے بس یہ اچھا لگ رہا ہے تو میں اسے استعمال کر رہا ہوں۔ جو لینئر پروز ہے یا ایک لائن میں چلنے والی کہانی کا طریقہ کار چلا آ رہا ہے یا کلاسیکل گراف جو ایک سٹوری لائن یا ایک ڈرامہ خاص طور پر ایک ڈرامائی صورتحال کا ہوتا ہے ، جس میں Conflicts آتے ہیں وہ ٹھیک ہے ،اگر کسی کو وہ اچھا لگ رہا ہے یا کوئی اس کو کر رہا ہے تو کریں۔ میں اس کو ایک اپنے طریقے سے بیان کر رہا ہوں۔ اس کے پیچھے شاید میرے ایک دو belief، خیر beliefتو نہیں کہنا چاہئے۔۔۔۔۔یعنی فکشن کے بارے میں میری جو انڈرسٹینڈنگ ہے اس کے مطابق ناول اصل میں ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ ناول کا Genre دراصل خود ایک اوپن چیلنج ہے جو Proseکی وسیع تر ایکسپلوریشن کی دعوت دیتا ہے اور اس میں تم جو چاہو کر سکتے ہو۔ اب یہ مصنف پر ہے کہ وہ کس حد تک اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کی نئی ممکنات کو ایکسپلور کرتا ہے. فکشن میں ناول کا Genre لکھنے والوں کے لیے ایک wonderful possibilityہے ۔ تو اس لحاظ سے میں نے اپنے طور پر کوشش کی ہے کہ میں جس حد تک بھی اس کے ساتھ جو کروں اور میری خوش نصیبی ہے کہ جتنے تھوڑے بہت پڑھنے والے مجھے مل گئے ہیں ورنہ یہاں کا سلسلہ ہے اس پہ تو بڑی(لے دے ہے)۔۔۔
اور خاص طور پر میرے ہم عمر یا سینئر لوگ ہیں ، وہ سب نہیں لیکن ان کی اکثریت میرا کام پسند نہیں کرتی ، وہ اس قسم کی تحریر Orient نہیں کر سکتے اور ان کے اس وقت بھی اور اب بھی بہت sever problems بن گئے ہیں، جن کا اظہار بھی ہوا۔ لیکن میرے زیادہ تر ریڈر چالیس سے نیچے نیچے ہی ہیں۔ باقی بزرگان جو ہیں ان کے جو فوسلائزڈ قسم کے مائنڈ اسٹرکچر بن گئے ہیں وہ نہیں ٹوٹتے۔ اور اس پہ مجھے تھوڑی حیرت بھی ہے کیونکہ ان میں بہت پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں اور انہوں نے عالمی ادب کو بھی پڑھا ہوا ہے، کیوں کہ یہ کوئی ایسا انوکھا کام نہیں ہے کہ دنیا میں پہلی بار ہوا ہے۔ بے شمار یورپی زبانوں اور انگریزوں میں ایسے معاملات کئے گئے ہیں۔ اور جس میں نارمل فارم یا فارمیٹ کو توڑ پھوڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ کبھی کچھ ہو رہا ہے اور کبھی کچھ ہو رہا ہے، یہ کوئی ایسا انوکھا نہیں تھا لیکن اردو میں جو لوگ اس کی مانٹیرنگ کرتے ہیں ان کیلئے اس میں کئی طرح کے مسائل تھے۔
سوال: ناول کی طرف آپ کی جو اپروچ ہے جسے آپ نے ایکسپلوریشن کہا ہے کہ ناول نگار ایکسپلور کر رہا ہے۔ اس کے مطلب تو یہ ہے کہ آپ نے ناول نگار کو بہت زیادہ اختیار دے دیا ہے، کہ ناول کے اندر دریافت کا یہ عمل وہ کہاں سے شروع کرنا چاہتا ہے، کہاں ختم کرنا چاہتا ہے اور کہاں تک جانا چاہتا ہے یہ سب کچھ اس کی مرضی پر ہے۔ مطلب ہم جو یہ سمجھتے تھے کہ کہانی اپنی جگہ ایک منطقی انجام تک پہنچے گی ایسا کوئی منطقی انجام نہیں ہے اور کسی قسم کا کوئی انجام ممکن نہیں ہے کیونکہ آپ جہاں تک پہنچ سکے تھے پہنچ گئے، آگے نہیں جا سکے۔
مرزا اطہر بیگ: وہ جو فقرہ اکثر Quoteکیا جاتا ہے نا کہ فکشن کے خالق کو خدا بننے کا اختیار کس نے دیا ہے تو خدا تو وہ بن گیا مگر اس کو اختیار کس نے دیا ہے یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ لیکن اس کو وہ پاور تو مل گئی ہے تو اسے مکمل طور پر ایکسپلائٹ کرے، تو پھر ایسا تو ہوگا ۔لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے، ابندی تو ہے اور یہ پابندی کے اندر ہی چلے گی کیونکہ کسی کونٹینٹ کے ایکسپریشن میں کوئی فارم تو آئے گی ۔ اس فارم کو اگر آپ توڑتے بھی ہیں تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ سرے سے کوئی فارم ہی نہیں رہی، دراصل آپ نے اسے کوئی اور فارم دے دی ہے۔ اسی سے پھر تخلیق کا عمل آگے چلتا ہے اور تحریر میں کسی نئے پن کا سلسلہ ٓئے گا ۔ تو جو بھی نئی فارم ہو گی اس کی کوئی انٹرنل لاجک بھی ہوگی اور ایک اسٹرکچر بھی ہوگا۔ شاک اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ جب مروجہ فارم ٹوٹتی ہے۔ اور اس کے بغیر کوئی آرٹ create نہیں ہوتا۔
جب آپ کوئی لینگوئج استعمال کرتے ہیں تو یہ ایک اور اہم بات ہے کہ لینگوئج خودDictateکرتی ہے کہ narrativeنے کس طرف جانا ہے . اس کے ساتھ اس کی جو higher creative dimensionہے وہ یہ ہے کہ ناول کی prose میں discovery ، لینگوئج کی discovery بھی ہے۔ تو فکشن کی جو سطح میں dream کرتا ہوں یا سوچتا ہوں وہ یہ ہے کہ ناول صرف فکشن ہی نہیں بلکہ کسی لینگوئج کی ڈویلپمنٹ میں بھی اپنا پارٹ پلے کرتا ہے ۔ وہ لینگوئج اور ورلڈ کے مابین تعلق پر بھی بات کرتا ہے جو کہ بذات خود فلسفیانہ تعلق ہے ، اور اس عمل میں یہ نئے سرے سے دریافت ہوتے ہیں۔ تو اس سطح پر میں سمجھتا ہوں کہ میں اس بات کو شیئر کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہNovel writing for me is a way of doing philosophy also.
میرے اوپر الزام تو لگتا ہی ہے کہ اس میں فلسفہ ہے اور یہ ہے وہ ہے۔۔۔ تو یہ ایک طریقہ ہے فلسفہ بیان کرنے کا۔ اور خاص طور پر ہماری غیر مغربی دنیا میں یہ طریقہ زیادہ ضروری بھی ہے اور زیادہ کامیاب بھی ہو سکتا ہے ۔اگرچہ اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی کیونکہ یہ چیزیں اور ناول کا فارم آیا تو وہیں(مغرب) سے ہی ہے ۔
سوال: زبان کا اصل کام عموماً کسی صورت حال کابیان ہے خواہ وہ خیالی ہے یا واقعاتی ہے یا حقیقی ہے۔ ہمارے ہاں جو زبان فکشن میں استعمال ہوتی ہے، خاص کر آپ کے علاوہ جو باقی لوگ لکھ رہے ہیں، جو زبان کی ایک روایتی صورت ہے اس کا رخ ماضی کی طرف ہے اور ہمیشہ وہ ایک خاص رجڈ شکل میں ہی اس کے استعمال کو سب درست سمجھتے ہیں۔ آپ اس پر کیا رائے دیں گے؟
مرزا اطہر بیگ: اردو میں؟
سوال: جی اردو میں۔ اور کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہمارے ہاں سماجی، سیاسی اور معاشی سطح پر حالات کی ایک ایسی صورت حال موجود ہے جس کیلئے زبان کو مزید ڈویلپ کرنے کی ضرورت ہے؟ اور دوسری چیز کہ یہ کہ آپ کے ناول جن میں اس وقت ہم ریالٹی کو ایکسپلور کر رہے ہیں ، ان میں نجات دہندہ کا بھی ذکر ہے اور ہمارے ہاں کی جنسی تشنگیوں کا بھی ذکر ہے، یعنی ہمارے ہاں کی سماجی اور سیاسی زندگی کا تذکر موجود ہے، کیا آپ کے ناول زبان کی حد تک ان حالات کو بیان کر رہے ہیں؟
مرزا اطہر بیگ: دیکھیں جی میں سمجھتا ہوں کہ ناولسٹ جو ہے یا فکشن رائٹر جو ہے وہ ریفارمر نہیں ہوتا۔ اصلاح معاشرہ کا پروگرام دینا قطعاًاس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ وہ کسی بھی انسان کی طرح ایک سیچوئشن Situation میں ہے، وہ ایک سپیس ٹائم Space Timeمیں ہے، ایک لوکیلیٹی Localityمیں ہے، ایک Historical givenness اس کی ہے جس میں وہ اپنے آپ کو پاتا ہے۔ یہ ساری صورت حال اس کے اس پروسیس کا حصہ بنتی ہے۔ اگرچہ اس میں Theoretically کچھ ایسا نہیں ہے کہ اگر میں برازیل کے حالات کے متعلق ناول لکھنا چاہوں تو کوئی مجھے منع نہیں کرے گا مگر ظاہر ہے کہ میں اس کے lifeworld سے متعلق بہت ساری باتیں lack کر جاؤں گا، تو یہیں سے ہی بات اٹھتی ہے۔ لیکن یہ جو بات ہے کہ صورت حال الگ ہے اور زبان اس کو الگ سے بیان کرتی ہے یہ عین ایسا نہیں ہے۔ زبان ہی صورت حال کو پیدا کرتی ہے۔
Language itself creates reality.
یہ بات گہرائی میں فلسفیانہ سطح پر تو سمجھی جا سکتی ہے مگر عام سطح پر سمجھنی شاید مشکل ہو۔ بہرطور اس کو ہم اس طرح لکھ سکتے ہیں کہ ہر شخص کا زبان کے ساتھ ایک منفرد اور بڑا ہی مخصوص تعلق ہوتا ہے جو تقریباً اسی طرح کا یونیک ہے جیسا اس کا فنگر پرنٹ ہے ۔ اب وہ اگر بندہ ایک فکشن رائٹر ہے تو جب وہ اپنی صورت حال، ریالٹی ، تاریخ ، اپنے ہاں کے مسائل ، عذابوں، تکلیفوں ، نا انصافیوں اور سب کچھ کو ڈیل کرے گا یا انہیں Live کرے گا اور پھر اسے ایکسپریس کرے گا تو وہ اپنی خاص زبان اور الفاظ کے تعلق کے ذریعے ہی ایکسپریس کرے گا ۔تو اس طرح جو فکشن بنے گا وہUniquely a product of his personal relation with the world ہوگا۔ تو یہ بات تو ہر بندے کے لئے ہے۔ میں نے اس سیچوئشن کو ایسے پوری طرح بیان کرنے کی بجائے نام لیے بغیر اپنی Totality of situation کے اندر ڈالا ہے ۔ چنانچہ کبیر کا زبان کے ساتھ اور رائٹنگ کے ساتھ ایک مسلسل عذاب چل رہا ہے۔ اس کی کئی سطحیں ہیں وہ رجسٹر لکھتا ہے، Inter-subjective dialogueمیں لینگوئج بریک ہوتی ہے اور پھر بات وہ Intra-Subject میں بھی چلی جاتی ہے اور سیلف ٹو سیلف ریلیشن کی عجیب و غریب سطحیں دکھائی دیتی ہیں۔ کیونکہ انسانوں کے درمیان تعلق تو سارا لینگوئج کے ذریعے ہے ۔ تو ایک ایسی ناممکن صورت حال بھی آ جاتی ہے جس میں وہ ایک ہذیانی سیچوئشن میں چلے جاتے ہیں۔ تو یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو غلام باغ میں ہیں اور شاید کبھی ریڈر بھی ان کو نوٹ کریں۔
حسن کی صورت حال میں اس امر کی ایک اور سطح بھی آتی ہے۔ حسی ادراک یا پرسیپسشن جوحسن کے ذریعے چل رہا ہے جو دنیا کو دیکھ رہا ہے۔ جس میں کوئی بھی چیز اسے اچانک حیرانی میں ڈال دیتی ہے۔ اس نقطہ آغاز سے لے کے جو ایونٹ پیدا ہوتا ہے وہ کیسے لینگوئج کے ساتھportray ہوتا ہے بلکہ Construct ہوتا ہے پھر اس میں آگے narrative کی بات بنتی ہے۔ تو بظاہر اس سارے تجریدی میکنزم کے باوجود بندے نے اپنے اوپر ایک پابندی لگائی ہوتی ہے کہ مجھے ایسا کرنا ہے تو یہ جو ایک so-called readabilityہوتی ہے اس کو میں ہمیشہ ذہن میں رکھتا ہوں۔ وہ اس لئے بھی کہ مجھے علم ہے کہ میرا جو پوراstuff ہے جس میں سے یہ اتنی ساری چیزیں آ رہی ہیں تو مجھے یہ خطرہ ہے کہ کہیں اتنا زیادہ پیچیدہ نہ ہو جائے کہ وہ بالکل کنیکٹ ہی نہ ہو۔ تو پھر جو سوکالڈ سٹوری ہوتی ہے اور اس میں ایکcasual cause effect relationship ہوتا ہے جو ریڈر کو آگے لے کر چلتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ یہ کیوں ہو رہا ہے تو اس میں آپ دراصل وجہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں کہ یہ ایسا ہوا ہے تو کیوں ہوا ہے۔ تو اس کی ایک لائن یا سٹرین کو میں قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور اسی وجہ سے لوگ میرا خیال ہے کہ پڑھ جاتے ہیں۔ یہ دراصل ایک چکر ہے جو کہ دے دیا جاتا ہے اور مجھے اس سے پیار ہے۔ کہ سٹوری کی ایک سوکالڈ پکڑ ہے جو involve رکھنے کیلئے دھوکہ دہی ہی تو ہے۔
اس کی اعلیٰ ترین شکل تو تھرلرز میں ملتی ہے۔ تھرلر رائٹنگ سے تو مجھے عشق ہے اور میرا قطعاً یہ اشرافی ویو نہیں ہے کہ یہ اعلیٰ ادب ہے اور یہ گھٹیا ادب ہے۔ جسے آپ جاسوسی ناول کہتے ہیں یا تھرلر۔ اس میں کوالٹی کی کمی بیشی تو ہو سکتی ہے مگر اچھی تھرلر رائٹنگ کے حوالے سے تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ کیسے کر لیتے ہیں، میں تو نہیں کر سکتا ایسے۔ لیکن تھرلر رائٹنگ سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے اور وہ ہر طرح کا فکشن لکھنے والا سیکھ سکتا ہے۔ جس طریقے سے وہ آپ کو ساتھ رکھتے ہیں، آپ کو انہوں نے سُولی پہ چڑھایا ہوتا ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے تو یہ سب کچھ بہت کمال ہے۔ تو یہ اس کی ایک انتہائی مثال ہے کہ یہ سٹوری کی گرپ، حیرت، سسپنس اور تھرل اور سب کچھ یہ سارے اجزاء جب لٹریری فکشن میں آتے ہیں تو وہ تھوڑے سے زیادہ فنکاری سے استعمال کئے جا سکتے ہیں اور وہ استعمال کرنے بھی چاہئیں۔ یہ آپ کے ٹول ہیں اور بڑے بڑے رائٹر انہیں استعمال کر بھی رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جو اس پہلو سے بالکل بے خبر ہے۔ مثلاً یہ پامک کے ناول پڑھیں یا یہ جو ارجنٹائن والا لولاسا ہے یا پیروکش ہے حتی کہ گارسیا بھی اگرچہ وہ پرانا ہوگیا ہے تو یہ سارے لوگ اگرچہ بہت دائیں بائیں کرتے ہیں مگر پھر بھی کاژیلٹی کی ایک ایسی لائن چھوڑتے ہیں جس میں ریڈر بہرحال رہتا ہے۔ تو یہ جو فکشن مکمل طور پر لینئر ٹائپ کا ہے اس کے علاوہ بڑا کچھ ہے۔
میں ابھی حال ہی میں چلّی کے ایک مصنف ا لبرٹو بلانو کو پڑھ رہا تھا ‘دی سیویج ڈیٹیکٹیوز’ اس کا کافی بڑا ناول تھا اس میں کہیں بھی سیدھی نثر نہیں ہے بلکہ اس میں تیس چالیس کے قریب کردار ہیں جو آتے جاتے ہیں اور بالکل اپنی اپنی بات کرتے جاتے ہیں لیکن پھر بھی اس کے اندر ایک سٹرین چل رہا ہے جو کہ باندھ کے رکھتا ہے۔ پھر یہ جو کتاب میں ابھی پڑھ رہا ہوں جمیکن ناول ہے ‘اے بریف ہسٹری آف سیون کلنگز’ تو اس میں بھی اسی طرح کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ اس میں بھی جو ملٹی پل وائسز ہیں یا جو ملٹی پل کیریکٹرز ہیں وہ آتے رہتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ اس نے ہر ایک کی زبان بھی اپنی دی ہے جو کہ بہت دلچسپ ہے اور بہت مشکل بھی۔ مثال کے طور پر اگر ایک گینگسٹر آیا ہے تو اس کی زبان بالکل وہی ہے جو گینگسٹر کی ہوتی ہے، اسی طرح یونیورسٹی پروفیسر بھی وہی زبان بول رہا ہے جو اس کی ہوتی ہے، اسی طرح وہ سارا چلتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ سارے تجربات تو ہو رہے ہیں دنیا میں اور میں نے جو کیا ہے وہ کوئی ایسا انوکھا تجربہ نہیں ہے۔
سوال: اس میں آپ کو کیا لگتا ہے کہ ابھی آپ نے کہا بھی کہ ریڈر شاید کبھی اس مقام پر پہنچ بھی جائیں کہ وہ ان سارے رشتوں کو ڈسکور کرنا شروع کر دیں جس پر آپ لکھ رہے ہیں تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کے تین ناول اور ایک افسانوں کے مجموعے کا ابلاغ قارئین کے حلقوں میں کس حد تک رہا ہے؟ اس میں ایک اور فرق بھی کیا جانا چاہئیے کہ ایک طرف تو وہ معانی ہیں اور وہ رشتہ ہے چیزوں کے درمیان جسے یا آپ نے توڑا ہے یا جوڑا ہے، پڑھنے والا اس میں کہاں کھڑا ہوتا ہے؟ وہ تو اس بات سے واقف نہیں ہے۔ ظاہر ہے وہ جب کتاب خریدتا ہے یا کھولتا ہے تو اس کو بالکل نہیں پتہ کہ آپ نے کیا کیا ہے۔ تو اس کیلئے تو یہ ایک نئی چیز ہے، نئی دنیا ہے، ایک نئی ڈسکوری ہے۔ تو اس تک کس حد تک ابلاغ ہو سکے گا؟
مرزا اطہر بیگ: دیکھیں جیسا کہ ‘Reader Response Theory’ میں کہا جاتا ہے کہ ہر ریڈر جو ہے اصل میں کتاب کو ایک مرتبہ پھر خود لکھتا ہے۔ لکھتا ہے سے مراد یہ ہے کہ ریڈنگ بھی ایک طرح سے دوبارہ لکھنا ہی ہے۔ اور ہر ایکٹ آف ریڈنگ بھی نیا ہو سکتا ہے تو یہ ایک مستقل چلنے والا عمل ہے۔ کسی بھی لٹریری فکشن کی آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی کوئی آئیڈیل یا The most appropriate understanding ہے یا The exact understanding ہے وہ ریڈر ٹو ریڈر ہمیشہ قاری کے اندر ایک نئی دنیا create کرتا ہے اور اس کو میں مزید اگر کہوں تو یہاں پر فرق تھوڑا مزید واضح ہوگا۔
جو تھرلر ہے اس کا شاید کوئیExact meaningیا ایک معنی ہو سکتا ہے مگر لٹریری فکشن کو یہی چیز ممتاز کرتی ہے کہ وہpolysemic ہوتا ہے جس کے اندر multiple meaningہوتے ہیں۔ تہہ در تہہ معنی چھپے ہوتے ہیں لہٰذا اس کو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مکمل ابلاغ ہو گیا ہے یا نہیں ہوا۔ وہ ہمیشہ ایک open possibility رہے گا اور اس میں سے ہمیشہ نئی سے نئی dimensionsآتی رہیں گیthrough various acts of reading and readers.
تو اس لئے یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ابلاغ مکمل ہوتا ہے لیکن اس کے کچھ ایکسٹرنل پیرامیٹرز ہیں مثلاً اگر آپ کی کتابیں پڑھی جا رہی ہیں۔ اگر وہ امجد سلیم کے گودام میںdump نہیں ہوگئیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ چھپ رہی ہیں اور لوگ اس کا تقاضا کر رہے ہیں اور شاید اس میں ایسا کچھ ہے کہ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ تو اس میں مطلب جو رائٹر ہے اس کے پاس بھی کوئی ایسا کہنے کا ذریعہ نہیں ہوتا کہ وہ کہے کہ اس میں پچاس باتیں میں نے کہی ہیں اور یہ میری رائٹنگ میں سے ملیں گی تو ابلاغ مکمل ہوگا ورنہ یہ نہیں ہوگا، ایسا نہیں ہوتا۔ یہ ایک open processہے۔ اس لحاظ سے لوگوں کا ردعمل میری توقع سے بہتر ہے ۔ اور بعض صورتوں میں تو پڑھنے والے مجھے بھی حیرت میں ڈال دیتے ہیں جب وہ کسی بات کو گہرائی میں سمجھ جاتے ہیں اس لئے میں قاری کو ایسے underestimate نہیں کرتا۔ وہ بالکل بلکہ ایسی باتیں بھی بعض اوقات کہی گئیں کہ میں بھی حیران ہوگیا کہ یہ بات کس ڈائی مینشن میں سمجھی گئی ہے یا کی گئی ہے۔ میں اس لحاظ سے مطمئن ہوں، مجھے اپنی لکھائی میں ابلاغ کا کوئی ایسا مسئلہ نظر نہیں آتا۔ مسئلہ وہی ہے کہ جن لوگوں کی اپروچ ہی کلوز ہے اور وہ اپنے ہی بنائے ہوئے سانچوں میں چیزوں کو فٹ کرتے ہیں تو ان کا اپنا الگ مسئلہ ہے۔
سوال: آپ کے کریکٹرز خاص طور پر بے افسانہ کے کردار کسی ایک ہی واقعہ کے بہت زیادہ زیراثر نظر آتے ہیں، کوئی ایک ایسی بات ہے جس کے وہ ہر وقت زیر اثر رہتے ہیں۔ کیا کوئی ایک واقعہ کسی ایک کردار کو یا ایک شخص کو اس طرح متاثر کر سکتا ہے کہ وہ پوری کہانی کا محور بن جائے؟
مرزا اطہر بیگ: بالکل بن سکتا ہے۔ بلکہ شارٹ سٹوری میں یہ بات بہت ہی نمایاں ہوتی ہے کیونکہ اس میں سپیس ٹائم آپ کا محدود ہے۔ ناول میں تو آپ کے پاس اوپن فیلڈ ہے، یہ تو میراتھون ریس ہے ایک طرح کی لیکن افسانہ ایک سو میٹر ڈیش ہے جس میں آپ نے بس وہاں پہنچ جانا ہے، زندگی کا ایک چھوٹا سلائس کہا جاتا ہے اور اس میں ظاہر ہے کہ جو بھی بات ہوگی وہ اپنے اختصار کے تقاضوں کے حوالے سے یہ مطالبہ کرے گی کہ وہ شدید طور پرfocused ہوگی چاہے وہ کسی کردار پر ہو یا کردار کی کسی ذاتی داخلی کیفیت سے متعلق ہو سکتی ہے یا دنیا میں اس کے ساتھ ہونے والے کسی واقعے سے متعلق ہو سکتی ہے۔ تو میرا خیال ہے یہ بات آپ نے اچھی کہی ہے۔ یہی میں کہہ رہا تھا کہ کبھی کبھار پڑھنے والے مجھے حیران کر دیتے ہیں۔ اس میں واقعی کسی ایک ہی واقعے کے زیراثر رہتے ہیں۔ مثلاً مورا ہے اس میں ایک واقعہ ہے، دیوار کا تھئیٹر میں بھی ایک واقعہ ہے، مسکرانے والا کردار ہے تو ان کے ساتھ ایک واقعہ ہے تو یہ بات ٹھیک کہی آپ نے۔ لیکن اس میں چند افسانے کسی اور طرح کے بھی ہیں مثلاً اس میں وہ تجرباتی قسم کا افسانہ تھا ٹام اور جیری والا۔ وہ ایسے لکھا تھا جیسے ایک ریسرچ پیپر لکھتے ہیں۔
سوال: بہت ساری سطحوں پہ ہمیں یہ لگتا ہے کہ شاید ایسی سیاسی و سماجی تحریک یا ایسا طبقہ موجود نہیں ہے جو آپ کی تحریر کوسمجھنے اور پڑھنے کیلئے ضروری ہے تو آپ اس تاثر سے کتنا اتفاق کرتے ہیں؟
مرزا اطہر بیگ: یہ سوال تھوڑا مبہم ہے، اس کو ذرا واضح کریں۔
سوال: یعنی ایک طرف ہم دیکھ رہے ہیں جیسے سائبرسپیش کا منشی ہے وہ بھی ذات پات کے ایک ایسے نظام میں جکڑا ہوا ہے جو کہ سماجی سطح پر بہت زیادہ مضبوط ہے لیکن ایک خاص سطح پہ جہاں وہ سائبر سپیس میں موجود ہے وہاں پہ اس قسم کا نظام ختم ہو جاتا ہے اور وہ موجود نہیں رہتا۔ حسن کی صورت حال میں بھی ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ کچھ خاص طرح کے واقعات ہو رہے ہیں جو ہماری ایٹیز کی تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
مرزا اطہر بیگ: ایٹیز سے لیکر آج تک کی تاریخ کی طرف؟
سوال: تو اس وقت جہاں آپ تخلیق کر رہے ہیں اور ادب لکھ رہے ہیں اور پڑھا جا رہا ہے تو اس وقت ہمارے معاشرے میں ان واقعات سے متاثرہ کوئی اس قسم کی بحث یا اس قسم کی تحریک موجود نہیں ہے تو ایسے میں (اس کا کس حد تک اثر ہوگا) ؟
مرزا اطہر بیگ: تحریک کا ہونا تو کوئی ضروری نہیں ہے۔ لفظ تحریک سے مراد کیا ہے وہ تو ہر بندہ ہی یہاں تحریکیں چلا رہا ہے۔ عمران خان سے لے کر ہر کوئی ہی تحریک چلا رہا ہے تو تحریک ایک بڑا لفظ ہے، موومنٹ ایک اور طرح کی چیز ہوتی ہے ۔ ایک کرنٹس آف تھاٹس ہوتی ہیں لیکن اس کو کوئی ایک بہت بڑے کینوس پہ تحریک کا نام دینا متعلق اور موزوں نہیں ہے۔ مثلاً اسی پہلو پہ آپ دیکھیں تو لینگوئج اور فارم اور ان سب مسائل کے باوجود حسن کی صورت حال میں میں نے جان بوجھ کر ایٹیز سے شروع کرکے آج تک کے سارے بڑے واقعات اور مسلم ورلڈ اور مسلم تہذیب اور اس کے ساتھ تعلق اور ان کا نالج کی دنیا کے حوالے سے جو کولیپس ہے وہ سب کچھ اور پھر یہ دہشت گردی کا سوال اور یہ سب کچھ، یہ سارا اس بیانئے کے اندر بھرا ہوا ہے۔ مطلب اس بیانئے کے اندر وہ سب چیزیں موجود ہیں۔ تو یہ شاید اجمل صاحب نے بھی کہیں کہا تھا کہ وہ ساری تاریخ اس میں آ جاتی ہے جو ہماری حالیہ تاریخ ہے۔ اب اس میں فرق یہ ہے کہ غلام باغ بہت زیادہ پیچھے تک چلا جاتا ہے اور حسن کی صورت حال یہیں تک ہے۔ ایک تکنیک کے طور پر وہ جو کباڑخانے کا سین ہے اس میں جو ڈائجسٹ رسالے ہیں میرا یہ ذہنی فیصلہ تھا کہ مجھے باقاعدہ کوئی تاریخ دے دینی چاہئیے تاکہ باقاعدہ نوٹس ہو جائے لہٰذا جب وہ ریڈر ڈائجسٹ جب وہ خرید رہا ہے تو وہاں پر یہ ذکر ہو جاتا ہے کہ یہ ایٹیز کے رسالے ہیں تو یہ اس کے مکالمے میں اسٹیبلش ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ایٹیز سے ہی یہ سارا سلسلہ چلا ہے ہماری جو مخصوص مقام ہے اس کو گلوبلی اور وہیں سے ہے۔ تو یہ ساری صورت حال اس کے اندر شامل ہے۔ اس میں پھر جو فلم کی تکنیک استعمال کی تھی اور پھر جو فلم کا سکرپٹ اس میں بنا ہے اور پھر وہی بات جو آپ نے کہی کہ کومک رئیلزم کا سارا سلسلہ بھی اس میں آتا ہے۔ تو یہ سارا کچھ اس میں ہے۔
فکشن رائٹر کا یہ کام نہیں ہے یا میں نہیں سمجھتا کہ وہ کوئی سماجی تھیوریز دے یا وہ کوئی ایسے فیصلے دے یا ججمنٹس پاس کرے یا وہ کوئی آگے کی راہ دکھانے کیلئے ہدایت نامہ قسم کی چیز دے، یہ نہیں ہوتا۔ میرے ذاتی خیال کے مطابق۔ فکشن رائٹر ایک لوڈ رئیلٹی جو جیسی بھی وہ دیکھتا ہے، حقیقی، مسخ شدہ، سرئیلسٹک اور کسی بھی طرح کی رئیلٹی کو فکشن کی ایک فارم میں تخلیق کرتا اور منتقل کرتا ہے۔ اب اس میں سے ریڈر اپنے طور پر کسی بھی نتیجے پر پہنچے یعنی ڈیپ ڈائون اس میں ایک کمنٹ بھی موجود ہوتا ہے، رائٹر کا ورلڈ ویو اور اس کے نزدیک جیسے چیزوں کو ہونا چاہئیے اور جیسے نہیں ہونا چاہئیے وہ بھی ہوتا ہے اور یہ اس میں بھی ہے حسن کی صورت حال میں لیکن وہ کسی نعرے کی شکل میں یا کسی بڑے انکشاف کی شکل میں یا کسی ایسی شکل میں کہ جس سے ایک تحریک چل پڑے ایسے نہیں ہوتا۔ یہ بات جو کہی گئی ہے یہ شاید اس وقت مثلاً جب اس طرح کی تحریکیں جیسا کہ ترقی پسند تحریک ہے یا جس دور میں مارکسزم اور وجودیت کے بلینڈ کی ایک صورت تھی تو اس طرح کے جب بڑے پیٹرن موجود تھے تو اس کے زیراثر لکھنے والے یہ کام کرتے تھے کہ انہیں پتہ تھا کہ جب میں یہ لکھوں گا تو یہ والا طبقہ اس تک پہنچے گا اور اس کی بہت تعریف کرے گا۔ تو اس وقت تو اس طرح کی کوئی چیز گلوبلی ہی نہیں ہے اور اب اس صورت حال کو پھر ایک اور نام دے دیا جاتا ہے پوسٹ ماڈرن ازم کا۔ پوسٹ ماڈرن ازم کا لیبل جو ہے وہ مجھے تو پسند نہیں ہے وہ اس لئے کہ پوسٹ ماڈرن ازم کی شکل یا اس کا آغاز یا اس کا پس منظر وہ ساری ویسٹرن ورلڈ کی ٹریجیکٹری اس کے اندر موجود ہے اور وہاں تو اس کا برآمد ہونا ایک لمبے عمل کے بعد سمجھ میں آتا ہے۔ یہ جب مطلب بیسویں صدی کے بعد کا زمانہ ہے اس میں جب نئی ٹیکنالوجیز اور سوویت یونین کا فال تو اس کے نتیجے میں بلکہ اس سے پہلے ہی جو نئی صورت حال تھی اس کو سمجھنے کیلئے، یہ ایک بڑی دلچسپ بات ہے کہ کسی گورنمنٹ نے کسی فلسفی کو باقاعدہ اس کام پر متعین کیا کہ وہ اسے سمجھے اور بتائے کہ یہ کیا پروسیس ہے۔ تو وہ ایک فرنچ فلسفی تھا لیوٹار کو کینیڈا کی حکومت نے اس پر متعین کیا کہ تم اس پہ کچھ لکھو جو کچھ ہو رہا ہے تو اس نے کتاب لکھی ‘پوسٹ ماڈرن کنڈیشن’ جو ایک طرح سے ایک بنیادی کتاب ہے پوسٹ ماڈرن ازم کی تو یہ وہاں پر تو سمجھ میں آ جاتی ہے بات مگر جب ہم یہاں اٹھا کے کسی بھی چیز کو پوسٹ ماڈرن کہہ دیتے ہیں تو عجیب لگتا ہے کہ پتہ نہیں ہم ماڈرن بھی ہیں کہ نہیں۔ شاید ابھی پری ماڈرن ہیں۔ تو موڈرنٹی اپنے آپ کو مختلف جگہوں پہ ری ڈیفائن کرتی ہے۔ ویسٹرن موڈرنٹی اگر جاپان میں ہے تو اس کی اور شکل ہے اور اگر وہ عرب ورلڈ میں ہے تو اس کی اور شکل ہے۔ تو ہر کلچرل لوکیشن میں موڈرنٹی کی اپنی ایک شکل ہوتی ہے۔ یہاں پر اس کی بہت ہی خوفناک شکل ہے۔ مطلب یہ ہند مسلم ورلڈ میں مسلمان ہیں یا مسلم ورلڈ ہے، برصغیر کے اندر بھی انہوں نے ویسٹرن موڈرنٹی کے ساتھ کس طرح اپنا معاملہ کیا یہ اب کیا کہیں ایک بہت ہی عجیب سلسلہ ہے۔ تو اس کو پوسٹ ماڈرن کہنا تو درست نہیں ہوگا۔ میں نے تو یہ کہا تھا کہ یہاں پر اگر کوئی پوسٹ ماڈرن صورت حال ہے تو وہ حسن کی صورت حال ہے بذات خود۔
This is what it is.
سوال: اس طرح آپ بورخیس کے بہت زیادہ نزدیک نہیں ہو جاتے؟ اس کے ہاں بھی بہت سی جگہوں پہ فرضی مصنف بھی نظر آتے ہیں، بھول بھلیوں کا معاملہ بھی آتا ہے اور وہ بھی آپ کی طرح سے کسی بھی قسم کی اصلاحی اور تبلیغی تحریک کا مبلغ نہیں بنتا۔
مرزا اطہر بیگ: یہ تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ مجھے جو بڑے بڑے متاثر کرنے والے کردار ہیں ان میں بورخیس بھی ہے۔ اس کی وہ جو ایک پیراڈاکسی کل ورلڈ ہے جس میں لبرنتھس، اور مررز اور امیجنری رائٹنگ اور وہ سارا۔ لیکن اس میں اگر آپ دیکھیں تو اس کی کہانیوں میں یہ سوشیو پولیٹیکل اسپیکٹ سرے سے ہی نہیں ہے۔ وہ بڑی ایبسٹریکٹ قسم کی فکشن ہے جو کہ کمال ہے۔ تو اس کا اثر میرے اوپر ہے۔ تو یہ بورخیس کا اثر ہوسکتا ہے مطلب یہ ارادی طور پر تو نہیں ہوتا لیکن وہ ہے۔ لیکن میری تحریر میں ہماری سماجی، تاریخی، داخلی اور خارجی صورت حال نمایاں اور واضح ہے اور اس کی نشاندہی کر دی گئی ہے لیکن ان میں وہ ہائی ڈگری ایبسٹریکشن نہیں ہے جو بورخیس کے ہاں پایا جاتا ہے وہ خالص طور پر ایک فارمالسٹ ہے لیکن میری تحریر میں تو کونٹینٹ موجود ہیں اور واضح طور پر موجود ہیں۔ ویسے میرے اوپر جو دوسرا اثر ہے وہ ایڈگر ایلن پو کا ہے۔ پو کی ساری نثر مجھے بے حد متاثر کرتی رہی ہے، اس کے افسانے سارے۔
سوال: ابھی آپ نے کہا کہ موڈرنٹی جہاں بھی ہوں گی وہ اپنے ایک مختلف رنگ میں ہوگی تو اس سے کیا ہم یہ طے کر رہے ہیں کہ کوئی ایک ایسی خاص سیچوئشن ہے جسے
ماڈرن کہا جاتا ہے، وہ ماڈرن ہے اور اسے قرار دیا جا سکتا ہے اور پھر اس کو کہیں اپنایا جاتا ہے؟ فکشن کے علاوہ حقیقی دنیا میں بھی کیا کوئی خاص صورت حال ہے جو ماڈرن کہلائے گی اور پھر اس کو مختلف جگہوں پر لوگ اپنائیں گے؟
مرزا اطہر بیگ: موڈرنٹی کا پس منظر اور اس کا پیش منظر تو مغربی دنیا میں آتا ہے کہ سب سولہویں صدی میں ہم دیکھتے ہیں کہ قرونِ وسطیٰ والی سوچ تھی جو ڈی ڈکٹیو ماڈل تھی یا اتھاری ٹیرین تھی اور وہ ساری مذہبی تھی۔ اس میں جتنی سوچ تھی وہ ساری بائبل، یونانی فلسفے اور مدرسیت پر مبنی تھی۔ تو اس کے بعد سولہویں صدی کے بعد نشاۃ ثانیہ ہوا اور پھر سائنس کے عروج کے بعد استخراجی کے بعد استقرائی سوچ پیدا ہوئی جو کہ ایک بہت بڑی چیز تھی جس نے موڈرنٹی کی سپرٹ کو پیدا کیا اور اس نے ویسٹرن آدمی کے اندر انفرادیت پسندی کی سٹرین کو بہت مضبوط کیا اور مغربی انسان اس بات پر حوصلے میں آیا کہ میں اکیلے ہی دنیا کو تسخیر کر سکتا ہوں اور مجھے کسی اتھارٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ یہ کوئی اتنا آسان نہیں تھا اور اس ذہنی حالت سے نکلنے میں بھی صدیاں لگ گئیں۔ لیکن یہ جو موڈرنی کا ایک سلسلہ وہاں پر شروع ہوا جس میں یہ یقین پیدا ہوا کہ دنیا کو جانا جا سکتا ہے اور انسان اپنے ذہنی قویٰ کو استعمال کرکے اس کو ڈھونڈ سکتا ہے یہ موڈرنٹی کی سپرٹ ہے۔
اور پھر اٹھارہویں صدی میں یہی تحریک روشن خیالی میں بدل گئی اور روشن خیالی کی تحریک نے اس کو میچور کیا۔ لیکن اس کے بعد کی کہانی سارے جانتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے کونونیل پاور بن کے دنیا پر حکومت کی اور وہ سب عروج جو کہ ویسٹ نے پچھلی کچھ صدیوں کے دوران حاصل کیا۔ باقی تمام انسانی تجربات اس میں اپنی اپنی جگہ پاتے ہیں۔ اس لحاظ سے جو ابتدائی دور ہے سولہویں، سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں فلسفہ نے یہ کردار ادا کیا کہ اس نے مذہب اور سائنس کو ٹکرائو سے بچایا اور دونوں کے درمیان ایک بفر زون بنایا جو کہ دونوں طرف کے جھٹکوں کو برداشت اور جذب کرتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ اچھا ثابت ہوا۔ مثلاً ثقافتی طور پر آج بھی عیسائیت مغرب کے اندر موجود ہے ایسا نہیں کہ ختم ہوگئی۔ لیکن وہ اس طرح عقل سے یا سائنس سے یا جدیدیت سے ایک ٹکرائو کی صورت میں موجود نہیں ہے۔ تو یہ سارا بیانیہ جو ہے اسے ہم ماڈرنٹی کہتے ہیں۔ اب موڈرنٹی کی یہ تو سٹین ہے وہ حقیقی طور پر تو کولونیل پروسیس کے ذریعے برصغیر میں آئی اور اسی طرح دوسری دنیا میں۔ اب وہاں پر اس کا کوئی سیدھا سیدھا پروٹوکول نہیں ہے، اس کے پیچھے سب سے بڑا مانترہ ترقی کا ہی ہے اور ترقی کرنے سے کوئی بھی انکار نہیں کرے گا خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ مغرب ہو یا نہایت ہی کوئی دقیانوسی ملک ہو، ترقی پہ تو سرے سے کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ تو اس نام نہاد ترقی کے سیدھے سیدھے کچھ طریقے ہیں جو اسی موڈرنٹی کی سٹرین سے آتے ہیں۔ لیکن آپ کا سارا سوشیو کلچرل ہسٹوریکل سارا مائنڈ سیٹ ہے وہ کس طرح ایسا پروسیس پیدا کرے گا کہ آپ موڈرنٹی کے اس تصور کو اپنے حالات کے مطابق بدل لیں۔ تو اس پہ بے شمار سادہ قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ کنفیوژ کر دیتے ہیں سائنس کو ٹیکنالوجی سے حالانکہ ٹیکنالوجی تو سائنس کی ایک آئوٹ پٹ ہے، پروڈکٹ ہے اور سائنس بذات خود ایک ورلڈ ویو ہے۔ اس ورلڈ ویو کو بنائے، اپنائے اور کلچر کئے بغیر آپ کس قسم کی ترقی چاہتے ہیں۔ یہ اسی قسم کی ہوگی کہ آپ وہاں سے چیزیں منگوائیں، امپورٹ کریں تو یہ اصل میں ایک بہت بڑے مینٹل کے اوس کی شکل ہے اور کچھ جو اچھے ماڈل ہیں جنہوں نے اپنے کلچر اور اپنی کلچرل فیلنگ اور کلچرل صورت حال کو ساتھ رکھتے ہوئے ویسٹرن موڈرنٹی کو اختیار کیا ہے اور یہ حسن کی صورت حال میں بھی ہے۔ وہ پروفیسر کا یہی کرائسس ہے وہ جو جاپان کی مثال دیتا ہے اور وہ پھر اسلام کی نشاۃِ ثانیہ والا جو اس کا تھیسز گم ہوگیا ہے تو وہ سارا اسی بات پر ہی لکھا گیا ہے، اسی ترقی اور جدیدیت کے سلسلے پر۔ اصل میں گلِچ جو ہے وہ ڈیپر لیول پر موجود ہے اور وہ اتنی آسانی سے حل نہیں ہو سکتی۔ کچھ چیزیں ہیں جو ساتھ ساتھ ترقی نہیں کر سکتیں، وجود تو شاید قائم رکھ لیں ساکن حالت میں چنانچہ تخلیقی سطح پر جب تک آپ کا خیال دنیا کے ساتھ کچھ مختلف تعلق نہیں بنائے گا تو اس وقت تک آپ بھول جائیں کہ کسی بھی حالت میں وہ جو سیکشن آف ہیومینٹی ہے وہ کوئی حقیقی ترقی کرے جو اس کی ڈیجی نس ہو۔ تو اس میں جو ‘ان ڈیجی نس’ کا تصور ہے یہ اہم ہے۔ جب تک آپ اپنی زمین میں سے، مٹی میں سے۔۔۔ دیکھیں نا اگر آپ کسی پودے کو کسی دوسری جگہ پر لگاتے ہیں تو اگر تو اس کی مٹی اور آب و ہوا اتنی ایلئین یا اجنبی ہے اور اس کے ساتھ کسی بھی طرح نہیں چلتی تو وہ مر جائے گا لیکن آپ کوئی ایسی شکل بنا لیتے ہیں کہ اس کی کوئی پرورش یا خوراک کو مقامی نوعیت کا رنگ دیتے ہیں تو بہرحال اس کی پرورش اسی شکل میں ہوگی کہ اگر وہیں سے کسی طرح آپ اس کے اندر تخلیقی عمل کو شروع کر سکیں۔ تو ہماری ساری تعلیم کی اپروچ ہی غیر تخلیقی ہے۔ نقل والی اپروچ (امی ٹیٹو) جس کے نتیجے میں طوطے اور بندر پیدا ہوتے ہیں اور کچھ پیدا نہیں ہوتا۔
This is what it is.
تو یہ بات ہم کر رہے تھے تو یہ حسن کی صورت حال کا ایک بہت اہم حصہ ہے۔ تو اگر یہ کہا جائے کہ یہ کسی سماجی صورت حال کا ذکر ہے تو اس سے بڑھ کر اور کیا سماجی صورت حال ہوگی۔ گہرائی والا مسئلہ تو یہ ہے۔
سوال: جدیدیت کے اندر بھی ہمیں ایک رجحان نظر آتا ہے کہ ہمیں حقیقت کا ادراک ہونا چاہئیے اور جیسا کہ ابھی آپ نے کہا کہ ایک فرد نے فیصلہ کیا کہ میں واقعی ایسا کر سکتا ہوں تو آپ کے خیال میں واقعی یہ ممکن بھی ہے کہ ہم حقیقت کے بارے میں ایسی کوئی حتمی رائے یا حتمی سے قریب ترین رائے قائم کر سکیں گے یا اس کا علم ممکن ہے؟ یہ خاصا وسیع سوال ہے جس کا سکوپ کافی بڑھ جاتا ہے۔
مرزا اطہر بیگ: اگر تو اس سوال کو آپ خالصتاً فلسفیانہ سطح پر لیں تو پھر ظاہر ہے کہ اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کبھی بھی آپ کہہ سکیں کہ یہ حقیقت ہے اور یہ سارا سلسلہ ہے اور وہ ایک طرح کے گول اور کوئسٹ کی سطح پر ہے لیکن حقیقت کے بارے میں کوئی ایک نظریہ تو ہے نہیں، کئی ہیں۔ سائنس کا یہ ضرور طریقہ ہے کہ اس میں ایک ورکنگ تھیوری آف رئیلٹی موجود ہے مثلاً اس میں ہم اپنے حواس پر اعتماد کرتے ہیں، اس کے ثبوت اور گواہی پر۔ پھر اپنا منطقی سوچ کے عمل کو بھی ہم اس قابل سمجھتے ہیں کہ اس کا تجزیہ کرکے دنیا کے بارے میں بتائے۔ اس کے نتیجے میں بعض اوقات یہ ہوتا رہتا ہے کہ کچھ جو بہت بڑے بڑے سائنس دان بھی ہیں وہ اس واہمے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ بس جو کچھ جاننا تھا وہ پتہ چل گیا ہے۔ حتی کہ سٹیفن ہاکنگ نے بھی ایک بار اعلان کیا تھا کہ Whatever has to be known is almost known, whatever.پھر اس کے بعد وہ کوئی شرط ہار گیا یا جو بھی ہوا۔ اسی طرح فلسفے پر بھی حملے کرتے رہتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ماہر ماحولیات ٹائی سن نے کہا تھا کہ فلسفے کا کاروبار بند ہونا چاہئیے، ہم سائنسدان یہ سب کچھ کر لیں گے اس لئے فلسفے کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر مسئلہ یہ ہے کہ سائنس بھی جب اپنی ایڈوانس سطح پر جاتی ہے مثلاً جب آپ کائنات کے آغاز سے متعلق سوال کرتے ہیں، یا تخلیق کے بارے میں یا زندگی کے بارے میں یہ سارے جب آپ کرتے ہیں تو یہ ہائیلی فلوسوفیکل ہو جاتے ہیں۔ تو اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ دو طرح کے رویئے سامنے آتے ہیں۔ ایک تو اس قسم کے لوگ ہیں جن کو کسی ہارڈکور قسم کے تیقن کی ضرورت ہوتی ہے کہ جی بس پکا یقین جسے کہتے ہیں، ان کے لئے پھر اس طرح آسانی رہتی ہے اور وہ مزے میں رہتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو کہ سچ کی گنجائش چھوڑتے ہیں اور اس کی انتہائی شکل پھر یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہر چیز میں ہی شک آ جاتا ہے۔ یہ معاملہ پھر جو لوگ فلسفے کی طرف جاتے ہیں اس میں آتا ہے۔ اب یہ دونوں سٹرینز، ایک بالکل پکا تیقن اور دوسری بالکل شک و شبہ، یہ دونوں مختلف قسم کی دیوانگی کی سطحیں ہیں۔ انسان ہونا اس کے درمیان کہیں ہوتا ہے۔
It is human to be in doubt.
جب آپ شک کا عنصر بالکل نکال دیتے ہیں تو پتہ نہیں آپ پتھر بن جاتے ہیں یا کیا بن جاتے ہیں۔ اس لئے ریالٹی پر اتنا بہت زیادہ اصرار نہیں ہونا چاہئیے۔ لیکن ایک ڈے ٹو ڈے کامن سینس لونگ کیلئے جو کہ چل رہی ہے ایک ورکنگ ریالٹی کا تصور ہے جو چل رہا ہے اور اسی میں ہم رہتے ہیں۔ اس میں بھی مسئلے اس لیول پر پیدا ہوتے ہیں جب ہم بہت گہرائی میں جانے لگتے ہیں۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے کیونکہ اسی کے نتیجے میں پھر آپ کو علم اور آگہی کی نئی سطحیں میسر آتی ہیں۔ تو اب یہ سب کچھ فکشن کے اندر آنا چاہئیے۔ حتیٰ کہ مثلاً میں یہ سن رہا تھا اور میں اس کا انتظار کر رہا تھا ایک شارٹ سٹوری تھی پتہ نہیں کس کی، اب اس پر ایک فلم آ رہی ہے ‘ارائیول’ یہ ابھی آنی ہے، یہ سائنس فکشن ہے۔ اس میں مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اس نے لینگوئج کا سٹرکچر ہے اور لینگوئچ کی کمیونیکیشن ہے، اس میں ایلین لینگوئج جو کہ ایک اور ہی طرح کی دنیا بناتی ہے اس کو فلم کا موضوع بنایا ہے جو کہ یقیناً حیرت انگیز ہوگی۔ تو یہ اتنا تجریدی موضوع فکشن میں اور پھر فلم میں آ سکتا ہے۔ ہمارے ہاں اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ اردو میں، یہ ایک عجیب بات ہے کہ یہاں کے لوگ انگریزی چیزیں پڑھتے ہیں یا وہ چیزیں جو انگریزی کے ذریعے سے آتی ہیں تو وہاں پر مثلاً لاطینی امریکہ کے مصنف ہوب سکوچ کی تحریر تو پڑھ لیں گے اور اس پہ بات بھی کر لیں گے، وہ تو ان کو قبول ہوگا۔ اس ناول میں تو ایک اور بھی عجیب چیز ہے کہ ہر باب جب ختم ہوتا ہے تو اس کے بعد لکھا ہوتا ہے کہ اب ناول کو فلاں صفحے سے شروع کریں، وہاں پڑھیں گے تو اس کے اختتام پر کسی اور صفحے پر جانے کا کہا جائے گا تو وہ سارا ناول اسی طرح چلتا ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جو یہ ساری چیزیں پڑھتے ہیں اور جس وقت وہ اردو کی طرف آتے ہیں تو ان کا مائنڈ سیٹ ہی بدل جاتا ہے۔ وہ اردو کو اوپن کرنا ہی نہیں چاہتے۔ باقی میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری جو مقامی زبانیں ہیں، صرف اردو ہی نہیں پنجابی بھی ان میں اتنا پوٹینشل موجود ہے کہ آپ دنیا کی کسی بھی موضوع، کسی بھی سیچوئشن اور کسی بھی فارم آف فکشنالیٹی کو اس میں لا سکتے ہیں۔ یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت محدود زبانیں ہیں، اس کو میں تسلیم نہیں کرتا۔ اصل میں تو یہی کوشش ہونی چاہئیے کہ آپ ان کو اوپن کریں۔ ان کے اندر کے پوٹینشل کو جب تک آپ نے اس کے اوپر جکڑ بند لگائے ہوئے ہیں جس میں آپ اس کو دو سو سال پیچھے لے کے جانا چاہتے ہیں تو جب تک آپ اس کو چھوڑیں گے نہیں تو کیسے اس میں وہ سارا آئے گا۔
تو اصل سوال آپ کا یہی تھا یا کچھ اور تھا؟
سوال: میں ریالٹی کے متعلق جاننا چاہ رہا تھا۔
مرزا اطہر بیگ: ہاں جی تو جو ریالٹی ہے وہ ایک کنسٹرکشن ہے جس میں عام سطح پر کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا لیکن جب اس کو کہیں بڑے بڑے انسانی تجربات میں اس کی انتہا تک یا گہرائی میں جائیں گے تو اس میں کئی چیزیں ڈزولو ہوں گی اور ویگ ہوں گی۔ اب اس میں خواہ وہ خالصتاً سائنس ہو، فلسفہ تو ہے ہی ہے۔ اور اس کے علاوہ تصوف کا جو سلسلہ ہے جس میں صوفیا بھی شامل ہیں ان کا اپنا ہی (نظریہ) ہے۔ ویسے ایک سطح اور بھی ہے جس میں ریالٹی خالصتاً ایک نفسیاتی ضرورت بھی لگتی ہے۔ کوئی چیز بھی اگر آپ اس کو بطور ریالٹی تسلیم کرلیں تو آپ کا کام چل جاتا ہے۔ مطلب اب دیکھیں نا کہ یہ بھی ایک وقت تھا کہ جب لوگ سمجھتے تھے کہ زمین ایک بیل کے سر پر کھڑی ہے تو یہ نظریہ ان کو مطمئن رکھتا ہے۔ تو حقیقت کے متعلق تیقن کافی حد تک ایک نفسیاتی کیفیت بھی ہے جس میں خارجی طور پر آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ آپ اسی کو مانیں یا نہ مانیں۔
سوال: آج کل آپ کس پہ کام کر رہے ہیں؟ میں نے سنا تھا کہ آپ پنجابی میں بھی کچھ لکھ رہے ہیں۔
مرزا اطہر بیگ: ہاں جی پنجابی میں بھی ایک کام ہے جو شروع تو کیا ہوا ہے۔ لیکن اصل میں میرا یہ مسئلہ بن گیا تھا حسن کی صورت حال لکھنے کے بعد کہ میں نے شاید یہ صحیح فیصلہ کیا یا غلط، جیسے ہم بہت سی چیزیں پڑھتے ہیں، جیسے زمانہ طالب علمی کے ابتدائی سالوں میں آپ پانچ یا چھ مضامین پڑھ رہے ہوتے ہیں تو کیوں نہیں یہ ہو سکتا کہ تین چار چیزیں لکھنی شروع کر دی جائیں جو various stages of mental condition ہے۔ تو وہ پھر میں نے یہ فیصلہ کیا تو اس کے نتیجے میں چار پانچ مختلف قسم کے ٹیکسٹ میں لکھ رہا ہوں۔ پتہ نہیں یہ ایک مہلک اور خوفناک فیصلہ ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ بھی نہ پیدا ہو اور سب کچھ ہی ڈزولو ہو جائے۔ یا شاید دو تین چیزیں اکٹھی آ جائیں۔ لیکن یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ ایک تو پرانا میرا ناول تھا جس کے کوئی چار سو صفحے لکھے ہوئے تھے جو میں نے غلام باغ کے بعد شروع کیا تھا اور جو دوسری چیزیں آتی رہیں اور وہ وہیں پڑا رہا۔ اس کو میں نے دوبارہ شروع کیا تو اس کی شکل ساری بدلنی تھی میں نے، اس کی میں پرانی والی شکل نہیں رکھ سکتا تھا۔ ایک وہ تھا۔ اچھا پھر ایک ناویلا جسے کہہ سکتے ہیں وہ شروع کیا جو پہلے سے چل رہا تھا۔ پھر ایک کومک رئیلزم کی بجائے باقاعدہ کومک شروع کر بیٹھا ‘خفیف مخفی کی خواب بیتی’ کے نام سے۔ پھر میرا ایک سیریل تھا ڈرامے کا جو 2011ء میں ایک بندے نے ذاتی حیثیت میں لکھوایا تھا، وہ کوئی سولہ قسطوں کا ہارر سیریل تھا پچاس منٹوں والا مگر وہ بعد میں اسے پروڈیوس نہیں کر سکا کیونکہ اس میں بہت زیادہ پیسہ لگنا تھا۔ مجھے تو اس نے بطور لکھاری ادائیگی کر دی مگر میں سوچ رہا تھا کہ یہ ایک تحریر ہے جو بالکل ہی برباد ہوگئی۔ نہ تو اس کا سیریل بنا اور نہ ہی یہ چھپ سکی تو اس کو میں نے ایک ناول کی شکل دینی شروع کر دی ‘آسیب نگری’ کے نام سے۔ وہ بڑا مجھے مزہ آنے لگا۔ وہ ایک بڑا دلچسپ، سنسنی خیز اور تجسس بھرا تھا۔ اور پانچواں یہ پنجابی کا ہے۔ تو اس وقت پانچ مختلف چیزیں ہیں جو مختلف مراحل میں ہیں۔ کوئی چار سو صفحے پہ ہے، کوئی ڈیڑھ سو پہ، کوئی پچاس پہ اور کوئی اسّی پہ ہے۔ یہ بڑا خطرناک کام ہے پتہ نہیں اس میں سے کیا نکلتا ہے۔ کیونکہ عام طور پر بڑے بڑے ادیب جو ہوتے ہیں ان کا مشورہ اور فارمولا یہی ہوتا ہے کہ ایک وقت میں ایک کام کرو۔ میں نے سوچا کہ کیوں آخر کیوں ایسا ہی کیا جائے۔ مجھے تو ویسے بھی روزانہ ذہن بدلنا پڑتا ہے مثلاً میں کلاس میں فلسفہ پڑھاتا ہوں تو اور مائنڈ سیٹ ہوتا ہے، اور اس میں اگر کچھ لکھنا ہے مثلاً نثر، پیپر یا ڈرامہ تو یہ ایک اور مائنڈ سیٹ ہے یعنی مجھے سوئچ کرنا پڑتا ہے تو اس کے نتیجے میں حسن کی صورت حال چھپا تھا 2014ء میں اور اب دو سال ہو گئے ہیں مگر کوئی ایک بھی پراجیکٹ مکمل نہیں ہوا۔ تو یہی کچھ ہے جو میں کر رہا ہوں۔
سوال: کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہم ایک سوشل تھیوکریٹک ریفارمیشن کے دور سے گزر رہے ہیں؟ کیونکہ جب تک اس دور سے نہیں گزریں گے تب تک ہم جدیدیت اور عقل کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکیں گے۔
مرزا اطہر بیگ: دیکھیں جی میں نے ایک لفظ کہا ہے جسےIndigenizationکہا جاتا ہے میرا خیال ہے کہ اس کے اندر حل موجود ہیں۔ کیونکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ساری ساکت شکل کا علم جو آپ کے پاس باہر سے آ رہا ہے ایک جنس کے طور پر اور جو آپ اس کو ماسٹر کرکے آگے منتقل کر دیتے ہیں اور ڈگریز لیتے ہیں۔ یہ دراصل آپ کو متاثر ہی نہیں کرتا۔ آپ کے ذہنی عوامل کو مجموعی طور پر متاثر ہی نہیں کرتا۔
It leaves you in cold.
چنانچہ یہ بالکل ممکن ہے بلکہ بہت بالکل ہے کہ ایک بائیالوجی کا پروفیسر ڈارون کی تھیوری پڑھا رہا ہے اور دل میں اس کو گالیاں نکال رہا ہے۔ یہ ہے۔ اچھا اب یہ ایک فیکچوئل چیز ہے کہ یہ ہوتا ہے۔ اچھا ہم سجھ رہے ہیں کہ اس کا شاید کوئی اثر نہیں ہوتا۔ میرا ذاتی خیال ہے اور میں اس کو اس خاص طرح سے تھیورائز نہیں کروں گا کہ جب آپun-resolvedقسم کی اینٹی ٹیز کو ذہن کے اندر بیک وقت رکھتے ہیں تو یہ آپ کی ذہنی توانائی کو کم کر دیتا ہے۔ اور وہ بالآخر آپ کو ایک ذہنی پستی کی طرف لے جاتا ہے۔ یعنی چیزیں ریزولو نہیں کر رہے آپ بلکہ ری جیکٹ کر رہے ہیں۔ آپ کا ریالٹی کا نظریہ کچھ اور ہے اور جو آپ دعویٰ کر رہے ہیں وہ کچھ اور ہے۔
This will never generate a creative process.
کیونکہ آپ نے اس کو الگ الگ ہوا بند خانوں میں رکھا ہوا ہے۔ اور اس کو ختم کرنا اس بندے کیلئے ایک بہت بڑا کے اوس ہوگا کیونکہ اس کے اپنے بھی نظریات ہیں۔ اصل میں تو ہوتا یہ ہے کہ لفظ اور دنیا کے درمیان ہمارا تعلق ٹوٹا ہوا ہے، وہ تعلق ہے ہی نہیں۔ ہمارے پاس باہر سے جو بھی انفارمیشن ٹیکسٹ کی شکل میں آتی ہے اس کو بڑے ایک لگے بندھے انداز میں ماسٹر کرتے ہیں اور اس کو اپنی ضرورت کے مطابق آگے لے جاتے ہیں لیکن وہ آپ کے ٹوٹل ورلڈ ویو سے بالکل نہیں ملتی اور یہ پروسیس اس وقت ہی شروع ہو جاتا ہے جب بچہ پانچ سال کا ہی ہوتا ہے۔ یہ ہر کسی کے ساتھ تو نہیں ہوتا مگر ایک عمومی اکثریت اسی مسئلے کا شکار ہوتی ہے۔ قدرتی تجسس جو کہ ایک بہت ہی قیمتی چیز ہے اور جو تمام تخلیقی رویئے کی اساس بنتی ہے اسے ہم قتل کر دیتے ہیں شروع میں ہی اور بچے کا بالآخر مائنڈ سیٹ یہی بنتا ہے کہ ریالٹی کا تو ہمیں پہلے سے ہی پتہ ہے اور یہ سارا دھندا دنیا کے کاموں کو چلانے کیلئے ہے۔ تو اس کا پھر ایک جذباتی پہلو جو ہے وہ ختم ہو جاتا ہے بلکہ وہ ایک رکاوٹ، بے چینی اور ٹکرائو کی صورت بنتی ہے کیونکہ
Knowledge is not only a process of cognition, knowing or understanding, it is also an emotional process.
یہ بات اس سے پہلے شاید کسی نے کی ہو یا نہیں لیکن ایک جذباتی پہلو اس کے ساتھ انوالو ہونا اتنا ہی ضروری ہے اور ان لوگوں کیلئے تو بہت ضروری ہے علم جن کے کاروبار میں ہے یا جو علم کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں۔ پھر اس کے نتیجے میں جو ہوگا وہ آپ کے سامنے ہے۔
وہ جو ایک پروسیس ہوتا ہےConceptualizeکرنے کا اور پھر اس سے اگلی سٹیج پہTheorizeکرنے کا وہ شروع ہی نہیں ہوتا۔ ایک ٹکڑوں میں بٹی ہوئی، ایک فریگمنٹری قسم کی انڈرسٹینڈنگ (اس کو پتہ نہیں انڈرسٹینڈنگ بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں) کا پیدا ہونا اور اس کو یاد کرنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک عام بات ہے۔ لیکن اس میں کوئی اس طرح کا مسئلہ نہیں ہے کہ ہمارے اندر کوئی کمی ہے، ہم ذہنی طور پر کمزور یا بیمار ہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ لیکن یہ جو اس طرح کے معاشرے ہیں جو کرائسز سے نہیں نکلے ان کا یہی مسئلہ ہے تو اب یہ تو تعلیم کے بالکل ابتدائی لیول سے کام شروع ہو تو ہو ورنہ پتہ نہیں کیا ہوگا۔
سوال: مثلاً نشاۃ ثانیہ سے بھی پہلے جیسا کہ ریفارمیشن کی ایک تحریک چل رہی تھی جو نشاۃ ثانیہ کی راہیں ہموار کر رہی تھی، اس طرح کی کوئی تحریک ہمارے ہاں کیوں نہیں چل رہی؟
مرزا اطہر بیگ: درست کہا کہ وہ جسے قرونِ وسطیٰ کا دور کہا جاتا ہے اس میں بھی ایسے کام ہو رہے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ سولہویں صدی اچانک آ گئی، یہ ایک طویل عمل تھا۔
Dark ages were not that dark actually.
اس کے دوران بھی فیوڈل ازم ختم ہوا، پھر اس کی بجائے نیشن سٹیٹس منظرعام پر آئیں اور پھر بیوروکریسی کا پورا ادارہ اسی دور میں شروع ہوا۔ جس میں ذاتی وفاداریوں پر جو نوکریاں دی جاتی تھیں وہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ اور پھر کارکردگی کی بنیاد پر جانچ کا عمل شروع ہوا۔ اس کے علاوہ عیسیائیت کے اندر جو اصلاحات آئیں وہ بھی ایک مرحلہ تھا تو یہ ایک لمبا پروسیس ہے چھ سات سو سال کا۔ وہاں پر یہ ہوا کہ چرچ نے آہستہ آہستہ جدید یونیورسٹی کو جنم دیا، اس کا رسمی سیٹ اپ آج بھی کسی یونیورسٹی کے کانووکیشن میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ہماری مسلم دنیا کے اولین دور کی جو عقلی تحریک ہے وہ بھی اپنی سمجھ بوجھ اور فلسفیانہ طور پر کمزور نہیں تھے انہوں نے بھی یونانی فلسفے کو بہت تخلیقی اور تنقیدی طور پر اپنے فلسفے میں شامل کیا لیکن اس کے بعد پتہ نہیں کیا ہوا، یہ میری فیلڈ نہیں ہے اور اس پر مجھے کوئی کتاب بھی نہیں ملی۔ مسلم دنیا کے سارے فلسفی لونرز تھے مطلب اکیلے اپنی ذات میں۔ اور پھر ان کے درمیان بہت زیادہ فاصلے تھے مثلاً ایک بندہ خراسان میں بیٹھا ہے، دوسرا قرطبہ میں تو وہ سارا مل کر ایک مجموعی روایت نہ بن سکی اور نہ ہی اس کا تسلسل جاری رہ سکا۔ اس میں سے رسمی تعلیم کے کوئی بڑے ادارے جنم نہ لے سکے۔ غالباً یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ اگرچہ رُشد اور غزالی کے حوالے سے ایک انٹریکشن نظر آتا ہے مگر غزالی کا کردار بہت متنازعہ ہے جس میں اس نے عقل پر اعتراض کیا اور کہا جاتا ہے کہ اس کا خاصا ایک منفی اثر پڑا۔ تو اس کے بعد کی جو ہماری دنیا ہے اس میں علمی، فلسفیانہ،سائنسی اور انٹیلیکچوئل روایات اس طرح سے نہیں ابھر سکیں اور اس کا خاص پسماندہ ورژن آگے چلتا گیا۔ تو یہ سارا اس طرح سمجھا جا سکتا ہے دیکھا جائے تو۔