Laaltain

میرواہ کی راتیں: حجم میں چھوٹا، قوت میں بڑا ناول (اظہر حسین)

12 جولائی, 2021
Picture of اظہر حسین

اظہر حسین

اظہر حسین کا یہ مضمون ہندوستانی بلاگ ‘موت ڈاٹ کام‘ پر بھی شائع ہو چکا ہے۔ اس مضمون کو مصنف کی اجازت سے لالٹین کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ 

کراچی کے معروف قلم کار رفاقت حیات کا یہ اب تک واحد ناول ہے۔ یہ دو ہزار سولہ میں شایع ہوا۔ اشاعت کے برس ہی اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ ناول نے کتاب پرستوں کو حیرت میں مبتلا کیا، کتاب پسندوں کو چونکایا اور عام قاری کو انگشت بدنداں کیا۔ ناقدین ادب نے ناول کو اہم ناول قرار دیا۔ یوں آج بھی یہ ناول، فکشن کے پڑھنے والوں کے بیچ وجہِ گفتگو بنا رہا، اب تک بنا ہوا ہے۔ سوچنے کی بات ہے اس ناول میں ایسا کیا ہے کہ اس کا شمار قابل بحث ناولوں میں ہے؟

۱

کسی کتاب کے اچھا ہونے کے اسباب ڈھونڈنے یا اس پہ دلائل لانے کی شاید زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک ناول کے عمدہ اور مستند ہونے کے لیے اس کا خواندنی اور پرلطف ہونا ہی کافی ہوسکتا ہے۔کسی ادب پارے کو خواندنی (readable) بننے یا بنانے کے لیے جو پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اس کی توضیح صرف و محض ایک مستند فکشن نگارہی کے سامنے کی جاسکتی ہے۔عام قاری یا فکشن کے علاوہ کسی اور صنف ِ ادب کا فرد اس بظاہر سادہ مگر بباطن پیچیدہ نکتے کو سمجھنے سے قاصر رہے گا۔ ایک پختہ کار شاعراسے سہل ممتنع کی مثال سے سمجھ جائے تو اور بات ہے۔سادہ بیانیے اور سطحی تیکنیک کے ناول کو وہی خدشہ لاحق ہوتا ہے جو ایک بظاہر سہل ممتنع میں کہی ہوئی غزل کو: ادھر تخلیق کار یا شاعر معنوی خطوط میں کم گہرا (shallow) یا سطحی ہوا اُدھر اس کا کام عوامی فنون (popular arts) کی کیچڑ میں گرا۔چناں چہ اس پہ لازم آتا ہے کہ وہ سادہ بیانی میں بھی ایسی رچاوٹ اور گہرائی لائے کہ معانی، لامعانی ہوجائیں، مسلمہ غیر مسلمہ دکھنے لگ جائے، سفید، سفید نہ رہے، سیاہ سفید دکھے، اور باقی سارے رنگ بھی قایم و سالم نظر آتے رہیں؛ گڈمڈ بھی اور یکتا و تنہا بھی! ایسی ہنر وری کے لیے فکشن نگار کا کائیاں ہونا ضروری ہے۔ رفاقت حیات ایک کائیاں فکشن نگار ہے اور ”میر واہ کی راتیں“ ایک سہل ممتنع ناول!

۲

میرواہ کی راتیں“ کی ایک بڑی خوبی اس کا پریشان کن (disturbing) ہونا بھی ہے۔ ہر بڑا ناول پریشان کن ہوتا ہے۔پڑھنے والے کے گزشتہ فکشنی علم کے لیے پریشانی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ یہ پریشانی فکشنی حقیقت کو کڈھب سے پیش کرکے، متعین حقیقت پر انوکھے سوال اٹھانے سے بھی نمو پاتی ہے اور ان سوالوں کے جوابوں کی تلاش میں خوار ہونے کی لذت سے بھی۔ناول میں اس نوع کے سوالات حلوائی کے نوجوان بیٹے نذیر (مرکزی کردار)کی ذہنی اور جنسی آسودگی و ناآسودگی، اس میں برہنہ بدنی کو دیکھ کر ہیجانی کیفیت کی پیدائش، اندرون سندھ کے ایک گوٹھ میرواہ میں اپنی ادھیڑ چچی کی جانب جنسی رجحان یا نذیر کی شمیم اور خیر النسا کے ساتھ دل لگیوں سے پیدا نہیں ہوتے؛ یہ سوالات کردار نگاری، گردوپیش (setting) اور پس منظر و پیش منظر کے باہمی ربط اور اس ربط سے تشکیل ہونے والی متنی حقیقت کے ہیولے سے پیدا ہوتے ہیں۔یہ ہیولے یا فینتاسیاں نذیر کی شمیم کے ساتھ رات کی سیاہیوں میں ہونے والی ملاقاتوں کے بیانوں میں زیادہ شدت سے محسوس کی جاسکتی ہیں۔ان ملاقاتوں کا احوال اور خوف و تشویش ابھارنے والا بیان گہرے انہماک والے قاری کے لیے انتشار (disturbance) کا خاصا سامان رکھتا ہے۔اسی سامان کے اندر راحت اور طمانیت کی دیویاں بھی چھپی بیٹھی ہوتی ہیں، جن کا معروف نام جمالیات ہے۔

۳

”میر واہ کی راتیں“ موضوع اور طرز نگارش کے اعتبارات سے دلچسپ اور لطف کا حامل ہے۔ لطف خیزی کا یہ چشمہ ناول کے ابتدائی صفحوں ہی سے پھوٹنے لگتا ہے۔نوجوان نذیر اپنے چچا کے گھر کے ایک کمرے میں تنہا اپنی سوچوں سے لڑ رہا ہے جب کہ ملحقہ کمرے میں اس کے چچا چچی اپنے تعلق خاص کے دوران پُر سرورآوازیں پیدا کرکے اس کے جذبات کو انگیخت کرنے کا سبب ہیں۔نذیر کا سوچوں کے ساتھ لڑائی کی وجہ اس کا آنے والی رات کی مہم جوئی کے لیے خود کو ذہناََ تیار کرنا ہے۔ وہ مہم جوئی کیا ہے؟ نذیر کا اپنی چچی کے ساتھ کیسا تعلق ہے؟ چچی کے دل میں بھتیجے کے لیے کیسے جذبات سر اٹھائے ہوے، یا اٹھا سکتے ہیں؟ قاری کے ذہن میں کلبلانے والے یہ سارے سوالات اپنی مقصدیت میں جوابات ہیں۔ کیوں کہ چاہے ایسے سوالات کے جوابات تاحال لاموجود ہیں،یہ اپنی فطرت اور مزاج میں جمالیاتی حظ وافر سے زیادہ رکھتے ہیں۔براں مزید،جہاں مرکزی کردار کا اضطراب کئی طرح کے معانی پیدا کرتا ہے، وہیں نذیر کی مہم جوئی کا سنسنی خیز بیان قاری کو تجسس اور حیرت سے ہم کنار بھی رکھتا ہے۔ تجسس سے ہم کناری ناول کے آخیرلے صفحے تک جائے گی!

۴

ناول کی تفہیم میں ایک قدم اور آگے جانے کے لیے اسی ناول کے مصنف کی تنقیدی بصیرت والی گلی سے گزرنا ایسا بے فائدہ بھی نہیں ہوتا۔چناں چہ جب ہم رفاقت حیات کے کسی دوسرے ناول پہ کیے گئے تبصرے کی روشنی میں اس کے اپنے ناول میں جھانکتے ہیں تو اور ہی طرح کی تفہیم ہوتی ہے۔ کراچی ریویو شمارہ۳ میں ”بھید“ کا تجزیہ کرتے ہوے ہمارا ناول نگار لکھتا ہے:
”۔۔میری ناقص رائے میں زبا ن دنیا کی سب سے زیادہ پامال اور آلودو شے ہے۔ دنیا بھر کے صنعتی اور کیمیائی فضلے سے کہیں زیاد ہ آلودہ شے، اور شاید آسمانوں سے اترنے والے صحیفے اس کی اسی آلودگی اور کثافت کو کم کرنے کی ایک بر تر کوشش قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ایک فکشن لکھنے والا بھی اپنے تئیں یہی کوشش کرتا ہے۔ وہ اس پامال اور غلاظت میں لتھڑی چیز کو بلند ی اور ترفع عطا کرنے کے لیے اپنے سے جتن کرتا ہے۔۔“ اور ”۔۔۔ہر انسان اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی ایسا بھید ساتھ لیے پھرتا ہے جس اس کے چہرے مہرے اس کے حلیے اور اس کی حرکات و سکنات سے آشکار نہیں ہوتا۔ وہ بھید اس کے دل یا اس کی روح میں بند ہوتا ہے۔“

ان دونوں تنقید پاروں کو سامنے رکھ کر ”میرواہ کی راتیں“ کی زبان، زبان کے دم خم سے پیدا کیے جانے والے مضبوط بیانیے اور بیانیے کے جادو سے وجود پذیر ہونے والے تمام ناولائی عناصر پہ توجہ کریں تو معلوم دیتا ہے کہ ناول نگار نظری اور عملی، ہر دوصورتوں میں ناول نگاری کو موضوع کے ساتھ ساتھ، زبان، اسلوب اور ہئیت کی طاقتوں اور توانائیوں سے بننے پر یقین رکھتا ہے۔ وہ، کرداروں کی زندگیوں کے بھیدوں کو بظاہر راست مگر فی الاصل تہ داربیانیے سے متشکل کرتا ہے۔ داستانی طرز میں خارجی واقعات سے نئے واقعات کا ظہور کرتے جانے کے بجائے، کہانی کا بہاو کرداروں کے اندر سے باہر کی اور رہتاہے؛ ایک ایسا طرز جو ریاضت طلب ہے۔

۵

فکشن کے تجزیے کا آخری اور حتمی نتیجہ ابد سے لاموجود رہا ہے۔ ایک نکتہ سارے نکتوں کا خدا ہوتا ہے: فلاں کتاب اپنے کو پڑھواتی ہے اور آخری سطر تک۔”میر واہ کی راتیں“ پر ایسا مبالغہ، مبالغہ نہیں سنائی دیتا۔ راقم کو اس ناول نے لطف و حظ بھی دیا ہے اور خیالات کے نئے پن کا مقدس اور روحانی احساس بھی۔ یہ احساس قوت ہے، اور یہ ناول اس قوت میں یکتا ہے۔ یہ یکتائی اسے ناولا ہونے کے باوجود طاقت ور ناول کے مرتبے پہ فائز کرتی ہے۔
باقی جانے لارنس سٹرن!

ہمارے لیے لکھیں۔