میر واہ کی راتیں

رفاقت حیات کا یہ پہلا ناول ہے جو 2016 میں معروف جریدے "آج” میں شائع کیا گیا تھا۔ بعدازاں یہ کتابی شکل میں بھی شائع ہوا۔ مصنف کی اجازت سے اسے لالٹین پر بھی شائع کیا جا رہا ہے۔

رفاقت حیات کا یہ پہلا ناول ہے جو 2016 میں معروف جریدے "آج" میں شائع کیا گیا تھا۔ بعدازاں یہ کتابی شکل میں بھی شائع ہوا۔ مصنف کی اجازت سے اسے لالٹین پر بھی شائع کیا جا رہا ہے۔

میر واہ کی راتیں – آخری قسط

رفاقت حیات: وہ جانتا تھا کہ اس وقت قصبے سے باہر جانے کے لیے سواری نہیں ملے گی۔ اس نے چلتے ہوئے گلی عبور کی، سڑک پر پہنچا۔ پہلوان دستی کے چائے خانے کے قریب سے گزرااور ٹھنڈے سانس بھرتا ہواآہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا وہ قصبے کی حدود سے باہر نکل گیا۔

میر واہ کی راتیں – ساتویں قسط

رفاقت حیات: چاچا غفور سے تعلقات میں کشیدگی ختم کرنے کے لیے اس نے دکان پر وقت گزارنے کا فیصلہ کیا تاکہ اگر آج رات کسی نے اس کا خالی بستر دیکھ لیا تو وہ اس پر مچنے والے ممکنہ فساد کو دبانے میں کامیاب ہو سکے گا۔

میرواہ کی راتیں – چھٹی قسط

رفاقت حیات: دفعتاً اس کی نگاہ ڈرائیور کے سامنے لگے آئینوں پر جا کر ٹھہر گئی اور اس کی مسرت کی کوئی حد نہ رہی۔ سامنے لگے ہوئے ہر آئینے میں اسے اس کی جھلک نظر آ رہی تھی۔ نذیر کی آنکھیں ان آئینوں کے درمیان بھٹکنے لگیں۔

میر واہ کی راتیں- چوتھی قسط

رفاقت حیات: نورل نے اپنی باتوں سے اپنے دوست کے دل میں مایوسی کو گھر بنانے نہیں دیا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ہر نوجوان عاشق کا دل قنوطی ہونے کے باوجود کبھی بھی بے آس نہیں ہوتا وہ ہمیشہ کسی نہ کسی معجزے کی رونمائی کا منتظر رہتا ہے۔

میرواہ کی راتیں- دوسری قسط

رفاقت حیات: پلیٹ فارم پر ٹرین کے رکتے ہی لوگوں نے اس پر سوار ہونے کے لیے کوششیں شروع کر دیں کیونکہ ٹرین مسافروں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ ہر بوگی کے دروازے پر لوگ آلتی پالتی مارے ہوئے بیٹھے تھے۔

میرواہ کی راتیں- قسط نمبر 1

رفاقت حیات: وہ واقعہ جو پینتالیس روز قبل پیش آیا تھا، آج اسے اس کا پھل ملنے والا تھا۔ وہ بالکل نہیں جانتا تھا کہ آج کی شب اس کی امیدوں کو بر آنا تھا یا انھیں ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہونا تھا۔