Laaltain

Mercy Killing

23 نومبر، 2016

[block­quote style=“3”]

نسرین انجم بھٹی پنجابی اور اردو کی ممتاز شاعرہ ہیں۔ ان کے مطابق ‘میں پیدائیشی طور پر بلوچ، ڈومیسائل کے اعتبار سے سندھی اور شادی کے بعد پنجاب کی ہوئی، میرا تعلق پورے پاکستان سے ہے’۔ آپ کا بچپن کوئٹہ میں گزرا، بعد ازاں وہ پہلے جیکب آباد اور پھر لاہور منتقل ہوئیں۔ آپ کی پنجابی شاعری کی دو کتابیں ‘نیل کرائیاں نیلکاں’ اور ‘اَٹھے پہر تراہ’ شائع ہو چکی ہیں۔ اردو شاعری کی ایک کتاب ‘بن باس’ شائع ہو چکی ہے جبکہ دوسری کتاب ‘تیرا لہجہ بدلنے تک’ اشاعت کے مراحل میں ہے۔ نسرین انجم بھٹی 26 جنوری 2016 کو تہتر برس کی عمر میں وفات پا گئی تھیں۔ یہ نظم ان کی آنے والی کتاب ‘تیرا لہجہ بدلنے تک’ میں شامل ہے اور معروف شاعر زاہد نبی کے تعاون سے لالٹین پر شائع کی جا رہی ہے۔ ہم زاہد نبی کے ممنون ہیں کہ انہوں نے نسرین انجم بھٹی کی یہ نظم لالٹین قارئین کے لیے عنایت کی۔

[/blockquote]
[vc_row full_width=”” par­al­lax=”” parallax_image=“”][vc_column width=“2/3”][vc_column_text]

Mer­cy Killing
تھوڑی تھوڑی دیر بعد کچھ دھڑکتا ہے
کچھ مچلتاہے
بے اعتباری کا خوف، کہ کچھ ہونے والا ہے
کچھ ایسا جو ہم جان نہ پائیں گے اور ہو جائے گا
ہم ہوا کی طرف دیکھتے تھے مگر وہاں ہوا نہ تھی
پانی کو سنتے تھے مگر پیاس نے راستہ بدل لیا تھا
باہر آ کر بیٹھ جانے سے اندر کا دکھ کم نہیں ہوتا
کنارہ کش کناروں سے دستبردار کیسے ہو
آنکھوں کے اندر جو پرندے سو گئے ہیں وہ اب جاگتے نہیں
کہ خوابوں میں سوتے ہیں
خوابوں میں سوئے ہوئے ایک دوسرے میں سوتے ہیں
پہرہ دیتی پلکیں ورق الٹتی ہیں
پچھل پیری ہے پیچھے کو کھینچتی ہے
دل بکف کون یہاں بیٹھا لکھتا ہی لکھتا ہے کہ
اُس کے کناروں پر آسمان گرجتا تھا،
جب میں نے اسے دیکھا
بہت سینہ زور تھا،
دہلاتا تھا،
سمندر کی مثال قبول نہیں کرتا تھا تو
سات ستیاں اُس پر وار دی جاتی تھیں
ماں گنگا نے بتایا!
شیردل بڑابیٹا تھا۔۔۔مست سندھو
جو صدیوں کو خاطر میں نہیں لاتا تھا پر اب
ریت اُس پر چل دوڑی ہے
کشتیاں مری ہوئی مچھلیوں کی طرح کنارے آن لگی ہیں
بچے لاشوں کا کھیل کھیلتے ہیں
بڑے ہنس کر منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں
درمیانی عمر کے لوگ! کبھی بچوں کو کبھی بڑوں کو دیکھ کر آگے چل دیتے ہیں
نہ دیکھو کے لوگ کون ہیں
صرف پاؤں کو دیکھو جو حرکت میں ہیں
یہ اب مہربان ہے ستاون دروازوں والا بھیڑیا دریا اس میں سے گزرتا ہے تو
ریت سے صلح کر لیتا ہے کہ چل!اِس بار بھی تو ہی سہی
تھوڑی تھوڑی دیر بعد جگہ بدلتے ہیں، جیسے آدمی لباس بدلتے ہیں اور آنکھیں منظر
پیاس آگے بڑھتی چلی آ رہی ہے جیسے آگ کا سیلاب
شہر پیچھے ہٹتے چلے جاتے ہیں،
پانیوں کو کیا ہوا؟
پنچھیوں کو کیا ہوا؟
منہ زور اپنی قسم توڑتے جاتے ہیں
بادل ہیں راستے میں رک گیا بے غیرت
اسے اپنے اوپر ترس آنے لگا ہے کیا؟
اب اسے گولی مارو یا رگیں نچوڑ لو
Mer­cy Killingپر دستخط ضروری نہیں رہے۔

Image: Ali Bhut­to

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *