Laaltain

مذہبی جذبات جنید حفیظ کی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں: اداریہ

22 دسمبر، 2019
Picture of لالٹین

لالٹین

جنید حفیظ کو سزائے موت سنا دی گئی ہے اور یہ فیصلہ انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستانی تاریخ کا ایک اور سیاہ باب ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ اس ملک میں انسانی زندگی، آزادی اور تحفظ کی جدو جہد کرنے والے ہر فرد کے لیے تکلیف اور صدمے کا باعث ہے۔ جنید حفیظ کو سزائے موت دینے کا فیصلہ کسی ایک شخص کو سزائے موت دینے کا حکم نہیں، یہ اس نقطہ نظر کی تائید ہے کہ مذہب اور نظریے کے نام پر کسی فرد، گروہ یا طبقے کا استحصال ، درست ہے، یہ اس کج فہمی کی تائید ہے جس کے مطابق عقائد کا تقدس انسانی جان سے زیادہ مجترم قرار پاتا ہے، اور یہ تاریخی انسانی میں کیے جانے والے ہر اس قتل کی ایک اورعدالتی تائید ہے جہاں افراد کو ان کے نقطہ نظر ، اظہار خیال یا نظریات کی بنیاد پر واجب القتل قرار دیا گیا۔ عدالت کا یہ فیصلہ ایک ہجوم یا ایک مذہبی جنونی کے ہاتھوں کسی فرد کے قتل سے کچھ بہت مختلف نہیں قرار دیا جا سکتا، سوائے اس کے کہ عین ممکن ہے کہ اس فیصلے کو قانون کا تحفظ اور گمراہ کن مذہبی جذبات کی تائید حاصل ہے۔

جنید حفیظ کو دی جانے والی سزا ایک فرد کو دی جانے والی سزا نہیں، بلکہ ریاست اور نظام انصاف کے مذہبی گروہوں کے ہاتھوں یرغمال ہونے کی فردجرم ہے۔ یہ ہماری ریاست کے اس طرز حکمرانی کا واضح اظہار ہے جہاں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے قانون ہاتھ میں لینے کوسزا دینے کی بجائے ان کی منشاء کے مطابق کمزور طبقات کو قربان کرنا درست خیال کیا جاتا ہے۔ اس فیصلے سے متعلق یہ بحث کہ آیا جنید حفیظ اس جرم کے مرتکب ہوئے یا نہیں جس کے لیے انہیں سزائے موت جیسی ظالمانہ اور غیر انسانی سزا دی گئی، یا کیا انہیں دفاع کا مناسب حق دیا گیا یا نہیں اور کیا ان کے خلاف کافی شواہد موجود تھے۔۔۔ اور کیا جو واقعات یا بیانات ان سے منسوب کیے گئے اگر وہ واقعتاً ان سے سرزد ہوئے بھی تو کیا وہ توہین مذہب و رسالت کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں اس پر آنے والے دنوں میں اعلی عدلیہ اور سماجی طبقات ہر جگہ بحث کی جائے گی تاہم اس بحث سے قطع نظر اس وقت یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ توہین مذہب و رسالت کے مرتکب ہوئے بھی اور اگر مذہبی طبقات کے دباو میں اسے لائق تعزیر جرم خیال کر بھی لیا جائے تو بھی جنید حفیظ سزائے موت کے مستحق نہیں۔

اس موقع پر ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا جانا ضروری ہے کہ کیا کسی بھی مقدس شخصیت، نظریے یا مذہب کے ماننے والوں کے جذبات کو ایک شخص کی زندگی سے زیادہ اہمیت دی جا سکتی ہے؟ کیا کسی بھی مقدس شخصیت، نظریے یا مذہب پر تنقید، طنز یا توہین کو جرم قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور اگر یہ جرم ہے بھی تو کیا یہ اس قدر سنگین جرم ہے کہ اس کے لیے سزائے موت کو لازم قرار دیا جائے؟ مقدس شخصیات ، مذہب اور نظریات کا احترام کیا جاسکتا ہے مگر انہیں تنقیدبالاتر قرار نہیں دیا جا سکتا، ان پر طنز کو نامناسب خیال کیا جا سکتا ہے مگر جرم نہیں قرار دیا جا سکتا، ان کی توہین کو غلط خیال کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو مہذب انداز میں منع کیا جا سکتا ہے مگر اسے جرم قرار دے کر سزائے موت جیسی ظالمانہ سزا سنایا جانا نہ صرف غلط ہے بلکہ صریحاً ظلم ہے۔

عدالتی فیصلہ واضح ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ مذہبی جذبات ریاست اور عدالت کے لیے انسانی زندگی سے زیادہ اہم ہیں، قانون شکن ہجوموں کا خوف آزادی اظہار رائے کا تحفظ یقینی بنانے کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے اور ریاست اور عدالتیں اپنی کمزوری کے باعث امن و امان برقرار رکھنے کے لیے مذہبی جنونیوں کے آستانوں پر جنید حفیظ جیسوں کی بھینٹ چڑھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *