غلام حسین ساعدی معروف ایرانی دانشور اور مصنف غلام حسین ساعدی 1936 میں تبریز میں پیدا ہوئے۔ آپ نے چالیس سے زائد کتب تحریر ۔کیں۔ داریوش مھرجویی کی فارم "گاو” کے لیے لکھے گئے سکرین پلے کو ساعدی کا شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔ یہ فلم جدید ایرانی سینما کا نقطہ آغاز سمجھی جاتی ہے۔ آپ ڈیموکریٹک سوشلسٹ پارٹی آف آزربائیجان سے بھی وابستہ رہے۔ 60 کی دہائی میں ایران میں ریاستی سنسنرشپ میں اضافے کے باوجود آپ نے لکھنا جاری رکھا۔ تاہم 1974 میں رضا شاہ پہلوی کے دور میں گرفتاری اور پھر ایک سال بعد رہائی کے نے آپ کو بری طرح متاثر کیا۔ انقلاب ایران کے بعد آپ نے کچھ عرصہ بائیں بازو کی طرف رحجان رکھنے والی لبرل جماعت نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ میں شمولیت اختیار کیے رکھی۔ بعدازاں، آپ پاکستان کے راستے فرانس چلے گئے جہاں وہ 1985 میں اپنے انتقال تک مقیم رہے۔

اجمل کمال اجمل کمال گزشتہ چار دہائیوں کے اردو ادب کا رخ متعین کرنے والوں میں سے ہے، لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کی ایک نسل کے ذوق کی تشکیل آپ کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ آپ اردو کے موقر ترین ادبی رسالے "آج” کے مدیر ہیں۔ آج کے اب تک 111 شمارے شائع ہو چکے ہیں جو اردو قارئین کے لیے نئے لکھنے والوں کے معیاری فن پاروں کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کے شاہکار پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔

یہ ترجمہ اجمل کمال اور آج کے تعاون سے شائع کیا جا رہا ہے۔ غلام حسین ساعدی کی یہ کہانی اجمل کمال نے فارسی سے اردو میں ترجمہ کی ہے۔ اس کہانی کا آڈیو ورژن "آج” کے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کیا جا چکا ہے۔ چینل کو سبسکرائب کیجیے اور بیل آئی کون پر کلک کیجیے تاکہ نئی ویڈیوز کا نوٹیفیکیشن مل جائے۔

سہ ماہی "آج” کو سبسرائب کرنے کے لیے عامر انصاری سے درج ذیل نمبر پر رابطہ کیجیے:
03003451649
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غلام حسین ساعدی
فارسی سے ترجمہ: اجمل کمال

1

حسنی نے خود مجھ سے کہا تھا کہ رات کو اس کے جھونپڑے میں چلیں گے۔ میں اس کے ہاں کبھی نہیں جاتا تھا، نہ وہ کبھی ہمارے ہاں آتا تھا۔ میں اپنے بابا کے ڈر سے اسے نہیں بلاتا تھا، اور وہ اپنے بابا کے ڈر سے مجھے۔ وہ بھی اپنے بابا سے بہت ڈرتا تھا، بلکہ مجھ سے بھی زیادہ ڈرتا تھا۔ مگر وہ رات دوسری راتوں کی طرح نہیں تھی۔ میں جانے سے انکار نہیں کر سکتا تھا۔ حسنی مجھ سے ناراض ہو جاتا، رنجیدہ ہوتا، سمجھتا کہ میں اس کا دوست نہیں رہا۔ بس اسی طرح میں چلا گیا۔ میں نے پہلی بار اس کے جھونپڑے میں قدم رکھا۔ ہم ایک دوسرے سے ہمیشہ گھر کے باہر ملتے تھے۔صبح کو میں اس کے جھونپڑے کے باہر پہنچ کر زور سے سیٹی بجاتا— یہ خوش آواز سیٹی بجانا اسی نے مجھے سکھایا تھا— اور اس طرح سیٹی بجا کر میں اسے پیغام دیتا کہ “حسنی، آ جاؤ، کام کا وقت ہو گیا۔”حسنی اپنی بالٹی اٹھا کر باہر نکل آتا۔ایک دوسرے کو سلام کرنے کے بجاے ہم دونوں مکابازی کرتے تھے۔خوب زور کے مکے لگاتے جن سے درد ہوتا تھا۔ ہمارا یہی طریقہ تھا۔ ایک دوسرے سے ملتے یا رخصت ہوتے ہوے مکے بازی ہوتی۔ سواے اس وقت کے جب ایک دوسرے سے ناراض ہوں یا کسی بات پر لڑائی ہو چکی ہو۔ پھر ہم ساتھ چل پڑتے اور جھگیوں جھونپڑوں میں سے گزر کر مُردے نہلانے والے مکان کے پاس کے گڑھے پر پہنچتے۔ شہرداری کے کوڑا اٹھانے والے ٹرک اپنا کوڑا یہیں پھینکتے تھے۔ ایک روز میں ٹین ڈبے جمع کرتا اور حسنی کانچ کے ٹکڑے، دوسرے دن وہ ٹین ڈبے چنتا اور میں کانچ کے ٹکڑے۔ کبھی کبھار ہمیں کوئی بہتر چیز بھی ہاتھ آ جاتی— بناسپتی گھی کا خالی کنستر، بچے کی چوسنی، ٹوٹی ہوئی گڑیا، کارآمد جوتا، یا سالم شکردان جس کے صرف دستے پر بال پڑا ہوتا، یا پلاسٹک کا لوٹا۔ ایک بار تو مجھے “و اِنّ یکاد…” کا تعویذ ہاتھ آ گیا تھا، اور ایک بار حسنی کو غیرملکی سگریٹ کا پورا بھرا ہوا ڈبا۔ جب ہم تھک جاتے تو کوڑے کے گڑھے کے دوسری طرف، بڑے سے میدان سے گزر کر، حاج تیمور کے اینٹوں کے پرانے بھٹے پر پہنچ جاتے جو بند پڑا تھا اور اب یونہی خدا کے نام پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ میدان میں اِدھر اُدھر ہر چند قدم پر گہرے کنویں کھدے ہوے تھے۔ اور دو چار نہیں، ایک دوسرے کی بغل میں کنویں ہی کنویں تھے۔ ایک بار ہم دونوں نے ارادہ کیا کہ ان کنووں کو گنتے ہیں، مگر پچاس تک پہنچ کر ہماری ہمت ٹوٹ گئی اور ہم نے گننا چھوڑ دیا۔ کنووں کے پاس پہنچ کر ہم خوب مزے سے کھیلتے۔ وہاں سو جاتے یا الٹے لیٹ کر سینے تک کنویں میں لٹک جاتے اور عجیب و غریب آوازیں نکالتے۔ آوازیں کنویں میں گھومتی ہوئی واپس آتیں۔ ہر کنواں ایک خاص طرح کی آواز نکال کر ہمیں جواب دیتا تھا۔ زیادہ تر ہم کنویں میں منھ ڈال کر قہقہے لگاتے اور جواب میں ہمیں رونے کی آوازیں سنائی دیتیں۔تب ہم ڈر جاتے۔ پھر ہنستے، زیادہ دیر تک اور زیادہ زور سے ہنستے، اور کنویں سے آتی رونے کی آوازیں بھی بڑھتی جاتیں، اونچی ہوتی جاتیں۔ میں اور حسنی وہاں زیادہ تر وقت اکیلے ہوتے۔ دوسرے بچے کوڑے کے گڑھے کی طرف کم آتے تھے۔ ان کی امائیں انھیں آنے نہیں دیتی تھیں۔ ڈرتی تھیں کہ کہیں کنویں میں نہ گر پڑیں یا کوئی اور بلا ان کے سر نہ آ جائے۔ لیکن میں اور حسنی بڑے ہو گئے تھے اور روز بھری ہوئی جیب لے کر گھر لوٹتے تھے، اس لیے ہماری امائیں ہم سے کوئی واسطہ نہ رکھتی تھیں اور ہمیں کچھ نہ کہتیں۔

اس دن، یعنی جس رات میں حسنی کے گھر گیا تھا اس دن سہ پہرکو حسنی بہت غمگین اور غصے کی حالت میں باہر آیا۔ اس کی تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں، آنکھوں سے لگتا تھا، بہت رویا ہے۔ اس میں کام کرنے کا حوصلہ نہ تھا۔ مردے نہلانے والے مکان کے باہر بنے گڑھے کے پاس پہنچ کر وہ بالکل کھویا ہوا اِدھر اُدھر بھٹکتا اور کوڑے کے ڈھیر کو لاٹھی سے کریدتا رہا۔ وہ اپنے بابا کو ماں بہن کی گالیاں دے رہا تھا۔ میں جانتا تھا کیا بات ہے۔ اس روز دوپہر کو اس کا باپ بہت غصے کے عالم میں گھر لوٹا۔ اس کا اپنے مالک سے جھگڑا ہوا تھا اور اس نے اسے نوکری سے نکال دیا تھا۔ گھر پہنچتے ہی اس نے حسنی پر اپنا غصہ اتارنا شروع کر دیا۔ ہمیں حسنی کے رونے چلّانے کی آوازیں سنائی دی تھیں۔ میری اماں نے حسنی کے بابا کو ملامت بھی کی تھی کہ کیوں بلاوجہ بے قصور بچے کو ادھیڑے دے رہا ہے۔ میں نے دیکھا، اس کی کمر اور کندھوں پر نیل پڑے تھے اورایک آنکھ بھی سوج کر نیلی ہو گئی تھی۔حسنی کا باپ ہر رات جھونپڑے میں گھستے ہی، کپڑے بدلنے یا منھ ہاتھ دھونے سے پہلے، حسنی کی ٹھکائی شروع کر دیتا تھا۔ جب تک تھک نہ جاتا، اسے مارتا رہتا۔ گھونسوں اور لاتوں سے، لکڑی، رسی، پیٹی، جو کچھ ہاتھ لگتا اس سے اسے پیٹنے لگتا، اور ساتھ میں زور زور سے گالیاں بھی دیتا جاتا۔ اس قدر دھنائی کرتا کہ حسنی کی چیخوں سے سارا محلہ گونج اٹھتا۔ پڑوس کے لوگ اس کی مدد کو پہنچتے اور اس کے باپ کے چنگل سے اسے چھڑاتے۔ حسنی کے باپ کا یہ روز کا معمول تھا، مگر میرا بابا مجھے ہفتے میں ایک یا دو بار مارتا تھا جب اس کا مزاج بگڑا ہوا ہوتا۔جب زیادہ پیسے نہ کمائے ہوتے تو میری اور احمد اور رضا کی جان کو آ جاتا اور خوب پٹائی کرتا۔ مگر میری اماں بیچ میں پڑ کر رونے چلّانے لگتی کہ “کیوں بچوں کو مارے ڈال رہے ہو؟ کیوں انھیں اپاہج کیے دیتے ہو؟”بابا پلٹ کر اماں پر پل پڑتا اور وہ چیخ کر ہم سے باہر نکل جانے کو کہتی۔ جب تک ہم واپس گھر میں آتے، ہمارا بابا ٹھنڈا ہو کر ایک کونے میں بیٹھا ہوتا یا اماں سے کہہ رہا ہوتا، “بچوں سے کہو، آ کر کچھ کھا پی لیں۔”

لیکن حسنی کے باپ کو اپنے باقی بچوں سے کچھ غرض نہ تھی، صرف حسنی کو پیٹتا تھا، باقی بچوں کو کچھ نہ کہتا۔ اور حسنی کی اماں بھی کبھی اسے باہر بھاگ جانے کو نہ کہتی۔اس لیے کہ حسنی کا بابا دروازے کو گھیرے کھڑا ہوتا اور وہیں سے حملہ کر کے حسنی کو لاتوں اور گھونسوں کی زد پر رکھ لیتا۔ بال پکڑ کر اس کا سر دیوار سے ٹکرانے لگتا۔ اس روز پہلی بار اس نے دوپہر کو گھر پہنچ کر حسنی کو پیٹنا شروع کر دیا تھا۔ حسنی بہت بگڑا ہوا تھا۔ میں نے اسے معمول پر لانے کے لیے کہا، “چلو اوپر چلتے ہیں۔” کوڑے کے گڑھے کو پار کر کے ہم کنووں والے میدان میں پہنچ گئے اور ایک کنویں کے پاس بیٹھ گئے۔ میں نے بہت کوشش کی مگر وہ ایک لفظ نہ بولا۔ آخر میں کنویں کے پاس لیٹ گیا اور اس میں سر ڈال کر گائے کی آوازیں نکالیں، کتے کی طرح بھونکا، قہقہے لگائے، رویا، جو کچھ مجھے آتا تھا سب کیا۔ لیکن حسنی جوں کا توں، منھ سُجائے، غمگین بیٹھا لاٹھی سے اپنی ٹانگ پر ضربیں لگاتا رہا۔ آخر میں نے سیٹی بجا کر اس سے پوچھا، “حسنی، کیا ہوا؟”

حسنی نے جواب نہ دیا۔ میں نے زور سے پکارکر کہا، “حسنی، او حسنی!”

اس پر اس نے پلٹ کر پوچھا، “کیا ہے؟”

میں نے کہا، “یوں منھ پھلائے رکھنے سے کیسے چلے گا؟”

بولا، “نہ چلے، مجھے کیا۔”

میں نے کہا، “خدا کے لیے، اب کڑھنا بند کرو۔”

بولا، “کیسے بند کروں؟ میرے ہاتھ میں ہے کیا؟”

میں اٹھ کھڑا ہوا اور اس سے کہنے لگا، “چلو اٹھ جاؤ، اٹھو، کچھ کرتے ہیں جس سے تمھاری حالت ٹھیک ہو۔”

حسنی نے ایک بار پھر لاٹھی اپنی پنڈلی پر ماری اور پوچھا، “کیا کریں گے؟”

میں سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا، کیا کیا جائے کہ حسنی کی حالت ٹھیک ہو۔ میں نے کہا، “چلو سڑک پر جا کر گاڑیاں دیکھیں۔”

اس نے جواب دیا، “اس سے کیا فائدہ ہو گا؟”

میں نے کہا، “اُس روز کی طرح میّت گاڑیاں گنیں گے۔ دیکھتے ہیں ایک گھنٹے میں کتنی گزرتی ہیں۔”

بولا، “جتنی بھی گزریں، گزرتی رہیں۔ مجھے کیا۔”

میں نے کہا، “چلو پھر حاج تیمور کے بھٹے کی چھت سے پتھر پھینکیں۔”

بیزار ہو کر بولا، “میں نہیں جاتا۔ تمھارا جی چاہے تو جا کر پھینکنے لگو۔”

میں کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ وہ کسی طرح میری کوئی بات سننے کو تیار نہ تھا۔ میں نے کہا، “سب سے اچھا یہ کہ چوک میں چلتے ہیں، وہاں بڑے تماشے ہیں۔”

بولا، “کون کون سے؟”

میں نے کہا، “سنیماگھر میں جا کر تصویریں دیکھتے ہیں، بعد میں سنگتراشوں کے چوک کے پیچھے جا کر درویش سگ دوست کا تماشا دیکھیں گے۔”

بولا، “چوک میں پہنچتے پہنچتے رات ہو جائے گی۔”

میں نے کہا، “گاڑی میں چلیں گے۔”

بولا، “پیسے کہاں ہیں؟”

میں نے کہا، “میرے پاس بارہ ریال ہیں۔”

بولا، “انھیں اپنے پاس ہی رکھو۔”

میں نے کہا، “چلو چل کر کچھ کھاتے ہیں۔ ٹھیک ہے؟”

بگڑ کر کہنے لگا، “مجھے کچھ نہیں کھانا۔”

اب میں عاجز ہو گیا۔ یونہی سر اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ شکرائی کے باغ پر نظر پڑی۔ میں نے کہا، “اے حسنی، چل کر پھل چراتے ہیں۔”

اس نے جواب دیا، “ہاں، آج مجھے کم مار پڑی ہے کہ اب باغبان سے بھی پٹوانا چاہتے ہو؟”

کچھ دیر ہم دونوں چپ رہے۔ بھٹے کے دوسری طرف سے دو آدمی نکلے، کچھ دیر کھڑے ہمیں دیکھتے رہے، پھر باغ کی دیوار کود کر اندر چلے گئے۔ کچھ چیخیں سنائی دیں، پھر باغ سے کئی لوگوں کے قہقہے لگانے کی آوازیں آئیں۔ میں نے حسنی سے کہا، “مجھ سے کیوں ناراض ہو؟”

بولا، “تم سے ناراض نہیں ہوں۔”

ہم پھر چپ ہو گئے اور حسنی اسی طرح لاٹھی سے اپنی ٹانگ پر ضربیں لگاتا رہا۔

میں نے کہا، “اتنا مت مارو۔ پاگل ہو گئے ہو؟”

بولا، “ٹھیک ہے۔ مجھے درد نہیں ہوتا۔”

میں نے کہا، “اچھا کوئی بات کرو۔”

بولا، “مجھے کوئی بات نہیں کرنی۔”

آخر تنگ آ کر میں چلّایا، “بس کرو اب! بہت ہو گیا۔اٹھو، اٹھ جاؤ اب!”

ہم دونوں اٹھ کر چل پڑے۔ یونہی کنووں کے بیچ سے گزرتے ہوے میں نے کہا، “حسنی۔”
بولا، “کیا ہے؟”

میں نے کہا، “سچ بتاؤ، کیا چاہتے ہو؟ تم جو چاہو میں کروں گا۔ تمھارے لیے سب کچھ کروں گا۔”

بولا، “چاہتا ہوں اس بابا کتے کے بچے کی ایسی ٹھکائی کروں کہ بس۔”

میں نے کہا، “ٹھیک ہے، پھر کرتے کیوں نہیں؟”

اس نے جواب دیا، “میں اکیلا کیسے کروں؟ مجھ میں اتنا زور نہیں۔”

میںنے کہا، “پتا ہے، تم میں اتنا زور نہیں۔”

وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور مجھ سے پوچھنے لگا، “تم میرا ساتھ دو تو ہم دونوں مل کر اس سے حساب صاف کر سکتے ہیں۔”

میں سوچ میں پڑ گیا۔ مجھے اس کے بابا سے ڈر لگتا تھا، بہت ڈر لگتا تھا۔ سب بچے حسنی کے بابا سے ڈرتے تھے۔ حسنی کا باپ بچوں کا دشمن تھا؛ کوئی اس کے پاس نہ جاتا، کوئی اس کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھتا۔ وہ کسی کے سلام کا کبھی جواب نہ دیتا تھا، صرف مڑ کر گھورنے لگتا تھا۔ میرا بابا کہتا تھا کہ یہ مردود پاگل ہے، اس کا دماغ ٹھکانے پر نہیں ہے۔ اب میں بھلا کس طرح جا کر اس کی ٹھکائی کر سکتا تھا؟ لیکن اگر ایسا نہ کرتا تو حسنی مجھ سے ناراض ہو جاتا اور غصہ کرتا۔ اور میں نہیں چاہتا تھا کہ حسنی مجھ پر غصہ کرے۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ حسنی نے کہا، “میری مدد نہیں کرنا چاہتے؟”

میں نے کہا، “کیوں نہیں کرنا چاہتا، ضرور کرنا چاہتا ہوں۔”

وہ بولا، “پھر جواب کیوں نہیں دیتے؟”

میں نے کہا، “آخر ہم اس کی ٹھکائی کیسے کر سکتے ہیں؟”

حسنی بولا، “تم رات کو میرے گھر آنا۔ دونوں اندر جا کر کونے میں چھپ جائیں گے۔ جیسے ہی وہ اندر گھسے گا، دونوں اس پر حملہ کر دیں گے۔ ٹانگیں کھینچ کر اسے زمین پر گرا دیں گے اور خوب پٹائی کریں گے۔”

میں نے پوچھا، “اور اس کے بعد کیا ہو گا؟”

اس نے کہا، “کچھ بھی نہیں ہو گا۔ بس اس کی سمجھ میں آ جائے گا کہ پٹائی کا مزہ کیسا ہوتا ہے۔ اور میرا دل ٹھنڈا ہو جائے گا۔”

میں نے کہا، “بہت اچھا۔”

اس طرح ہم دونوں رات کو اس کے جھونپڑے میں پہنچے۔ رات تو نہیں ہوئی تھی، مغرب کا وقت تھا جب اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ حسنی کا بابا ابھی نہیں آیا تھا۔ حسنی کی اماں نے کہا کہ جاؤ، گھر کے لیے پانی بھر لاؤ۔ ہم پمپ کے پاس پہنچے، پانی بھرا اور پھر وہیں انتظار میں کھڑے ہو گئے۔ اتنی دیر تک اس ٹانگ سے اس ٹانگ پر وزن ڈالتے رہے کہ دور سے حسنی کا بابا آتا دکھائی دیا۔وہ کچھ جھکا ہوا چل رہا تھا اور کندھے پر ایک تھیلا اٹھائے ہوے تھا۔

حسنی بولا، “ آ گیا کتے کا بچہ۔”

ہم دوڑ پڑے اور جھونپڑوں کے بیچ میں سے ہو کر اس کے گھر آ چھپے۔ حسنی کی اماں باہر بیٹھی چولھے پر ٹماٹر پکا رہی تھی۔ حسنی کا چھوٹا بھائی اپنی اماں کے پاس بیٹھا بلک رہا تھا۔ ہم آنگن پار کر کے آگے بڑھے، پانی کا جگ کھڑکی میں رکھا اور اندر چلے گئے۔ اندر اندھیرا تھا۔ اس کی اماں نے باہر سے پکار کر کہا، “حسنی، او حسنی، بتی جلا دے۔”

حسنی نے بتی جلائی۔ اس کی چھوٹی بہن ایک کونے میں پڑی سو رہی تھی۔ میں نے کہا، “اب کیا کریں؟”

وہ بولا، “کچھ نہیں۔ بس دروازے کے پاس بیٹھ جاؤ۔ باقی مجھ پر چھوڑ دو۔” میں وہاں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ حسنی بھی دوسرے کونے میں جا کر بیٹھ گیا۔ ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔

حسنی نے کہا، “یاد رکھنا، تمھیں اس کی ٹانگوں سے لپٹنا ہے۔”

میں نے پوچھا، “اور تم کیا کرو گے؟”

وہ بولا، “پہلے میں اس کی ٹھوڑی پر ایک گھونسا رسید کروں گا، اور پھر اس کے اوپر سوار ہو کر اسے زمین پر گرا لوں گا اور خوب کوٹوں گا۔”

مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ معلوم نہیں اس کا کیا انجام ہو گا۔ ابھی میں انتظار میں بیٹھا تھا کہ باہر سے اس کے بابا کے چلّانے کی آواز آئی۔ پہلے اس نے زور کا نعرہ بلند کیا اور پھر چیخ کر کہنے لگا، “بدبخت عورت! میرے آنے سے بھی پہلے تو نے کھانا پکانا شروع کر دیا؟”

حسنی کی ماں نے جواب دیا، “تو اور کیا کرتی؟ گھر میں گھستے ہی تو تمھیں کچھ کھانے کو چاہیے ہوتا ہے۔”

حسنی کے بابانے چلّا کر جواب دیا، “صرف مجھے چاہیے ہوتا ہے؟ تجھے اور تیرے ان پلّوں کو نہیں؟”

پھر حسنی کی ماں کے چلّانے کی آواز آئی۔ “یا الٰہی! خدا کرے تیری ٹانگ ٹوٹ جائے!”
حسنی نے کہا، “سنا؟”

میں نے پوچھا، “کیا؟”

حسنی نے کہا، “اماں کو لات ماری ہے۔ وحشی دیوانہ!”

دوبارہ حسنی کے بابا کی آواز بلند ہوئی۔ “یہ کتے کا بچہ یہاں کیوں سو رہا ہے؟”

اس کی ماں نے کہا، “تو پھر کہاں سوئے؟”

وہ چلّایا، “مجھے کیا معلوم؟ کسی اور جگہ۔ کسی کونے میں۔”

وہ صحن میں داخل ہوا اور اپنا بوجھا دروازے کے پاس اتار کر کھانسنے لگا۔ بہت دیر تک کھانستا اور اپنے سینے کی کثافت باہر تھوکتا رہا۔ پھر اس نے زیرلب دو تین گالیاں دیں، پانی کا برتن لے کر منھ دھویا اور دو تین گھونٹ پیے۔ اس کے بعد کمرے کی طرف بڑھا۔ اس کے جوتوں کی آواز سن کر میرا دل بیٹھنے لگا۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو حسنی بالکل ڈری ہوئی بلی کی طرح آدھا بیٹھا آدھا کھڑا پیچھے کو جانے لگا۔ اس کے بابا نے دانت پیسے اور غرایا۔ حسنی کی پیٹھ دیوار سے لگی ہوئی تھی۔ اس نے پوچھا، “کیا کرو گے؟”

اس کا باپ زہریلی ہنسی ہنس کر بولا، “کچھ نہیں۔تجھ جیسی مصیبت کے ساتھ کوئی کیا کر سکتا ہے۔”

اچانک وہ میری طرف متوجہ ہوا اور مجھے سر سے پاؤں تک دیکھ کر مونچھوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ میں، وحشت زدہ، بیٹھے بیٹھے پیچھے کو کھسکنے لگا۔ حسنی کے بابا نے کہا، “واہ وا! یہ موٹا ریچھ یہاں کیا کر رہا ہے؟”

حسنی بولا، “میرا دوست ہے، عبدل آقا کا بیٹا۔”

اس نے کہا، “کسی کا بھی ہو، میرے گھر میں کیا کر رہا ہے؟”

حسنی بولا، “اسے میں نے بلایا ہے۔”

ا س نے کہا، “کیوں؟ اس کا اپنا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے؟”

حسنی بولا، “ہے کیوں نہیں۔ ہم سے اچھا ہے۔”

اس نے کہا، “تو پھر؟ یہاں کیوں آیا ہے؟”

پھر وہ میری طرف مڑ کر چلّایا، “دفع ہو جا یہاں سے۔ اٹھ، بھاگ!”

میں ڈر کر اٹھنے لگا، اور حسنی کا بابا اور بھی زور سے چیخا، “بھاگ!”

حسنی کمرے کے کونے میں تھا، وہاں سے بولا، “یہ نہیں جائے گا۔یہیں رکے گا۔”

حسنی کا بابا اس طرف مڑا اور گھونسا تان کر حسنی کی طرف بڑھنے لگا۔ دونوں بازو ہوا میں پھیلا کر کہنے لگا، “حرامزادے، تیری اتنی ہمت ہو گئی کہ اپنے باپ کو جواب دینے لگا!”

حسنی کی چھوٹی بہن کی آنکھ کھل گئی اور وہ خوفزدہ ہو کر روتی ہوئی کمرے سے باہر بھاگی۔ وہ اسی طرح گھونسا تانے آگے بڑھ رہا تھا کہ حسنی زور سے چلّایا، “مارو!”

میں نے حملہ کر دیا۔ اس کا بابا لپک کر بڑھا تو حسنی اپنی جگہ سے ہٹ گیا اور اس کا گھونسا دیوار سے ٹکرایا۔ میں نے جھک کر اس کی ٹانگ دبوچ لی۔ حسنی بھی پیچھے سے نکل آیا اور اس کی دوسری ٹانگ پکڑ لی۔ ہم دونوں نے زور سے کھینچا اور وہ چیختا چلّاتا اور ہانپتا ہوا ہمارے اوپر گر پڑا۔ پہلے اس نے میرے منھ پر گھونسا مارا، پھر حسنی کے منھ پر۔ پھر دونوں گھونسے ہم دونوں کے سروں پر ایک ساتھ رسید کیے۔ ہم دونوں نے زور لگایا اور اس بوڑھے آدمی کے نیچے سے نکل آئے۔ حسنی نے گالیاں بکتے ہوے اپنے بابا کے چوتڑ پر ایک زور کی لات ماری اور ہم دونوں بھاگ کر باہر آ گئے۔ حسنی کے بابا کے زور زور سے چیخنے چلّانے کی آوازیں آتی رہیں: “تجھے مار ڈالوں گا! تو اکیلا ہی کم مصیبت تھا کہ اس حرامزادے کو بھی لے آیا!”

یہ کہتے ہوے وہ ہمارے پیچھے لپکا۔ حسنی کی ماں ہراساں، چولھے سے لگی کھڑی تھی اور اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ ہم اس کے برابر سے دوڑتے ہوے نکل گئے اور طوفان کی رفتار سے دوڑتے ہوے بیچ کا رستہ لے کر مردے نہلانے والے مکان کے گڑھے کا رخ کیا۔ پیچھے سے حسنی کے بابا کی آوازیں سنائی دیتی رہیں کہ “پکڑو! پکڑو!”

وہ کچھ دور تک ہمارے پیچھے دوڑا اور پھر رک کر چلّانے اور گالیاں دینے لگا۔ اندھیرا ہو چکا تھا۔ وہاں کوئی نہ تھا جو ہمارے پیچھے دوڑے اور ہمیں پکڑنے کی کوشش کرے۔ ہم پمپ کے پاس سے نکل کر گڑھے پر پہنچ گئے۔ دونوں کا سانس پھولا ہوا تھا اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ حسنی کا بابا یا کوئی اور ہمارا پیچھا نہ کر رہا ہو۔ میں نے حسنی سے کہا، “بہتر ہو گا کہ گڑھے سے نکل کر اوپر چلیں۔”

حسنی بولا، “ہاں، ورنہ کچھ دیر میں وہ کتے کا بچہ ڈنڈا لے کر آئے گا اور ہمارا کام تمام کر دے گا۔”

ہم گڑھے سے نکل آئے اور ایک ٹیلے پر جا بیٹھے۔ جب میرا سانس درست ہوا تو میں نے حسنی سے کہا، “ہم اس کے ہاتھ سے خوب بچ نکلے۔”

حسنی بولا، “مگر افسوس کہ اس کی زیادہ مرمت نہ کر سکے۔”

میں نے پوچھا، “گھر کب واپس چلو گے؟”

حسنی بولا، “گھر واپس؟ مذاق کرتے ہو؟ وہ تو چاہتا ہی ہو گا کہ میں گھر پہنچوں اور وہ مجھے پکڑ کر تکابوٹی کر ڈالے۔”

میں نے کہا، “پھر کیا کرنا چاہتے ہو؟”

حسنی بولا، “کچھ نہیں۔”

میں نے پوچھا، “رات کو کہاں جاؤ گے؟”

بولا، “کہیں بھی نہیں۔ کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔”

میں نے کہا، “میرے ساتھ چلو۔ میرے گھر۔”

بولا، “ہاں، تاکہ تمھارے بابا کے ہاتھ آ جاؤں۔ دونوں حرامزادے ایک جیسے ہیں۔ ان کے دل میں ذرہ بھر رحم نہیں۔”

میں نے کہا، “اچھا اگر آج رات گھر نہیں بھی گئے تو کل کیا کرو گے؟ پرسوں کیا کرو گے؟ آخر تو واپس جانا ہی ہو گا۔”

حسنی بولا، “پتا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہیں اور چلا جاؤں۔”

میں نے کہا، “مثلاً کہاں؟”

بولا، “کہیں بھی۔”

میں نے کہا، “اور کرو گے کیا؟”

بولا، “کیا پتا۔ کچھ نہ کچھ کر ہی لوں گا۔ کسی کا شاگرد بن جاؤں گا، یا حمّالی کر لوں گا۔”

میں نے کہا، “تم ابھی چھوٹے ہو۔ تمھیں کوئی نہیں رکھے گا۔”

بولا، “کیوں؟”

میں نے کہا، “اس لیے کہ تمھیں کوئی کام نہیں آتا۔”

بولا، “کچھ نہیں آتا، پھر بھی دکانوں کے سامنے جھاڑو تو دے سکتا ہوں۔”

میں نے کہا، “مگر کسی بڑے کے کہے بغیر تو تمھیں کوئی رکھے گا نہیں۔”

بولا، “اگر کچھ نہ ہوا تو ٹین ڈبے جمع کر کے بیچوں گا۔”

میں نے کہا، “اور رات کو سوؤ گے کہاں؟”

بولا، “کھنڈروں میں۔”

میں نے کہا، “کوئی فائدہ نہیں، دو چار دن اس طرح رہنے کے بعد یا تو بھوکے مر جاؤ گے یا کوئی مصیبت سر پر آ پڑے گی۔”

کہنے لگا، “ناممکن۔ میں نہیں مروں گا۔ جا کے بھیک مانگ لوں گا اور زندہ رہوں گا۔”

میں نے کہا، “ہاں، تم اسی خیال میں مگن رہو۔ تمھیں پکڑ کے گداخانے لے جائیں گے۔ اسدول کے بچے یاد نہیں رہے؟ اور رضا ترک کی بہن؟”

بولا، “تو پھر کیا کروں؟”

میں نے کہا، “مجھے نہیں پتا۔ بہتر ہو گا کہ گھر واپس چلے جاؤ۔”

دونوں چپ ہو گئے۔ چاند نکل آیا تھا اور سارے میں روشنی پھیلی ہوئی تھی، سواے کنووں کے دائروں کے جنھیں کوئی بھی چیز روشن نہیں کر سکتی تھی۔ جھونپڑوں میں کہیں کہیں چراغ جلتے دکھائی دے رہے تھے۔ حسنی نے اپنے اردگرد نظر ڈالی اور بولا، “گھر واپس نہیں جا سکتا۔ اس بار تو وہ جان سے مار ڈالے گا۔”

ہم پھر خاموش ہو گئے اور جھینگروں کی آوازیں سننے لگے۔ حسنی اچانک اٹھ کھڑا ہوا اور بولا، “سنو، مجھے ایک ترکیب سوجھی ہے۔ تم ابھی دوڑتے ہوے جاؤ اور جھونپڑوں کے پاس پہنچتے ہی رونا چلّانا شروع کر دو اور سر پیٹ پیٹ کر سب سے کہو کہ حسنی کنویں میں گر گیا ہے۔”

میں بھی چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔ میں نے کہا، “کیا؟ تم کنویں میں گرنے والے ہو؟”

حسنی بولا، “میں گدھا ہوں کیا کہ کنویں میں گروں گا؟ بس تم ایسے ہی کہہ دو کہ کنویں میں گر گیا۔ تب دیکھنا بابا کا کیسا حال ہوتا ہے۔”

میں نے کہا، “اور اس کے بعد؟”

بولا، “اس کے بعد کچھ نہیں۔میں کہیں جا کے چھپ جاؤں گا۔”

میں نے کہا، “وہ کنووں میں تلاش کریں گے۔”

بولا، “سب کنووں میں نہیں تلاش کر سکتے۔ ایک دو کنویں تھوڑی ہیں۔ آخر تھک جائیں گے اور سمجھ لیں گے کہ میں مر گیا ہوں۔ پھر سب ایک جگہ جمع ہو کر میرے لیے روئیں پیٹیں گے اور قرآن کا ختم کریں گے۔ بابا اور اماں بھی اپنا سر پیٹیں گے اور دہاڑیں ماریں گے۔”

میں نے کہا، “حسنی، یہ کام ٹھیک نہیں ہے۔”

اس نے پوچھا، “کیوں؟ ٹھیک کیوں نہیں ہے؟”

میں نے کہا، “فرض کرو تمھارا بابا صدمے سے مر جائے۔ یا تمھاری اماں۔پھر کیا کرو گے؟”

حسنی بولا، “یہ سب تمھارا خیال ہے۔ وہ ایسے نہیں ہیں۔ میں انھیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ لوگ مرنے والے نہیں۔ اور پھر جب وہ سینہ کوٹنے اور ماتم کرنے لگیں تو تم مجھے آ کے بتا دینا اور میں دوڑ کے گھر چلا جاؤں گا۔ جب وہ دیکھیں گے کہ میں صحیح سلامت ہوں اور کنویں میں نہیں گرا تو کس قدر خوش ہوں گے۔ پھر میرا خیال ہے بابا بھی ٹھیک ہو جائے گا اور مجھے مارنا پیٹنا چھوڑ دے گا۔”

میں نے کہا، “مگر”۔۔۔۔

بولا، “مگر کیا؟”
میں نے کہا، “مجھے تمھارے بابا سے ڈر لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ یہ خبر سن کر مجھے ہی مار ڈالے۔”

بولا، “تمھیں میرے بابا سے کیا لینا دینا؟ تم تو بس جھونپڑوں کے پاس پہنچ کر چیخنے لگنا کہ حسنی کنویں میں گر گیا، حسنی کنویں میں گر گیا۔”

میں نے کہا، “یہ کہتے ہوے تو رونا بھی پڑے گا۔ اگر رونا نہ آیا تو؟”

حسنی نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا اور بولا، “عجیب گدھے ہو تم۔ اندھیرے میں کسی کو کیا پتا چلے گا کہ تم رو رہے ہو یا نہیں رو رہے ہو؟”

میں نے کہا، “اچھا، اور تم کیا کرو گے؟”

بولا، “میں جا کے بھٹے میں چھپ جاؤں گا۔”

میں نے پوچھا، “اور اگر بھوکے مر گئے؟”

تعجب سے پوچھنے لگا، “تو تم میرے لیے روٹی اور پانی نہیں لاؤ گے کیا؟ ہَیں؟ نہیں لاؤ گے؟”

میں نے کہا، “ہاں لاؤں گا۔”

بولا، “تو بس ٹھیک ہے۔ اب جاؤ۔”

میں ابھی تک دودِلا ہو رہا تھا، جاؤں یا نہ جاؤں، کہ حسنی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا، “آؤ میں تمھیں دکھا دوں کہ میں کہاں چھپوں گا۔”

ہم حاج تیمور کے اینٹوں کے بھٹے کی طرف چل دیے۔ابھی کنووں کے درمیان سے گزر رہے تھے کہ کچھ کتوں نے ہم پر حملہ کر دیا۔ میں نے اور حسنی نے پتھر مار کر انھیں بھگا دیا اور پھر بھٹے کے گرد چکر کاٹ کر آخری کوٹھڑی کے پاس پہنچے جس کی چھت گر چکی تھی اور کسی کو شبہ نہ ہو سکتا تھا کہ یہاں کوئی چھپا ہو گا۔ حسنی نے مجھ سے کہا، “میں یہاں چھپا ہوں گا، ٹھیک ہے؟”

میں نے کہا، “ٹھیک ہے۔”

بولا، “تو پھر اب کھڑے کیوں ہو، جاؤ۔ یاد رکھنا، تمھیں خوب زور زور سے چیخنا چلّانا ہے۔”

میں نے کہا، “ہاں، یاد ہے۔”

ابھی میں چلا ہی تھا کہ حسنی نے پھر پکارا۔ میں نے پوچھا، “کیا ہے؟”

بولا، “یہ بھی یاد رکھنا کہ میں بھوکا ہوں۔ صبح میرے لیے روٹی اور پانی ضرور لانا۔”

میں نے کہا، “ضرور لاؤں گا۔”

میں کوٹھڑی کا چکر لگا کر کنووں کے درمیان سے گزرتا ہوا مردے نہلانے کے گڑھے کے پاس پہنچا جہاں کتے جمع تھے۔ وہ مجھے دیکھ کر بھاگ گئے۔ میں گڑھے سے باہر نکلا اور پمپ کے پاس پہنچا۔ میرے حلق میں جلن ہو رہی تھی، اس میں گرد وغبار بہت چلا گیا تھا۔ میں نے تھوڑا سا پانی پیا اور آگے چلا۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ مجھے دوڑتے اور چیختے ہوے جانا ہے۔ میں دوڑتا اور چلّاتا ہوا جھونپڑوں کی طرف بڑھنے لگا۔ بہت سے لوگ جھونپڑوں کے باہر کھڑے تھے۔ مجھے کچھ خبر نہ تھی کہ کیا ہوا ہے، میں نے تو سر پیٹ پیٹ کر چلّانا شروع کر دیا جیسے حسنی سچ مچ کنویں میں گر گیا ہو۔ جو لوگ دور کھڑے تھے وہ بھی قریب آ گئے۔ میں نے اپنے بابا اور حسنی کے بابا کو دیکھا جو ایک دوسرے سے تکرار کر رہے تھے۔ میں ہچکیاں لیتے ہوے بولا، “حسنی! حسنی!”

حسنی کا باپ جو ہاتھ میں ڈنڈا لیے ہوے تھا، پوچھنے لگا، “حسنی کو کیا ہوا؟ ہیں؟ کیا ہوا اسے؟”
میں نے کہا، “گر پڑا، گر پڑا۔۔۔۔” اور رونے لگا، سچ مچ رونے لگا، میرے آنسو خودبخود نکل کر چہرے پر بہنے لگے۔ حسنی کے بابا نے چیخ کر پوچھا، “کہاں گر پڑا؟ بول، میرا حسنی کہاں گر پڑا؟”

میں نے چیخ کر کہا، “کنویں میں۔۔۔کنویں میں گر پڑا۔”

پہلے تو سب لوگ ایک دم خاموش ہو گئے، پھر عجیب طرح کا ہمہمہ بلند ہوا۔ دور و نزدیک سے چیخنے چلّانے کی بکھری ہوئی آوازیں سنائی دینے لگیں۔”حسنی کنویں میں گر پڑا! حسنی کنویں میں گر پڑا!”

آدمیوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کریں۔ جو لوگ اب تک جھونپڑوں میں تھے، باہر نکل آئے۔ کچھ لوگ لالٹین لے آئے اور سب لپکتے ہوے مردے نہلانے کے گڑھے کی طرف چل دیے۔ میں زمین پر پھسکڑا مارے بیٹھا رو رہا تھا۔ میرے بابا نے جھک کر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کھڑا کر دیا۔ بولا، “اٹھو، چل کر بتاؤ کون سے کنویں میں گرا ہے۔”

ہم دونوں بھی دوڑتے ہوے سب لوگوں کے پیچھے روانہ ہوے۔ ابھی سڑک سے آگے نہ نکلے تھے کہ کچھ لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور میرے اور بابا کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگے۔ وہ دوڑتے ہوے پوچھتے جاتے تھے، “کون سا کنواں ہے؟ کون سے والے میں گرا ہے؟”

مردے نہلانے والے مکان کے گڑھے کے پاس سے گزر کر ہم کنووں کے پاس پہنچے۔ چاند اَور بلند ہو گیا تھا اور کنووں کے دائرے اَور زیادہ تاریک اور گہرے معلوم ہو رہے تھے۔ سب لوگ وہاں کھڑے تھے۔ حسنی کے بابا نے بید کی طرح لرزتے ہوے میرے کندھوں کو پکڑ لیا اور جھنجھوڑتے ہوے پوچھا، “کہاں ہے؟ کہاں ہے؟”

اور اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دوں، اس نے خود کو کوڑے کے ڈھیر پر گرا لیا اور اونچی آواز میں رونے لگا۔ دو تین آدمی اس کے پاس آ گئے اور عباس چرخی اسے تسلیاں دینے لگا کہ “گھبراؤ مت، ہم اسے ابھی باہر نکالے لیتے ہیں۔ کچھ نہیں ہوا، کوئی بات نہیں۔ روؤ مت۔ خود کو ہلاک مت کرو۔ ہم ابھی اسے تلاش کر لیں گے۔”

جب حسنی کا بابا چپ ہوا تو ایک اور ہمہمہ بلند ہوا۔ عورتیں روتی دھوتی آ پہنچیں اور ان میں آگے آگے حسنی کی اماں تھی۔ وہ اپنا سر اور منھ پیٹ رہی تھی اور رو رو کر پکار رہی تھی، “میرا حسنی، میرا حسنی، میرا حسنی، میرا حسنی!”

وہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھی جو میری سمجھ میں نہ آیا۔ عباس چرخی آگے آیا اور مجھ سے پوچھنے لگا، “سنو بچے، بتاؤ کون سے کنویں میں گرا ہے؟”

میں نے کہا، “مجھے نہیں معلوم۔”

حسنی کا بابا میری طرف جھپٹا اور بولا، “حرامزادے! سچ سچ بتا کہ میرے بیٹے کا کیا ہوا؟”

قادر آقا نے اسے روکا اور کہا، “ذرا ٹھہرو، اسے سوچ کر بتانے دو۔”

میں ہچکیاں لے لے کر روتا رہا اور بولا، “حسنی کے بابا نے ہم دونوں کو پکڑ کر خوب مارا تھا اور۔۔۔”

حسنی کا بابا بولا، “اچھا اچھا، یہ بتا کہ وہ گرا کہاں ہے؟”

میرے بابا نے بھی کہا، “ہاں، جلدی بتاؤ۔”

عباس چرخی نے کہا، “ارے اسے کچھ بولنے تو دو۔ یہ کیا طریقہ ہے!”

میں نے کہا، “ہم دونوں بھاگ کر یہاں آ گئے۔ حسنی مجھ سے کافی آگے تھا۔ ہم دونوں دوڑتے ہوے جا رہے تھے۔ حسنی ڈر رہا تھا کہ اس کا بابا آ کر ہم دونوں کو پکڑ لے گا۔ وہ مجھ سے بہت تیز دوڑ رہا تھا۔۔۔ بہت تیز۔ میں نے مڑ کر دیکھا کہ اس کا بابا تو نہیں آ رہا ہے۔ کوئی نہیں آ رہا تھا۔ میں نے حسنی کو آواز دی: حسنی، ٹھہرو! ٹھہرو! کوئی نہیں آ رہا! وہ بیچ میں پہنچا تھا کہ ایک دم چیخ ماری اور کنویں میں گر گیا۔”

حسنی کے بابا نے پوچھا، “کہاں گرا تھا؟”

میں نے کہا، “میں تو سمجھا تھا زمین پر گرا ہے۔ میں نے ہر طرف آوازیں دیں۔ مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے ہر طرف ڈھونڈا۔ کہیں نہیں ملا۔”

حسنی کے بابا نے پھر دہاڑ کر پوچھا، “کون سے کنویں میں گرا تھا؟”

عباس چرخی غصے سے بولا، “اسے کیا پتا ہو گا کہ کون سے والے میں گرا ہے؟ ہمیں خود ہی ڈھونڈنا ہو گا۔”

پھر وہ باقی مردوں کی طرف منھ کر کے بولا، “چلو ڈھونڈنا شروع کریں۔ احتیاط سے کام لینا!”

جب وہ آگے بڑھے تو ان کی آوازیں تھم گئیں۔ کوئی رو نہیں رہا تھا، نہ کوئی چیخ چلّا رہا تھا۔ صرف حسنی کی اماں سسکیاں لے رہی تھی اور دوسری عورتیں اسے تسلیاں دے رہی تھیں۔ “روؤ مت بہن! خاموش رہو۔ ابھی یہ لوگ اسے ڈھونڈ کر باہر نکال لائیں گے۔”

ان میں سے کوئی مسلسل “شش! شش!” کی آوازیں نکال رہا تھا، جیسے حسنی سو رہا ہو اور اسے ڈر ہو کہ اس کی آنکھ نہ کھل جائے۔

سب لوگ کچھ کنووں کے پاس سے گزرے۔ پھر حسنی کے بابا نے گائے کی سی اونچی آواز میں اسے پکارا، “حسنی! حسنی!” وہ اس قدر غصے اور جھنجھلاہٹ میں تھا کہ اگر حسنی کنویں میں کھڑا ہوتا اور باہر نکل آتا تو یہ اسے پکڑ کر اس کی خوب ٹھکائی کرتا۔ عباس چرخی نے کہا، “خاموش رہو، خاموش رہو، ہمیں کام کرنے دو۔”

کوئی اندھیرے میں بولا، “رسی اور لالٹین کی ضرورت ہو گی۔ خالی ہاتھ تو کنویں میں اتر نہیں سکتے۔”

کچھ لوگ دوڑتے ہوے بستی کی طرف چل دیے اور دو آدمی لالٹینیں لے کر آگے بڑھ آئے۔ عباس چرخی نے ایک لالٹین ہاتھ میں لی اور کنویں کی منڈیر پر جھک کر اسے اندر لٹکایا۔ سب لوگ کنویں کے گرد دائرہ بنا کر کھڑے ہو گئے۔ عباس آقا، جس کا سر ابھی کنویں کے اندر تھا، گھٹی ہوئی آواز میں بولا، “میرا خیال نہیں ہے کہ اس کنویں میں گرا ہو گا۔”

پھر وہ دوسرے کنویں کی طرف چل پڑا۔ اس دفعہ مسیّب نے جھک کر لالٹین کو کنویں میں لٹکایا اور آواز کو بساطیوں کی طرح کھینچ کر پکارا، “کہاں ہو بچے؟ کہاں ہو؟”

جواب میں کوئی آواز نہ آئی۔ پھر وہ تیسرے کنویں کے پاس پہنچے۔ اس کے بعد چوتھے کنویں پر۔ پھر پانچویں پر۔ پھر چھٹے پر۔ پھر ان کی دو ٹولیاں بن گئیں۔ دونوں ٹولیاں اسی طرح الگ الگ کنووں پر جا کر تلاش کرنے لگیں۔ پھر تین ٹولیاں ہو گئیں، چار ٹولیاں ہو گئیں۔ پھر اَور لالٹینیں آ گئیں۔ سات آٹھ دس لالٹینیں، اور بہت سی رسی۔ کچھ لوگ رسی میں گرہیں ڈالنے لگے۔ سب لوگ آگے ہی آگے بڑھتے گئے لیکن حسنی کہیں نہ ملا۔ ان سب پر جھنجھلاہٹ سوار ہونے لگی اور وہ زور زور سے باتیں کرنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک کنویں پر پہنچ کر کسی نے سب کو آواز دی۔ یہ عباس آقا تھا۔ سب لپک کر اس کے پاس پہنچے اور اسے گھیر لیا۔ عباس آقا گھبرائی ہوئی آواز میں بولا، “مجھے لگتا ہے اسی کنویں میں ہے۔ مجھے کچھ آواز آئی ہے۔ جیسے کوئی کنویں کی تہہ میں کھڑا رو رہا ہو۔”

سب نے دم سادھ لیا۔ کچھ لوگ کنویں کے اندر جھکے اور کان لگا کر سننے لگے۔ پھر بولے، “ہاں واقعی، اسی کنویں میں ہے۔”

حسنی کے بابا نے پھر چیخنا چلّانا شروع کر دیا۔ “جلدی کرو، جلدی کرو! میرے بچے کو یہاں سے باہر نکالو۔ میرے بچے کو باہر نکالو۔”

مسیّب بولا، “نیچے کون جائے گا؟”

قادر نے کہا، “ پرانا کنواں ہے۔شاید دیوار جھڑتی ہو۔”

حسنی کے بابا نے کہا، “نہیں نہیں، بخدا! نہیں جھڑے گی۔ اندر جاؤ، جا کر اسے نکال لاؤ!”

سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ عباس چرخی نے کہا، “کیا کوئی مرد نہیں؟ اچھا، میں خود جاتا ہوں۔ رسی اتارو۔”

عباس آقا کی بیوی عورتوں کے ہجوم میں سے چیخ کر بولی، “نہیں نہیں، تم نہیں اتر سکتے۔ تمھیں کنویں میں اترنا نہیں آتا!”

عباس آقا جھلا کر بولا، “چپ کر عورت! اپنے کام سے کام رکھ! میں نہیں دیکھ سکتا کہ اس کا بچہ اندر مر جائے۔”

عباس آقا کی بیوی بھیڑ کو چیر کر آگے بڑھ آئی اور دوڑتی ہوئی اس سے لپٹ گئی۔ “نہیں نہیں، میں تمھیں نہیں جانے دوں گی۔۔۔ نہیں جانے دوں گی۔”

عباس آقا نے اپنی بیوی کو ایک چانٹا رسید کیا اور بولا، “ہٹ یہاں سے دور ہو! کیسی عورت سے پالا پڑا ہے!”

اور پھر چلّا کر کہا، “رسی!”

رسی لائی گئی اور اسے کس کر عباس آقا کی کمر میں باندھ دیا گیا۔ پھر اس کی ایک ایک گرہ کو کھینچ کر دیکھا گیا۔ عباس آقا نے کہا، “احتیاط سے، کہیں بیچ میں چھوڑ نہ دینا۔”

کچھ لوگ بولے، “پریشان مت ہو۔ احتیاط سے کریں گے۔”

عباس آقا نے اترنے کے لیے تیار ہو کر لالٹین ہاتھ میں تھامی اور کنویں میں جھک کر تہہ کا جائزہ لیا۔ پھر لالٹین کسی اور کو پکڑا کر زور سے بسم اﷲ پڑھی۔ سب نے فوراً جواب میں صلوات پڑھی۔ حسنی کے بابا نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور کہا، “یا ارحم الراحمین! یا جدِ حسینِ مظلوم! یا جدِ فاطمہ زہرا! یا جدِ خدیجہ کبریٰ، میرے بچے کو بچا لیجیے! میرا حسنی زندہ نکل آئے!”

عباس آقا کنویں میں اترا اور دونوں کہنیاں کنویں کی منڈیر پر ٹیک کر بولا، “احتیاط سے کام لینا۔ رسی کو مضبوط پکڑنا۔ جب میں رسی کو جھٹکا دوں تو اوپر کھینچ لینا۔”

اس کی بیوی، جو ہمارے بالکل پیچھے کھڑی تھی، پھر زور زور سے رونے لگی۔ میری اماں اسے دلاسا دینے لگی۔ عباس آقا نیچے اتر گیا۔ رسی اسی طرح پانچ چھ لوگوں کی گرفت میں تھی جو اسے تھوڑا تھوڑا کر کے چھوڑ رہے تھے اور زیرلب کچھ بولتے بھی جا رہے تھے۔ حسنی کا بابا اپنے گرد چکر کاٹ رہا تھا اور ہونٹ دانتوں میں دبائے ہاتھ مل رہا تھا۔ وہ منھ ہی منھ میں کچھ بول رہا تھا اور خدا خدا کر رہا تھا۔ میرے ذہن سے بالکل فراموش ہو چکا تھا کہ حسنی بھٹے کی کوٹھڑی میں ہے۔ میرے دل میں کوئی کہہ رہا تھا کہ کاش حسنی اسی کنویں میں موجود ہو کہ عباس آقا خالی ہاتھ باہر نہ نکلے اور سب لوگ خوش ہو جائیں۔ کچھ وقت اسی طرح گزرا اور پھر میرے بابا نے، جو دوسرے لوگوں کے ساتھ رسی کو تھامے ہوے تھا، کہا، “اوپر کھینچو! اوپر کھینچو!”

رحمت نے پوچھا، “کیوں؟”

میرے بابا نے کہا، “دیکھتے نہیں رسی ہل رہی ہے، اندھے ہو کیا؟”

سب خاموش ہو گئے اور رسی کو اوپر کھینچنے لگے۔ حسنی کا بابا گردن اٹھا کر سب کے سروں کے اوپر سے دیکھ رہا تھا اور عباس آقا کے نمودار ہونے کا منتظر تھا۔ تب عباس آقا کے دونوں ہاتھ کنویں کی منڈیر کو پکڑتے دکھائی دیے۔ پھر اس نے کہنیاں ٹیکیں اور زور لگا کر اپنے جسم کو اوپر اٹھایا۔ زمین پر آ کر وہ سیدھا لیٹ گیا اور زور زور سے سانس لینے لگا۔ قادر نے پوچھا، “وہ اندر تھا؟ وہ اندر تھا؟”

حسنی کے بابا نے زور کی چیخ ماری اور رونے لگا۔ عباس آقا کروٹ لے کر آدھا اٹھ بیٹھا اور بولا، “لگتا تھا میرا دم گھٹ جائے گا۔”

قادر نے پوچھا، “مر گیا کیا؟”

عباس آقا نے کہا، “وہاں صرف ایک مرا ہوا کتا پڑا سڑ رہا تھا۔”

مسیّب نے کہا، “کہیں تمھیں مغالطہ نہ ہوا ہو۔”

عباس آقا بولا، “ابے احمق، کیا میں مرے ہوے کتے اور حسنی میں فرق نہیں کر سکتا؟”

وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی کمر میں بندھی ہوئی رسی کھول دی۔ پھر سب دوبارہ جتھا بنا کر اگلے کنویں کی طرف گئے۔ پھر اس سے اگلے کنویں پر، اور پھر اس سے اگلے پر۔ وہ پھر دو ٹولیوں میں بٹ گئے، پھر چار ٹولیوں میں، اور لالٹین ہاتھ میں لیے ہر کنویں میں جھک جھک کر حسنی کو پکارنے لگے۔ تب ہی میں چپکے سے کھسک کر جھونپڑوں کی طرف بھاگ پڑا۔ میں کونوں کھدروں میں اندھیرے کی اوٹ لے کر چل رہا تھا تاکہ کسی کو پتا نہ چلے۔ میں نے پمپ سے پانی پیا اور پھر ٹین کی دیوار کے پیچھے سے گزر کر اپنے جھونپڑے میں پہنچ گیا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ میں نے ایک نان اور ایک ٹوٹے ہوے دستے والا آبخورہ اٹھا لیا۔ پھر میں دوڑتا ہوا باہر نکلا، پمپ سے آبخورے میں پانی بھرا، مردے نہلانے والے گڑھے کے پاس سے گزر کر سڑک کے کنارے کنارے لمبا چکر کاٹتا ہوا حاج تیمور کے بھٹے پر نکلا اور اس کوٹھڑی پر پہنچا جہاں حسنی چھپا ہوا تھا۔ میں نے گردن اٹھا کر دبی ہوئی آواز میں اسے پکارا۔ کوئی جواب نہ آیا۔ دوبارہ آواز دی۔ پھر جواب نہ آیا۔ میں نے اونچی آواز میں پکارا مگر کچھ نہیں۔ مجھ پر خوف چھا گیا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ شاید اسے پتا نہ چلا ہو کہ یہ میں ہوں، سو میں نے سیٹی بجانا شروع کیا — وہی خوش آواز سیٹی جس کے ذریعے میں اسے پیغام دیتا تھا کہ “حسنی، آ جاؤ، کام کا وقت ہو گیا۔” ایک دم مجھے اپنے سر کے اوپر حسنی کے سیٹی بجانے کی آواز سنائی دی۔ وہ کوٹھڑی کی چھت پر اوندھا لیٹا میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا، “اے حسنی!”

بولا، “چپکے سے اوپر آ جاؤ۔”

میں نے آبخورہ اسے تھمایا اور اینٹوں والی دیوار کا سہارا لے کر اوپر پہنچ گیا۔ دونوں آہستہ آہستہ رینگتے ہوے آگے بڑھے اور بھٹے کی چمنی کے پاس جا بیٹھے۔ میں نے کہا، “تمھیں تو کوٹھڑی کے اندر چھپنا تھا۔”

وہ بولا، “یہ دیکھنے اوپر آیا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔”

میں نے کہا، “تمھیں پتا ہے اگر وہ لوگ تمھیں دیکھ لیں تو کیا ہو گا؟”

بولا، “مشکل ہے۔ مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔” یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا۔

میں نے پوچھا، “ہنس کیوں رہے ہو؟”

بولا، “بابا کا سوچ کر ہنس رہا ہوں۔ اور باقی سب لوگوں کا۔ دیکھو ذرا، کیسے دوڑتے پھر رہے ہیں۔”

اس نے کنووں کی طرف اشارہ کیا۔ وہ لوگ لالٹین اٹھائے کبھی ایک کنویں کے پاس جاتے کبھی دوسرے کے۔ کوئی ٹولی کسی ایک کنویں کے پاس جم کر رہ گئی تھی اور وہاں سے ہلتی ہی نہ تھی۔

میں نے کہا، “ہم نے اچھا نہیں کیا حسنی۔”

بولا، “کیوں؟”

میں نے کہا، “تمھارا بابا خود کو مارے ڈال رہا ہے۔ تمھیں پتا نہیں اس کا کتنا برا حال ہے۔”

بولا، “فکر مت کرو۔ وہ خود کو نہیں مارنے کا۔ اماں کیا کر رہی ہے؟”

میں نے کہا، “کیا کر رہی ہے؟ سر پیٹ پیٹ کر رو رہی ہے۔”

بولا، “رونے دو۔”

میں نے کہا، “تمھیں پتا ہے، عباس آقا کنویں میں اترا تھا، اور تمھاری جگہ ایک مرا ہوا کتا نکال کر لایا تھا۔”

حسنی بولا، “اپنے باپ کی لاش لایا ہو گا۔”

ہم دونوں ہنسنے لگے۔ پھر میں نے نان نکالی اور آدھی آدھی توڑ کر دونوں نے کھائی۔ مجھے پیاس نہیں لگی تھی، لیکن حسنی نے کچھ گھونٹ پیے۔ میں نے کہا، “کیا کہتے ہو، اب نیچے ان لوگوں کے پاس چلیں؟”

بولا، “کیا ہو گا؟”

میں نے کہا، “قصہ ختم ہو جائے گا۔ انھیں ایک ایک کنواں جھانکنا نہیں پڑے گا۔”

بولا، “ابھی سے؟ ابھی انھیں گھومنے دو۔”

میں نے کہا، “ان میں سے کوئی کنویں میں گر کر مر گیا تو؟”

بولا، “فکر مت کرو۔ یہ سب کتے کی اولاد ہیں۔ اتنی آسانی سے مرنے والے نہیں۔”

میں نے کہا، “لیکن ہم جو کر رہے ہیں وہ بہت برا ہے۔”

اس نے گردن موڑ کر مجھے غور سے دیکھا۔ بولا، “اور وہ جو ہماری ٹھکائی کرنے سے پہلے کھانا نہیں کھاتے، وہ اچھا کرتے ہیں؟”

میں نے کہا، “خدا کے لیے حسنی، اب بس کرو۔ چلو ان کے پاس چلتے ہیں۔”

وہ بولا، “ میں تو نہیں جانے کا۔”

میں نے پوچھا، “مگر کیوں؟”

بولا، “واپس جا کے کیا کہیں گے؟”

میں نے کہا، “کہہ دینا کہ شکرائی کے باغ میں پھل کھانے گیا تھا۔”

بولا، “پھر تو تمھارا جھوٹ پکڑا جائے گا۔”

میں نے کہا، “میں کہہ دوں گا، مجھے کیا پتا کہاں گیا، میں سمجھا تھا کنویں میں گر گیا۔”

بولا، “نہیں، وہ فوراً سمجھ جائیں گے، اور پھر ہماری شامت آ جائے گی۔”

میں نے کہا، “نہیں آئے گی، خدا کے لیے تم چلو۔”

بولا، “میں تو نہیں چلنے کا۔”

میں نے کہا، “تو ٹھیک ہے، میں جا کے بتا دیتا ہوں کہ حسنی کنویں میں نہیں گرا، حاج تیمور کی کوٹھڑی میں چھپا بیٹھا ہے۔”

اس نے گردن گھما کر مجھے بری طرح گھورا۔ “ٹھیک ہے۔ کہہ دو جا کے۔ اس کے بعد تم الگ اور میں الگ۔ پھر تمھیں میری شکل بھی نظر نہیں آئے گی۔”

میں نے پوچھا، “تو پھر کب واپس چلو گے؟”

بولا، “ختم والے دن۔ جس وقت میرے لیے قرآن ختم ہو رہا ہو گا، اس وقت ایک دم داخل ہو جاؤں گا۔ تب بڑا مزہ آئے گا۔”

میں نے کہا، “بکواس مت کرو۔ کیا مزہ آئے گا؟”

بولا، “پتا ہے، جس وقت وہ سب سینہ پیٹ پیٹ کر رو رہے ہوں گے، میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا ان کے بالکل بیچ میں پہنچ جاؤں گا اور زور سے سلام کروں گا۔ پہلے تو وہ سب بوکھلا جائیں گے، پھر ڈر جائیں گے۔ عورتیں چیخنے چلّانے لگیں گی۔ بچے بھاگ جائیں گے اور سوچیں گے کہ میں قبر سے نکل کر آیا ہوں۔ پھر جب وہ لوگ دیکھیں گے کہ میں سچ مچ زندہ ہوں، ہنس رہا ہوں، ہاتھ پیر ہلا رہا ہوں، تو سب کے سب خوش ہو جائیں گے۔ وہ ہوا میں چھلانگیں لگائیں گے، زمین پر گر جائیں گے، وہ مجھے لپٹا کر میرا منھ چومیں گے۔ تم کہتے ہو مزہ نہیں آئے گا؟ ہیں؟”

ہم نے پھر اپنی نظریں ان لوگوں پر جما دیں جو لالٹین ہاتھ میں لٹکائے کنووں کے درمیان اِدھر سے اُدھرگشت کر رہے تھے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد مردوں اور عورتوں کے زور زور سے بولنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ میں نے کہا، “ٹھیک ہے، اب میں ان لوگوں کے پاس جاتا ہوں…”
وہ بولا، “ٹھیک ہے، مگر انھیں بتانا مت۔”
ہم چاروں ہاتھ پیروں پر رینگتے ہوے آگے بڑھے، دور دور تک غور سے دیکھا اور پھر نیچے اتر آئے۔ میں سڑک کے گرد لمبا چکر کاٹ کر مردے نہلانے کے گڑھے کے پاس سے گزرا اور پھر واپس اوپر کی طرف چلنے لگا۔ وہ سب اب تک ایک کنویں کے گرد دائرے میں جمع تھے۔ میں دوڑتا ہوا ان کے پاس جا پہنچا۔ میں نے اپنی اماں کو دیکھا جو سر پیٹ پیٹ کر اونچی آواز میں رو رہی تھی۔ مردوں نے رسی کو کنویں کی تہہ تک لٹکا رکھا تھا۔ میں لوگوں کی ٹانگوں میں سے نکل کر آگے کنویں کی منڈیر تک پہنچ گیا۔ وہاں میں نے عباس چرخی کو دیکھا جو کسی سے کہہ رہا تھا، “رسی ہلا رہا ہے۔ اوپر کھینچو، اوپر کھینچو!”

قادر نے پوچھا، “مگر کیوں؟”

عباس آقا نے کہا، “اندھے ہو کیا؟ دیکھتے نہیں رسی ہل رہی ہے؟”

سب خاموش ہو گئے اور رسی کو اوپر کھینچنے لگے۔حسنی کا بابا، جو میرے سر کے بالکل پیچھے کھڑا تھا، مسلسل سینہ پیٹتے ہوے کہہ رہا تھا، “یا خدیجہ کبریٰ، یا امام مصطفیٰ، یا غریب الغربا، یا سیدالشہدا۔”

تب میں نے اپنے بابا کو کنویں کی منڈیر پر کہنیاں ٹیک کر باہر نکلتے دیکھا۔وہ سر سے پیر تک سیاہ ہو چکا تھا اور زور زور سے ہانپ رہا تھا۔ عباس آقا نے کہا، “لیٹ جاؤ، لیٹ جاؤ، اور لمبے لمبے سانس لو۔”

کچھ لوگوں نے بابا کی بغلوں میں ہاتھ دے کر اسے زمین پر لٹا دیا۔

2

صبح ہوئی تو کوئی کام پر نہ گیا۔ سب بری طرح تھک کر اپنے اپنے جھونپڑے کو لوٹ گئے۔ حسنی انھیں نہیں ملا تھا۔ عباس آقا نے کہا تھا، “کوئی فائدہ نہیں۔ سارے کنووں میں نہیں ڈھونڈ سکتے۔”

وہ ان زیادہ گہرے کنووں پر پہنچ گئے تھے جو نیچے تہہ میں ایک دوسرے سے ملے ہوے تھے اور ان میں گندا پانی بہہ رہا تھا۔ان کنووں کے اندھیرے میں عجیب عجیب چیزیں دکھائی دیتی تھیں۔ اُستا حبیب کے سامنے اچانک گائے کے قد کا ایک جانور آ گیا تھا جس کی چار پانچ دُمیں تھیں اور جبڑوں میں ایک مرے ہوے آدمی کا سر لیے وہ اِدھر اُدھر چل پھر رہا تھا۔ سید کو کچھ ننگے اور کچھ اونی لباس پہنے لوگ دکھائی دیے تھے جو کنویں کی دیوار سے لگے کھڑے تھے۔ اسے دیکھتے ہی وہ لوگ گندے پانی میں کود کر غائب ہو گئے تھے۔ میر جلال نے اپنی آنکھوں سے بڑے بڑے کالے پر دیکھے تھے جو اِدھر سے اُدھر اڑتے پھر رہے تھے۔ ان سب کا کہنا تھا کہ کنویں کی تہہ سے عجیب و غریب آوازیں سنائی دیتی ہیں، جیسے بلیاں رو رہی ہوں اور نظر نہ آنے والی عورتیں قہقہے لگا رہی ہوں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے سَنج اور شِیپور کی آوازیں بھی سنیں، جیسی عاشورے کے دنوں میں نکلتی ہیں۔ انھیں اپنی پشت سے نوحے پڑھے جانے اور لوگوں کے گریہ کرنے کی آوازیں سنائی دی تھیں۔ عباس آقا نے کہہ دیا کہ اب کچھ فائدہ نہیں، دوڑ دھوپ سے کچھ نہیں ہو گا اور حسنی اب نہیں ملے گا۔ تب وہ سب، تھکن اور نیند سے چور، بستی کی طرف لوٹ آئے تھے اور اب سو رہے تھے۔ صرف حسنی کا بابا اب تک نہیں سویا تھا اور جھونپڑوں کے درمیان متواتر اِدھر اُدھر بھٹک رہا تھا اور اپنے سر کو دائیں بائیں اور آگے پیچھے جھٹکتا جا رہا تھا۔ وہ رنج سے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارتا اور کہتا، “دیکھا کیا ہوا! دیکھا میرا بچہ کیسے ہاتھ سے جاتا رہا! کیسے جوانی میں مر گیا!”

حسنی کے بابا کا رونا چلّانا اب تھم چکا تھا۔ اس کے بجاے اب اس کا دھیان عجیب و غریب چیزوں سے الجھ رہا تھا۔ جھونپڑوں کی چھتیں، مقبروں کے تاریک دروازے، دیوار کے ساتھ لگی ڈھکے ہوے پیپوں کی قطاریں، جھونپڑوں کے آگے لٹکے ٹاٹ کے پردوں پر پڑے دھبے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ رک کر زمین سے کوئی بیکار سی چیز اٹھا لیتا — ٹین کا ٹکڑا، یا ٹوٹی ہوئی پیالی، یا گھسا ہوا جوتا — اور کچھ دیر اس سے کھیلنے کے بعد اسے دور اچھال کر کسی اور چیز کی طرف متوجہ ہو جاتا۔ وہ زیرلب بڑبڑاتا جا رہا تھا، “اب اسے کیڑے کھا رہے ہیں۔ سب ختم ہو گیا۔ میرا حسنی چلا گیا۔”

میں کئی بار اس کے پاس سے گزرا۔ اس کی حالت وہی رہی۔ اس نے مجھے نہیں دیکھا، یا دیکھا تو مجھ پر توجہ نہیں دی۔ کچھ دیر بعد مجھے اچانک یاد آیا کہ حسنی بھوکا ہو گا اور میرا انتظار کر رہا ہو گا۔ میں سیدھا اپنے جھونپڑے پر پہنچا۔ سب سو رہے تھے۔ میرا بابا نیند میں لڑھک کر ایک طرف کو ہو گیا تھا اور اس کے مٹی میں سَنے پیر باہر کو نکلے ہوے تھے۔ میں نے ایک نان اور مٹھی بھر شکر لی اور باہر نکل آیا۔ ہر طرف سناٹا اور ویرانی تھی۔ حسنی کا بابا ایک مکان کے پیچھے کھڑا تھا اور دیوار پر ناخن سے کھرچ کر کچھ لکھ رہا تھا۔ سورج چڑھ آیا تھا اور روشنی ہر طرف پھیل گئی تھی۔ پمپ کے پاس پہنچ کر میں نے پانی پیا۔دور دور تک کوئی نہ تھا۔ میں مردے نہلانے والے کوڑے کے گڑھے میں اترا اور دوسری طرف نکل کر حاج تیمور کے بھٹے میں پہنچا اور اس کوٹھڑی کی طرف چلا جہاں مجھے معلوم تھا حسنی میرے انتظار میں بیٹھا ہے۔ وہ سو رہا تھا۔ جب میں نے آواز دی تو چونک کر اٹھ گیا اور گھبرا کر کہنے لگا، “کون ہے؟ کون ہے؟”

میں نے کہا، “ڈرو مت۔ میں ہوں میں۔”

وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ بدلا ہوا تھا۔ آنکھوں کے گرد گڑھے تھے اور ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ میں نے پوچھا، “کیا ہوا؟ ٹھیک تو ہو؟”

بولا، “میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں کنویں میں گر گیا ہوں اور باہر نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہوں مگر نکل نہیں پاتا۔”

میں نے کہا، “تمھارا اپنا قصور ہے۔ تم ہی یہ کھیل کھیلنا چاہتے تھے۔ تمھارے بابا کا دماغ چل گیا ہے۔”

وہ کچھ نہ بولا اور خود کو گھسیٹتا ہوا کوٹھڑی سے باہر لے گیا۔ ہم دونوں دھوپ میں بیٹھ گئے۔ میں نے نان اور مٹھی بھر شکر اسے دے دی۔ پانی ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اس نے آبخورہ اٹھا کر چند گھونٹ بھرے اور تھوڑا سا پانی لے کر منھ پر چھینٹے مارے۔ جب اس کا حال کچھ ٹھکانے پر آیا تو مجھ سے پوچھنے لگا، “کیا ہوا؟”

میں نے کہا، “سب کو یقین ہو گیا ہے کہ تم مر چکے ہو۔”

بولا، “تم نے کیا کیا؟”

میں نے کہا، “میں نے کچھ نہیں کیا۔ کسی سے نہیں کہا۔”

کہنے لگا، “اب وہ لوگ کیا کرنا چاہتے ہیں؟”

میں نے کہا، “ابھی کچھ طے نہیں ہوا کہ کیا کریں گے۔”

اس نے پوچھا، “میرے لیے قرآن ختم نہیں کرائیں گے؟”

میں نے کہا، “پتا نہیں۔ “

بولا، “میرا خیال ہے آج سہ پہر کو کرائیں گے۔”

میں نے پوچھا، “تمھیں کیسے پتا ہے؟”

بولا، “یاد نہیں جب بی بی کا پوتا مرا تھا تو اگلے دن ختم کرایا تھا؟”

میں نے کہا، “اگر ایسا ہے تو آج کا دن تمھارا ہے۔”

بولا، “ہاں۔خدا کرے ایسا ہی ہو۔ اب مجھ میں اور حوصلہ نہیں۔”

میں نے کہا، “انشاء اﷲ ایسا ہی ہو گا۔”

کہنے لگا، “کہیں بھول نہ جانا۔ فوراً مجھے آ کر بتانا۔”

میں نے کہا، “نہیں، بھول کیسے جاؤں گا؟ لیکن تم زبردست ٹھکائی کے لیے تیار رہنا۔”

بولا، “ٹھکائی نہیں ہو گی۔ سب لوگ مجھے دیکھ کر خوش ہو جائیں گے۔”

میں نے کہا، “تم یہی سمجھتے رہو۔ اصل بات تو شام کو معلوم ہو گی۔”

بولا، “شرط لگاتے ہو؟”

میں نے پوچھا، “کیسی شرط؟”

بولا، “اگر مجھے دیکھ کر غصے میں آ گئے کہ میں زندہ کیوں ہوں، مرا کیوں نہیں، اور میری پٹائی شروع کر دی تو تم جیتے، اور اگر مجھے دیکھ کر خوش ہوے تو میں جیتا۔ پھر تمھیں میرے ہاتھ سے پٹائی نوش جان کرنی ہو گی۔”

میں نے کہا، “بہت خوب! میں تمھارے لیے اتنی مصیبت اٹھا رہا ہوں، اور تم میری پٹائی کرو گے؟”

ہنسنے لگا۔ بولا، “مذاق کر رہا تھا۔ تمھیں آئس کریم خرید کے کھلاؤں گا۔”

میں نے کہا، “ہاں، یہ ٹھیک ہے۔”

اس نے نان کا ایک لقمہ توڑ کر منھ میں رکھا اور بولا، “اب کیا کریں؟”

میں نے کہا، “کچھ نہیں۔ تم جا کے کوٹھڑی میں چھپو اور میں بستی میں جا کے دیکھتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے۔”

بولا، “اگر سہ پہر کو ختم قران کی ٹھہرے تو مجھے آ کے بتاؤ گے نا؟”

میںنے کہا، “ہاں بتاؤں گا۔”

اور سہ پہر ہی کو ختم قرآن ہونا طے ہوا۔ حسنی کی فاتحہ۔ جھونپڑوں کے سامنے۔ عباس آقانے ایک بانس پر کالا کپڑا باندھ کر اسے میدان کے سرے پر گاڑ دیا تھا۔ سب گھروں سے باہر نکل کر زمین پر بیٹھ گئے۔ عورتیں ایک طرف اور مرد دوسری طرف۔ دوسری بستیوں میں بھی اطلاع پہنچ گئی تھی اور لوگ ٹولیوں میں آ رہے تھے۔ یوسف شاہ کی گھاٹی، سرپیچ، شمس آباد کے بھٹے، شترخون اور ملا احمد کی بستی، ہر جگہ سے۔ وہ سب انجانے لوگ تھے، طرح طرح کے کپڑے پہنے تھے۔ جوں ہی کوئی ٹولی میدان میں پہنچتی، عورتیں حسنی کی اماں کے پاس چلی جاتیں جو کھرچے ہوے خون آلود چہرے کے ساتھ اپنے جھونپڑے کے سامنے بیٹھی تھی۔ وہ اب رو نہیں رہی تھی، بس سر کو اِدھر اُدھر ہلاتی اور سینہ پیٹتی جاتی تھی۔ عورتیں اس کے سامنے پہنچتے ہی رونے اور اپنا سر اور منھ پیٹنے لگتیں اور کہتیں، “خواہر جان، خواہر جان، یہ تم پر کیا افتاد پڑی!”

حسنی کا بابا ہمارے جھونپڑے کے سامنے بیٹھا تھا۔ بلکہ بیٹھا کیا تھا، زمین پر پڑا ہوا تھا۔ مبہوت سا اپنے سامنے تکے جا رہا تھا۔ ہر نئے آنے والے کو جیسے ہی پتا چلتا کہ مرنے والے کا باپ کون ہے، وہ اس کے پاس جا کر سلام کرتا۔ کوئی جواب سنے بغیر آنے والا ایک کونے میں بیٹھ جاتا۔ عباس آقا جوکھڑا ہوا تھا، اونچی آواز میں کہتا، “فاتحہ!”

مرد لوگ فاتحہ پڑھنے لگتے۔ اُستا حبیب ہاتھ میں پانی کا برتن لیے لوگوں میں گھومتا اور پیاسوں کو پانی پلاتا پھر رہا تھا۔ دو بوڑھے آدمی جو غریبا کی گھاٹی سے تمباکو کا بڑا سا تھیلا لے کرآئے تھے، جلدی جلدی اخبار کے کاغذ پھاڑ پھاڑ کر سگریٹ بناتے اور انھیں سینی میں رکھتے جا رہے تھے۔ اور بی بی کا بڑا بیٹا رمضان سینی اٹھائے لوگوں کو سگریٹ پیش کر رہا تھا۔ سب لوگ سگریٹ اور پانی پی رہے تھے، سواے حسنی کے بابا کے، جو نہ سگریٹ پی رہا تھا نہ پانی، بس تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتا اور کبھی کبھی زمین کی طرف منھ کر کے تھوکتا تھا۔

کوئی گھنٹہ بھر گزرا ہو گا کہ سڑک کی سمت سے کچھ لوگ تیزتیز آتے دکھائی دیے۔سب گردن پھیر کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔ عباس آقا نے زور سے کہا، “پیروں کی گھاٹی سے کالے خیموں والے آئے ہیں۔ جاؤ، انھیں یہاں لے آؤ۔”

کئی لوگ ان کی پیشوائی کو آگے بڑھے۔ کالے خیموں والے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ دوڑتے لپکتے آ پہنچے۔ ان میں سے بہت سوں کے ہاتھوں میں علَم تھے۔ وہ ان سب کے آگے آگے چیتھڑے لگے کپڑے پہنے، غم اور پریشانی کی حالت میں سینہ زنی کرتے دوڑ رہے تھے۔ ان کے وسط میں ایک دبلاپتلا، لمبی گردن اور اونچے عمامے والا آخوند تھا۔ عورتیں دستے کے آخر میں تھیں، پابرہنہ اور خاک آلودہ۔ جب وہ لوگ چھوٹے میدان کے بیچ میں پہنچے تو صلوات کی آوازیں بلند ہوئیں۔عورتیں اورمرد الگ الگ ہو گئے۔ عورتیں چیخیں مارتی ہوئی حسنی کی اماں کی طرف چلی گئیں اور مرد آگے بڑھ آئے۔ بوڑھوں نے حسنی کے بابا کو سلام کیا۔ حسنی کے بابا نے جواب نہ دیا۔ علمداروں نے علم بچوں کے حوالے کیے اور بچے انھیں لے کر بڑوں کی پشت پر کچھ فاصلے سے کھڑے ہو گئے۔ تب آخوند جا کر ہمارے جھونپڑے کے باہر لگے پتھر پر بیٹھ گیا۔ اسمٰعیل آقا نے اونچی آواز میں کہا، “صلوات بھیجو! بلند آواز میں صلوات بھیجو!”

سب نے صلوات بھیجی۔ آخوند بھرائی، بیٹھی ہوئی آواز میں بولا، “بیٹھ جائیں، سب لوگ بیٹھ جائیں تاکہ ایک معصوم اور بیچارے نوجوان کی عزا میں روضہ ٔقاسم پڑھیں اور گریہ کریں۔”

پہلے اس نے کچھ عجیب و غریب دعائیں پڑھیں اور پھر روضہ خوانی شروع کی۔ اسی وقت گریہ وزاری کی صدا بلند ہوئی۔ سب رو رہے تھے۔ مرد رو رہے تھے، عورتیں رو رہی تھیں، بچے رو رہے تھے۔ یہاں تک کہ میں بھی رو رہا تھا۔ صرف حسنی کا بابا تھا جو نہیں رو رہا تھا۔ صرف پہلو بدل رہا تھا اور خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔ گریہ کرنے کی آوازیں جیسے جیسے بلند ہوتی گئیں، کالے خیموں والے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور اپنے سینے کھول دیے۔ آخوند بھی کھڑا ہو گیا اور اس نے بھی اپنا سینہ کھول دیا، اور اَور بھی زیادہ اونچی آواز میں بولا، “آؤ اب سید الشہدا کی اور اس بے گناہ نوجوان کی شادی میں سینہ زنی کریں۔”

یہ کہہ کر اس نے نوحہ پڑھنا شروع کیا۔ کالے خیموں والے ماتم کرنے لگے۔ دوسرے مرد بھی کھڑے ہو گئے اور اپنے سینے کھول کر ماتم کرنے لگے۔ عورتوں کی چیخ پکار میں اور زیادہ شدت آ گئی اور وہ ایک دوسرے کو لپٹا لپٹا کر زور زور سے رونے لگیں۔ مجھے اچانک خیال آیا کہ یہی وقت ہے۔ یہی وقت ہے کہ مجھے جاکر حسنی کو خبر کرنی چاہیے۔ مجھ پر کسی کی توجہ نہ تھی۔ کسی کی کسی پر بھی توجہ نہ تھی۔ میں چپکے سے وہاں سے نکل آیا۔ پہلے تو الٹے قدموں چلتا رہا، پھر مڑا اور آنکھوں سے آنسو پونچھتا ہوا تیزی سے چلنے لگا۔ پمپ پر پہنچ کر میں نے تھوڑا سا پانی پیا اور مردے نہلانے کے گڑھے میں اتر کر دوسری طرف پہنچ گیا۔ وہاں دور دور تک کوئی نہ تھا۔ تب میں نے دوڑنا شروع کر دیا۔ میں نے ہوا کی رفتار سے کنووں والے احاطے کا چکر لگایا اور آگے بڑھا۔ میرے حواس ٹھکانے نہ تھے۔ سر سے پیر تک پسینہ بہہ رہا تھا۔ اسی حالت میں دوڑتا ہوا میں حاج تیمور کے بھٹے میں پہنچا اور چکر لگا کر پیچھے کی کوٹھڑی کے سامنے آ گیا۔ حسنی کوٹھڑی کی چھت پر اوندھا لیٹا ہوا تھا۔ فوراً اٹھ کر نیچے آیا اور پوچھنے لگا، “کیا خبر ہے؟”

میں نے کہا، “تمھارا ختم ہو رہا ہے۔”

اس نے پوچھا، “کیا کر رہے ہیں وہ لوگ؟”

میں نے کہا، “ساری بستیوں اور گھاٹیوں سے لوگ آ گئے ہیں اور تمھارا ماتم کر رہے ہیں۔”

وہ کچھ دیر مجھے تکتا رہا۔ پھر بولا،’ ’تم کس لیے رو رہے ہو؟”

میں نے کہا، “تمھارے لیے۔”

بولا، “عجیب گدھے ہو! تمھیں تو پتا ہے کہ میں زندہ ہوں، مرا نہیں!”

میں نے کہا، “یہ سب اس آخوند کا قصور ہے جسے کالے خیموں والے لائے ہیں۔ اس نے سب کو رُلا دیا۔”

اس نے خوش ہو کر ہاتھوں کو آپس میں رگڑا اور کہا، “تو اب ٹھیک وقت ہے، ہے نا؟”

میں نے کہا، “ہاں تو۔ میرا خیال ہے یہی ٹھیک وقت ہے۔”

بولا، “اب دیکھتے ہیں کون شرط جیتتا ہے۔”

میں نے کہا، “خدا کرے تم ہی جیت جاؤ۔”

وہ ہنسنے لگا اور زور سے بولا، “تو چلو پھر، بھاگو!”

وہ فوراً اپنی جگہ سے دوڑ پڑا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ ہم دونوں دوڑ رہے تھے لیکن حسنی تو بالکل ہوا کی مانند اڑ رہا تھا۔ کوئی بھی اسے پکڑنا چاہتا تو نہ پکڑ سکتا۔ میں نے دو ایک بار اسے پکارا، “حسنی! حسنی!”

اور حسنی نے جواب دیا، “ہوہو! ۔۔۔ ہوہو!”
کہ اچانک، ایک دم پتا نہیں کیا ہوا… مجھے بالکل پتا نہیں کیا ہوا۔۔۔ کس طرح کہوں کہ کیا ہوا۔۔۔ کہ اچانک حسنی کا پیر کسی چیز میں پڑ کر رپٹا اور وہ سیدھا، بالکل سیدھا، کنویں میں جا گرا۔ میں نے سوچا، یعنی یہ نہیں سوچا کہ حسنی کنویں میں گرا ہے، بلکہ یہ سوچا کہ وہ زمین پر گرا ہے۔ میں آگے دوڑا۔ حسنی کہیں نہیں تھا۔ حسنی کنویں میں گر پڑا تھا۔ ایک بہت بڑے کنویں میں… اس کنویں میں جو سب کنووں سے بڑا تھا۔ میری زبان بند ہو گئی۔ میرے ہونٹ سل گئے۔ میں چاہتا تھا کہ زور سے چیخوں، چیخ کر کہوں: “حسنی!” مگر نہ چیخ سکا۔ میری آواز ہی نہ نکلی۔ منھ ہی نہ کھلا۔ میں نے بہت زور لگایا لیکن منھ سے حسنی کا نام ہی نہ نکلا۔ میں گھورے پر بیٹھ گیا اور اپنے دونوں کندھے زور سے پکڑ لیے۔ میرا سانس ہی رک گیا تھا۔ میں نے دو تین بار کوڑے کے ڈھیر پر اپنا سر مارا۔ پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ بلکہ خود کھڑا نہیں ہوا، گویا کسی چیز نے مجھے اٹھا کر پیروں پر کھڑا کر دیا۔ میں نے دوبارہ دوڑنا شروع کیا، ہمیشہ سے کہیں زیادہ تیز۔ حسنی سے بھی زیادہ تیز۔ میرا دل کرتا تھا، اُڑ کر کسی کنویں میں جا گروں۔ اسی وقت میں نے دیکھا کہ میں سڑک پر پہنچ گیا ہوں۔ پمپ کے پاس پہنچ کر میں نے سانس درست کیا۔ تب میری زبان کھلی اور میرے منھ سے نکلا، “ حسنی! حسنی ! حسنی!”

جس وقت میں میدان میں پہنچا، سینہ زنی ختم ہو چکی تھی۔ سب لوگ دائرہ بنائے خاموش بیٹھے تھے۔ رمضان لوگوں میں سگریٹ تقسیم کر رہا تھا اور اُستا حبیب پانی کا برتن اٹھائے اِدھر اُدھر آ جا رہا تھا۔ میں نے اونچی آواز میں چیخ کر کہا، “ حسنی! حسنی ! حسنی!” میں نے مٹھیاں بھینچ کر اپنے سر پر ماریں اور زمین پر گر پڑا۔ سب لوگ اٹھ کر میرے گرد جمع ہو گئے۔ عباس آقا نے، جو سب کے آگے چلتا ہوا میرے قریب پہنچ گیا تھا، میرا ہاتھ پکڑ لیا کہ میں خود کو نہ مار سکوں۔ اس نے پوچھا، “کیا ہوا؟ کیا ہوا؟”

میں نے چیخ کر کہا، “حسنی! حسنی کنویں میں گر پڑا!”

یہ کہہ کر میں زمین پر اوندھا ہو گیا اور مٹھیوں سے مٹی پکڑ لی۔ ہر طرف ایک ہمہمہ بلند ہوا۔ سب مجھے تسلیاں دیتے ہوے کہہ رہے تھے، “اچھا، اچھا، خدا رحمت کرے، تم خود کو زخمی مت کرو! صبر کرو!”

میرا بابا لوگوں کو ہٹاتا ہوا آگے آیا اور بولا، “چپ ہو جاؤ بچے! اس کے ماں باپ کے غم کو تازہ مت کرو!”

میں نے کہا، “گر پڑا! میری آنکھوں کے سامنے کنویں میں گر پڑا!”

بابا نے چیخ کر کہا، “میں کہتا ہوں چپ ہو جا! خاموش ہو جا گدھے کے بچے!”

میں اس سے بھی اونچی آواز میں چیخ کر بولا،”بخدا وہ کنویں میں گر پڑا! ابھی ابھی! ابھی گرا ہے!”

بابا نے مجھے سہارا دے کر کھڑا کیا اور ایک زوردار تھپڑ لگایا۔ اسمٰعیل آقا نے بابا کو ہاتھ پکڑ کر پیچھے کی طرف کھینچا اور کہا، “مت مارو احمق آدمی! دیکھتے نہیں اس کا کیا حال ہو رہا ہے؟”

پھر اس نے مجھے سینے سے لگا کر کہا، “صبر کرو، صبر کرو!”

استا حبیب نے اسمٰعیل کو پانی دیا اور اسمٰعیل آقا نے پانی لے کر میرے منھ پر چھینٹے مارے۔ میں نے خود کو اس کے بازوؤں سے چھڑانے کے لیے بہت زور لگایا لیکن نہ چھڑا سکا۔ کچھ لوگ اور بھی زور لگا رہے تھے کہ میں بھاگ نہ نکلوں۔ میں نے ایک بار پھر اونچی آواز میں چیخ کر کہا، “حسنی گر پڑا! کنویں میں گر پڑا! حسنی! حسنی ! “ اسمٰعیل آقا نے اپنا بڑا سا ہاتھ میرے منھ پر رکھ کر مجھے چپ کرا دیا اور کھینچتا ہوا میرے جھونپڑے میں لے گیا۔ حسنی کے بابا کے سامنے سے گزرتے ہوے میں نے اس کی طرف دیکھا اور ہاتھ سے کنویں کی سمت اشارہ کیا۔ اس نے میری طرف نہ دیکھا۔ خالی نظروں سے اپنے سامنے تکتا رہا۔ جب میں جھونپڑے میں داخل ہوا تو اسمٰعیل آقا نے کہا، “چپ ہو جاؤ بچے! سب جانتے ہیں کہ حسنی تمھارا دوست تھا۔ تم دونوں میں بہت یاری تھی۔ مگر اب کیا کیا جا سکتا ہے۔ قضا اور قدر کے فیصلوں میں کسی کا کیا زور۔”

میں نے ایک بار پھر چیخ کر کہا، “ابھی گرا ہے! ابھی گرا ہے! ابھی گرا ہے!”

میں چاہتا تھا کہ دوڑ کر جھونپڑے سے باہر نکل جاؤں مگر نہ کر سکا۔ بابا نے کہا، “اب کیا کر سکتے ہیں؟ بولو؟ کیا کر سکتے ہیں؟”

اسمٰعیل آقا نے کہا،”یہ اپنے ہوش میں نہیں ہے۔ ہاتھ پیر باندھ دینے چاہییں۔”

انھوں نے میرے ہاتھ پیر کس کر باندھ دیے۔ میں نے پھر چیخنا شروع کیا۔ بابا نے کہا، “اس کے چیخنے کا کیا علاج کریں؟”

اسمٰعیل آقا نے کہا، “منھ بھی باندھ دیتے ہیں۔”

میرے منھ پر بھی کپڑا باندھ کر مجھے ایک کونے میں ڈال دیا گیا۔ بابا ہاتھ مل رہا تھا اور کہتا جا رہا تھا، “کیا کریں، خدایا! خداوندا، اگر یہ اسی طرح رہا تو کیا کریں گے!”

اسمٰعیل آقا نے کہا، “پریشان مت ہو۔ ابھی کالے خیموں والے آخوند سے کہتے ہیں کہ اس کے لیے دعا لکھ دے۔ پھر اس کی حالت ٹھیک ہو جائے گی۔”

اُستا حبیب بولا، “اگر ٹھیک نہ ہوا تو شاہ عبدالعظیم لے چلیں گے۔”

بابا متواتر رو رہا تھا اور بے چینی سے چکر لگاتے ہوے کہے جا رہا تھا، “یا امامِ زماں! یا امامِ زماں! یا امامِ زماں!”

اسمٰعیل آقا نے کہا، “بہتر ہے اسے کچھ دیر کے لیے تنہا چھوڑ دیں۔ شاید حالت بہتر ہو جائے۔”

وہ سب جھونپڑے سے باہر چلے گئے اور دروازہ بند کر دیا۔ جماعت کے صلوات پڑھنے کی آواز دوبارہ بلند ہوئی۔ اور پھر آخوند کی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی جو دوبارہ روضہ ٔ قاسم پڑھ رہا تھا۔

(فارسی عنوان: “بازی تمام شد”)

Leave a Reply