نام کتاب: کہانی چل رہی ہے
مصنف: شہزاد نیر
قیمت: 1000 روپے
ناشر: نگارشات پبلشرز، میاں چیمبر، 3-ٹیمپل روڈ، لاہور
اگر میں زیر نظر افسانوی مجموعے کا تعارف شعری قالب میں بیان کروں تو وہ کچھ یوں ہوگا:
کہانی چل رہی ہے، زندگانی چل رہی ہے
رکے لفظوں میں قرنوں کی روانی چل رہی ہے
اس شعر کے پہلے چار الفاظ تو متذکرہ کتاب کا عنوان بناتے ہیں جبکہ شعر کے بقیہ حصے میں کتاب کی روح کا خاکہ کھینچنے کی کاوش کی گئی ہے۔ ویسے کتاب کے عنوان کا لوک پنجابی متبادل ذہن میں کچھ اور ہی تصویر اجاگر کرتا ہے اور اسی باعث عنوان کی معنوی گہرائی اور وقعت کچھ مزید بڑھ جاتی ہے۔
شہزاد نیر جی ان احباب میں شامل ہیں جن کے ساتھ قلمی و قلبی تعارف کو زمانی اکائیوں کے تناظر میں دیکھنا ممکن بھی نہیں اور مناسب بھی نہیں۔ ان کا بنیادی تعارف تو جدید شاعری میں ایک قد آور نام کے طور پر ہے ہی لیکن اگر آپ ان سے قدرے تفصیلی ملاقات کریں تو آپ پر ہمہ جہتی کے حقیقی اور پورے معانی کھل کر سامنے آئیں گے۔ ان سے اولین ملاقات میں ہی ایک فخر آمیز اندازہ ہوا کہ بہت ہی صاحبِ علم و ہنر ہستی سے دوستی ہونے لگی ہے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ شہزاد نیر کی ہشت پہلو شخصیت کے پراسرار در مزید کھلتے چلے گئے۔ کچھ سالوں سے یہ جدید فکشن نگاری پر سنجیدگی سے کام کرنے کے تخلیقی جرم میں ملوث پائے گئے تو کوئی خاص تعجب تو نہ ہوا لیکن ایک تجسس سا ضرور پروان چڑھنے لگا۔
مختصر تر افسانہ نگاری جس کے لیے تین چار اصطلاحات رائج ہیں جیسے پوسٹ کارڈ فکشن، فلیش فکشن اور مائکرو فکشن۔
مائکرو فکشن اپنی مختصر تاریخ میں غالباً مقبول ترین اصطلاح اور صنفِ مختصر نگاری کی معروف ترین شکل ہے۔ اس صنفِ افسانہ نگاری میں چند سو الفاظ میں باقاعدہ افسانہ لکھا جاتا ہے۔ فکشن نگاری کی اس شکل میں الفاظ کی تعداد کی پابندی ہی مصنف کا امتحان اور قاری کی دلچسپی کا سامان بہم کرتی ہے ۔اگر قلم و قرطاس شہزاد نیر جیسے مشاق لکھاری کے ہاتھ لگ جائے تو بلا مبالغہ شہ پارے اور یادگار تحریریں اردو ادب کے دامن میں جمع ہو سکتی ہیں۔ میری رائے میں مائکرو فکشن کی ضخامت کو مزید کم کرنے سے شاید اتنی دلچسپی کا سامان نہ پیدا ہوگا ۔ ہاں استثنائی صورتیں تو ہمیشہ رہتی ہیں، جیسے کچھ عرصہ قبل مبشر زیدی صاحب نے “سو لفظوں کی کہانی“ باقاعدہ متعارف کرا دی ہے لیکن میں پھر یہی کہوں گا کہ اتنے چھوٹے کینوس پر افسانہ نگاری کے ناگزیر اجزا یعنی تحیر، تجسس، کنفلکٹ یا نفسیاتی کشمکش اور ڈرامائیت کو سمونا کارِ محال ہے۔ میں نے جب اس صنف کا مطالعہ شروع کیا تو انگریزی میں دو مختصر ترین اور شاید عالمی سطح پر معروف دہشت ناک یا خوف ناک یا ہارر کہانیوں نے مسحور کر لیا تھا:
پہلی کہانی:
The last man on the earth was sitting in
a room and the door was locked
اردو ترجمہ یوں ہوگا:
زمین پر موجود آخری انسان ایک کمرے میں بیٹھا تھا اور کمرے کا دروازہ مقفّل تھا۔
دوسری کہانی جو پہلی سے زیادہ خوفناک منظر پیش کرتی ہے:
The last man on the earth was sitting in a room and the door was knocked
یعنی :زمین پر موجود آخری انسان ایک کمرے میں بیٹھا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی.
کرونا کے آسیبی دور سے کچھ سال پہلے فیس بک پر “انہماک” نامی فورم پر سید تحسین گیلانی نے مائکرو فکشن کو مائکروف کا نام دیتے ہوئے کئی قلم کاروں سے بہت معیاری مائکرو فکشن لکھوائے اور انھی دنوں شہزاد صاحب کی لکھی کچھ کہانیوں نے خاصا چونکا دیا لیکن ساتھ ہی یہ آفاقی اصول یاد آ گیا کہ اچھا نثر نگار لازم نہیں کہ اچھا شاعر بھی ہو لیکن کسی بھی اعلیٰ درجے کے شاعر میں ایک معیاری نثر نگار فعال یا حالتِ تنویم میں رہتا ہے جو کسی بھی لمحۂ یوریکا میں بیدار ہو کر معاصر نثر نگاروں کو چیلنج کرنے اور اپنا آپ منوانے کی مکمل صلاحیت و اہلیت رکھتا ہے۔
سو شہزاد نیر کے ہاں بھی کچھ یہی معاملہ دکھائی دیا۔ عسکری پس منظر رکھنے کے سبب انھوں نے اسپِ قلم کو فکشن نگاری کی طرف موڑا تو کوئی ڈیڑھ سو کے قریب مائکرو فکشن کے فرسنگ طے کر ڈالے۔ گویا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مائکرو فکشن ان کے میکرو مائنڈ/ macro mind کے سامنے واقعی مائکرو ثابت ہوا۔ اسی پس منظر نے انھیں پاکستان کے کئی دور دراز علاقوں اور مقامی ثقافتوں سے آشنائی کا وسیلہ دیا جسے انھوں نے زبردست قوتِ مشاہدہ و متخیلہ کا عمل انگیز استعمال کرتے ہوئے متنوع موضوعات پر کہانیوں کے قالب میں ڈھالنے کا عمل سکھایا۔ اس پر مستزاد یہ کہ بلا لحاظِ عمر انھوں نے آموزش کا عمل ترک نہیں کیا اور یوں ان سارے عناصر کی قبولیت کی کسی خاص گھڑی میں آمیزش نے ایک طرف شہزاد نیر کو تحریک دی کہ مسحور کن غزلیں اور نظمیں لکھیں تو دوسری طرف انھیں پیہم اکسایا کہ فکشن نگاری کی نسبتاً پتھریلی زمین کو اپنے سدا بہار افسانوں سے سرسبز و زرخیز کر ڈالیں۔
شہزاد نیر کے نثری اسلوب کا بہت نمایاں پہلو یہ ہے کہ الفاظ و تراکیب ان کے تخیل کے اسلحے کے سامنے سہمے کھڑے رہتے ہیں اور ان کی نشست و برخاست اسی اسلحے کے زور پر طے پاتی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ انسان کی مصروفیات اور کہانی کے حجم میں تناسبِ معکوس صدیوں پر محیط ایک پیہم ارتقائی عمل ہے۔ داستان سے ناول، ناول سے افسانہ، افسانے سے افسانچے اور پھر مختصر افسانے کے پڑاؤ سے گزرتی ہوئی یہ صنفِ نثر آج نہایت مختصر ہوکر مائکرو فکشن کی صورت میں ادب کے قاری کے سامنے خواجہ شیکسپئیر کی ساڑھے چار صدی پہلے کی گئی پیشگوئی کو پورا کر رہی ہے:
Brevity is the soul of wit
یعنی اختصار ہی اختراع و اظہار کی روح ہے۔
اختصاری اظہار میرے نزدیک نثر میں سہلِ ممتنع کا درجہ رکھتا ہے اور کسی بھی اعلیٰ پائے کے شاعر کے لیے یہ صنف یوں آسان ہو جاتی ہے کہ اسے طویل سے طویل مضمون کو دو مصرعوں میں بیان کرنے کی عادت اور سہولت حاصل ہوتی ہے۔
شہزاد نیر کے پہلے مجموعے میں متن اور ورائے متن مشاہدے کی گہرائی، احساس کی شدت و نزاکت، جبر و استحصال کے خلاف زبردست مزاحمت، مذہبی اور سماجی سطح پر دیکھی جانے والی منافقت اور عدم برداشت کا استہزا اور کچھ ایسے موضوعات کی طرف قاری کو متوجہ کرنے کی کامیاب کوشش دکھائی دیتی ہے جو چند عشرے قبل ممنوعہ موضوعات یا taboo کی ذیل میں آتے تھے اور جن پر سعادت حسن منٹو نے اس دور میں بھی خاصے بے باک انداز میں لکھا تھا اور مقبول ہونے کے ساتھ متنازعہ بھی ہوتے چلے گئے۔ شاید اسی مناسبت سے “لالٹین” نامی مجلّے میں شہزاد نیر کی چھ کہانیاں “سیاہ تر حاشیے“ کے عنوان سے کچھ عرصہ قبل شائع ہوئیں۔ ممکن ہے بیشتر احباب اس سے اتفاق نہ کریں لیکن میں اپنے تنقیدی بیانیے لکھتے ہوئے متن اور ماتن دونوں کو اپنے ذہن میں رکھتا ہوں اور ماتن کے دریچے سے مجھے متن کے خدوخال زیادہ کھل کر دکھائی دیتے ہیں اور اس دریچے سے کسی طور بھی تعصب یا جانبداری کی ناخوشگوار ہوا کا گزر نہیں ہوتا.
“کہانی چل رہی ہے” کی کم و بیش ہر کہانی میں شہزاد نیر کے قلم کا نشتر ہمارے عمومی سماجی رویوں کے زخموں کو کریدتا ہے تو اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ یہ ناسور بن چکے ہیں۔ ایسے میں یہ نشتر قاری کو ایسا عدسہ دیتا ہے جسے استعمال کرتے ہوئے قاری کم از کم ان ناسوروں کو اس زاویے سے دیکھتا ہے کہ اس کے ذہن میں نہ صرف ان کے ممکنہ علاج کا تصور ابھرتا ہے بلکہ وہ مستقبل میں ایسے مزید ناسوروں کی افزائش کے خلاف حفاظتی تدابیر پر غور بھی کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ ہر شعبۂ زندگی کا قاری کسی نہ کسی کہانی کے کسی خاص حصے کو پڑھتے ہوئے غیر ارادی طور پر خود احتسابی اور شاید کچھ خود ملامتی کی کیفیت سے گزرنے لگتا ہے۔ میرے خیال میں یہیں مصنف کو اس کی محنت کا اصلی پھل ملنے کی منزل آتی ہے اور اس پر خود اپنی تحریروں کے کچھ پوشیدہ مقاصد آشکار ہونے لگتے ہیں اور اس کے تخلیقی سفر کی رفتار میں عجب سا اسراع آجاتا ہے۔
شہزاد نیر کی کم و بیش تمام کہانیوں کے اختتامی جملے ہی کہانی کو نقطۂ عروج تک لے جاتے ہیں اور یہی ڈرامائی عنصر مائکرو فکشن کی جان ہوتا ہے ۔ ان میں سے کچھ جملے تو اتنے کاٹ دار ہیں کہ انھیں بار بار پڑھنے اور سنانے کا دل کرتا ہے ۔ مثلاً چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
۱: پھر بہن کی تو شادی ہوگئی لیکن لیکن مجھے دنیا کی ہر لڑکی بہن لگنے لگی ۔ کسی میں وہ والی کشش ہی محسوس نہیں ہوتی۔۔۔
کہانی: “نیلی عینک” جس میں ایک چھوٹے گھر کے گھٹن آلود ماحول میں ایک عنفوانِ شباب کے نازک دور سے گزرنے والے لڑکے کی ذہنی کشمکش دکھائی گئی ہے۔ یہ لڑکا اپنی بہن اور بھائیوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں سونے کی کوشش کے دوران ضبطِ نفس کے عمل کے دوران اپنے اندر پلنے والے مرد کی مردانگی کو قتل کر بیٹھتا ہے۔ زن گریزی یا misogyny کے ساتھ ساتھ نامردی / impotence کا تشکیلی عمل سمجھنے کیلئے مجھے یہ بہت اہم کہانی لگی۔
۲: ”انچ سال بعد ہماری شراکت ختم ہو گئی۔ بس اتنا ہوا کہ میرا سرمایہ اس کے پاس چلا گیا اور اس کا تجربہ میرے پاس آ گیا۔”
کہانی: شراکت کا دھوکہ۔ یہ کہانی ہمارے گردوپیش میں جگہ جگہ بکھری ہوئی ملے گی ۔ شراکت داری کے کاروبار کے شاخسانے۔
۳: “تیسرا اشتہار: شیمپو۔ ناچتی ہوئی لڑکیاں ۔مختلف ہئیر سٹائل، ڈرم کی تھاپ پر اچھلتے ہوئے بال، تیز موسیقی۔
میزبان: بریک کے بعد خوش آمدید ناظرین ۔جی مولانا صاحب اگلا سوال لیتے ہیں ۔”
کہانی: میڈیا منڈی چینل
یہ اقتباس ایک بہت دلچسپ کہانی سے لیا گیا ہے جس میں ایک ماڈرن میزبان خاتون کے پروگرام میں ایک عالمِ دین کو بلایا جاتا ہے جن سے لوگ دین کی حجاب وغیرہ کی تعلیمات پر سوال کرتے ہیں اور عالم صاحب جواب بھی دیتے ہیں اور پروگرام میں وقفوں کے دوران اتفاق سے ایسے اشتہارات دکھائے جاتے ہیں جو عالمِ دین کے جوابات کی شدید نفی کرتے ہیں۔
۴: “جب میں نے گزارش کی کہ دعا اس طرح کرو کہ جس کی محنت اور قابلیت زیادہ ہے وہی اول آئے۔ سب حیرت سے میرا منہ تکنے لگے ۔ایک ساتھی نے کہا: ”بھئی جب مقابلہ ہوتا ہے تو دعا صرف اپنے لیے کی جاتی ہے، دوسرے کے لیے نہیں۔”
یہ اقتباس اس کہانی سے لیا گیا ہے جس کا عنوان ہے: “غیرمنصفانہ ذرائع” اور یہ میرے پسندیدہ ترین مائیکروفس میں سے ہے کیونکہ اس میں ایک ایسا سوال اٹھایا گیا ہے جو اللہ کی رحمت کا موازنہ اللہ کے انصاف کی صفت سے کرتا ہے۔ امریکہ میں کچھ افسروں کا مقابلے کا امتحان ہے اور اس میں کچھ مسلم اور غیر مسلم امیدوار ہیں۔ مسلم امیدوار محنت کے ساتھ مسلسل دعائیں بھی کرتے ہیں اور غیر مسلم یا ملحد افسران ہمہ وقت صرف محنت میں مصروف دکھائے گئے ہیں۔
کہانی کے اختتام تک تحیر و تجسس کی فضا قائم رکھنا ہی فکشن نگار کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے اور یہ فضا آپ کو اس کتاب کی ہر کہانی میں ملے گی۔ مجھے تو ایسا اختتام دیکھ کر منیر نیازی کی لکھی سہ مصرعی پنجابی نظم یاد آنے لگتی ہے جس کا آخری مصرع ہی قاری کو پہلے دو مصرعوں اور پوری نظم کا مضمون و مفہوم سمجھاتا ہے۔ مثلاً:
اپنے ای ڈر توں
جُڑے ہوئے نیں
اک دوجے دے نال
نظم کا عنوان: شہر دے مکان
احبابِ گرامی ! ادب معاشرے کے ہر شعبے کا عکاس ہوتا ہے بلکہ بقول میتھیو آرنلڈ ادب زندگی پر تنقید کا نام ہے۔ سو ادب کا براہِ راست یا بالواسطہ تعلق سیاست، مذہب، معیشت اور سماجی اقدار سے ہوتا ہے۔ ایک کامیاب فکشن نگار انھی موضوعات کو قدرے مختلف نگاہ سے بغور دیکھتا ہے اور پھر آنکھیں مل کے یہ سوچتے ہوئے دیکھتا ہے:
“تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے“۔
پھر وہ اپنے مشاہدات کو اس طرح تشکیل دیتا ہے کہ انھیں قاری تک محض اخباری رپورٹ کی طرح نہ پیش کرے بلکہ وہ اپنی مشاہداتی کیفیات اور اختراعی صلاحیتوں کے امتزاج سے کچھ مسالے دار چیز پیش کرے جس میں “ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں “ کا سماں باندھا گیا ہو۔
سو “ کہانی چل رہی ہے” کے مشمولات ایسے ہی اجزائے ترکیبی و تخلیقی کے پراسرار کیمیائی عمل کے نتیجے میں کہیں ایک اور کہیں ڈیڑھ یا دو صفحوں پر مشتمل چھوٹے چھوٹے افسانچوں کی صورت سامنے آتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نہایت متنوع موضوعات کی اتنی رنگ برنگی اور اتنی طویل مالا تشکیل دیتے ہوئے کہیں نہ تو یکسانیت کا احساس ہوتا ہے اور نہ کسی کہانی میں تکرار کے عنصر کا ہلکا سا بھی شائبہ ہی ہوتا ہے۔ بس تمام کہانیوں میں بین السّطور فلسفۂ جبر وّ قدر کی کبھی نہ الجھنے والی گتھی اور تشکیک پسندی کی جھلکیاں بہت حساس اور باریک بین قاری دیکھنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ انسان اور اس کے معبود کے رشتے کی پیچیدگیاں اس دور میں چونکہ پیچیدہ تر ہوتی جا رہی ہیں، اس لیے متذکرہ بالا قلمی رویوں کی توجیہ و توضیح بہت حد تک ممکن ہے۔ “الدّعویٰ مع الدّلیل “ کے مصداق ایک دو مزید اقتباسات پیش کرنا کافی ہوگا:
۱: “اس طرح وہ قادرِ مطلق انسانوں کو کم اور زیادہ کرتا رہا اور صدیاں گزرتی رہیں ۔” (کہانی: عہدنامۂ موجود)
۲: “یار تمھارے بغیر مزا نہیں آئے گا۔ تم یہی سمجھو نا کہ عمرے کر کے اس نے پچھلا کھاتہ صاف کرا لیا ہے۔۔۔ اب نئے سرے سے آغاذ کر رہا ہے۔” ( کہانی: دین اور دنیا)
ایسے مختصر افسانوں میں سب سے زیادہ دلکش اور دلچسپ خاصیت یہ ہوتی ہے کہ محض منٹوں میں آپ تین چار افسانے پڑھ چکے ہوتے ہیں۔
پوری کتاب پڑھتے ہوئے جابجا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے مکمل دیانتداری کی مائکروسکوپ سے معاشرے کے قابلِ اصلاح و توجہ پہلوؤں کا تادیر مشاہدہ کیا اور پھر اتنی ہی احتیاط سے ان پہلوؤں کا تجزیہ تخلیقی تجربہ گاہ میں کرنے کے بعد اپنے قارئین کو نبّاض و معالج گردانتے ہوئے ۱۴۴ مائیکروفی اور ۵ افسانوی رپورٹیں کتابی شکل میں پیش کر دی ہیں۔ امیدِ واثق ہے کہ جناب شہزاد نیر کا یہ پہلا مائیکروفی پتھر مختصر اردو افسانہ نگاری کے بظاہر سست رو پانی میں ایسا ارتعاش و تموج پیدا کرے گا جسے جلد ہی عصری ناقدین رحجان سازی گرداننے پر مجبور ہوں گے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں پانچ عدد افسانوں کا تڑکا جدید ترین مختصر تر افسانہ نگاری کے رحجان کو روایتی افسانے کی جڑوں سے پیوند کاری کا عمل لگتا ہے اور یہاں بھی شہزاد نیر کا قلمی بارود خانہ پوری طرح بھرا دکھائی دیتا ہے۔ ذاتی طور مجھے “روحوں کا ملن“ نامی افسانے نے نہ صرف متاثر کیا بلکہ مصنف کی غیر معمولی فلسفیانہ فکر نے شدید حیران بھی کیا ۔ کس سہولت سے زمان و مکان کی صدیوں پرانی پہیلی کو روح و بدن کے تعلق کی آڑ میں حل کر کے مصنف نے ایک تشنگی آمیز آسودگی یا آسودگی آمیز تشنگی کا ایسا پراسرار ماحول تشکیل دیا ہے کہ قاری ازخود بار بار اس موضوع پر غور کرتا اور سر دھنتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ شہزاد نیر نے اپنے اندر چھپے ہوئے تخلیقی جن کو مکمل طور پر قابو کرنے کیلئے جو چلہ کشی شروع کی ہے وہ کامیابی سے ہم کنار ہوگی اور ہمیں بہت سے حیران کن جھٹکوں کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا پڑے گا۔