Laaltain

آندھی

26 مئی، 2025

ایسی منہ زور آندھی اس شہر نے شاید ہی پہلے کبھی دیکھی ہو۔ صبح آسمان پہ ادھر ادھر کالے بادل ضرور تھے اور یہ توقع بھی کہ وہ دن میں وقفے وقفے سے برسیں گے بھی لیکن جیسا کہ یہاں مارچ کے دنوں میں ہوتا ہے، یہ برسات معمولی درجے کی ہی رہنے کی توقع تھی۔ گذشتہ دو تین دن میں وقفے وقفے سے آندھی کے دور چل رہے تھے۔ لیکن آج صبح تمام اطراف میں دھول بیٹھ گئی تھی اور آندھی چلنے کے کوئی خاص آثار نہیں تھے۔ دن گیارہ بجے یکدم سوئی ہوئی دھول جاگ اٹھی اور پھر وہ ایسی منہ زور ہو چلی کہ راستوں پہ چلنے والے رک گئے کہ اس منہ زور آندھی کے آگے ٹھہرنا ناممکن تھا۔ آندھی قریب آدھا گھنٹہ چلتی رہی۔ اور اسی آندھی میں رکے ہوئے لوگوں میں ایک، نودان یہ سوچ رہا تھا کہ یہ آندھی بھی اس شہر ہی کی ہم مزاج ہے۔ شہر کا کچھ پتہ چلتا ہے نہ اس کے موسم کا۔ یہاں سب کچھ نا گہاں ہوتا تھا۔

نودان ناشتہ کر کے گھر سے قریب گیارہ بجے نکلا۔ اسے ایک جنازے میں شریک ہونا تھا۔ جنازے کا وقت ساڑھے بارہ کا تھا۔ اس نے موسم دیکھا تو اسے دلکش محسوس ہوا اور اس نے ذہن ہی ذہن میں موٹر سائکل کو تکلیف نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ سوچا پیدل ہی چل نکلا جائے۔ وہ چل نکلا۔ فاصلہ قریب ایک گھنٹے کا تھا۔ عین درمیان ہی اسے اس آندھی نے آ لیا اور وہ ایک دیوار کی اوٹ لے کر کھڑا ہو گیا تاکہ جس حد تک ہو سکے خود کو اس کے شر سے بچا سکے۔ پھر بھی جب دھول اس رفتار سے اڑ رہی ہو تو کتنا بچا جا سکتا ہے۔ اس کے کپڑے، چہرہ، بال سب غبار میں اٹ گئے۔ وہ آندھی رکنے تک وہیں کھڑا رہا اور باوجود اس بات کی جانکاری کے، کہ یہاں موسم بے حد بے اعتبار ہے حیران ہوتا رہا کہ اس نے اپنی تیس برس کی زندگی میں ایسی آندھی نہیں دیکھی تھی۔

جس دیوار کی اوٹ لیے وہ کھڑا تھا، وہیں ایک اور شخص بھی آ کے کھڑا ہو گیا۔ وہ شخص دیکھنے میں بالکل معمول کا آدمی تھا بالکل غیر دلچسپ اور غیر عجیب۔ آندھی اتنی تھی کہ آنکھیں کھولنا دشوار تھا مگر پھر بھی نودان نے اس کا جائزہ لے ہی لیا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس دوسرے آدمی سے کسی طرح کی بات چیت شروع ہو سکے تاکہ اس کا دھیان اس آندھی سے ہٹ جائے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اب اسے یہ آندھی کچھ خوف زدہ کرنے لگی تھی۔
ادھر وہ شخص کوئی دس منٹ بالکل خاموش کھڑا رہا۔ اس کا چہرہ بالکل بے تاثر تھا۔ جب نودان کو اس کی طرف سے بات کرنے کی کوئی توقع نہ رہی تو وہ اچانک خود کلامی کے سے انداز میں بولا:

“اس شہر نے پچھے چالیس برس سے ایسی خطرناک آندھی نہیں دیکھی۔ وہ نسل شاید اب قبروں میں بھی نہ بچی ہو جس نے آخری بار یہ خدائی قہر اترتا دیکھا تھا۔ دس برس کا ایک بچہ اپنے گھر کی کھڑکی سے درختوں کو جڑوں سے اکھڑتا دیکھ رہا تھا۔ درخت اکھڑتے گئے یہاں تک کہ تا حد نظر کوئی درخت نہ بچا۔ پھر اس شہر نے وہ درخت دوبارہ کبھی نہیں دیکھے ۔۔۔”

نودان اس کے اس اچانک کلام سے بھونچکا سا رہ گیا۔ جو آدمی شروع میں اسے بے حد غیر عجیب لگا تھا اب وہ اسے بہت زیادہ عجیب لگنے لگا۔

نودان نے پوچھا:

“چاچا کب کی بات کر رہے ہو اور درخت تو اب بھی شہر میں جا بجا ہیں ، تم کہتے ہو پھر شہر نے وہ درخت نہیں دیکھے۔۔۔”

اس آدمی نے جیسے مہران کو سنا ہی نہ ہو، وہ اپنے ہی دھیان کی گلیوں میں بھٹک رہا تھا۔ وہ پھر سے خود کلامی کے انداز میں بولنے لگا:

“ایسی ہی آندھی تھی، جس نے رستوں پہ چلنے والوں کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ رک جائیں۔ درخت گر رہے تھے اور ان کے گرنے کے بوجھ سے دھرتی لرز رہی تھی۔ ایسا لگا رہا تھا بھونچال آ رہے ہوں۔ پھر جب وہ آندھی تھمی تو شہر پوری طرح بدل چکا تھا۔ جیسے کسی نے شہر کو بے لباس کر دیا ہو، اس کے جسم کو کاٹ پیٹ کے اس کی انتڑیاں باہر رکھ دی ہوں۔ رکے ہوئے لوگ سہمے سہمے چلنے لگے۔ وہ دن بہت عجیب حالت میں غروب ہوا۔ پھر رات آ گئی۔ پھر اس شہر نے کبھی صبح نہیں دیکھی۔ دھوکے ہی میں رہا۔۔۔”

نودان تھوڑا گھبرا سا گیا۔ اس کی عمر تیس برس تھی اور اس نے ایسی کسی آندھی کا تذکرہ کبھی گھر کے بڑوں سے نہیں سنا تھا۔ لیکن کہنے والے کے لہجے کی دلگیری اور سچائی سے اسے لگ رہا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا اگرچہ وہ پوری طرح اس کی باتیں سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ نودان الجھی الجھی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ کچھ تھم کے پھر سے بولنے لگا۔ ہوا کی سیٹیاں بھی اس کی باتیں دہرانے لگیں۔۔۔ وہ کہہ رہا تھا:

“صبح مطلع صاف ہوا تو میتیں ہی میتیں تھیں، درختوں کی، پرندوں کی، پھولوں کے پودوں کی۔۔۔ دس برس کا بچہ ایک مردہ پرندے کے پاس گیا تو اس کی آنکھیں اسے زندہ محسوس ہوئیں۔ اسے وہ بولتی ہوئیں محسوس ہوئیں۔ پیش گوئی کرتی ہوئیں۔ اس دس برس کے بچے نے چالیس سال اس پیش گوئی کو پورا ہوتے دیکھا۔۔۔”

اس کا لہجہ نمی سے بھر گیا۔۔

“اور پھر ایسی آندھی۔۔۔!”

اتنے میں آندھی تھم گئی اور نودان سوچنے لگا:

پھر ایسی آندھی۔۔۔ ایسی آندھی شہر نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔۔۔ اس آندھی کے بعد کیا ہو گا۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *