آج کے شمارہ نمبر 105 میں شامل کوشلیہ کمارہ سنگھے کا ناول” اس چھپی ہوئی کھڑکی میں جھانکو “مجھے آج سے تقریباً کچھ دو یا ڈھائی ماہ قبل ملا تھا، ان دنوں یہ بات میرے معمول میں شامل ہے کہ میں آج کے گزشتہ شماروں کا مطالعہ ایک ترتیب سے کر رہا ہوں، لہذا جب اس کے دو تازہ شمارے، شمارہ نمبر 104 اور 105 مجھے حاصل ہوئے تو مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ چلو اب انہیں تاریخ بنا کر نہیں پڑھنا پڑھے گا، لہذا جوں ہی یہ شمارے ہاتھ لگے میں ان کے مطالعے میں جٹ گیا، 104 والے شمارے میں حسن بلاسیم کی کہانیوں نے متاثر کیا جن کا ترجمہ ڈاکٹرارجمند آرا نے کیا ہےاور 105 کے شمارے میں کوشلیہ کمارا سنگھے کے ناول ” اس چھپی ہوئی کھڑکی میں جھانکو” نے۔کوشلیہ کمارا سنگھے کے اس ناول کو میں نے اس دورانیے میں تقریبا ً تین مرتبہ پڑھا ہے۔ یہ ناول جو اصل میں سری لنکن سنہالا زبان میں لکھا گیا ہے۔ اس کی کہانی مجھے اپنی تہذیب سے بہت قریب اور شناسا معلوم ہوتی ہے، یقیناً یہاں میں اپنی تہذیب کے طور پر صرف اس ماحول اور معاشرے کی بات نہیں کر رہا ہوں جو میں نے بچپن سے اپنے ارد گرد دیکھا ہے، بلکہ اس تہذیب میں میرے وہ تمام مشاہدات، تجربات اور مطالعات بھی شامل ہیں جو دنیا کی مختلف تہذیبوں سے مل کر متشکل ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے کوشلیہ کایہ ناول جو غالباً میرے مطالعے کی فہرست میں پہلا سر لنکن ناول ہے، جو خاصہ جانا پہچانا محسوس ہوتا ہے۔
اس ناول کی کہانی جیسا کہ میں نے محسوس کیا اس کے کرداروں کی مختلف سیاسی، سماجی، ذاتی، اقصادی، تاریخی اور تہذیبی حالتوں میں ڈھل کر تیار ہوئی ہے۔اس میں کسی ایک شخص کی داستان زندگی یا اس کی نفسیاتی حالت کو بیان نہیں کیا گیا ہے، بلکہ مختلف کہانیوں کے ادھورے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک مکمل کہانی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہانی کے بنیادی کردار: تیوانکا، کیشانی، اسی، اونی، ٹنیکا،کمل، پدمی، چھٹکی، داسن، رالیکا، ٹانیا،ڈیلان، سندا اور نیترا وغیرہ ہیں،جن میں بیشتر نام ہندوستانی سماعتوں کے لیے نئے ہیں۔کہا نی کا اصل کردار میری نظر میں تیوانکا ہے اورسب سے معصوم اور دلچسپ کردار اونی۔ چند روز کے واقعات پر مشتمل اس ناول میں متذکرہ بالا کرداروں کی زندگی کے مسائل و معاملات کی جھلکیا ں دکھاتے ہوئے مصنف نے بڑی مہارت سے سری لنکن تہذیب،تاریخ اور سیاست وغیرہ کی پیچیدہ گتھیوں کو سادہ اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہانی میں بیانیے کی سطح پر بہت زیادہ الجھاو کہیں نظر نہیں آتا، فکر انگیز مکالمے اور عام فہم فلسفیانہ بیانات پائے جاتے ہیں،لیکن وہ کرداروں کے حالات کو الجھاتے نہیں ہے، بلکہ پڑھنے والے سے یکسوئی کا مطالبہ کرتے ہیں،جیسا کہ عام طور پر کسی اچھی آرٹسٹک فلم میں بہت سے مناظر ایک دوسرے میں گندھے ہوئے ہونے کے باوجود الگ الگ ہوتے ہیں اسی طرح کوشلیہ نے بھی کہانی کی بیرونی فضا کو خط ملط کرتے ہوئے بھی اسے بہت سلیقے سے الگ الگ رکھا ہے۔ ناول کی تکنیک بظاہر الجھانے والی معلوم ہوتی ہے، لیکن ذرا غور کرو تو محسوس ہوتا ہے کہ اسے مکمل فلمی انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔
میں جب اس ناول کا مطالعہ کر رہا تھا تو مجھے بار بار ایک ہندوستانی فلم “لائف ان اَ میٹرو” یاد آ رہی تھی۔ یہ فلم بھی اسی ناول کی طرح مختلف کرداروں کی زندگی کے واقعات پر مشتمل ہے۔ مطالعے کے دوران کئی ہندستانی اور بالخصوص اردو کہانیاں بھی یاد آئیں جن کا وقتاً فوقتاً مکالموں اور منظروں سے کچھ رشتہ محسوس ہوا۔ میری دانست میں کوشلیہ کا یہ ناول ایک ایسے سوالیہ انداز بیان میں تحریر کیا گیا ہےجن سوالوں میں ایک نوع کی مثبت بے یقینی شامل ہے۔ ابتدا سے انتہا تک تین چیزیں ناول میں ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتیں پہلے یہ ہی سوالات، دوسرا تتلیوں کا استعارہ اورتیسرا ولڈ ٹریڈ سینٹر۔یقیناً ان کا ناول سے کوئی گہرا تعلق ہے جس پر ہم غور کریں تو کسی نہ کسی معنویت تک پہنچ ہی جاتے ہیں، ایک اچھی بات اس ناول کے وہ فلسفیانہ تبصرے ہیں جو مصنف نے قدم قدم پر تحریر کیے ہیں، مثلاً کیمرہ کی وہ آنکھ جو کسی نادیدہ ڈرون کی طرح کہانی میں سفر کر رہی ہے وہ جہاں جہاں جاتی ہے مصنف وہاں کے حالات اور مناظر بیان کرتے ہوئے جتنے سوال قائم کرتا ہے اتنے ہی فلسفیانہ نکتے بھی بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح مصنف کی کچھ شعوری کوششیں بھی ناول میں قاری کے لیے کچھ دلچسپ نشانات وضع کرتی چلی گئی ہیں،مثلاً ان برینڈز اور کمپنیز کے نام جو ناول کے مرکزی کرداروں کے ارد گرد پائے جاتے ہیں۔ جن میں سیم سن،سونی، ایپل، ایچ-ٹی-سی،ہیرو ہونڈا،نوکیا، کالسبرگ،مالبرو،بلیک لیبل،کوکا کولا،ماروتی، مرسڈیز،کیااور متسبشی وغیرہ شامل ہیں۔ایک خاص بات یہ ہے کہ ان برینڈز اور کمپنیز کے نام ناول میں کسی بھی غیر ضروری کردار کے ساتھ نہیں ابھرتے جن کا ناول کی اصل کہانی سے کوئی واستہ نہیں ہے،اس کی وجہ یہ محسوس ہوتی کہ موجودہ عہد میں ہم برینڈز اور کمپنیز کے ناموں سے ایک ایسی شناخت میں ڈھل جاتے ہیں جس سے ہماری سطح زندگی کا اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے، مصنف کو جہاں محسوس ہوا ہے کہ موبائل اور کیمرے کے ساتھ جب تک یہ نہ بتایا جائے کہ یہ کس کمپنی کا ہے تو اس سے معنی کی ترسیل میں خلل واقعے ہو سکتا ہے، لہذا ایسی جگہوں پر اس نے شعوری طور پر اس کا الترام کیا ہے۔ایسے بہت سے مقامات پر اسے غیر ضروری تفصیلات بھی دینا پڑی ہیں، ساتھ ہی مصنف نے منظر نگاری اور سرپا نگاری میں بھی ان غیر ضروری تفصیلات کو روا رکھا ہے جس سے بعض اوقات ناول میں بوجھل پن کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ ناول کی تکنیک سے اس کے بعض حصوں میں ایک طرح کی تجزیاتی بے اعتدالی بھی پیدا ہوگئی ہے، جس سے مصنف کی رائے کہیں کہیں اطمینان بخش نہیں لگتی۔ مصنف نے شعوری طور پر بھی ایک دو جگہ اس تجزیاتی بے اعتدالی کا اظہار کیا ہے جس سے جذباتی کڑہن کے اثرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ناول کے ابتدائی حصے میں جہاں وہ اپنے مرکزی کردار کو چن رہا ہے، ایک شخص کا پیچھا کرتے ہوئے اس کے اوراس کے برابر میں بیٹھی ہوئی لڑکی کےمتعلق بعض پیشن گویاں کرتا ہے اور آخر میں ان تمام باتوں کو خود رد کرتے ہوئے صورت حال کی تقلیب کر دیتا ہے۔ تکنیک کے متعلق ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی اچھی ہالی ووڈ فلم کی طرح اپنے ناول کو ایڈیٹ کرنے میں کوشاں ہو۔ مصنف کا ہالی ووڈ کی فلموں، گانوں اور انگریزی کے پوپلر لڑیچر سے گہرا تعلق محسوس ہوتا ہے، کیوں کہ وہ اپنے بہت سے استعاروں اور تشبیہوں کو سنوارنے کے لیے ان سے مثالیں لاتا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ کوشلیہ نے اپنے ناول میں جتنے گانوں کا تذکرہ کیا ہے یا جن گانوں کے اقتباسات نقل کیے ہیں وہ اس کی فنی جمالیات سے بہت مشابہ نظر آتے ہیں۔ ایک طرف جہاں وہ زندگی کے سنجیدہ مسائل اور پریشانیوں سے نبرد آزما نظر آتا ہے وہی دوسری طرف لذت کے منہ زور سیلاب میں بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ تیوانکا جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے اس کی ذات میں یہ دونوں حالتیں ضم ہو جاتی ہے۔ پدمی جو ناول میں المناک حالتوں کو جذب کرنے والی پتنی دیوی ہے جو بڑی شدت سےاپنی جذباتی سوزش میں گھٹ کر اپنی بائیں چھاتی نوچ کر پورے شہر پر پھینکنا چاہتی ہے تاکہ وہ جل کر راکھ ہوجائے، تنوانکا اس کے بالمقابل اپنی بنی بنائی دنیا کو جلتا ہوا دیکھ کر تلذذ کے نئے سوتوں کا متلاشی نظر آتا ہے۔ ناول میں کہیں کہیں فضا جب بہت بوجھل ہو جاتی ہے تو دو چیزیں اس کو معتدل کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہیں ایک مصنف کا آڈیو اور وڈیونیریٹو ایفکٹ اور دوسرا تیوانکا کا کردار۔ مصنف یا مترجم نے ناول کے بہت سے حصوں کی زبان انگریزی رکھی ہے جس سے مکالموں میں روانی پیدا ہوتی ہے اور بناوٹی انداز شامل نہیں ہوتا، ناول کے کچھ پاسنگ کردار جو صرف ذرا دیر کے لیے ناول کی اصل کہانی کا حصہ بنتے ہیں انہیں بھی مصنف نے بڑی مہارت سے آخر تک اہمیت دیتے ہوئے کسی نہ کسی طرح شامل رکھا ہے جس کی بہترین مثال وہ بڑھیا ہے جو جنت نشان پر امن تتلیوں کا گیت گا رہی ہے۔ زبان کی سطح پر کچھ الفاظ اور تراکیب مصنف کے کم مترجم کے زیادہ محسوس ہوتے ہیں، مثلا ایک جگہ صفحہ نمبر 31 پہ مصنف نے ایک ترکیب شہادت کی انگلی کا استعمال کیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ غالباً مصنف کو اس بات کا شائد علم بھی نہ ہو کہ انسانی بدن میں ایسی کوئی انگلی بھی پائی جاتی ہے۔ ناول میں ایک جاندار کردار کیشو کا بھی ہے جو ایک برد بار اور عقل مند عورت ہے، حقیقتوں کو تسلیم کرنے والی اور سچی دوستی کی تلاش میں سرگرداں اس عورت کو ناول کا دوسرا مرکزی کردار کہا جا سکتا ہے، ایک مقام پر جہاں وہ اپنے بائے فرنڈ اسی کو یہ بتاتی ہے کہ اس نے کیسے اتنی آسانی سے کیشو کو اپنے جال میں پھنسا لیا تو ایسا لگتا ہے جیسے عورت کی زندگی کی تلخ حقیقتیں بیان کر رہی ہے۔ ناول میں کرداروں کے ذریعے جس عجیب و غریب محبت اور جلن و حسد کا مادہ دکھایا گیا ہے وہ خاصہ ہندوستانی ہے اور جہاں ہندوستانی منشیات کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ہندوستانی کرپشن کا نقطہ عروج ہے۔ صفحہ نمبر 68 اور صفحہ نمبر 158 پر فلسفہ عشق کے دو بالکل مختلف تصورات پیش کیے گئے ہیں۔ ایک جگہ ایک مرد کی زبانی جب ڈیلان تیوانکا کو سمجھا رہا ہے کہ عشق وشق سب پرانے تصورات ہیں اور آج کل ہر کوئی صرف فیشن کے طور پر عشق کرتا ہے اور دوسری جگہ ایک عورت کا تصور عشق کہ جب ایک ٹی –وی رپوٹر اس سے محبت کے متعلق پوچھتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ سچی محبت کا مطلب ہے آنسو اور یہ کہہ کر مسکرا دیتی ہے۔مجھے مصنف کا یہ انداز اچھا لگا کہ اس نے ایک مرد اور ایک عورت دونوں کے تصور عشق کی جھلکیاں پیش کر دیں۔ ناول کے تین وقتی مگر نا قابل فراموش جذباتی کردار چنگی، جینت اور نرملی بھی ہیں جو دوستی کے فلسفے کی مثال ہیں۔ ان چند سطور میں جہاں مصنف نے ان تینوں کرداروں کا ذکر کیا ہے رقیق جذبات کی نازک رگوں پر اپنی گرفت نہایت مضبوط کر دی ہے۔ ناول میں مختلف کتابوں،مصنفوں، منشیات، اداکاروں، گانوں، دیوی دیوتاوں اور رقص کی قسموں وغیرکا تذکرہ بھی کثرت سے کیا گیا ہے، جس سے پڑھنے والے کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے، مثلاً مجھے اس ناول کے مطالعے سے پہلے یہ بات بالکل نہیں معلوم تھی کہ کوئی رقص گیگنم اسٹائل کا بھی ہوتا ہے یا فرسٹ ٹیچر نام کی بھی کوئی کتاب ہے جسے ایک کزاکستانی مصنف چنگیز اعتماتوف نے لکھا ہے، سرلنکن فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی 62 فی صد آبادی کام کرنے کے دوران بالی ووڈ کے گانے سننا پسند کرتی ہے یا آرسینک اِٹومک نمبر 33 بھی کوئی بلا ہے جو پانی میں مل جائے تو وہ پینے کے لائق نہیں رہتا۔ کسی اچھے ناول نگار کا مطالعہ اتنا ہی گہرا ہونا چاہیے تاکہ وہ دنیا کی مختلف اشیاء اور حقیقتوں سے ہمیں واقف کروا سکے۔ کوشلیہ کمارا سنگھے کے اس ناول میں مجھے داستانی عنصر بھی خاصہ نظر آیا ہے، عین ممکن ہے کہ یہ ان کی شخصیت کا حصہ ہو یا وہ کچھ ضعیف الاعتقاد ہوں یا آسمانی اور ہوائی مخلوقات پہ ان کا گہرا یقین ہو، کیوں کہ پورے ناول میں پری، بھوت، آتما، آسیب، دیو، راکشس اور آسمانی مخلوقات وغیرہ کا تذکرہ کثرت سے کیا گیا ہے۔ کوشلیہ نے اپنی بہت سی تشبہیں انہیں مخلوقات کی ہئیتوں سے وضع کی ہیں۔ مثلاً وہ ولڈ ٹریڈ سینٹر کو ایک ایسا دیو کہتے ہیں جس کی دونو ں ٹانگیں جب چاہیں شہر کو کچل دیں اور چڑیوں کی داستان میں سنہرے پروں والی پری کا ذکر ایسے کرتے ہیں جیسے وہ کوئی حقیقی مخلوق ہو۔ چڑیوں والی پر ی اور خوبصورت جھیل کا جو واقعہ کوشلیہ نے بیان کیا ہے وہ سبع معلقہ کے امر القیس والے قصیدے کے قصے اور عصمت چغتائی کے افسانے امر بیل کی کہانی سے بہت لگا کھا تا ہے۔ ناول میں ایسی اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن کو مختلف کہانیوں سے ملا یا جا سکتا ہے، لیکن میں یہاں ان کا تذکرہ نہیں کروں گا، میری دانست میں یہ ناول خواہ دنیا کے کسی ادبی فن پارے سے ملے کوشلیہ کی اپنی تخلیق ہے، کیوں کہ انہوں نے کہانی کو جس ڈھنگ سے مرتب کیا ہے اس سے ان کی تخلیقیت کا احساس ہوتا ہے۔ ایک پہلو جس کا کوشلیہ کو ناول کی ابتدا سے بہت احساس ہے کہ کوئی پڑھنے والا یا سننے والا ان کے اس ناول سے کسی قدم پر بور تو نہیں ہوگا اس کا مجھے پورے ناول میں کہیں کوئی شائبہ بھی نظر نہیں آیا۔ اس چھپی ہوئی کھڑکی میں جھانکو اپنے عنوان سے قاری کے لیےجس تجسس کی فضا مرتب کرتا ہے وہ متن کے اختتام تک قائم رہتی ہے۔ چونکہ اس ناول کا کوئی حتمی اختتام نہیں اس لیے اس سے ناول کی ایک بنی بنائی شناخت کہیں مجروح نہیں ہوتی پورے ناول میں کوشلیہ نے سیکس پوزیشن کے مناظر اور پروٹیسٹ کے ماحول میں جو اعتدال قائم کیا ہے اس سے سوا دو سو صفحات کا یہ ناول کب ختم ہوجاتا ہے ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا، یہ ہی وجہہ ہے کہ میں نے اسے ایک بار نہیں بلکہ تین بار پڑھا اور ہر بار اسی لذت بیانی سے محظوظ ہوا۔