Laaltain

ہم زندہ رہیں گے! – ایچ- بی- بلوچ

4 اپریل، 2020

دور سے نظر آتا موسم
بادل اور برفیلی سفیدی
نزدیک آنے پر آٹے کا تھیلا
یا اسپرٹ میں بھیگا کپاس کا ڈھیلا بن جاتی ہے
راشن پر لپکتے جم غفیر نے لاک ڈاؤن کا
کہیں پر خاموشی نے دن اور رات کا فرق ختم کردیا ہے
لیکن جب تک ہم زندہ ہیں
ہم ایک امید پر عمل پیرا رہیں گے

ان خوش گوار بولیوں
اور گول چوک پر نصب سائن بورڈ پر
ماڈل کی پلکوں کی یکسانیت کے اندر
جس میں موت جیسے لفظ کی کوئی گنجائش نہیں ہے

جب ہم
اپنائیت کی لذت آشنائی سے منور کر دیئے جائیں گے
جب تک ہمیں
کھیت پکانے کے لیے ادھاری آگ کی ضرورت نہیں پڑے گی
کسی طور پر ہم
جسم کی قید کے دورانیے کو طویل کر سکتے ہیں

جب تک خون کا رنگ لال
اور ہمارے دل احساس کی چبھن سے آگاہ رہیں گے
ہم ان سیٹیوں کے آگے لیٹ جائیں گے
جو ہمیں
ملانے اور جدا کرنے کے لیے ایندھن کھپاتی ہیں
جو ایک بار کو دوسرے اسٹیشن
اور ایک مرض کو دوسری جگہ منتقل کر دیتی ہیں

جب تک ہم زندہ رہیں گے
خواہش موت کی أنکھوں میں مکڑی کے جال بنتی
اور سنگینوں کی نوک کو گدگداتی رہے گی

ہم زندہ رہیں گے
مجھے یقین ہے کہ ہم زندہ رہیں گے
تنگ اور تاریک گلیوں میں
تمباکو چباتے لوگ اس لیے زندہ ہیں
کہ وہ جانتے ہیں
سرہانے کھڑا مسیحا اور زندگی
کبھی بھی ایک موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی!
Image: Sukhpal Grewal

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *