موجودہ عہد کیا ہے؟ اور غالب کون ہے؟ یہ دو بنیادی سوال ہیں جن کا جواب آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ غالب ایک اردو کا شاعر ہے جو اس عہد سے دو صدی قبل پیدا ہوا اور دیڑھ صدی قبل گزر گیا۔ اس نے اردو ،فارسی میں شاعری بھی کی اور خطوط بھی لکھے۔ کچھ اس کے علاوہ بھی کیا مثلاً پنج آہنگ ، مہر نیم روز،قادر نامہ اور دعائےصباح وغیرہ کتابیں لکھیں۔غالب کی شہرت ان کے اردو دیوان کے باعث ہے جس میں کل اٹھارہ سو اشعار ہیں یا اس سے کچھ کم زیادہ۔ بادی النظر میں غالب کا یہ ہی تعارف ہےاورموجودہ عہد سے مراد جس زمانے میں ہم سانس لے رہے ہیں اور زندہ ہیں یعنی زمانہ حال ہوگا۔ لیکن اصل میں جب ہم یہ غور کرتے ہیں کہ موجودہ عہد واقعتا ً کیا ہے؟ اور اس کا بھرپور ادراک کیوں کر ممکن ہے؟تو ہماری نظر موجودہ دنیا کے مسائل کی طرف جاتی ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت جو سیاسی ،سماجی ، تکنیکی ،معاشی ، اقتصادی اورروحانی وغیرہ وغیرہ حالات ہیں ان حالات کا احاطہ کیے بنا موجودہ عہد کی کوئی واضح تصویر نہیں بنتی۔ جس طرح ہم اپنے ماضی کی تاریخ کا مطالعہ کر کے ایک واضح تصویر بنا سکتے ہیں اور اس عہد کے کسی ایک پہلو پر اس مجموعی منظر نامے کے پیش نظر تنقید بھی کر سکتے ہیں۔ اس طرح موجودہ عہد کی ایک مرتب شکل بنانا ممکن نہیں۔ موجوہ صورت حال چونکہ ایک بہتے ہوئے دریا کی مانند ہوتی ہے لہذا اس کی کسی ٹھوس شکل کا تعین ممکن نہیں۔ پھر بھی ہم مابعد جدید صورت حال کے پیش نظر اتنا تو کہہ ہی سکتے ہیں کہ آج ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ جدید دنیا کے رد عمل کا عہد ہے۔ ایسا عہد جس میں نئی زندگی کے تصورات پرانے ہو چکے ہیں اور کوئی چیز جو نئی سے نئی ہو حیران کن نہیں رہی ہے۔ تکنیک اور کائناتی توضیحات کے اس عہد میں علم کا کوئی جامد تصور نہیں رہاہے ،ہر وہ چیز جو انسان کے مشاہدے میں آتی ہے وہ عین علم ہے۔ ایسی صورت حال میں ایک دھوبی، پارچہ باف، کرخندار،کسان، کھڑائی،بنائی کرنے والا مزدور اور نیو ٹرونس ،الیکٹرونس اور پروٹونس کے بارے میں بتانے والا شخص سب ایک برابر ہیں۔ علم اور بصیرت کے وہ تاریخی تصورات جس کی بنیاد پر ایک عالم اور جاہل میں فرق کیا جاتا تھااوروہ ہی بنادیں کسی شخص کا طرز زندگی طے کرتی تھیں وہ سب از کار رفتہ ہوچکیں۔لہذاموجودہ عہد میں معاشی استحکام سے انسان کا طرز زندگی اور معاشرت متعین ہوتا ہےاور معاشی استحکام کا علم سے کوئی راست تعلق نہیں۔ ایسے میں اردو زبان جو ہندوستان کے سب سے بڑے تعلیم معاون ادارے U.G.Cکی فہرست میں اٹھائیسویں نمبر پر آتی ہے اس زبان کے ایک شاعر کے فلسفیانہ مباحث کی معنویت کیا ہے؟اس پر غور کرنا ذرا مشکل کام ہے۔مشکل ان معنی میں کہ اگر غالب اتنا بڑا شاعر ہے کہ اس کا ثانی دنیا کی بڑی زبانوں کے پاس نہیں یا کم سے کم درجے میں وہ ہندوستان کا ہی سب سے بڑا شاعر ہے تو اس کا ادراک سوائے اردو والوں کے اوروں کو کیوں نہیں؟ اور اگر دنیا بھر میں غالب کے عاشقین موجود ہیں تو اردو کا گراف اتنا چھوٹا کیوں ہے؟
غالب کا فلسفہ شعر کیا تھا؟ یا وہ کتنا متاثر کن ہے؟ان دونوں باتوں سے قطع نظر غالب موجودہ صورت حال میں کہاں Existکرتے ہیں یہ جاننا زیادہ ضروری ہے۔ میرا مشاہدہ غالب کے تعلق سے یہ ہے کہ غالب ہمارے درمیان موجودہ عہد میں صرف اتنا ہی ہے جتنا وہ ہماری ڈسک پر موجود ہے اور یہ صرف غالب کا ہی المیہ نہیں بلکہ یہ دنیا کے ہر بڑے ادیب و شاعر کے ساتھ موجودہ عہد کا سلوک ہے۔ خواہ اسے مثبت سمجھا جائے یا منفی۔ ہمیں یہ بات اولین صورت میں سمجھنا ہوگی کہ غالب ہوں یا کوئی اور کسی فلسفی کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنا یہ موجودہ عہد کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ غالب کے وہ تمام اشعار جو نیٹ پر مختلف حالتوں میں پائے جاتے ہیں آڈیو اور ویڈیو کی یا پھر ٹیکسٹ کی کسی شکل میں اس کو ہی دنیا دیکھتی ہے اور اتنے ہی غالب کو وہ جانتی ہے اور انہیں بنیادوں پر غالب کا تعین ہوتا ہے۔ غالب کے وہ تمام شریک کار جن میں پبلو پکاسو، ولیم شیکسپیر، لیو ٹالسٹائی، مقبول فدا حسین، کارل ماکس، ربیندر ناتھ ٹیگور اور نوم چومسکی وغیرہ شامل ہیں ،ان کا تعین بھی یوٹیوب واچ اور گوگل ہٹس سے ہی طے ہوتا ہے۔ ایسے میں غالب کا فلسفہ شعر کیا ہے ؟اس سے کسی کو بحث نہیں اور غالب ہمارا کتنا بڑا شاعر ہے؟ یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے ،بلکہ غالب کے متعلقین کے لیے اب بڑا مسئلہ یہ ہے کہ غالب فرنٹ پر کتنا ہے؟ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس میں غالب اور اقبال دونوں ایک مقام پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔ لہذا اب ہم دنیا کے ان تمام متلاشیوں کو کس طرح یہ سمجھا سکتے ہیں کہ غالب کے متعلقین میں گوگل نے خواہ اقبال اور سیر سید وغیر کو شامل رکھا ہو مگر غالب کا ان سے کسی نو ع کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہے بھی تو صرف اس میڈیم کا جس میڈیم کی معنی کے جہان میں کوئی خاص اہمیت نہیں۔
غالب اردو کا بڑا شاعر تھا۔ لیکن آج وہ اردو کا سب سے زیادہ مشہور شاعر ہے۔ایسا مشہور کے گوگل نے 27 دسمبر 2017 میں اس کا 220واں یوم پیدائش منایا اور غالب کی تصویر گوگل کے فرنٹ پیج پر اس تعارف کے ساتھ لگائی کہ:
Google on Wednesday celebrated poet Mirza Ghalib’s 220th birth anniversary with a doodle. A poet in Urdu and Persian languages during the Mughal era, Ghalib became famous for his Urdu ghazals. His poems and ghazals have been translated and recited in many languages.
لہذااس سے دنیا کو معلوم ہوگیا کہ غالب کی اہمیت کیا ہے اور اس کا فلسفہ شعر کتنا عمیق ہے۔ کیا ہم تصور بھی کر سکتے ہیں کہ ہمارے دوسرے شعرا جنہیں ہم مختلف القاب و آداب سے یاد کرتے ہیں وہ اس عزت کے لائق ہیں۔ایسی صورت حال میں مرزا رفیع سودا، خان آرزو، میر تقی میر،مومن خاں مومن ،ناسخ اور مصطفی خاںشیفتہ وغیرہ غالب سے کہیں زیادہ معمولی اور غیر اہم شاعر قرار پاتے ہیں اور غالب اردو کا وہ واحد شاعر ٹھہرتا ہے جو آرٹ کی عالمی منڈی میں اپنا چھوٹا سا دیوان لیے کھڑاہے جس کےبائیں بازو پر انیس ہیں اوردائیں پرمحمد اقبال۔
یو ٹیوب کی ہسٹری بتاتی ہے کہ 29 نومبر 2016 کو ایک نوجوان کنیڈین سنگر جسٹن بیبر کے گانے let me love youکو اپلوڈ کیا گیا تھا ، جسے گزشتہ سوا سال میں ساڑے تریپن کروڑ لوگوں نے دیکھا اور ٹرینی ڈیڈین امیریکن سنگر نکی مناج کے Anacondaکو تین برس میں تقریبا چوہتر کروڑ لوگوں نے۔اس کے بالمقابل جوہن کیٹس کی لائف اینڈ لیگسی کو ایک برس میں بائیس ہزار سات سو لوگوں نے دیکھا۔بائیو گرافی آف لیو ٹالسٹائی کو اکیس ہزار سو لوگوں نے اور غالب پر گلزار کی بنائی فلم کی غزلوں کو جنہیں جگجیت سنگ نے گایا ہے اسےتین برس میں گیارہ لاکھ لوگوں نے سنا ہے اور اگر اس میں سے جگجیت سنگھ کو نکال دیا جائے تو دیوان غالب کے پہلے سیزن کو جسے بنانا پوئیڑی والوں نے اپلوڈ کیا ہے اس کی مختلف غزلوں کو ایک برس میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان دیکھا اور سنا گیا ہےاوراس سیزن میں ان کی صرف آٹھ سے دس غزلیں شامل ہیں۔ ہندوستانی گوگل کی 2017کی ہسٹری بتاتی ہے کہ غالب پوئیٹری ، غالب شاعری،صرف غالب،مرزا غالب شاعری،مرزا غالب شاعری ان ہندی اور مرزا غالب پوئیٹری کو ہر مہینے دس ہزار سے ایک لاکھ اور غالب شعر ،غالب شاعری کو ایک ہزار سے دس ہزار کے قریب سرچ کیا گیا۔جبکہ easycounter.comکے مطابق اگست2016 سے اب تک ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں سنی لیونی کو سوا بیس لاکھ مرتبہ سرچ کیا گیا ہے۔ جس میں صرف ہندوستانیوں نے گیارہ لاکھ مرتبہ سرچ کیا۔ اس ڈیٹا سے ہمیں اس بات کی ایک ہلکی سی جھلک نظر آجاتی ہے کہ ہمارا غالب رجحان کیا ہے۔
یہ بات ہر طور سچ ہے کہ اچھے اور سچے آرٹ کو پسند کرنے والے لوگ دنیا میں ہمیشہ سے کم ہی رہے ہیں ، مگر ہم آج جس عہد میں سانس لے رہے ہیں اس میں رونا کمی کا نہیں ہے بلکہ زیادتی کا ہے۔ دراصل اب ہمارے پاس اتنی مقدار میں اچھا اور سچا ادب موجود ہے کہ ہم کسی ایک پر مکمل طور پر ٹک ہی نہیں پاتے۔ کسی شاعر یا آرٹسٹ کی مشکل پسندی بھی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ مشکل سے مشکل ترین چیزوں سے ہم گزشتہ صدی میں دوچار ہوئے ہیں۔ مثلاً غالب کا کوئی شعر خواہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو مابعد جدید نظریہ سے زیادہ مشکل نہیں ہوسکتا۔ جس کے دونوں سرے کبھی قاری کے ہاتھ میں نہیں آتے۔ مثلاً غالب کا ایک شعر ہے کہ:
افسوس کہ دیداں کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی در خور عقد گہر انگشت
اس شعر میں لفظ دیداں اور دنداں میں اختلاف ہے ،بعض نے اسے دیداں لکھا ہے اور بعض نے دنداں۔ اس سے معنی پر فرق تو بہر حال پڑتا ہے مگر مجموعی صورت وہی نکل کر آتی ہے۔یہ غالب کے ایسے کلام کی مثا ل ہے جو مابعد جدید کے بالمقابل مشکل کے قریب بھی نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے علاوہ غالب کا یہ شعر کہ :
عروج نشہ واماندگی پیمانہ محمل تر
برنگ ریشہ تاک آبلے جاوے میں پنہاں ہیں
ایسا ہے کہ اگر سمجھ میں نہ بھی آئے تو بھی پر لطف تو ضرور معلوم ہوتا ہے۔ اس میں ویسی ثقالت نہیں جیسی پوسٹ ماڈن امیریکن رائٹر ڈونلڈ بارتھیم کی کہانی غبارہ میں ہے۔ اس کے علاوہ غالب کو سمجھنے کے چند اصولوں پر اگر غور کیا جائے تو وہ اپنے اکثر کلام میں مشکل نظر نہیں آئیں گے۔ مثلاً غالب اپنے عہد میں عام نہیں ہونا چاہتے اس لیے لفظ کو غیر مرتب انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ ان کے یہاں معنی کی تبدیلی کا نظام ذرا سی حرکت سے واقع ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے عہد کے غریب الفاظ،روز مرہ اور محاورے کا استعمال کر کے شعر کو عام اور سادہ بیانیہ سے الگ کر دیتے ہیں جس سے سامنے کی بات میں بھی لطف پیدا ہو جاتا ہے۔ رعایت لفظی اور تضاد کا استعمال بھی کثرت سے کرتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ اپنے اشعار میں ایسے وقفے تراشتے ہیں جس کی وجہ سے ایک مکمل بات بنانے میں پریشانی کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے سامنے تو یہ تمام پریشانیہ بھی نہیں ہیں کہ غالب کے بہت سے شارحین موجود ہیں جہاں کوئی شعر مشکل معلوم ہوا اور ہم نے کسی نہ کسی شارح کو دیکھ لیا۔ جن میں سے زیادہ تر شارحین نے تقریبا ً ایک ہی جیسی باتیں کی ہیں۔ مثلاً نظم طباطبائی، سہا مجددی ،عبدالباری آسی،شاداں بلگرامی،سید اولاد حسن، بیخود موہانی اورحسرت موہانی وغیرہ کی شرحیں تقریبا ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ کہیں کہیں کسی نے زیادہ باتیں کہیں اور کسی نے کم۔ اس کے علاوہ کوئی فرق نہیں۔ البتہ شمس الرحمن فاروقی نے تفہیم غالب میں ہر شعر پر قدر تفصیل سے بحث کی ہے۔
موجودہ عہد میں غالب کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی لغت سے ہم Familiar نہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے عہد کی زبان کو جاننا ضروری ہو جاتا ہے۔ پھر اگر اس کے عہد کی لغت کو جان بھی لو تو معلوم ہوتا ہے کہ غالب نے اپنے زمانے کی لغت کے ساتھ اپنی شاعری میں بھرپور چھیڑ چھاڑ کی ہے۔کوئی لفظ غالب کے یہاں ایسا نہیں جو ایک نوع کی سحر انگیزی کو بننے کے لیے استعمال نہ کیا گیا ہو۔ ان کا سادہ سے سادہ شعر بھی ایسا ہے کہ جس میں ذرا سی کجی ضرور پائی جاتی ہے اور یہ کجی تب نظر آتی ہے جب ہم ان کے اشعار کی معنوی فضا پر غور کرتے ہیں۔ ایسی ژولیدہ معنوی فضا ہمیں غالب کے معاصرین کے یہاں نظر نہیں آتی ،لہذا ہم غالب کو مشکل پسندی کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں۔ غالب کےاردو معاصرین تو خیر اس ژولیدگی سے پاک ہیں ہی عربی، فارسی اور انگریزی کے شاعر بھی اس سے معری ہیں۔مثلا ً علامہ فضل حق خیرآبادی ، منشی ہرگوپال تفتہ، لورڈ بائرن،جوہن کیٹس ولیم ورڈزورتھ،سیموئل کولریج اور میتھیو آرنلڈ وغیرہ کی شاعری غالب کے مقابلے خاصی سلجھی ہوئی ہے۔ لہذا غالب کی ژولیدہ مزاجی نے اسے کم دوسروں کی سہل پسندی نے زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔ ابھی کچھ روز پہلے کی بات ہے کہ میں نے موجودہ عہد کے ایک شاعر اسعد محمد خاں کی ایک چھوٹی سی نظم "نےٹوہوسپی ٹالٹی” پڑھی تھی۔یقین جانیے کہ مجھے ذرا بھی سمجھ میں نہیں آئی۔ عین ممکن ہے کسی اور کو آجائے۔بس نظم کے حوالے سے میں اتنا محسوس کر سکا کہ شاعر صاحب نے تاریخ ،جغرافیہ اور تہذیب کا ایک مرقع تخلیق کیا ہے جو قاری کو اپنے ادراک کے لیے ایک خاص صورت حال کی جانب بلا رہا ہے۔ غالب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ اگر آپ غالب کو پڑھنے کے شوقین ہیں اور ان کا کچھ کلام حافظے میں محفوظ بھی ہے تو وہ ایک خاص صورت حال میں من و عن ویسا ہی کھلتا ہے جیسا کہ وہ ہے۔ علاوہ ازیں معنی میں شارحین کی طرح ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے ہی کام چلانا پڑتا ہے۔
غالب کے بہت سے قارئین ان کی زندگی اور شاعری کو ملا کر پڑھتے ہیں ،تاکہ غالب کی شاعری کوسمجھنے میں آسانی ہو۔ عین ممکن ہے کہ یہ طریقہ اچھا ہو،مگر میرا خیال ہے کہ غالب کی زندگی ،ان کی شاعری کو سمجھانے کے لیے نا کافی ہے ، لہذا اگر ہم غالب کی حیات کو ان کی شاعری سے الگ کر کے پڑھیں تو وہ ایک موضوع کے طور پر الگ طرح کا مزا دیتی ہے اور ان کے خطوط بھی ایسے ہی ہیں جن کو باقاعدہ ایک موضوع کے طور پر پڑھا جانا چاہیے۔ غالب کےمزاج میں لطیف طنز اور لطیف مزاح پایا جاتا تھا۔ اس سے ان کی شخصیت کی زندہ دلی کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب بات ہے کہ غالب کی زندگی اور ان کی شاعری دونوں کو پڑھ جاو تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص اپنے نقصانات اور اپنے زخموں پرہنستا اور مسکراتا ہے۔ جتنا گہرا غم ہوگا غالب اتنے ہی زیادہ پر مسرت نظر آئیں گے۔ لہذا یہ تضاد ان کی شاعری میں ہی نہیں بلکہ ان کی ذات میں گھلا ہوا تھا۔ ایسے شخص کی باتوں کو سمجھنے کے لیے کسی قاعدے کو وضع نہیں کیا جاسکتا اس کے سمجھنے کا راز ہی شخصیت کی بے قاعدگی میں مضمر ہے۔
Leave a Reply