اپنا قیمتی سوٹ کیس اٹھائے ہوئے،کچھ دیر تک ریل کی بوگی میں ہُمکتی بھیڑ سے جھوجھنے کے بعد،لٹکی ہوئی سیڑھیوں سے، پلیٹ فارم پراترنے کے جوکھم نے تو اس بے چارے کی جان ہی نکال دی۔نیچے اتر کر اپنے جسم کو سنبھالتے ہوئے،وہ پلیٹ فارم کے پختہ فرش پر چند قدم چلنے کے بعد ایک بہت اونچے آہنی شیڈ کے تھم کے ساتھ اپنی پیٹھ لگا کر کھڑا ہو گیا اور اپنا سامان نیچے رکھ کراپنی بوڑھی سانسیں مجتمع کرنے کی کوشش کرنے لگا۔سانسیں درست کرنے کے فوراً بعد، وہ اپنی ایک پرانی عادت دوہراتے ہوئے، جیب سے سگریٹ نکال کر اسے دیاسلائی کی مدد سے سلگانے کے بعد، دھیرے دھیرے کش لیتے ہوئے، سامنے سے گزرتے ہو ئے لوگوں کو قدرے دل چسپی سے دیکھنے لگا۔ ہر کوئی اسے نظرانداز کرتااپنی ہی دھن میں، اپنی ہی رفتار سے اس کے نزدیک سے گزر رہا تھا۔
"کیا میں نے اپنا اباناعلائقہ چھوڑ کر اس اجنبی بھیڑ کے درمیان آکر بالکل ٹھیک کیا؟ یا غلط کیا؟”۔ اپنے سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے اس نے اپنا سر اثبات میں ہلایا اور سگریٹ کا کش لے کرمنہ سے دھواں نکالتے ہوئے اجنبیت کے خوف کو اپنے دل سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔
کچھ ہی دیر میں گزرتے لوگوں میں اس کی دل چسپی ختم ہوگئی اوراجنبیت کا خوف بھی اس کے دل سے چھٹنے لگا۔اور اس کی جگہ ایک لاتعلقی پیدا ہونے لگی۔ وہ اپنا سر اوپر اٹھاکرآسمان کی جانب تکنے لگا کہ مبادا یہاں کا آسمان اس کے ابانے علائقے کے آسمان سے مختلف تو نہیں۔مگر وہ نہیں تھا اورسورج بھی، جو ریلوے اسٹیشن کے آس پاس کی زمین پر، عمارتوں کے پیچھے کہیں ڈوب رہا تھا۔مغربی افق پر شفق معدوم ہوتی جارہی تھی۔ پرندوں کی چھوٹی بڑی ڈاریں اپنی منزل کی جانب رواں تھیں۔انہیں اپنے آشیانوں کی طرف جاتے دیکھ کر اس کی آنکھیں اداسی اور رشک سے بھر گئیں۔ ان میں ذرا سی نمی در آئی۔ اس نے اپنا سر جھکا یا اور سفر کی گرد سے میلی پڑ چکی قمیض کی آستین سے،اپنی آنکھوں سے گردصاف کرنے لگا۔
آج صبح اپنے سفر کا آغاز کرتے ہوئے اس کے ذہن میں اپنی آخری منزل کا بس ایک دھندلا سا خیال موجود تھا۔اس نے طے کیا تھا کہ باقی رہ جانے والے برس وہیں گزار کر، وہیں کہیں زمین میں دفن ہو کر،گل سڑ جائے گا لیکن کبھی اپنے گوٹھ واپس نہیں جائے گا۔ شام کا آسمان دیکھنے کے بعداس کا یہ ارادہ ڈولنے لگا اور اس کا دل ڈوبنے لگا۔وہ اس اجنبی شہر میں خود کو نڈھال اور بے بس محسوس کر نے لگا۔ وہ زندگی بھر ایسی درد ناک کیفیت سے کبھی دوچار نہیں ہو اتھا۔اب بڑھاپے میں آکر اسے یہ سب بھی بھوگنا پڑ رہا تھا۔
اس نے شہر سے آگے اپنی منزل کا رخ کرنے کے بجائے آج کی شب پکا قلعہ کے گردوپیش واقع کسی مسافر خانے میں قیام کا فیصلہ کیااور سگریٹ پھینک کر اپنا سوٹ کیس اٹھاکر سیڑھیوں والے پُل کی جانب چلنے لگا۔
وہ پُل پرریلوے اسٹیشن سے باہر جانے والے راستے کی جانب بڑھ رہا تھا کہ مخالف سمت سے آتا ہوا ایک دبلا پتلا شخص، جو متواتر اپنی انگلیوں میں دبی ہوئی بیڑی کے کش لگا رہا تھا، پہلے تو اسے دیکھ کر ٹھٹھکا اورپھر فوراً اس سے دو قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔اُ س نے اپنی بیڑی کا آخری کش لے کر اسے جلدی سے فرش پر پھینک دیا۔ نجانے کیوں اسے سوٹ کیس اٹھائے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں خوف کا گھنا سایہ لہرانے لگا تھا۔
وڈیرے نے سوٹ کیس اٹھائے چھِچھلتی نظر سے اُسے دیکھا اور لاتعلقی سے اس کے پاس سے گزرنے لگا تو وہ شخص، بالکل اچانک اس کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔
اب اس شخص کی آنکھوں سے خوف کا سایہ چھٹ گیا تھا اور اس کی جگہ شناسائی کی گہری چمک نے لے لی تھی۔وہ ایک اپنائیت کے ساتھ اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرانے لگاتھااور اعتماد کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا ہوگیا تھا۔اس کی زیرِلب مسکراہٹ دھیرے دھیرے اس کی باچھوں تک پھیل کر ہنسی میں تبدیل ہوتی چلی گئی اور وہ اس سے گلے ملنے کے لیے اپنے بازو پھیلائے اس کے نزدیک تر آگیا۔
"ارے وڈیرا! تم اور یہاں؟ میری اکھین کے سامنے؟لال لطیف کی قسم، آج دھنی سائیں نے تمہیں میرے روبرو لاکر معجزہ دکھا دیا۔ تم پہلے بھی میرے بھوتار تھے اور اب بھی ہو، اس لئے تمہیں مجھے بھولنے کا پوار پورا حق ہے،لیکن میں غریب، بھلا تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں۔میری دلِڑی جانتی ہے،تمہیں یاد کر کر کے وہ بے چاری یادوں کے تندور میں ٹانڈوں کی طرح کیسے جلتی سلگتی رہی ہے۔اگر میں بھی تمہاری طرح تمہیں بھول جاتا تو مولا سائیں میری جان نہیں نکال دیتا۔”
اس کی کھڑکھڑاتی آواز سن کر وڈیرے کی یادداشت کا در پوری طرح وا ہوگیا۔اسے اپناپرانا گوٹھائی رنگو یاد آگیا، جس کے ماں باپ نے اس کا نام تو اورنگ زیب رکھا تھا لیکن وہ گھستا گھساتا پہلے رنگ علی ہو ا، بعد میں مستقل طور پر رنگو ہی پڑگیا۔وہ رنگو کواس اجنبی شہر میں، اپنے قریب پا کر ششدر رہ گیا۔گلے ملتے ہوئے اس کے ہونٹوں سے بس یہی نکل سکا۔”ارے رنگو۔۔کنجر تم؟اپنے باپ دادا کا گوٹھ چھوڑ کر تم غائب ہوگئے اور مجھ سے کہہ رہے ہو،میں بھول گیا۔میں نے تو سوچا تھا کہ اب تم سے دوزخ میں ہی ملاقات ہوگی”۔
"بھوتار! دنیا سے بڑا دوزخ اور کون سا ہے ؟ یہیں پر ہمارا دوبارہ ملنا لکھا ہوا تھا۔ وہ صرف میرے باپ دادا کا گوٹھ نہیں تھا،میرے لیے تو وہ جنت تھا جنت۔ میں نے اسے چھوڑ کر شوق سے شہرکا دوزخ مول نہیں لیا، سائیں۔ تم جانتے ہو، میری مجبوری تھی”۔وہ سیڑھیوں والے پُل سے گزرتے لوگوں سے ہٹ کر ایک جانب کھڑے ہوگئے۔
ان کے چہرے اس غیرمتوقع ملاقات کی خوشی سے دمکنے لگے تھے۔ دو دہائیوں کے طویل عرصے بعد وہ ایک دوسرے کے مُکھ دیکھ رہے تھے،جنہیں گزرے وقت نے خاصا تبدیل کردیاتھا۔وڈیرے کا بدن خاصا بھاری بھرکم ہوچکا تھا۔ زندگی بھر کی بے اعتدالیوں اور خوردونوش کی بگڑی عادتوں کے سبب اس کی توند نکل آئی تھی۔اس کے خضاب لگے بال اس کے ڈیل ڈول کے ساتھ لگا نہیں کھا رہے تھے۔اس کے سامنے اس کا گوٹھائی رنگو،بالکل ہی بے رنگ دکھائی دے رہا تھا۔اس کے سارے بال سفید پڑ چکے تھے۔کثرت سے بِیڑی پینے کے سبب اس کے گال اند ر دھنس چکے تھے اور ہونٹ گہرے سیاہ پڑ چکے تھے۔اس کابدن وڈیرے کی نسبت خاصانحیف لیکن پھرتیلا دکھائی دے رہا تھا۔
وہ پُل پر کھڑے کھڑے اس کے گھروالوں، رشتے داروں،دوستوں اور قصبے کے لوگوں کا حال احول پوچھنے لگا۔اس نے مختصراً” سب خیر” کہہ کر اپنی جان چھڑائی۔ پھر وہ یہاں آمد کا سبب معلوم کرنے لگا۔وڈیرے نے اسے ٹالتے ہوئے صرف اتناکہا۔ ” ضروری کام سے آیا ہوں”۔
اس کے بعد اس نے اجازت لیے بغیر ہی وڈیرے کا سوٹ کیس اٹھالیااور اس سے اپنے ساتھ چلنے پر اصرار کرنے لگا۔اس کی مخلصانہ پیشکش سن کر وہ جُزبُز ہوتے ہوئے اس کے ساتھ چلنے سے انکار کرتا رہا لیکن رنگو پر اس کا بس نہ چل سکا۔اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ابانے دادانے علائقے کو ترک کردینے کے بعد یہاں اسے پرانا یار مل جائے گا۔
رکشا ایک مختصرسے غلیظ بازار میں تنگ سی گلی کے سامنے رکا۔وڈیرے نے اپنی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا تو رنگو نے اسے کرایہ ادا کرنے سے روک دیا۔اس نے خود جلدی جلدی چند مڑے تُڑے نوٹ رکشے والے کو تھماکر اسے چلتا کیا۔اس کے بعد وہ سوٹ کیس اٹھائے گلی میں آگے آگے چلتے ہوئے اپنے اہلِ محلہ اور میونسپلٹی کے اہل کاروں کی شان میں گالیاں بکنے لگا، جن کی کاہلی اور ہڈ حرامی کی وجہ سے یہ جگہ بہت بدنما اور بدبودار ہوگئی تھی۔
اس علاقے کی کچی اور کڈھب سی گلیاں دیکھ کر وڈیرے کے نازک دل کو ٹھیس سی لگی تھی اور اس نے اپنا سر نیہوڑاکر اس کے پیچھے چلتے ہوئے اس کا اظہار بھی کیا تھا اور دبا دبا سا احتجاج بھی لیکن اب یہ سب بے سود تھا۔اسے آج کی شب یہیں گزارنی ہوگی۔
ایک مکان کے آگے رنگو کو رکتا دیکھ کر وہ بھی ٹھہر گیا۔اسے گلی میں دو منٹ ٹھہرنے کا کہہ کر وہ خود مکان کے زنگ خوردہ دروازے سے اندر چلا گیا۔وہ وہاں نیم تاریکی میں کھڑاگلی کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے مکانوں کی قطار دیکھنے لگا۔جو سب کے سب انہدام کے خوف سے ایک دوسرے کے کے سہارے ٹکے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔وہ ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے سوچنے لگاکہ لوگ ان میں کیسے رہتے ہوں گے؟ کیسے جیتے اور مرتے ہوں گے؟اسے قصبے میں واقع اپنی خاندانی ماڑی یاد آنے لگی، جس کا ایک کمرہ اس گلی کے ایک مکان سے زیادہ کشادہ تھا۔ اس کے سینے سے ایک آہ سی نکلی۔
کچھ ہی دیر میں اس کا گوٹھائی دانت نکالتا ہوادروازے سے برآمد ہوااور اسے اندر چلنے کو کہنے لگا۔اسے قدم بڑھانے میں تامل ہورہا تھا۔اس کے یار نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔”بھوتار! میرا غریب خانہ تمہارے لائق تو نہیں، مگر جیسا بھی ہے، حاضر ہے۔ اندر ہَلو سائیں”۔اس نے ادھ کھلے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
"بیلی !مجھے شرم سار نہ کرو”۔وڈیرادروازے کی چوکھٹ سے اپنا سر جھکائے ہوئے آگے بڑھا۔
وہ گھر کے مختصر سے صحن میں داخل ہوا، جس میں بمشکل دوچارپائیاں سما سکتی تھیں۔دائیں طرف بیت الخلا اور غسل خانہ ساتھ ساتھ بنے ہوئے تھے۔ان کے مخالف تھوڑی سی جگہ پر کھلا باورچی خانہ واقع تھا۔وہ جیسے ہی آگے بڑھا،اس کاسر، کپڑے سکھانے والے تاروں سے ٹکرانے لگا۔تاروں سے بچنے کی خاطر اس نے اپنا سر جھکایا،تو باورچی خانے کے چولہے کے پاس چوکی پر سمٹ کر بیٹھی رنگ علی کی بیوی، دوپٹے میں اپنا چہرہ چھپاتی،اس کے استقبال کے لیے، غیرمتوقع طور پر اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
"ادا، بھلی کرے آیا”۔یہ کہہ کراس نے اپنا روکھا سوکھاسا ہاتھ مصافحے کے لیے آگے بڑھا دیا۔اس نے بھی ذرا ساجھجکتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔”مھربانی اَدی”۔اس دوران اسے خیال آیا کہ یہی وہ عورت ہے، جس کی خاطر اس کا یار اپنی جنت چھوڑ کر نئی زندگی کی تلاش میں اس دوزخ میں چلا آیا تھا۔
رنگُو نے آگے بڑھ کر اپنی بیوی کا تعارف اپنے دوست سے کروایا۔”وڈیرا! یہ میری ذال ہے، سکھاں”۔اسے دو دہائیاں قبل ان کے غائب ہونے کے بعد قصبے میں پیش آنے والے واقعات یاد آئے تو وہ زیرِلب مسکراتا ہوا اپنے یار کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔
کمرے میں جس چارپائی پر نئی نکور رلی بچھی ہوئی تھی اور سرہانے پر مقامی کشیدہ کاری والا تکیہ رکھا ہوا تھا،اس پر بیٹھتے ہی اس نے اپنی سینڈل اتاری اور پاوں اوپر کرکے تکیے کے سہارے نیم دراز ہوگیا۔ٹرین میں کئی گھنٹے سینڈل پہن کر سیٹ پر بیٹھے رہنے کی وجہ سے اس کے پاوں سوج گئے تھے اور ان میں ہلکا ہلکا درد ہورہا تھا۔
رنگو نے اسٹیل کے گلاس میں برف والا ٹھنڈا پانی پیش کیاتو پہلا گھونٹ لیتے ہی اس کا منہ کھارے پن سے بھرگیامگراس نے اسے احساس نہیں ہونے دیا۔اسے بے اختیار قصبے کی واٹر سپلائی کا میٹھا اور ٹھنڈا پانی یاد آگیا، اب وہ جس کا ذائقہ اپنی زبان پر محسوس کرنے کے لیے عمر بھر ترستا رہے گا۔وہ اسے یاد کرکے بے اختیار اپنے دوست سے پوچھنے لگا۔”رنگو! کیا تجھے اپنی واٹر سپلائی کا پانی یاد ہے؟”
اس کی بات سن کر وہ آہ بھرنے لگا۔”اس پانی کی کیا ہی بات تھی وڈیرا۔ میرے لیے تو وہ زم زم سے بھی بڑھ کر ہے۔ کاش، تم اس کی بوتل ہی بھر لاتا تو میں اسے اپنی آنکھوں پر لگاتا۔ویسا پانی تو شاید جنت میں بھی نہیں ملے گا، ہاں۔اچھا بھوتار!بتاو کہ اپنے بازارمیں وادھومل منیاری کی دکان کے آگے ہینڈ پمپ ابھی تک لگا ہوا ہے کہ نہیں؟”۔
"بروبر لگاہوا ہے۔رنگو، مجھے یہ بتا کہ پُل پر جب تو نے مجھے پہلی بار دیکھا، تو خوف سے پیچھے کیوں ہٹ گیا تھا؟”۔
اس کی یہ بات سن کر وہ اپنے پیلے دانتوںکی نمائش کرنے لگا۔” بھوتار! میں خوف سے پیچھے کیوں ہٹا تھا، یہ تم اچھی طرح جانتے ہو”۔
"مجھے تجھ سے یہ امید نہیں تھی۔ میں تیرا پرانا سنگی ہوں چریا۔میں بھلا ویسا سوچ بھی کیسے سکتا ہوں۔ میںتیرے ساتھ وہ سب کیسے کرسکتا ہوں،بتا”۔
یہ سن کر وہ کھسیانا ہونے لگاکیوں کہ وڈیرے کی بات میں وزن تھا۔ وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑنے لگا۔”وڈیرا! تم سولہ آنے ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن مجھ غریب کی حالت کے بارے میں ذرا سوچو۔ مجھے اپنے گوٹھ سے بھاگے ہوئے بیس بائیس سال ہوچکے۔ میں آج تک ایک مفرور کی طرح روپوشی کی زندگی گزار رہا ہوں۔آج بھی شہر میں گھومتے پھرتے ہوئے کاروکاری کی موت کا خیال میرے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔اگر تم سمجھ رہے ہو کہ صرف اپنی زندگی جانے کے خوف سے میں پیچھے ہٹا تھا، تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ بس سکھاں اور اس کے بچوں کی جان جانے کا ڈر مجھے ہروقت ہلکان کیے رکھتا ہے۔”
"اچھا اچھا، ٹھیک ہے۔ سمجھ گیا۔ تمہارے چھوکرے نظر نہیں آرہے؟”۔
"وہ کام سے آتے ہوں گے سائیں۔ بڑا چھوکرا پکے قلعے میں چوڑیاں بنانے والی ایک بھٹی میں کام کرتا ہے اور چھوٹا موٹر سائینکل کی میکینکی سیکھ رہا ہے۔دھنی سائیں نے مجھے فرماں بردار اولاد دی ہے وڈیرا۔ دونوں جو بھی کماتے ہیں، لاکر اپنی امڑ کی ہتھیلی پر رکھتے ہیں، ہاں، لیکن گھر کا کوئی کام نہیں کرتے”۔
یہ سن کر وڈیرے کے سینے سے ایک ہوک سی نکلی،جسے اس نے سینے میں ہی دبادیا۔اچانک اس کی سماعت بیوی اور اپنے تین بیٹوں کے زہریلے اور کٹیلے لہجوں سے بھرنے لگی۔اسے غصے اور نفرت سے دہکتی ان کی آنکھیں یہاں بھی یاد انے لگیں۔وہ چند لمحوں کے لیے حسد اور رشک کی بھٹی میں سلگنے لگا۔
پرانے دوست کے گھر مہمان بن کر آنے کے بعد اسے اندازہ تھا کہ وہ اس سے یہاں آمد کے سبب کے متعلق تفصیلات ضرور پوچھنا چاہے گا۔اس نے اپنے جی میں مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ اسے کسی بھی طور اپنی حقیقی صورتِ حال کی بھِنک نہیں پڑنے دے گا۔کچھ ہی دیر بعد جب رنگو نے اس سے شہر آنے کی وجہ پوچھی تواس نے جھوٹ بولا کہ وہ یہاں کی کچہری میں ایک مقدمے کی پیشی بھگتانے آیا تھا۔
اس کے بعد ان کے درمیاں خاموشی کا ایک طویل وقفہ حائل ہوگیا۔رنگو نے اپنی بات سے اس وقفے کو ختم کرنے کی سعی کی۔
وہ بولا۔”سائیں! میرے پاس بھنگ کی ایک پُڑیا رکھی ہوئی ہے۔ میں کام سے واپس آکر رات کے کھانے سے پہلے اسے گھوٹ کر دو یا تین گلاس چڑھاتا ہوں۔ اگر اجازت دو تو کارروائی شروع کروں”۔
اس کی بات سن کر وڈیرا ہنسنے لگا۔ اس کی ہنسی کو رنگو نے اجازت خیال کیا اور آگے بڑھ کر ذرا سا جھک کر چارپائی کے نیچے رکھا ہوا ڈنڈا اورکونڈا نکال لیا۔ وہ چپ چاپ چارپائی پر بیٹھ کراسے دیکھتا رہا۔وہ باہر سے پانی سے بھرے جگ کے ساتھ کچھ خشخش،بادام اور پستے لیتا آیا۔ ڈنڈے اور کونڈے کو پانی سے اچھی طرح دھونے کے بعد اس نے بھنگ کے سوکھے پتوں کے ساتھ ساتھ بادام،خشخش اور پستے کونڈے میں ڈال دیے اور انہیں ڈنڈے کی مدد سے کوٹنے لگ گیا۔
اسے مصروفِ کار دیکھ کر وڈیرے کو برسوں پرانے دن یاد آنے لگے۔ جب ہر روز کبھی صبح کے وقت تو کبھی ڈھلتی دوپہر کے آس پاس جوان رنگو اس کی اوطاق میں بیٹھ کر اس کے لیے بھنگ گھوٹنے کا کام کیا کرتا تھا۔ اس یاد نے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ اسے اچانک ایک شرارت سی سوجھی۔
” ارے رنگو! یہ بتا کہ تیرے ہاتھوں سے بنی بھنگ میں کیا اب بھی وہی پرانا ذائقہ ہے؟”
وہ یہ سن کے بے ساختہ ہنسا پھر ایک آہ بھرتے ہوئے سنجیدہ ہوگیا۔۔ "میرے سائیں! پرانا ذائقہ اب کسی چیز میں نہیں رہا۔سارے مزے اور سارے ذائقے تو وہیں چھوڑ آیا تھا۔اب تو بس ان کی یاد باقی ہے، جومیری چھوٹی سی دِلڑی کو رات دن جلاتی ہے”۔
اس کا جواب سن کر وڈیرے کا دل بھر آنے لگا۔اس کے جی میں آئی کہ وہ اپنی جو بپتا، اتنی دیر سے اپنے دوست سے چھپائے بیٹھاہے، وہ ساری کی ساری اس سے کہہ ڈالے، لیکن اس نے خود کو ایسا کرنے سے روک دیا۔
کچھ دیر خیالوں میں گم رہنے کے بعد اس نے فرش کی طرف نگاہ ڈالی تو اسے کونڈے میں ہلکا سبز محلول تیرتا ہوا دکھائی دیا۔رنگوکپڑا اٹھائے اس کی طرف مدد طلب نظر سے دیکھ رہاتھا۔ وہ فوراً چارپائی سے اترا اور اس کے سامنے بیٹھ کر اس نے کپڑا اس سے لے کر اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ رنگو نے جلدی سے خالی جگ کپڑے کے نیچے رکھ دیا اور کونڈے سے بھری ہوئی بھنگ احتیاط سے کپڑے پر انڈیلنے لگا۔ وہ کپڑے کے تاروں سے چھن چھن کر جگ میں گرنے لگی۔رنگو نے برف کی ٹکڑیاں لا کر اس میں ڈال دیں اور اسے جگ سے بار بار گلاس میں انڈیل کر ٹھنڈا کرنے لگا۔
ٹھنڈی ٹھار سائی کے گلاسوں کی جوڑی چڑھانے کے بعد یہ دونوں پورباش ہوگئے۔ ان کے لیے یہ سارا عمل اپنے مشترکہ ماضی کی بازیافت جیسا تھا۔ ماضی جس میں وہ جوان تھے، آپس میں جوڑی دار تھے۔کچھ دیر کے لیے سہی مگر انہوں نے اس چھوٹے سے غلیظ کمرے سے نکل نکل کر،خود کو قصبے میں واقع پیر مٹھن شاہ کی درگاہ کے احاطے میں واقع نیم کے گھنے پیڑ کے سائے میں بیٹھے ہوئے محسوس کیا، جہاں انہوں نے مل کر بھنگ گھوٹتے اور پیتے ہوئے،نوخیز مقامی لونڈوں سے نین لڑاتے اور انہیں پٹاتے ہوئے، عرس کے موقع پر رنڈیوں پر نوٹ لٹاتے ہوئے اور انہیں مباشرت پر آمادہ کرتے ہوئے بہت سا وقت ساتھ گزارا تھا۔وڈیرے کو یاد تھا کہ رنگو ہر مشکل صورتِ حال میں ہمیشہ اس کا ساتھ دیاکرتا تھا۔حتی کہ رات گئے معشوقو ں کی خواب گاہوں کی دیواریں پھلانگنے میں اوران کے گھر والوں کے جاگ پڑنے پر ان کی مارپیٹ اور تشدد سے بچنے میں بھی۔ہر طرح سے،جب بھی اسے اس کی ضرورت ہوئی۔
رنگو ایک حجام کا بیٹا تھا، اس لیے اس کی جیب ہمیشہ خالی ہوتی تھی لیکن وڈیرا اسے کبھی اس طبقاتی تفاوت کا احساس نہیں ہونے دیتا تھا۔اپنے سارے ذاتی معشوق چھوڑ کر وہ جب بھی جس لونڈے یا رنڈی سے ملا، اس نے اپنے یار کو بھی اسے استعمال کرنے کا پورا اختیار دیا۔لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت تھی کہ رنگو کے بالکل اچانک قصبے سے غائب ہوجانے کے بعد اسے اس جیسا کوئی جی دار دوست کبھی نصیب نہیں ہوا۔ اسی لیے وہ نشے کی جونجھ میں اپنا حال فراموش کرکے ماضی میں رنگو کے ساتھ حاصل ہونے والی جنسی کامیابیوں کے احوال میں گم ہوتا چلا گیا۔
ان کے قہقہے گھر بھر میں گونج رہے تھے۔ جب چارپائی کے پیچھے صحن میں کھلنے والی کھڑکی پر مسلسل دی جانے والی دستک نے اچانک اسے اپنی طرف متوجہ کیا تو وہ یکایک ماضی کی شاد کامیوں سے زمانہ موجود میں لوٹ آیا۔ اس نے اپنے میزبان کی توجہ اس جانب دلائی تو وہ ہنستا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔وڈیرے نے مستفسرانہ نظروں سے اسے گھورا تو وہ ہنستے ہوئے گویا ہوا۔”بھوتار! کھانا تیار ہے۔ ہاتھ منہ دھونے کے لیے باہر غسل خانے تک چلنا ہوگا”۔
یہ سن کر اسے احساس ہوا کہ دھول ابھی تک اس کے چہرے اور بدن پر جمی ہوئی تھی۔وہ نہانا چاہتا تھا لیکن نشے کے پیدا کردہ آلکس کی وجہ سے اسے غسل کرنے کا خیال صبح تک کے لیے ملتوی کرنا پڑا اوروہ اٹھ کر جھومتا جھامتااپنے میزبان کے پیچھے کمرے سے باہر چل دیا۔
تھکاوٹ اور بھنگ پینے کے سبب وڈیرے کی بھوک دو آتشہ ہوگئی تھی، اس لیے تازہ کھاناپرتکلف نہ ہونے کے باوجود اسے ذائقہ دار محسوس ہوا۔آلو مرغی کے شوربے کے ساتھ تلے ہوئے بینگن اور بھنڈی کھاتے ہوئے اسے اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ اس نے کتنی روٹیاں کھائی ہیں۔بے چارہ رنگو ہر کچھ دیر بعد دوڑ کر دروازے سے باہر جاتا اور چھابی میں گرم روٹی لیے ہوئے واپس آجاتا اور اس کے ساتھ بیٹھ کرخود صرف ایک آدھ نوالہ زہرمار کرتا، جب کہ وڈیرا اس دوران پوری روٹی ہی چٹ کرچکا ہوتا۔
وڈیرے کو احساس ہی نہیں ہوا کہ اس کی بسیار خوری اس کے دوست اور اس کے کنبے کو کتنی مہنگی پڑرہی تھی۔کچھ دیر بعد رنگو نے چپکے سے کھانے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تا کہ اس کا مہمان پیٹ بھر کر کھاسکے۔چند لمحوں بعدکھڑکی بجنے پر وہ باہر گیا تو اس کی بیوی نے اسے آٹا ختم ہوجانے کی خبر سنائی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اس کا کوئی بیٹا دکان پر جاکر آٹا لانے اور اپنے بن بلائے مہمان سے علیک سلیک کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھا۔
چھابی میں روٹی ختم ہوجانے پر وڈیرا ایک عجیب ندیدے پن کے ساتھ اپنی انگلیاں چاٹنے لگا۔اس کی انگلیاں چاٹنے کی چُسڑ چُسڑکمرے میں پھیلنے لگی۔ایسا لذیذ کھانا اسے مدتوں کے بعد نصیب ہوا تھا۔ اس نے ا پنی جی بھر کر پھُوہڑ بیوی پر چار حرف بھیجے،جس نے زندگی میں ایک بار بھی اسے ایسا مزے دار کھانا کھلانے کے بجائے ہمیشہ جلی کٹی ہی سنائی تھی۔
کچھ ثانیوں کے بعد ایک مرتبہ پھر کھڑکی پر دستک ہونے لگی اور رنگو دوڑ کر باہر جاکر پھر سے گرم روٹیاں لانے لگا۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا۔اس دوران رنگو کے گھر میں کھُسر پھُسر سے شروع ہونے والی کھلبلی،دھیرے دھیرے شور و غوغے کا روپ دھارنے لگی۔بے چارا رنگو اٹھ اٹھ کر باہر جانے لگا لیکن غوغا بڑھتا ہی جارہا تھا۔
وڈیرہ اپنے گردوپیش کی ہر چیز سے غافل اپنا شکم بھرنے میں مصروف تھا، جو کسی طرح سیر ہونے میں نہیں آرہا تھا۔ رنگو کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ اس نے بیٹوں نے اندر بغاوت برپا کردی تھی اور اس کی بیوی بھی ان کے ساتھ مل گئی تھی۔
عین اس لمحے جب رنگو کے بیٹے اپنے مہمان کو کھانے کی غارت گری سے روکنے کی خاطر کمرے پر دھاوا بولنے والے تھے، وڈیرے نے لمبی ڈکار لیتے ہوئے کھانے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ رنگو نے یہ خبر تُرنت اندر پہنچا کر اپنے بیٹوں اور بیوی کے بھڑکتے جذبات کو ٹھنڈا کیا۔
حد سے زیادہ کھالینے کی وجہ سے وڈیرے کے لیے چارپائی سے اترکر ہاتھ دھونے کے لیے باہر جانا محال ہوگیا۔ اس نے بستر کی چادر کے ساتھ اپنا ہاتھ اور منہ دونوں صاف کیے۔ دوتین طویل جماہیاں لیں اوراللہ وائی کہتا ہوا سونے کے لیے لیٹ گیا۔ اس کے سونے کے بعد رنگو نے اطمینان کی سانس لی اور اس پر کھیس ڈال کر دبے پاؤںکمرے سے نکل گیا۔
صبح دم آنکھ کھلنے کے بعد وڈیرہ سمجھا کہ وہ اپنی ابانی حویلی میں،اپنی کشادہ خواب گاہ میں، اپنے رانگلے پایوں والے پلنگ پرلیٹا ہے اور اس کی ہٹ دھرم،ضدی اور جھگڑالو بیوی اس کے پہلو میں پڑی ہے۔ کروٹ لیتے ہی اسے مقام اور وقت کی تبدیلی کا اندازہ ہوا تو اس کے دل کو دھچکا سا لگا۔اپنے گاؤں سے یہاں تک کے سفر کی جھلکیاں اس کے ذہن میں گھوم کر رہ گئیں۔وہ رنگو کے مکان کے اس بوسیدہ سے کمرے میں، چارپائی پر دراز ایک آہ سی بھر کر رہ گیا۔کل شام سے اب تک اس کمرے میں بیتنے والے سب لمحے اس کے ذہن یکسر محو ہوچکے تھے۔
رنگو کی بے رنگ زندگی،اسے گوٹھ میں اپنی نوابی کی زندگی سے کہیں بہتر محسوس ہونے لگی تھی۔اس کی بیوی اس کی فرماں بردار تھی اور اس کے بیٹے بھی۔اس کے برعکس وڈیرے کے ہاں معاملہ یکسر مختلف تھا۔ اس کے بیٹے جوان ہونے کے بعد اسے اپنا رقیب اوردشمن سمجھنے لگے تھے۔اس کی ظالم بیوی،اس کے بیٹوں سے بھی چار ہاتھ آگے تھی۔ اسی لیے اس نے اپنی جاگیر کی آمدنی سے اسے ایک پھوٹی کوڑی تک دینے سے انکار کردیا تھا جب کہ وہ خود اپنی ساری جائیدادیں لونڈے بازی اور نڈیوں سے اپنے تعلقات میں پھونک چکا تھا۔
غسل کے بعد اس نے کپڑے نکالنے کے جب اپنا قیمتی سوٹ کیس کھولا تو اسے کپڑوں اور ضرورت کی دیگر چیزوں سے لدالد دیکھ کر رنگو بالکل دنگ رہ گیا۔ اس کی یہ حیرت وڈیرے نے بھی محسوس کی۔اس نے اس میں سے صرف ایک جوڑا باہر نکالا اور پھر اسے چابی سے بند کردیا۔رنگو نے بھی فوراً اپنی آنکھیں پھیر لیں۔
جب وڈیرہ ناشتے کے بعد رنگو کے ساتھ گھر سے جانے کے لیے تیار ہوگیا تو نکلنے سے پہلے وہ رنگو سے مخاطب ہوا۔” رنگو! میں اپنے سوٹ کیس کی چابی تیرے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔ شہر میں رش ہوتا ہے۔ کچہری بھی لوگوں سے بھری ہوتی ہے۔ خدانخواستہ، میری جیب نہ کٹ جائے۔ اس لیے اسے تو رکھ لے۔ بعد تجھ سے ہی لے لوں گا۔”
اس نے جیب سے ایک چھوٹی سی ایک چابی نکال کر اس کے حوالے کی۔ رنگو حیرت سے سنہری رنگ کی وہ چابی دیکھنے لگا۔پھر چانک جیسے اسے کوئی اہم یاد آگئی۔”سائیں وڈا! یہ چابی میرے سے بھی کہیں گر کر کھوسکتی ہے۔میں سوچتا ہوں کہ اسے سکھاں کو دے آؤں۔ وہ سنبھال کر رکھ لے گی۔”
یہ سن کر وڈیرے نے اثبات میں سر ہلادیا۔
وہ تنگ سی گلی سے نکل کر غلیظ بازار تک پیدل آئے اور وہاں سے ایک رکشے میں سوار ہوگئے۔ رستے میں رنگو نے وڈیرے کو کچہری میں چلنے والے مقدمے کے حوالے سے کریدنا چاہا تو اس نے گول مول سا جواب دے کر ٹال دیا۔اس کے بعد دونوں میں کوئی بات نہ ہوئی۔
وہ رکشے سے گاڑی کھاتہ اتر گئے۔وڈیرہ اب رنگو سے جلد از جلد اپنا پیچھا چھڑا کر یہاں سے نکلنا چاہتا تھا لیکن وہ اس کی جان چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہورہا تھا۔وہ اس کے ساتھ عدالت جاکراس کی پیشی بھگتانے کے لیے بالکل تیار تھا۔وہ پورا دن اپنے بھوتار سائیں کی چاکری کرنا چاہتا تھا۔وڈیرہ عجیب سی صورتِ حال سے دوچار ہوگیا تھا۔
گاڑی کھاتہ سے پیدل گزرتے ہوئے ایک چائے خانے میں تسلی سے بیٹھ کر رنگو کو سمجھا نا اس نے مناسب خیال کیا۔ چائے کی پیالی کی چسکیاں لیتے ہوئے اس نے اسے سمجھایا کہ اس کا اکیلے کچہری جانا ضروری ہے۔ وہاں مقدمے میں مطلوب دیگر لوگ بھی ہوں گے،جو سب گوٹھ سے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس کا ساتھ جانا اس کے لیے ہی خطر ناک ثابت ہوسکتا ہے۔ وڈیرے نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی وہ شام تک پیشی بھُگتا کر شام ڈھلے اس کے پاس گھر پہنچ جائے گا۔اس نے اگلے دن رنگو کے ساتھ رانی باغ اور ٹھنڈی سڑک گھومنے کا منصوبہ بھی بنایا۔ وہ آخرکار رنگو کو شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔
چائے خانے کے باہر رنگو نے اسے زور سے اس طرح بھینچا جیسے برسوں بعد ملنے والوں کو گلے ملتے ہوئے بھینچاجاتا ہے۔وڈیرہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ اپنے یار سے آخری بھاکُر(جپھی) ڈال رہا ہے۔ اس کے بعد دونوں دوست مختلف سمتوں کو چل دیے۔ مڑ کر دیکھے بغیر،وہ سیدھے چلتے چلے گئے۔
ہالا ناکے کے بس اسٹاپ سے بس میں بھٹ شاہ جاتے ہوئے، وڈیرہ مسکراتے ہوئے اپنی چشم تصور پر رنگو، اس کی بیوی سکھاں اور اس کے بیٹوں کو اپنے سوٹ کیس پر جھکا ہوا دیکھ رہا تھا۔ وہ سب اس میں سے چیزیں نکال نکال کر انہیں حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبے سے دیکھ رہے تھے۔
اسے یقین تھا کہ چند روز اس کا انتظار کرنے کے بعد وہ ان چیزوں کو استعمال میں لانے لگیں گے اور دھیرے دھیرے ان چیزوں کی طرح اس کی یاد بھی پرانی ہوکر سب کے ذہنوں سے ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گی۔بالکل اسی طرح اس کے سگے بھی اسے فراموش کر بیٹھیں گے۔ وہ اپنے بقیہ برس نیم کے ایک گھنے پیڑ کے نیچے گزرادینے کے لیے بالکل تیار تھا۔ اب اس کے دل میں نہ کوئی خوف رہا تھا نہ ہی کوئی غم۔ وہ ہوا کی طرح ہلکا ہوکر اڑا جارہا تھا، نیم کی گھنی شاخوں کی طرف۔
Leave a Reply