انکت کو صرف ایک مرتبہ میں نے اپنے تعلیمی ادارے میں دیکھا اور سناتھا۔ ایک نوجوان لڑکا۔ دبلا ، پتلا، کھڑا ناک نقشہ، چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ اور سر پہ کلف لگی سفید رنگ کی دو پلی ٹوپی۔ اس وقت تک میں انکت کے ہنر سے ناواقف تھا۔ غالباً اس روز بھی انکت کے فن کا راز مجھ پر نہ کھلتا کہ میں بس اتفاقیہ ہی اس پروگرام میں پہنچ گیا تھا۔ کلاس روم میں داخل ہونے لگا تو دروازے کی اوٹ میں انہیں خاموش اورسر جھکائے کھڑا دیکھا۔ان کے لباس کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ آں جناب کسی قسم کی پرفورمینس کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ میں نے اند رداخل ہوتے ہوئے ایک اچٹتی سی نگاہ انکت پر ڈالی اور آگے بڑھ گیا۔ کلاس روم میں خاصی بھیڑ تھی اور اسٹیج پر ایک صاحب کھڑے تقریر کر رہے تھے۔ میں پیچھے کی طرف دو ،چار خالی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں انہیں صاحب نے جو غالبا ً اس پروگرام کے اینکر بھی تھے۔ انکت چڈھا کا تعارف کرواتے ہوئے ان کی شان میں کچھ قصیدانہ جملے کہے اور انکت کو داستان گوئی کے لیے مدعو کیا۔ انکت اپنی شرارت مائل سنجیدہ چال کے ساتھ دھیرےدھیرے اسٹیج پر چڑھے اورسامنے کی طرف آ کر دو زانو ہو کر بیٹھ گئے۔ مجھے ان کا چلنا ، بیٹھنا اور مسکرانا تینوں بے حد پسند آئے، کیوں کہ ان میں ایک مختلف رنگ تھا۔ ایسا رنگ جو کوئی فن کار ہی اپنے ظاہر و باطن میں پیدا کر سکتا ہے۔ انکت نے زیادہ و قت نہ لیتے ہوئے اپنی زور دار اور کھنکتی ہوئی آواز میں کچھ باتیں کہیں جو غالباً داستان کے شروع ہونے سے قبل کی رسمی باتیں تھیں اور انہیں باتوں کو کرتے کرتے ایک دم سے داستانی لہجہ اختیار کرتے ہوئے داستان گوئیوں کی طرح اس روایتی جملے سے اپنی کہانی شروع کر دی کہ:
"تو صاحب یو ں فرماتے ہیں ناظرفلاں اور شاہد ڈھکاں کہ کسی فلاں شہر میں فلاں شخص ہوا کرتا تھا۔وغیرہ وغیرہ ”

میں مجمعے کے ہمراہ انکت کا بیان بڑے غور سے سن رہا تھا اور حیران ہوتا جاتا تھا کہ یہ کیسا دلچسپ اور صلاحیت مند نوجوان ہے کہ کسی بھی جملے کو غیر متاثر کن انداز میں کہنا جانتا ہی نہیں۔ انکت نے اپنے فن کا مظاہرہ شروع کیا تو ذرا دیر کے لیے میں دنیا جہان کو بھول کر ان کے کہے ہوئے جملوں کے ارد، گرد چکر لگاتا رہا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ کوئی ہے جو اپنی آواز کی لہروں سے مجھے ہوا میں تیراتا ہوا ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر دھکیلتا چلا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ واقعہ تقریباً چھے ماہ قبل یا اس سے بھی کچھ زیادہ کا ہے ،مگر !مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انکت نے اپنی گفتگو سے مجھے اور میرے اطراف میں بیٹھے لوگوں کو اپنے انداز نظر اور حسن بیان سے ایسا مسحور کر دیا تھا کہ جب وہ ہنستے تھے تو ہم ہنستے تھے، جب وہ روتے تھے تو ہم روتے تھے۔ جب وہ منہ بناتے تھے، تو ہم بھی منہ بناتے تھے اور جب وہ اوب جاتے تھے یا اوب جانے کی ادا کاری کرتے تھے،تو ہم بھی ان کے ساتھ ساتھ خود کو بوجھل اور اوبا ہوا محسوس کرتے تھے۔ میں نے انکت سے قبل بھی کچھ داستان گوئیوں کو سنا ہے ، جن میں سے ایک تو خود میرا عزیز دوست اور بھائی اظہر اقبال ہے جو اس فن میں مہارت رکھتا ہے، لیکن انکت کے بیانیے پر میں اس لیے زیادہ حیران تھا کہ یہ صاحب ہمیں داستان کی دنیا کی سیر کرواتے کرواتے اسی طلسم میں باندھ کر اس دنیا سے کہیں دور لے جاتے تھے۔ ایسا انہوں نے اپنی داستان گوئی کے درمیان کئی بار کیا۔ لیکن مجال ہے کہ داستان کے کہیں دور رہ جانے کا خیال بھی ہمارے ذہن میں آیا ہو۔ انکت کایہ کمال تھا کہ وہ قصے کے درمیان جس کے تمام کردار اور ماحول اور احساسات اور تصورات قدیم تھے ان سے اک دم سے کھینچ کر وہ ہمیں جدید میں لا داخل کر تے تھے۔ چونکہ ان کا لہجہ اپنی قدامت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا، لہذا تھوڑی دیر کے لیے جدید بھی قدیم ہو جاتا تھا۔ پری ماڈرن کو پورٹ ماڈرن بنانے میں انکت کو کمال حاصل تھا۔ میں بعض دفع ان کو سنتے سنتے چونکا بھی کہ یہ حضرت کس تیزی سے اپنے ہنر سے ہماری ثقافتی دنیا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے گز ر جاتے ہیں، لیکن ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتا۔مگر انکت کا لہجہ اس وقت ذہن پر اتنا سوار تھا کہ کچھ اور سوچنے کی مہلت ہی نہیں ملتی تھی۔ حالاں کہ وہ اپنے اسلوب سے قدیم رنگ کی دنیاوں کا خیال بھی دلاتے جاتے تھے اور سامعین کو یہ محسوس بھی کرواتے جاتے تھے کہ داستان جسے تم عام ہنر سمجھتے ہواس سے اگلے وقتوں کے لوگ کس طرح محظوظ ہوتے تھے اور اپنی زندگیوں میں اس کی اہمیت کو کس حد تک گھولے ہوئے تھے۔ لیکن ساتھ ہی جدید سے وہ اس طرح چمٹے ہوئے تھے جس طرح وہ عین ان کی حقیقت تھی۔ داستان کے بیچ جب انکت نے چند اشعار پڑھے تو یوں لگا کہ گویا داستان گوئی کی بساط اٹھ چکی اور اب مشاعرے کا ماحول گرم ہے۔ جھوم جھوم کر اور ایک ایک لفظ پر زور دے دے کر شعر سناتے اور سامعین میں شعر کے سننے اور اس کے سمجھنے کی ایسی سعی اپنے انداز بیان سے نچوڑتے کہ سننے والا جھومنے لگتا۔ یوں محسوس ہوتا کہ کوئی شخص اس محفل میں ایسا نہیں جو میر و غالب، ناسخ و آتش ، ذوق و مومن، شنکر، حسن، کبیر ، جائسی اور رحیم وغیرہ کو نہ سمجھتا ہو۔ داستان کی پوری محفل میں انکت نے اپنے سامعین کو طرح طرح کی جلو ہ سامانیوں سے متاثر کیا او ر کھیل ختم کیا اور بساط لپیٹی تو اس میں بھی ایسی دل فریبی تھی کے دیکھنے اور سننے والے ان کےعشق میں گرفتار ہو گئے۔ میں نے پوری محفل کے دوران انکت کو کئی مرتبہ غور سے دیکھا۔ جتنی دیر وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے میں ان کے ساتھ جیتا رہا۔ ان کا حصہ بن کر۔ ان کے لہجے کے اتار چڑھاو میں کھو کر۔ ان کی آواز کے طلسم میں قید ہوکر۔ جتنی دیر وہ میرے سامنے رہے اتنی دیر میں صرف اور صرف انکت چڈھا کی دنیا کا ایک باشندہ بن کے سانس لیتا رہا۔ پروگرام ختم ہوا اور وہ دروازے پر کھڑے ہوگئے۔ باہر نکلنے والے انہیں شاباشی دیتے۔ ان کی بلائیں لیتے۔ ان کو دعائیں دیتے اور ان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے آگے بڑھ جاتے۔ میں بھی مجمعے میں سب سے پیچھے چلتا ہوا انکت کےقریب پہنچا۔ ان سے ہاتھ ملایا دو ،چار باتیں کیں۔ ان کے فن کی داد دی اور ان کے مستقل سامع کے طور پر خود کو ان کے فن کی نذر کرتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ اب جبکہ انکت ایک جھیل میں ڈوب کر اس دنیا کے اس پار نکل گئے ہیں تب بھی میں ان کے ہنر کو اپنے اندر اسی طرح زندہ پاتا ہوں جس طرح میں زندہ ہوں اور ایک روز جب میں بھی اس دنیا سے انکت کی دنیا میں چلا جاوں گا تب بھی میری طرح ان کے ہزاروں سامع اس پار ان کے ہنر کی زندہ بیانی کی نذر ہوتے رہیں گے۔

Leave a Reply