حلقہ اربابِ ذوق اسلام آباد کے سیکرٹری جناب منیر فیاض صاحب نے میرا جی کی نظم ’’سمندر کا بلاوا‘‘ پر ایک گفتگو کا اہتمام کیا جس میں مجھے ابتدائیہ پڑھنے کو کہا گیا۔ چوں کہ نظم کا مطالعہ معاصر تنقیدی تناظر تھا اس لیے اس نظم میں معاصر تنقیدی حربے بھی زیر بحث لانے کی ضرورت تھی۔
یایسن آفاقی صاحب نے اس جلسے کی صدارت کی اور بہت سے نئے نکات پر روشنی ڈالی۔
میں نے اس نظم کی ایک خطی تشریح کے بعد مرکزی تھیم جو ’’سمندر‘‘ کی علامت سے جُڑا ہوا ہے کو ڈی کنسٹرکشنل انداز میں دیکھنے کی کوشش کی۔ یہ الگ بات کہ کسی نے بھی اس پہ بات نہ کی۔
بنیادی طور پر یہ نظم میرا جی کے مجموعی تخلیقی نظام میں اس قدر بڑی یا اہم نظم نہیں، جتنا اس کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ یہ بہت پرانا خیال ہے جسے بار بار دُہرایا جاتا رہا ہے۔ غالب نے بہت پہلے کچھ ایسا ہی خیال اپنے انداز میں کہا تھا:
قطرہ دریا میں جو مل جاے تو دریا ہو جائے
کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مآل اچھا ہے
البتہ میرا جی کی شعریات نئی ہے مگر خیال پرانا۔ اس خیال کی تہہ میں مشرقی فکر کا بنیادی تھیم ’’حیاتِ ناپائیدار‘‘ موجود ہے۔ اسے ڈی کنسٹرکٹ کریں تو حیات مرکز لگتی ہے اور سمندر (موت، ابدیت) حاشیہ پر دکھائی دیتا ہے۔
———————————————————-
کوئی سرگوشی، یعنی اندرونی صدا، جو دل کی آواز ہو سکتی ہے، برسوں سے شاعر کو بلا رہی ہے۔ یہ ایک مسلسل آتی ہوئی آواز ہے جو پکار پکار کر اب خود تھک چکی ہے۔ دوسری سطر میں اس مخصوص آواز کو زندگی کے ہنگاموں میں سنائی دینے والی دیگر آوازوں سے الگ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس نے زندگی میں کئی طرح کی آوازیں سنی ہیں، مگر یہ آواز کچھ اور ہے۔ یہاں ’انوکھی‘ لفظ پر غور کیجیے: اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صدا پہلے بھی آتی رہی ہو گی، مگر شاعر نے اب پہلی بار اس پر توجہ دی ہے۔ حالاں کہ وہ صدا یہ کہہ رہی ہے کہ اسے بلاتے بلاتے اب تھکن ہونے لگی ہے۔
یہ بلانے والی آواز درحقیقت ابدیت کے سمندر (یعنی موت) کی صدا ہے۔ یہ آواز ہر ذی روح کو مسلسل بلاتی رہتی ہے، اگرچہ یہ کم سنائی دیتی ہے، بعض کو تو عمر بھر سنائی ہی نہیں دیتی۔ لیکن یہ آواز کبھی تھکتی نہیں، ہمیشہ جاری رہتی ہے:
بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے، نہ آئندہ شاید تھکے گا
یہاں سرگوشیوں کی صورت میں آنے والی دل کی صدا جو دراصل ابدیت کا سمندر (یعنی موت) ہے، شاعر سے مکالمہ کرتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ صدا ایسی ہے جیسے کوئی اپنے پیارے سے محبت میں سختی سے مخاطب ہو۔جب وہ کہتی ہے:
بُرا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہوگا، خدایا خدایا!
تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر اس صدا پر توجہ نہیں دے رہا اور وہ صدا اس غفلت پر برہمی کا اظہار کر رہی ہے۔ یہاں ’بچے‘ کہہ کے موت کے سمندر کا انسان کے ساتھ رشتہ بھی واضح کیا گیا ہے۔ موت کے سامنے ذی روح ایک بچے کی طرح ہے۔ بچہ لاکھ انکاری ہو مگر بات ہمیشہ بڑے کی مانی جاتی ہے۔ ’موت‘ ہمیشہ جیت جاتی ہے۔ شاعر اس عدم توجہی کی وجہ یوں بیان کرتا ہے کہ زندگی میں بہت سی آوازیں موجود رہتی ہیں: سسکیوں کی صدا، تبسم، یا تیوری۔ یہ سب دراصل متحرک زندگی کی علامتیں ہیں۔ یہ مسکراہٹیں، تیوریاں اور سسکیاں زندگی کے مختلف مرحلوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ لیکن جس صدا کی طرف شاعر توجہ دلانا چاہتا ہے، وہ ’’اندر کی سرگوشی‘‘ ہے، یعنی روح کے گہرے مقام سے اٹھنے والی آواز اور یہ دراصل ’ندا‘ ہے، صرف ’صدا‘ نہیں۔ صدا وہ ہوتی ہے جو کسی عمل کے دوران پیدا ہوتی ہے اور ہر سمت میں سنائی دیتی ہے۔ مگر ندا، یا بلاوا، ایک مقصد کے تحت خاص طور پر کسی کو مخاطب کر کے دی جاتی ہےاور یہاں وہ بھی سرگوشی کی شکل میں یعنی خالصتاً داخلی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ انوکھی ندا دیگر ساری آوازوں کو خاموش کر رہی ہے۔ ظاہر ہے، موت کی صدا آہستہ آہستہ زندگی کی تمام آوازوں کو مدھم کر کے بالآخر ساکت کر دیتی ہے۔ یہی آواز اب شاعر کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے اور اس کی وجہ سے دیگر ساری آوازیں پس منظر میں چلی جا رہی ہیں:
اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری
فقط کان سنتے چلے جا رہے ہیں
یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نہ صرف اس انوکھی ندا کو سن چکا ہے، بلکہ اس کی معنویت کو بھی پا چکا ہے۔
اب شاعر اپنے تجربے کو چار علامتوں کے ذریعے سمجھاتا ہے: گلستاں، پربت، وادی اور صحرا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ اس ’موت کے سمندر‘ کو ان علامتوں کے ذریعے کیسے بیان کرتا ہے۔
سب سے پہلے شاعر دنیا کو بطور گلستاں دیکھتا ہے:
یہ اک گلستاں ہے___ ہوا لہلہاتی ہے،کلیاں چٹکتی ہیں
غنچے مہکتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں، کِھل کِھل کے مُرجھا کے
گِرتے ہیں، اک فرشِ مخمل بناتے ہیں، جس پر
مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں
اس گلستاں میں باغ، پھول، خوشبو اور بہار سب کچھ موجود ہے۔ مگر یہ سب عارضی ہے: پھول کھل کر مرجھا جاتے ہیں، اور یوں ایک فرشِ مخمل بن جاتا ہے، یعنی وہ زمین جہاں ہم اپنی آرزوؤں کو لے کر چلتے ہیں، دراصل فنا کے پھولوں سے بنی ہوتی ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ حیاتِ دنیا ہماری آرزوؤں کے لیے فرش تو مہیا کرتی ہے، لیکن یہ فرش موت کی پیداوار ہے۔
شاعر اس مفہوم کو یوں بیان کرتا ہے:
کہ جیسے گلستاں ہی اک آئینہ ہے
اسی آئینے سے ہر اک شکل نِکھری، سنور کر مِٹی اور مِٹ ہی گئی پھر نہ اُبھری
اس کے بعد ’پربت‘ کی علامت آتی ہے:
یہ پربت ہے، خاموش ساکن
کبھی کوئی چشمہ اُبلتے ہوئے پوچھتا ہے کہ اس کی چٹانوں کے اُس پار کیا ہے؟
مگر مجھ کو پربت کا دامن ہی کافی ہے
پربت (پہاڑ) دنیا کا مادی وجود ہے جو ہمارے اردگرد معروض کے طور پر قائم ہے۔ چشمہ، یعنی زندگی، اس کے پار جانا چاہتی ہے، مگر شاعر کہتا ہے کہ اسے پربت کا دامن ہی کافی ہے۔ یعنی وہ اب مزید جاننے، تلاش کرنے یا دریافت کرنے کی خواہش نہیں رکھتا ،تھک چکا ہے۔ جب چشمہ یہ کہتا ہے کہ پربت کا دامن ہی کافی ہے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ پربت کے پار جا بھی نہیں سکتا۔
اگلی علامت ہے وادی:
دامن میں وادی ہے، وادی میں ندّی ہے
ندی میں بہتی ہوئی ناؤ ہی آئینہ ہے
اسی آئینے میں ہر اک شکل نِکھری، مگر ایک پَل میں جو مِٹنے لگی ہے تو پھر نہ اُبھری
پربت کی گود میں ایک وادی ہے۔ وادی میں ندی اور ندی میں ایک ناؤ ہے۔ یہ ناؤ ’آئینہ‘ہے، اس میں دنیا کی ہر شکل، ہر شبیہ نظر آتی ہے، نکھرتی ہے، مگر پھر فنا ہو جاتی ہے۔ ناؤ کا یہ آئینہ لمحاتی عکس دکھاتا ہے، جو چند لمحوں میں مٹ جاتا ہے۔ یہاں ’ناؤ‘ حرکتِ حیات کا استعارہ بھی ہو سکتی ہے جو مسلسل حرکت میں ہے مگر سب کچھ عارضی ہے۔ ظاہری بات ہے، ناؤ کی ندی میں حرکت کتنی دیر تک قائم رہ سکتی ہے!
صحرا بھی ایک علامت ہے:
یہ صحرا ہے، پھیلا ہوا، خشک، بے برگ صحرا
بگولے یہاں تُند بھوتوں کا عکسِ مجسم بنے ہیں
مگر میں تو دور ایک پیڑوں کے جھرمٹ پہ اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہوں
یہ صحرا ایک خشک، بےجان، بےرحم دنیا کی علامت ہے، جہاں خوف اور بےبسی ہے۔ یہاں تیز بگولے چل رہے ہیں جیسے بھوتوں کے سائے ہوں۔ مگر اس ویرانی کے بیچ شاعر کی نظریں ایک درختوں کے جھرمٹ پر ہیں، یعنی اب بھی زندگی کی ہلکی سی امید باقی ہے، لیکن یہ امید بھی دیرپا نہیں۔ ایک بار پھر ’صحرا‘ کی علامت حیاتِ رواں کی نمائندہ ہے۔ جو ویرانی، بے بسی اور اُداسی کا مسکن ہے، البتہ ’تند بھوتوں‘ کی ترکیب بہت نامانوس ہے۔
مگر غور کیجیے کہ جب موت کی غیبی ندا پکارتی ہے تو یہ صحرا، پربت اور گلستاں، سب کچھ بے معنی ہو جاتا ہے۔
نہ اب کوئی صحرا، نہ پربت، نہ کوئی گلستاں
اب آنکھوں میں جنبش، نہ چہرے پہ کوئی تبسم، نہ تیوری
فقط ایک انوکھی صدا کہہ رہی ہے کہ تم کو بلاتے بلاتے
مرے دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے
یعنی اب وہ ساری علامتیں گلستاں، پربت، وادی، صحرا ختم ہو نے کے قریب ہیں۔ صرف ایک نداباقی ہے، جو اندر سے بلا رہی ہے۔ یہ ندا تھکے ہوئے شخص کو پکار رہی ہے۔
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے، نہ شاید تھکے گا
تو پھر یہ ندا آئینہ ہے، فقط میں تھکا ہوں
یعنی یہ صدا (موت یا ابدیت) ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ تھکا تو صرف سننے والا انسان ہے، ندا خود نہیں تھکی۔
اس نظم کی آخری سطریں دیکھیے:
نہ صحرا، نہ پربت، نہ کوئی گلستاں
فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
کہ ہر شے سمندر سے آئی، سمندر میں جا کر ملے گی
سمندر پانچویں اور آخری علامت ہے۔ یہ اصل حقیقت کی علامت ہے۔ زندگی کی ابتدا بھی وہی ہےاور انجام بھی۔ ہر شے، ہر وجود اسی سے نکلا ہے اور اسی میں واپس مل جاتا ہے، یعنی وحدت، ابدیت اور فنا کی تکمیل۔ شاعر جب زندگی کی علامتوں (گلستاں، پربت، وادی، صحرا) کو رد کر دیتا ہے اور صرف سمندر کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان زندگی کے تضادات، خواہشات اور اُلجھنوں سے آزاد ہو کر ایک وسیع تر، غیر شخصی وجود میں جذب ہو نا چاہتا ہے۔ گویا یہ نقل مکانی ہے شخصی وجود سے غیرشخصی وجود کی طرف۔
یہ تو تھی نظم کی Mapping۔ کوئی بھی نظم اپنی Mapping میں بظاہر خطی Linear یا سیدھی دکھائی دے رہی ہوتی ہے مگر اس کے اندر متن کا وجود متحرک ہوتا ہے۔
چوں کہ ہمارا موضوع اس نظم کا معاصر تنقیدی مطالعہ ہے اس لیے معاصر تنقیدی حربوں میں نظم کا متن پڑھنے کا سب سے طاقتور حربہ تناقضات کی تلاش ہے جس میں کسی متن کے اندر پائے جانے والے معنوی تضاد اور غیریقینیّت کو آشکار کرتا ہے۔ بظاہر یہ موت کی طرف مراجعت کی خطی تفہیم کرتی ہوئی ’سیدھی‘ نظم ہے مگر اس میں موجود علامتی نظام ہی میں وہ دعوے موجود ہیں جو اس خطی Linear بیانیے کی نفی کرتے ہیں۔ گویا نظم کے دعوے کا اس کے اندر ہی رد بھی موجود ہے۔ آئیے اس حوالے سے نظم کی آکری لائنوں کو دیکھیں:
فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
کہ ہر شے سمندر سے آئی، سمندر میں جا کر ملے گی
پوری نظم زندگی سے موت کی طرف نقل مکانی ہے مگر اسی ’’سمندر‘‘ سے زندگی کا ظہور بھی ہے۔ گویا جس کی وجہ سے حیات کا بکھراؤ وقوع پذیر ہو رہا ہے وہی یکجائی کا باعث بھی ہے۔ یہ تناقض ہے۔ اب ہم اگر نظم کی Mapping کو الٹا دیں تو حیات میں وحدت دکھائی دے گی یعنی حیات میں ہر چیز ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ ابد کے سمندر کے بکھراؤ سے یکجائی کا ظہور ہوا ہے۔ مگر جونہی سمندر کی طرف نقل مکانی شروع ہوتی ہے حیات کی تنظیم بکھراؤ کا شکار ہونے لگتی ہے اور آخر کار سمندر جو بے پایاں بکھراؤ ہے اس وحدت کو پارہ پارہ کر دیتا ہے۔
ہوا لہلہاتی ہے، کلیاں چٹکتی ہیں
غنچے مہکتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں، کِھل کِھل کے مُرجھا کے
گِرتے ہیں
نظم کے اندر تناقض کی تلاش میں ہم زندگی کو جامد اور سمندر کو متحرک دیکھتے ہیں۔ زندگی میں بظاہر ہوا، کلیاں، غنچے ، پھول کھل کھل کے مرجھا رہے ہیں مگر یہ اپنی اصل میں جامد ہیں انھیں تحرک ملتا ہے سمندر کی ابدیت کے بکھراؤ میں۔ یوں ہم نظم میں زندگی و موت کے مروجہ تصور کو الٹا دیکھتے ہیں۔
اب موت نہیں بلکہ حیات مرکز بن رہی ہے۔ سمندر وحدت یا یکجائی نہیں بلکہ تفریق اور انتشار کا منبع دکھائی دیتا ہے۔
نظم کی قرات خطی انداز میں کی جاتی رہی ہے جس میں حیات عارضی اور سمندر کی وسعت مستقل ہے۔ اگر سمندر کی ہر چیز اتھل پتھل رہی ہے اور بے ترتییب حرکت میں ہے تو پھر اصل حیات ہوئی جہاں اشیا ایک وجود میں تھیں اور بامقصد ہدف رکھتی تھیں۔ ’’سمندر کا بلاوا‘‘ اصل میں منتشر علامت ہے جو جامد پن کو توڑنے کااستعارہ بن جاتا ہے۔اگر حیات میں ٹھہراؤ تھا تو بعد از حیات کا بکھراؤ بے معنی ہو جاتا ہے۔