[blockquote style=”3″]
[/blockquote]
افسانے کی طرف بڑھنے سے پہلے گل ارباب کے بارے چند باتیں اس افسانے سے پہلے بھی گل کی ایک دو تحاریر پڑھ چکا ہوں لیکن مذکورہ افسانہ پڑھنے کے بعد یہ کہنے میں مجھے بالکل بھی تردد نہیں کہ ڈائجسٹ کی سطح کی کہانی کار سے ایک بھرپور افسانہ نگار کی سطح کی جست یوں لگاتے میں نے پہلے کسی کو نہیں دیکھا یہ افسانہ پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے گل رات میں سوئی ہو اور فن کی دیوی آ کر اسے دستِ ہنر سے نواز گئی ہو میں یہ بات ہمیشہ کہتا ہوں کچھ تخلیقات ہوتی ہیں جو مصنف کا معیار طے کر دیتی ہیں جیسے خالدہ حسین کا "ہزار پایا” جیسے حمید شاہد کا "مرگ زار” جیسے خالد قیوم تنولی کا "دیوار ِ گریہ” جیسے خاقان ساجد کا "کباڑیہ” جیسے راشد جاورید کا "سفید دھاگہ” جیسے ہاشم خان کا "سروجنی” جیسے جاوید انور صاحب کا "برگد” جیسے فارحہ ارشد کا "زمین زادہ” جیسے فیصل سعید کا "نوحہ گر” جیسے فارس مغل کا "آخری لفظ” جیسے اسما حسن کا "شہرِ بتاں” اور جیسے گل ارباب کا "دستانِ ہجرت” یوں تو اور بھی سیکڑوں نام ہیں جو یہاں گنوا سکتا ہوں لیکن اپنی بات کی دلیل کے لیے گنوائے گئے ناموں کو ہی کافی سمجھتا ہوں ۔
بے شک گہرا مشاہدہ جب تک آپ کے لہو میں شامل ہو کر کہانی کی رگوں میں نہیں دوڑنے لگتا تب تک کہانی قاری کی رگوں میں سرائیت کر جانے کی اہلیت نہیں پاتی اور جو کہانی قاری کی رگوں میں سرائیت نہیں کرتی وہ ادب کا حصہ تو بن جاتی ہے لیکن ادب عالیہ کا حصہ نہیں بن پاتی میں نے پچھلے کچھ عرصہ میں جتنے بھی عالمی ادب سے افسانے پڑھے گل ارباب کے درج بالا افسانے کو کسی بھی طرح ان سے کم نہیں پایا یہ بے شک ایک لازوال افسانہ ہے جو مصنفہ نے جانے کس کیفیت میں جا کر لکھ دیا ہے اور اس نے مصنفہ کا معیار طے کر دیا ہے اب اس سے کم افسانہ کی مجھے تو گل سے بالکل بھی طلب نہیں اب چلتے ہیں "داستان ِ ہجرت” کی طرف
افسانے کے اختتام سے افسانے کی ابتداء کی تکنیک بہت پرانی ہے سب سے پہلے شاید مارکیز نے اسے برتا تھا اور آج تک ہر زبان کے افسانہ نگار اس تکنیک کو برت چکے ہیں اور شاہکار تخلیق کر چکے ہیں مجھے یہ تکنیک بہت پسند ہے اسے برتنا اسان نہیں کیوں کہ افسانے کا سارا تجسس اس کے اختتام میں پوشیدہ ہوتا ہے اختتام پر کہانی جا کر کھلتی ہے اور اپنا مکمل تاثر ظاہر کرتی ہے اگر کسی افسانے کو اس اختتام سے ہی شروع کیا جائے جہاں جا کر اس کا انجام ہونا ہو تو مصنف کے لیے بڑا چیلنج ہوتا ہے کہ وہ کہانی میں تجسس بنائے رکھے چاہے کہ اس نے اختتام پہلے ہی سے کھول دیا ہے اور بس یہیں کمال ِ فن کا امتحان ہوتا ہے گل نے افسانہ اس کے "بے حس” ہونے سے شروع کیا اور "بے حس” ہونے پر ختم کر دیا اور اس کے دوران کی چند ساعتوں میں پوری زندگی کا احوال کمال فنکاری سے بیان کر دیا کہ کہانی کا تجسس کہیں بھی کم نہیں ہوا قاری کہانی میں اترا اور پھر کہانی قاری میں اترتی چلی گئی یہاں تک کے قاری کی رگوں میں لہو بن کر دوڑنے لگی۔
جو جو علاقے بھی دنیا میں طویل جنگوں میں رہے ہیں وہاں بڑا ادب تخلیق ہوا ہے یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے روس افریقہ جرمنی اس کی سامنے کی مثالیں ہیں گل جن کا تعلق کے پی کے سے ہے جہاں کی ثقافت جہاں کے معروضی حالات اس علاقے سے جڑے ملک افغانستان کے اس خطے پر اثرات اور اس کی طریل خانہ جنگی سے متعلق مشاہدات ان کے براہ راست اور آنکھوں دیکھے ہیں گل نے ایک ایسی عورت کی کہانی بیان کی ہے جو عین جوانی میں اپنے ملک میں خانہ جنگی کی وجہ سے جبری ہجرت پر مجبور کر دی جاتی ہے جب اس کے تتلی کی طرح آزاد اڑنے کے دن ہیں وہ ہجرت کر کے ایک دوسرے ملک میں ایک رفیوجی کیمپ کا حصہ بنا دی جاتی ہے اور بعد میں جس کا خاوند بھی وطن کے آزادی اور بقا کی جنگ میں کام آ جاتا ہے وہ تین بیٹوں کے ساتھ کیمپ میں اپنی زندگی کے سینتیس سال گزار دیتی ہے مہاجر ہونے کا لیبل سینتیس سال میں بھی اس کے ماتھے سے نہیں اترتا اس کے خوابوں کا گھر جو اپنے وطن میں خانہ جنگی کی بنا پر اجڑ گیا تھا سینتیس سال بعد بیٹے نے اس میزبان ملک میں تعمیر کیا تو بھی وہ اس کا نہ ہو سکا مہاجر 37 سال بعد بھی مہاجر رہے اور انہیں واپس جانے کا پروانہ مل گیا۔
لب لباب یہ کہ کیا ایک عام انسان جس پر یہ جنگوں کا کاروبار کرنے والے مسلط ہیں وہ انہیں یا ان کی یہ جنگیں چاہتا ہے؟ کیا اس کے لیے ملکوں کی باؤنڈریز کی کوئی اہمیت ہے؟ کیا جبراً مسلط کی گئی جنگوں سے عالمی منظر نامے میں جو بھی بدلاؤ آتے ہیں وہ عام انسانی زندگی کو بہتر بنا رہے ہیں؟ کیا عام آدمی آپنے خوابوں کی جنت تلاش کرتے کرتے اس دنیا سے چلے جانے کے لیے دنیا میں آتا ہے؟ جنگ مسلط کرنے والوں نے اپنا کام کیا لیکن اس کا ہرجانہ پورے سماج کو بھرنا پڑا اس سماج کے نمائندہ انسان جب ایک اور سماج کی طرف جبراً دھکیل دیے گئے جہاں وہ سینٹیس سال اس نئے سماجی ڈھانچے کے ساتھ ایک لوتھڑے کی طرح لٹکے تو رہے لیکن اس کے وجود کا حصہ نہ بن سکے اور آخر وہاں سے ایک اور جبری ہجرت کا پروانہ پھر تھما دیا گیا یہ ہجرت در ہجر دو نسلوں کی زندگیاں کھا گئی اس کے بعد بھی کیا گارنٹی کہ جب وہ دوسری نسل واپس اپنے سماج کا حصہ بنے کے لیے لوٹے گی تو وہ دریدہ و باختہ سماج اسے قبول کرے گا یا اسے اپنا حصہ بنائے گا نہیں بنائے گا تو پھر کیا ہوگا؟
کہانی کے بین المتن جو معانوی نظام تخلیق ہوا ہے اس نے اس کلی متن کو ایک علامت بنا کر ابھارا ہے یہ متن عالمی منظر نامے میں آنے والے بدلاؤ سے ہونے والے عام انسانی جانی مالی اور سماجی نقصان پر بھی ضرب لگا رہاہے یہ خانہ جنگی اور اس کے اثرات سے پیدا ہونے والے انسانی المیہ پر بھی ضرب کاری کر رہا ہے اور یہ جنگ کا کاروبار کرنے اور جبراً انسانوں کو تہہ تیغ کیے جانے اور اس سے پیدا ہونے والے سماجی بحران پر بھی کاری کی ضرب لگا رہا ہے میرے لیے بہت مشکل ہو رہا ہے اس متن کی تمام تر معنیاتی کیفیات کا احاطہ ایک چھوٹے سے تاثراتی مضمون میں کر پاؤں اس پر تفصیلی گفتگو کسی اور وقت پر ٹالتا ہوں ابھی تو بس اتنا کہ مصنفہ نے جس خوبصورتی سے اس زمینی حقائق سے جڑی تخلیق کو آفاقیت کا جامہ پہنایا ہے اس کے لیے مصنفہ بے شک داد کی مستحق ہیں میں ترجمہ کرنے والوں سے درخواست کروں گا کہ وہ اس فن پارے کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ضرور کریں
میں یہ پیشن گوئی بھی کرنا چاہتا ہوں کہ گل کی صورت کے پی کے کو ایک بڑی افسانہ نگار مل گئی ہے جس سے ہمیں آئندہ بھی ایسے بھرپور افسانے پڑھنے کو ملیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از گل ارباب پشاور
"مور بی بی۔۔ (امی جان )
مور بی بی ( امی جان )آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔اس کی زخمی سماعتوں سے ٹکراتی وہ فکر میں ڈوبی "صدائیں بہت دور سے آ رہی تھیں”۔وہ ایسی” بے حس تو کبھی نہ تھی۔ اس نے تو ساری عمر احساس کے درد سینے میں”چھپا ئے ہوئے گزار دی تھی۔۔مگر آج تو سارے احساسات اجنبی نظروں سے دور کھڑے اسے یوں گھور رہے تھے "جیسے پوچھ رہے ہوں "تم کون ہو ؟تمہارا نام کیا ہے؟ ہم۔۔تم” تو "انجان ہیں اک دوجے سے۔اور وہ سپاٹ نظروں سے انھیں صرف دیکھ پا رہی تھی ۔کچھ بھی تو اس کے "بس میں نہ تھا ” نہ ہونٹوں کے جھریوں زدہ گوشوں سے بے ساختہ چھلکتا ہوا خوشی کا اظہار۔۔ نہ ڈوبتی ابھرتی کمزور دھڑکنوں میں شور مچاتا محبت اور مامتا کا پرزور مگر لطیف جذبہ نہ "سانسوں کے” اتارچڑھاؤ میں چھپا دکھ ۔ نہ چہرے کی”جھریوں پہ سرخی کے رنگ جماتا غصہ۔۔” مور بی بی۔۔” ( امی جان ) آ نکھیں کھولو نا۔۔۔۔ شاید کوئی حس اسے واپس مل گئی تھی ۔ آواز سے اندازہ لگانا بہت مشکل” تھا "۔سب بیٹوں کی آوازیں تو ایک جیسی ہی تھیں ۔پھر بھی اسے اندازہ لگانا پڑا۔۔ "آواز تو خایستہ گل کی لگ رہی ہے۔۔۔
مگر خایستہ گل” تو سوات گیا ہوا ہے۔ پھر یہ چھوٹے چنار گل کی آواز ہوگی "وہ اپنے باپ دادا کی طرح بہادر نھیں تھا ۔ذرا سی گولی چلی اور ڈر کے چیخنے لگا۔ مور بی بی۔۔۔مور بی بی۔ دشمن آ گیا ہے۔
نہیں نہیں۔۔۔ یہ آواز تو طور گل کی ہے” تھک ہار کر خیمے کے پاس آتا ہے ” تو چیخنے لگتا ہے "مور بی بی مور بی بی۔۔تاکہ سب کو پتہ لگ جائے کہ طور گل آ گیا ہے۔
پٹھان بچہ بیوی کو بھی آواز دیتا تو "ماں کو پکارتا۔۔مور بی بی جواب نہ دیتی۔۔۔ جس کے لیے پکار ہوتی وہ سمجھ جاتی۔۔” زرسانگہ۔۔ جا تجھے بلا رہا ہے ” اور زر سانگہ” کی۔۔ نیلی آنکھوں میں حیا کے رنگ سج کر اک نیا رنگ بنا دیتے ۔” بلکل ویسا ہی رنگ ” جیسے وہ” دوپٹہ رنگتی تو۔۔پیلا اور لال رنگ ملا کر پانی کو جوش دیتی ابلتے پانی سے جب دوپٹہ ٹھنڈے پانی میں جاتا تو جو رنگ پکا ہو کرنکلتا وہ اک نیارنگ ہوتا نہ لال” اور نہ پیلا "نارنجی سا مگر اسکے گالوں پہ ہمیشہ ایک ہی رنگ ہوتا ” گلابی رنگ ۔ان لمحوں میں اسے بے اختیار طور گل کا باپ یاد آ جاتا۔۔ اور پھر وہ دن بھی۔۔۔ وہ کتنا عجیب سا دن تھا "اب اس کی ساری حسیں واپس آ چکی تھیں ۔اسے اس دن کی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی یاد آ رہی تھی۔۔روسی فوجی جنہیں وہ اپنی زبان میں گالیوں سے یاد کرتے کوئی سرخ سور کہتا۔
کوئی گیدڑ ” کوئی کتے کے نام سے یاد کرتا” یہ جانور جو ان کے گھر ان کے وطن میں گھس آئے تھے۔
سارے وطن میں دندناتے پھر رہے تھے۔۔۔عورتوں بچیوں اور بوڑھیوں کو وہ چن چن کر بے عزت کر رہے تھے۔ خایستہ گل اس کی گود میں تھا۔۔تب گاؤں میں فوجی گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں۔”ہمیں جیسے بھی ہو” آج رات کو عورتوں اور بچوں کو سرحد پار پہنچانا ہے۔
یہ آواز اس کے بھائی خان گل کی تھی ۔ "زرمست خانہ ” تم ساری عورتوں اور بچوں کو لے کر نکلو۔
ہم مورچے سنبھالتے ہیں۔۔۔سرحد پار ہمارے بھائیوں نے ہم پہ اپنے گھر کے دروازے بند نہیں کئے۔۔ان کے دل ” ان کے وطن سے بھی زیادہ بڑے ہیں۔۔”سامان کی فکر نہ کرو عزت اور "جان کی فکر کرو ۔”سب عورتوں کو یہ ہی حکم تھا۔ "وہ منمنائی ” میرا گھر ؟ میری گائے؟ سیب اور انار کے درخت؟خوبانی اور اخروٹ کے پھولوں کی یہ بھینی خوشبو؟کچے گھڑے کا یہ میٹھا پانی۔؟ میری رنگ برنگی اوڑھنیاں۔؟ میری سبز آنکھوں کے وہ سارے خواب جو میں اپنے بالوں کی مینڈھیاں گوندھتے ہوئے ان میں سجا لیتی ہوں ۔ "مجھ سے یہ سب نہیں چھوڑا جاتا ۔وہ خایستہ گل کا اخروٹ کی لکڑی سے بنا منقش پنگھوڑا "مضبوطی سے دو ہاتھوں میں پکڑے سسک رہی تھی۔زرمست خان نے دیکھا۔۔اس کے پنگھوڑے کو پکڑے ہوئے دودھیا سفید ہاتھوں کی رگیں دور سے بھی گنی جا سکتی تھیں۔۔رات کی خاموشی میں پتھروں کا سینہ چیرتے روسی فوجیوں کے بھاری بوٹوں کا اعلان۔۔۔۔ زرمست خان بھی سن رہا تھا اک ضروری اعلان سنو۔۔اپنی عزتوں کو بیچ چوراہے لے آؤ۔۔ورنہ ہم تمہاری پناہ گاہوں سے انھیں گھسیٹ لائیں گے یہ ہماری عیاشی کا سامان ہیں۔
زرمست خان نے۔۔ روتی سسکتی اس نازک سی عورت کو دکھ بھری نظروں سے دیکھا "سچ ہی تو کہہ رہی ہے "اس گھر کی ایک ایک چیز کو اپنے ہاتھوں سے بنانے اور سجانے والی یہ عورت ہی تو ہے۔
عورت کے لیے گھر ہی تو اس کی زندگی ہوتا ہے ۔”زرمست خانہ۔۔۔تم اور تقدیر کا ظالم ہاتھ دونوں مل کر اس عورت سے زندگی چھین رہے ہو اب اس کا رونا اور ماتم کرنا تو بنتا ہے ۔ "اس نے اپنی بیوی کے سر پہ اوڑھنی ٹھیک کرتے ہوئے سوچا ۔”گہرے بھورے بالوں کی مینڈھیاں اس کے شانوں پہ بکھری اتنی خوبصورت لگ رہی تھیں کہ۔۔۔زرمست خان کا جی چاہا اسے خود سے جدا نہ کرے بلکہ دل کے کسی کونے میں دشمنوں سے چھپا کر رکھ لے۔۔۔اس نے دل پہ قابو پانے کہ کوشش کی۔۔اور اس کی حسین آنکھوں میں جھانک کر بولا "میں تمہارے اور اپنے بچے کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن اب اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں ہے۔۔۔ مسلمان عورت کے لیے ہر چیز سے بڑھ کر اس کی عزت ہوتی ہے۔ اس کی جان سے بھی زیادہ قیمتی ؟ اس بات کا جواب ہاں یا ناں میں دو۔؟” جلدی کرو۔۔۔ہاں۔ہاں۔۔۔۔ "مجھے جان سے زیادہ اپنی عزت عزیز ہے "۔۔سسک سسک کر کہتے ہوئے اسے اپنی چچازاد بہن یاد آئی۔۔جس نے پچھلے ہفتے فوجیوں کے گھر میں گھستے ہی اپنے پیٹ میں خنجر گھونپ لیا تھا ایسے تیز خنجر اب ہر گھر میں رکھے جاتے تھے جو بوقت ضرورت عزت بچانے اور زندگی چھیننے کے کام آ رہے تھے چھ مہینے کے پیٹ سے تھی وہ مگر عزت بچانے کے لیے اس نے اولاد کی قربانی بھی دے دی تھی۔
اس نے اپنے پیٹ کو نرمی سے چھوا ۔اسے بی بی عائشہ بھی یاد آئی۔۔جو ساتھ والے گاؤں کے سکول ماسٹر کی بیٹی تھی۔
فوجیوں کے گھیرے سے جب نکلنے کی کوئی راہ نظر نہ آئی تو 22 سال کی زندگی سے بھرپور بی بی عائشہ نے پہاڑ سے کود کر کھائی میں پناہ لے لی تھی۔
ماسٹر صاحب کو بہادر بیٹی کی تار تار اوڑھنی نے چپکے چپکے سسکیوں اور ہچکیوں میں اس کی جواں مرگی کا نوحہ سنایا تھا۔
وہ اس رات کے آخری پہر شوہر کی معیت میں اک بڑے قافلے کے پیچھے پیچھے ایک چھوٹی سی "پوٹلی ہاتھ میں پکڑے جس میں "خایستہ گل کے کپڑے اور اس کے اپنے چند زیور تھے چل پڑی۔ اس سے پہلے گھر کی دہلیز پار کرنے لگی تو پیچھے مڑ کر اک نظر دیکھنا چاہا۔۔۔چاند کی شاید پندرہ تاریخ تھی۔۔۔چاندنی درختوں کے پتوں سے چھن چھن کر آنگن کے بیچوں بیچ پڑی رنگین پایوں والی چارپائی پہ پڑ رہی تھی۔۔ سرخ اور سبز پھولوں” کی چادر اور اسی رنگ کے دو گاؤ تکیے چارپائی کی شان بڑھا رہے تھے۔ یہاں بیٹھ کر وہ خایستہ گل کو جھولا دیتے ہوئے۔کبھی لوری سناتی۔ کبھی کوئی پشتو یا فارسی لوک گیت دھیمے سروں میں گنگناتی رہتی تھی۔۔ کبھی زرمست خان کی والہانہ نظروں کی تاب نہ لاکر اپنی گلابی گالوں پہ گھنیری پلکوں کو گراتے ہوئے شرمیلے لہجے میں کہتی ۔”خان جی ایسے تو نہ دیکھا کرو دل بے قابو ہو جاتا ہے۔”وہ نسوار کی رنگین ڈبیا کھول کر اک چٹکی بھر کے منہ میں رکھتا۔اور عاشقانہ انداز میں کہتا۔۔”تمام نشوں میں سے تیز نشہ تیری سبز آنکھوں کا ہے جان من۔”تو پھر یہ نسوار چھوڑ دو نا۔۔وہ شرارت سے کہتی۔””محبت کا مزہ تب آتا ہے جب درمیان میں اک رقیب بھی ہو۔۔یہ نسوار تو تیری رقیب ہے اس سے محبت کا مزہ دوبالا ہوتا ہے۔ "وہ بھی اسے چھیڑتا۔۔کتنی یادیں اس آنگن سے جڑیں تھیں۔ وہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھ سکی۔کوئی اس کے اندر چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔
شہر بانو پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔
اگر پیچھے مڑ کر دیکھا تو پتھر کی ہو جاؤ گی۔۔اس گھڑی قدم بھی دھڑکنوں کی طرح بے ترتیب تھے۔۔۔زرمست خان نے سمجھایا۔
بہادر بنو "سفر بہت طویل اور تھکا دینے والا ہے”۔
مگر گھر سے نکلتے وقت شہر بانو کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ۔۔۔سفر اتنا طویل اور پتھریلا ہوگا۔۔راہ میں کوئی شجر سایہ دار سستانے کو نہ ملے گا بلکہ۔۔ پاؤں کے ساتھ روح پر بھی چھالے پڑجائیں گے۔
زرمست خان نے پشاور کے جلوزئی کیمپ کے اک خیمے میں اللہ کے آسرے پہ جب اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑا تو کئی راتوں تک خایستہ گل اپنے پنگھوڑے کے لیے اور وہ اپنے گھر اور شوہر کے لیے روتے تڑپتے رہے تھے۔۔تب وہ دومہینے کے پیٹ سے تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8 ماہ بعد جب دو جڑواں بچوں کو کیمپ کے اک کونے میں ٹاٹ کی دری پہ جنم دیا۔تب لالٹین کی ہلکی سی روشنی میں اس نے دیکھا۔۔۔ کہ ایک بچے کی آنکھیں بلکل اپنے باپ پہ گئی تھیں۔لوکاٹ کی گھٹلیوں جیسی گہری چمکتی ہوئی براؤن آنکھیں۔۔۔وہ ان آنکھوں کو چوم کر مسکرا دی۔
37 سال اس نے کیسے اس کیمپ میں گزارے۔ لائین میں کھڑے ہو کر امدادی راشن لینا۔۔۔اس کی انا اس کی غیرت کو کیسے کیسے گھاؤ لگاتا رہا۔۔۔ یہ صرف اس کا دل جانتا تھا۔۔۔زرمست تو مجاہد تھا۔
وطن کی خاطر اس سے کیا ہوا واپسی کا وعدہ بھی بھول گیا۔
دکھ کے لمحوں میں۔۔جو پوری عمر پہ محیط ہو گئے تھے دل سے اک ہوک سی اٹھتی۔۔واہ زرمست خانہ تم تو بے وفا نہ تھے۔۔۔پھر مجھ سے وفا کیوں نہ کی؟مجھ سے اچھی تو وطن کی مٹی تھی کہ جس کی وفادار ی میں تم نے جان لٹا دی۔۔ یہ کہہ کر گئے تھے ناں کہ۔
"شہر بانو اگلے برس تک لوٹ آوں گا تم بچوں کا خیال رکھنا۔۔۔تم اک مجاہد” کی بیوی ہو۔۔۔اک بہادر افغان عورت”اونچے پہاڑوں کی بیٹی۔۔۔تمہارے حوصلے بھی پہاڑوں جیسے بلند ہونے چاہئے۔
لیکن زرمست خان۔آخر کب تک ؟
اس کی زباں جو سوال نہ کر پاتی۔
وہ اس کی سبز آنکھیں پوچھا کرتیں۔۔۔میں تب تک وطن کے لیے لڑتا رہوں گا۔جب تک ایک بھی کافر میری زمین کو پیلد کرنے کے لیے افغانستان میں موجود ہے۔۔۔
زرمست خان کی شہادت کی خبر نے اسے بہادر بنا دیا ۔”اور اس کے آس پاس بےشمار ایسی عورتیں تھیں جنھیں تقدیر نے بہت بڑی بڑی ذمہ داریاں سونپ دی تھیں۔
وہ بچے اکیلی پالتی رہی۔
خایستہ گل کے بعد۔۔۔ سانولا سلونا طور گل اور اس سے 5 منٹ چھوٹا چنار گل مہاجر کیمپ میں جوان ہوئے۔ان کی پہچان اب لفظ مہاجر تھا۔۔۔محنت مزدوری سے تو صرف پیٹ ہی بھرتا تھا۔
اتنے برسوں میں فرق صرف اتنا پڑا کہ اب وہ خیمہ کچی اینٹوں کے اک چھوٹے سے مکان میں بدل گیا تھا۔ اک کمرے کا مکان جس پہ چھت گھاس پھوس اور ٹیڑھی میڑھی لکڑیوں سے ڈالی گئی تھیں۔۔
اب کچھ خیموں اور کچھ کچے مکانوں پہ مشتمل یہ کیمپ اسے اجنبی نہ لگتا وہ اس میزبان دیس کے مکینوں سے کبھی کبھی شرمندہ بھی ہو جاتی تھی۔۔ایک ہی رنگ و نسل ایک جیسا لباس اور زبان۔مگر وہ لوگ میزبان اور ہم لاکھوں بے گھر مہمان کتنا "بوجھ ڈال رکھا ہے ہم نے ان پہ ۔ اک گھر کا خواب اس کی پلکوں پہ ہر رات یوں سجتا جیسے آسمان پہ ہر شب ستارے سجتے ہیں۔ وہ بچوں کو کہانی سناتی۔ اس اچھی پری کا اک بڑا سا گھر تھا۔۔۔۔اک طرف سیب کے درختوں کا جھنڈ۔دوسری طرف خوبانی اور اخروٹ کے درخت۔
قندھاری انار کا اک اک دانہ میٹھا اور سرخ۔۔۔اور سنو ” سیبوں کا رنگ بالکل ایسا ہوتا۔۔وہ چنار گل کے سرخ گالوں پہ چٹکی کاٹ کر کہتی۔۔سیب انار اور خوبانی کے پھول ایک ہی موسم میں مہکتے اور خوشبو کے جھونکے بند جھروکوں سے رستہ ڈھونڈھتے ہوئے اچھی پری کے بستر تک آ جاتے۔۔۔اچھی پری پوچھتی کون ہے؟ تو وہ شرما کر چھپ جاتے۔
تینوں بچپن سے جوانی تک اس گھر کے اک اک گوشے سے آشنا ہو چکے تھے۔۔بیچ آنگن میں قصے سناتے پلنگ سے بھی۔۔کوئی وطن سے ہو کر آتا تو بے قراری و اشتیاق اپنی سبز آنکھوں میں سمو کر آس بھرے لہجے میں اپنے گھر کا ضرور پوچھتی۔۔”کیا اب بھی بہار کے موسم میں انار کے سرخ پھولوں سے میرا آنگن سج جاتا ہے۔؟
"کیا اب بھی خوبانی کے سفید پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو ہوا کے جھونکوں سے مل کر میرا پتہ پوچھتی ہے ؟ کیا اب بھی خزاں کے موسم میں لوکاٹ کے درخت کچے پھل سے بھر جاتے ہیں ؟ یا یہ ہی بتا دو کہ چاندنی درختوں کے پتوں سے چھن چھن کر جب میری رنگین چارپائی پہ اترتی ہے۔۔تو یہ پوچھتی ہے؟
کہ گہری سبز آنکھوں والی شہربانو اب کہاں ہے؟
جہاں بھی ہے کیا وہاں وہ بولتی ہے تو لوگ پھول چنتے ہیں۔۔ ؟
یہاں اس آنگن میں تو اس پگلی کی سبز آنکھوں کا اک رسیا تھا۔
اور جب وہ بولتی تھی تو وہ سر دھنتا رہتا تھا پھول چنتا رہتا تھا۔۔بمباری سے برباد اک کھنڈر کا نقشہ جب بھی کوئی اس کے سامنے کھینچتا۔یا جو بھی اس کے گھر سے ہو کر آتا ہولناک تباہی اور اس کے نتیجے میں گھر کی بربادی کا ذکر کرتا تو وہ اک آہ بھر کے چپ ہو جاتی۔وقت گزرتا رہا
بیٹوں کی شادیاں بھی ہو گئی تھیں۔
خایستہ گل نے قسطوں پہ ٹرک خریدا۔اللہ کے فضل اور ماں کی دعاؤں نے اس کی کمائی میں برکت ڈال دی تھی اس نے ماں کی آنکھوں میں بسے خواب کی تعبیر کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔
گھر کی تعمیر۔۔ کے لیے جب نقشہ بنانے کا وقت آیا تو ماں کا بتایا ہوا اک اک کونا نگاہوں سے کاغذ پہ اور کاغذ سے زمیں پہ بنتا رہا۔
خوبانی کے درخت۔۔سیب انار اخروٹ اور لوکاٹ لگا کر سبھی کچھ تو ویسے کا ویسا بنایا تھا خایستہ گل نے۔۔”یہاں تک کہ آنگن کے بیچوں بیچ جو رنگین پایوں والی چارپائی پڑی تھی اس پہ سجی سبز اور سرخ چادر اور گاؤ تکیوں کا ایک ایک پھول بھی اسے یاد تھا۔ وہ سب کچھ ایسا ہی بنا کر ماں کے خواب کو تعبیر کے رنگ دینا چاہتا تھا۔ برسوں بعد اک دن جلوزئی کیمپ ختم کر دیا گیا۔
تب وہ لوگ کچھ سال کرائے کے اک کچے مکان میں رہے۔جس کے آنگن میں خیمہ لگا کر اک کمرے کا اضافہ کیا اس نے۔۔پھر یوں ہوا کہ خایستہ گل کی جدوجہد رنگ لے آئی۔اور برسوں کے انتظار کے بعد وہ اپنے گھر جا رہی تھی۔
گھر جو عورت کی زندگی ہوتا ہے۔
بیٹے کے بنائے ہوئے گھر پہ پہلی نظر ڈالتے ہی اسے وہ لمحہ یاد آگیا جب زرمست خان کے گھر اس نے ڈولی سے قدم نکالا تھا۔۔
اک نئی نویلی دلہن کے ارمان اور تازگی و توانائی اسے اپنے جسم و جاں میں آج پھر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔تینوں بیٹے اور بہویں اس کے چہرے کے رنگ اور خوشی دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔
وہ اپنی رنگین پایوں والی چارپائی پہ گاؤ تکئے سے ٹیک لگا کر بیٹھی ہی تھی۔ ابھی تو زرمست خان کی پیار لٹاتی نظریں اسے اپنے چہرے کی بلائیں لیتی محسوس ہو رہی تھیں۔
ابھی تو اس کی پلکیں گالوں پہ سایہ فگن ہوئی تھیں
ابھی تو اس نے اخروٹ کی لکڑی کا منقش پنگھوڑا ہلانا شروع بھی نہیں کیا تھا۔۔ جس میں اب خایستہ گل کا بیٹا لیٹا ہوا تھا۔
ابھی تو اس کے ہونٹوں کے کونے لوری اور لوک گیتوں کی دھیمی سی گنگناہٹ کی طرف مائل ہو رہے تھے کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔
اور اچانک ہی پولیس کی وردی میں پانچ چھ آدمی اندر گھس آئے۔
بھاری بوٹوں کی آواز سن کے
شیربانو کا دل کانپ گیا تھا
اک خدشے نے اندر ہی اندر سر اٹھایا کچھ ہونے والا ہے۔۔
اور اس سے پہلے کہ خدشے کے ناگ کا سر وہ کچل دیتی۔
وہ لوگ اندر آ گئے تھے۔۔
حکومت پاکستان کی طرف سے پروانہ تھا، افغان مہاجرین کی جبری واپسی کا پروانہ۔جلد از جلد گھر خالی کر کے وطن واپس جاؤ ورنہ _
میزبان تھک گئے ہیں شاید مہمان داری کر کر کے ؟۔__مگر اس ملک کو میں نے اپنے 37سال دیئے ہیں۔
پوری جوانی دی ہے۔ وہ چیخ چیخ کر کہنا چاہتی تھی۔ یہ میرا وطن ہے۔۔مجھے اس سے بلکل ویسا ہی پیار ہوگیا ہے۔جیسا اپنے پہاڑوں وادیوں اور دریاؤں سے ہے۔ وہ کہنا چاہتی تھی۔۔۔ابھی تو ہم نے اسے اپنا گھر سمجھ لیا ہے۔اب ہم اپنا گھر دوبارہ کیسے چھوڑیں ؟
مگر اس کا دل ڈوبنے لگا تھا۔
وہ اندر سے بےحس ہو چکی تھی۔
ہر احساس سے عاری۔۔تینوں بیٹے ماں کو گرتے ہوئے دیکھ کر اس کی طرف بھاگے۔۔ جبکہ شہر بانو کوما میں جا چکی تھی۔۔اس گھر کی طرف محو سفر جہاں سے اسے کوئی نہ نکال سکتا۔
Leave a Reply